از : حافظ محمد نطہر بن احمد ہینی کار ، ساکن روشن محلہ ہوناور .
أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، عَدَدَ خَلْقِهٖ وَرِضَا نَفْسِهٖ وَزِنَةَ عَرْشِهٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِهٖ .
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیٰ مُحَمَّدٍ عَدَدَ مَا ذَكَرَهُ الذَّاكِرُوْنَ وَغَفَلَ عَنْ ذِكْرِهٖ الغَافِلُوْنَ .
اللہ تبارك وتعالیٰ کا لاکھوں کروڑوں احسان وکرم ہے کہ اس نے مجھے ایسی جماعت میں شامل کیا جنھیں علماء کی جماعت کہا جاتا ہے ، جن کی اہم صفت قرآنِ کریم کی روشنی میں ” انمایخشى الله من عباده العلماء ” ہوا کرتی ہے یعنی بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے علماء ہوتے ہیں .
الحمد للہ میرا تعلق شہر ہوناور کے ایک چھوٹے سے گاؤں روشن محلہ ہوناور سے ہے . میرا بچپن اسی محلہ میں گذرا اور میں نے ابتدائی تعلیم بھی وہیں پر گورنمنٹ ہائر پرائمری اردو اسکول منڈے ہتل میں حاصل کی ، اور اس کے بعد شہر ہوناور کے سینٹ تھامس ہائی اسکول کے شعبۂِ اردو میں آٹھویں تا دسویں یعنی میٹرک تک کی تعلیم حاصل کی . اور اسی دوران مدرسہ تعلیم الاسلام کے شبینہ مکتب میں حروف تہجی سے ناظرہ قرآن تک کی تعلیم مرحوم حافظ حسن صاحب ملا اور ان کے بعد مولانا اسماعیل صاحب دوکاندار سے حاصل کی .
اس کے بعد مجھے اپنے تعلیمی سلسلہِ کو جاری رکھنے کا بالکل ارادہ نہ تھا البتہ والدین اور ماموں جان نے دینی مدرسہ میں علم حاصل کرنے کی رائے دی جسے میں نے با دلِ ناخواستہ مان لیا ، لہذا میری امی جان نے میرا داخلہ ” مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن ، تینگن گنڈی ” کے شعبۂِ حفظ میں کرایا تو میں نے وہاں بخوشی حفظ قرآن شروع کیا ۔ شروع شروع میں اچھی خاصی پڑھائی ہوتی رہی پھر دھیرے دھیرے پڑھائی میں کمزوری آتی گئی اور مجھ کو اس کا احساس بھی ہوتا رہا تو میں نے حفظ کی تکمیل کے لئے سالانہ امتحان کے بعد دوسرے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے ارادہ سے مدرسۂِ ہذا کو خاموشی سے الوداع کہنے کا ارادہ کیا ، لیکن چونکہ یہاں کے اساتذہ ، طلبہ کے ساتھ اپنوں جیسا سلوک کرتے اور ہر ایک طالب علم کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ، اسی طرح دورانِ حفظ آموختہ اور اسباق غور سے سنتے اور اغلاط کی خوب تصحیح فرماتے ، ساتھ ساتھ ہماری تربیت کرتے اور بااخلاق بنانے کی بھی کوشش فرماتے تو ایسے پر رونق مدرسہ کو الودع کہنا میرے لئے شاق ضرور گذر رہا تھا لیکن چونکہ حفظ کی تکمیل مقصود تھی لہذا مجھے اس مدرسہ کو خیرباد کہنا پڑا ،
دوران حفظ میرے علم میں یہ بات پہلے ہی سے تھی کہ میرے محلہ کی مؤقر شخصیت ” حافظ محمد صاحب پائلٹ ” گوا کے ایک دینی مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ، چنانچہ جب میں ان کے توسط سے وہاں ” مدرسہ عربیہ مدینہ العلوم ، زواری نگر واسکوڈی گاما ” میں داخلہ کے لئے گیا تو سب سے پہلے میرے قرآنی پڑھائی کی جانچ کی گئی اور میرا داخلہ لیا گیا ، تو وہاں بِہار سے تعلق رکھنے والے قاری جسیم صاحب کے پاس حفظ کی پڑھائی جاری رکھی ، چونکہ قاری صاحب ظاہراً سخت تھے اسی لئے کسی طالب علم کو سبق یا آموختہ ناگا کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی ، اور ساتھ ہی پورے دن میں صرف ایک گھنٹہ عصر کے بعد ہی باہر جانے کی اجازت ہوتی تھی ، اور سال میں دو یا تین مرتبہ اپنے گھر جانے کا موقعہ ملتا تھا ، اس کم عمری میں میرا ایسے ماحول میں رہنا بہت ہی دشوار تھا ، پھر بھی دھیرے دھیرے میرا حفظ میں سبق کا سلسلہ جاری رہا اور الحمد للہ کافی محنت کے بعد، میں نے حفظ قرآن کی تکمیل کی .
دوران حفظ ہی بعض افراد مجھے عالمیت کی طرف توجہ دلایا کرتے تھے ، مگر چونکہ میری نادانی کی وجہ سے میں اس کو ایک بوجھ سمجھتا تھا اس لئے میں ان کی باتوں کو سنی ان سنی کر کے ٹال دیتا تھا۔ اسی طرح دن گذرتے گئے اور میں قرآن کے دور کی تکمیل کرتا گیا . بعدازاں جب میں وطن واپس لوٹا تو محلہ کے دینی فکر رکھنے والے حضرات مجھے عالمیت کی تعلیم کے حصول کے لئے بہت زیادہ رغبت دلانے لگے تو مجبوراً مجھے راضی ہونا پڑا اور مجھے ہمارے محلہ کے موجودہ امام و خطیب مولانا فرقان مالکی کے ذریعہ جناب حسین پانی بُوڑے کی سرپرستی میں ” جامعہ اسلامیہ بھٹکل ” بھیجا گیا ، یہاں میرا داخلہ خصوصی اول میں ہوا ،
شروع شروع میں مجھے یہاں اجنبیت اور نئی پڑھائی کی وجہ سے کچھ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن اپنے مضامین پر خوب توجہ دینے کی وجہ سے دھیرے دھیرے آسانی ہونے لگی ، در اصل یہ یہاں کے اساتذۂِ کرام کی محنتوں اور کاوشوں کا ہی نتیجہ تھا ، چونکہ تمام اساتذہ ہمیں بہترین انداز میں شوقِ وذوق سے پڑھایا کرتے ، اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں حصول علم کے فضائل بھی واضح اور بہترین انداز میں ہم طلباء کے سامنے بیان فرمایا کرتے تو اس سے میرا دل بھی اس علم کو مکمل طور پر حاصل کرنے کی طرف مائل ہونے لگا اور الحمد للہ آخر کار آج میں اس مقام و مرتبہ سے سرفراز ہو رہا ہوں ۔ ولله الحمد علی ذلك .
محترم حضرات : اصل چیز علم کے ساتھ عمل ہے اور یہی وہ دولت ہے جس کا کچھ حصہ مجھے اس چہار دیواری میں نصیب ہوا ، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ درسِ تفسیر و احادیث کے دوران عمل کی ترغیب دیا کرتے تھے اور اکثر مجموعی طور پر ہم طلبہ کو روزانہ کے اعمال اور دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلایا کرتے تھے .
معزز حاضرین : یہاں تک پہنچنے کے لئے بہت سے لوگوں نے میرا تعاون کیا ہے ، اسی سلسلہ میں میرا فرض بنتا ہے کہ میں ان کے حق میں کم ازکم کلمات تشکر پیش کروں . لہذا میں سب سے پہلے میرے والدین ، بھائی بہن اور ماموں جان احمد منکی کر کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس پڑھائی کی طرف میری توجہ مبذول کرائی اور کسی قسم کی کمی کا احساس تک نہ ہونے دیا ، اور میں دوران حفظ ساتھ دینے والے دونوں مدارس کے اساتذہ اور معاونین کا بھی مشکور ہوں کہ انھوں نے میرے ساتھ محبت کا سلوک کیا ۔ اسی طرح جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں داخلہ دلوانے والے مولانا فرقان صاحب مالکی اور جناب حسین صاحب پانی بوڑے کا بھی بہت ہی ممنون ومشکور ہوں کہ انھوں نے مجھے ادارۂِ ہذا میں داخلہ دلوانے میں میرا بھرپور ساتھ دیا .
اخیر میں دوران عالمیت ساتھ دینے والے تمام ساتھیوں ، مدرسہ کے جملہ اساتذہ و ذمہ داران اور معاونین کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور منکی کی اس شخصیت کا بھی مشکور ہوں جنھوں نے دوران تعلیم میری آنکھوں کے آپریشن کے لیے خوش دلی سے میری مدد کی ، اور ساتھ ہی عالیہ ثالثہ کے ان تمام طلبہ کا بھی فرداً فرداً شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے ہمارے لیے اتنا بڑا انتظام کیا . بس میں انہی باتوں پر اپنی جگہ لیتا ہوں . والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته .