قوم ناخدا کے سن 2010 ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے فارغ التحصیل عالم دین کے تاثرات

1
1459

سن 2010 ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے فارغ التحصیل عالم دین محترم جناب مولانا فضل اللہ بن اسحاق مرجیکر ساکن علی میاں محلہ ، جامعہ آباد ، تینگن گنڈی کے الوداعی تأثرات

إنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ مَنْ لَّا نَبِیَّ بَعْدَہٗ . أَمَّا بَعْدُ :

قابل احترام صدر ، مشفق اساتذہ کرام ، معزز سامعین اور عزیز رفقاء : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ .

حضرات : قرآن پاک کے مضامین سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبوت کا انتخاب صرف اور صرف خدا ہی کا حق ہے . اس میں کسی انسانی منشا اور مرضی کو کوئی دخل نہیں ہے . یہ وہ شرف ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اپنے مخصوص بندوں ہی کو عطا کرتا ہے . جس طرح نبوت کا انتخاب محض اللہ تعالیٰ اپنے لامحدود علم کی بنیاد پر کرتا ہے ، اسی طرح نبوت کی وراثت بھی فضل خداوندی اور عطیہِ ربانی ہے ، جس میں کسی بشر کی مرضی اور کمال کا کوئی دخل نہیں . جب میں اپنی بشری کمزوریوں ، خامیوں ، کوتاہیوں اور بے بضاعتی اور کم مائیگی کو دیکھتا ہوں تو یہ انتخاب حیرت انگیز لگتا ہے . اس احساس کے ساتھ دوسرا احساس جس کو یہاں کھڑا ہونے والا ہر فرد محسوس کرتا ہے وہ فرحت اور رنج و الم کی ملی جلی کیفیات ہیں کیونکہ ایک طرف کئی سال قبل دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر اور دوسری طرف مادرِ علمی اور اساتذہ سے جدائی کا غم .
حضرات : بچپن میں میری والدہ صاحبہ نے میری خوشیوں کو اس وقت غم میں تبدیل کردیا جب اس نے مجھے میرے والد محترم کے انتقال کی خبر سنائی . إنا للہ وإنا إلیہ راجعون . اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے . اسی غم کے سایہ تلے میں نے اپنی عصری تعلیم جاری رکھی اور ساتویں جماعت تک پہنچا تو میری والدہ نے ایک دن کہا کہ بیٹا تجھے اپنی عصری تعلیم کو ترک کرکے حافظ قرآن بننا ہے اور اپنے والد کا نام روشن کرنا ہے . لہذا میرا داخلہ مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی کے شعبہِ حفظ میں کرایا گیا . حفظِ قرآن کے دوران استاد محترم جناب حافظ عبدالقادر صاحب ڈانگی نے ایسی محبت کے ساتھ تعلیم دی جو ایک باپ اپنے بیٹے کے لئے دیتا ہے . اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے . آمین . نتیجتاً چار سال کے عرصہ میں ، میرے والدین سورج سے بھی زیادہ روشن ، اس تاج کے مستحق بن چکے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق حافظ قرآن کے والدین کو روزِ قیامت پہنایا جائے گا . انسان کی فطرت میں لالچ ہے لیکن اس کو صحیح رخ ملنا چاہیئے . اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری والدہ کو مادیت کے اس دور میں جب کہ پوری دنیا ، الا ماشاءاللہ ، چند ٹھیکروں کے پیچھے بھاگ رہی ہو ، آخرت کو ترجیح دینے کی توفیق دی پھر والدہ نے حفظ قرآن کے انعام و ثواب پر اکتفاء کرنے کے بجائے میرے تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑھایا . چنانچہ میرا داخلہ مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی کے شعبہِ عالمیت کے پہلے درجہ میں کرایا . میں نے وہاں دو سالہ عالمیت کی تعلیم حاصل کی پھر اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے میرا داخلہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے درجہ سوم عربی میں کیا گیا ، شروع شروع میں اجنبیت سی محسوس ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد اور والدہ اور بہن بھائیوں کی دعائیں ساتھ تھیں جن کی وجہ سے آخری موڑ پر بھی بھی ہمت نہیں ہاری اور تعلیم جاری رکھی اور ایک ایک منزل طے کرتا ہوا آخری منزل تک پہنچ گیا . پس اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس کی توفیق سے اس مقام پر کھڑا ہوں . ورنہ کہاں میں اس گلشن میں .

میں نے اپنی تعلیم کے چھ سال گزارے ان چھ سال کے مختصر عرصہ میں میرے اساتذۂِ کرام نے مجھ پر اتنے احسانات کئے ہیں جن کا شمار کرنا ناممکن ہے خاص طور سے حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندوی نے جو پیار دیا اور وقتاً فوقتاً اپنی نصیحتوں سے مستفید کرتے رہے میں ان کا بے حد ممنون و مشکور ہوں . ان تمام احسانات کے باوجود جو مجھ ناچیز سے ان کے حق میں نازیبا حرکتیں اور گستاخیاں سرزد ہوتی رہیں ہیں . لہذا میں اپنے تمام اساتذۂ کرام سے فرداً فرداً معافی کا طالب ہوں کہ میری گستاخیوں اور نازیبا حرکتوں کو دامنِ عفو میں جگہ دیں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب اور بامراد بن سکوں .

حضرات : اب وقت آگیا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس گلشن اور یہاں کے مشفق اساتذۂِ کرام کو الوداع کہنا پڑ رہا ہے جنھوں نے ہمیشہ بڑے پیار سے پڑھایا اور لکھایا . بڑی بڑی غلطیوں کو بھی درگذر کرتے رہے اور ان ساتھیوں سے بھی رخصت ہونا پڑ رہا ہے جو ہزار غلطیوں کے باوجود مجھے معاف کرتے رہے اور کبھی شکوہ شکایت کا موقعہ آنے نہیں دیا .

اس موقعہ پر میں اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کو کیسے فراموش کرسکتا ہوں کہ جنھوں نے میرا ہر موڑ پر ساتھ دیا ہر وقت میرا خیال رکھا اور کبھی کسی چیز کی کمی کا احساس ہونے نہیں دیا . ساتھ ہی ساتھ میں ان کا بھی ممنون و مشکور ہوں جنھوں نے میری تعلیم میں ذرہ برابر بھی کسی قسم کا ساتھ دیا ہو اللہ تعالیٰ ان تماموں کو جزائے خیر اور بہترین نعم البدل نصیب فرمائے . اور میں درجہ عالیہ ثالثہ کا بھی مشکور و ممنون ہوں کہ جنھوں نے ہمارے لئے یہ محفل سجائی .

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سبھوں کو صحیح معنی میں عالم دین بنائے اور دین کی خدمت کے لئے قبول فرمائے . آمین .

1 تبصرہ

Leave a Reply to فضل اللہ جواب منسوخ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here