از : عبدالقادر فیضان بن اسماعیل باقوی ، جامعہ آبادی ( بھٹکلی )
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دوسروں سے قرآن کریم پڑھوا کر اپنے رشتہ داروں کو ثواب پہونچانے سے بہتر خود اس کا اہتمام کرے اور جتنا ہوسکے اتنا وقت قرآن مجید پڑھنے کے لئے نکالے تو زیادہ بہتر ہے ، اگر کم از کم دن میں ایک پارہ پڑھنے کا معمول بنائے تو زیادہ بہتر ہے .
رہی بات دوسروں سے پڑھوا کر اپنے رشتہ داروں کو بخشنے کی تو امید ہے کہ اس کا ثواب حاصل ہو ، لہذا والدین کی قبروں کی زیارت کرکے ان کے پاس کچھ قرآن پڑھ کر بخشنا زیادہ بہتر ہے ، کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ ” جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کی زیارت کی اور اس کے پاس یٰسین والقرآن الحکیم پڑھا تو اس ( قرآن ) کی آیتوں یا حروف کی عدد کی مقدار اس ( میت ) کی مغفرت کی جائے گی “.
امام احمد بن حنبل سے مروی ہے ، انھوں نے کہا کہ ” جب تم مقبروں ( موتی کو قبروں ) میں داخل کرو تو سورہ فاتحہ ، اخلاص اور معوذتین پڑھو اور اس کا ثواب مقابر والوں کو پہونچاؤ ، کیونکہ ثواب ان کو پہونچ جاتے ہیں “.
گو کہ یہ احادیث ضعیف ہیں ، لیکن ایک دوسرے سے مل کر یہ حسن کا درجہ پاتی ہیں .
قرآن پڑھنے کے بعد قاری اللہ سے ” الحمد لله اور والصلوة والسلام علی رسول الله ” کے بعد یوں دعا کرے ” اے اللہ میں نے جو قرآن کریم پڑھا ہے ( تیرا تقرب حاصل کرنے کے لئے ہے ) تُو اس کا ثواب فلاں آدمی کو پہونچا دے ۔
امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمھما اللہ کے پاس قرآن کے ثواب میت کو پہونچتے ہیں ، جب کہ امام مالک اور ہمارے دو قول میں سے ایک میں نہیں پہونچتے ، لیکن ہمارے متاخرین علماء نے دوسرا قول اختیار کیا ہے .
امام نووی رحمہ اللہ جو جید شافعی عالم ہیں ، اپنی حدیث کی کتاب ” ریاض الصالحین ” میں لکھتے ہیں کہ شافعی رحمہ اللہ نے کہا ” اور اس ( میت ) کے پاس کچھ قرآن پڑھا جائے تو مستحب ہے ، اور اگر وہ قرآن کو ختم کریں تو میرے پاس حسن ہے “. ( ریاض الصالحین ، ص/222 )
مؤرخہ 9/جولائی 2021 ء مطابق 28/ذوالقعدہ 1442 ھ