ناخدائی زبان میں پائے جانے والے چند عربی الفاظ کی اصلیت کا ایک سرسری جائزہ

1
1544

مرتبین : مولانا ابراہیم فردوسی ندوی ، افنان بن اشرف علی اسپو ، نوید احمد بن عبدالمطلب پوتکار

خَمِّیْس : جمعرات ، یہ لفظ بھی ناخدائی زبان میں ہو بہو منتقل ہوا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہ عربی میں میم مشدد کے بغیر استعمال ہوا ہے اور ناخدائی زبان میں مع میمِ مشدد .

کِیْسَو : جیب ، یہ عربی لفظ کِیْسٌ سے مأخوذ ہے جس کے معنی جیب اور تھیلی کے آتے ہیں . اسی پر حرف ” و ” کا اضافہ کر کے کیسو بنایا گیا ہے .

سَتْرِیْ : چھتری ، یہ عربی لفظ ” سَتْرٌ ” سے مأخوذ ہے . چونکہ عربی میں سَتْر کے معنے چھپانے اور پردہ کے آتے ہیں ، اسی پر یاءِ نسبتی کا اضافہ کر کے سَتْرِی بنایا گیا ، جس کے معنی میری آڑ یا میرے پردہ کے آتے ہیں ، چونکہ وہ انسان کے لئے بارش اور گرمی سے آڑ بن جاتی ہے اسی لئے اس کو ستری کہا جاتا ہے .

اَسْتَرْ : تکیہ کا غلاف ، یہ عربی لفظ ” سَتْرٌ ” سے اسم تفضیل کے وزن پر ” أَسْتَرُ ” بنایا گیا ہے جس کے معنی زیادہ چھپانے والے کے آتے ہیں چونکہ تکیہ کا غلاف بھی تکیہ کی دوسری چیزوں کے بمقابلہ زیادہ آڑ بن کر حفاظت کرتا ہے اسی لئے اس کو استر کہا گیا .

دُسْ : روند ، یہ عربی لفظ دَاسَ یَدُوْسُ سے فعلِ امر واحد مذکر حاضر کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ” تو روند “. یہ لفظ اپنے اسی صیغہ و معنی میں ہی ناخدائی زبان میں بھی ہو بہو منتقل ہوا ہے .

سَاکَّرْ : شکر ، یہ عربی لفظ سُکَّرْ سے مأخوذ ہے جس کے معنی شکر کے آتے ہیں ، اسی میں حرف سین کے بعد الف کا اضافہ کرکے سین کے ضَمہ یعنی پیش کو الف کی مناسبت سے فتحہ یعنی زبر سے بدل دیا گیا ہے .

چَای : چائے ، یہ عربی لفظ شَأْیٌ سے مأخوذ ہے جس کے معنی چائے کے ہیں ، اس کے شین کو اس کے مثل قریبی آواز چیم سے بدل کر چای بنایا گیا ہے .

اَمْبَھو : آم ، یہ عربی لفظ اَنْبَهٌ سے مأخوذ ہے جس کے معنی آم کے آتے ہیں ، یہ اقلاب کے قاعدہ کے مطابق نون کو میم سے بدل کر اور آخر میں حرف واؤ کا اضافہ کر کے بنایا گیا ہے

کَوب : پیالہ ، یہ عربی لفظ کُوْبٌ سے مأخوذ ہے لیکن ناخدائی زبان میں اس کا استعمال کاف کے فتحہ یعنی زبر کے ساتھ ہوا ہے جس کے معنی پیالہ اور گلاس کے آتے ہیں ، چونکہ عربی میں کُوْبٌ شیشہ وغیرہ کے پانی پینے کے اس برتن کو کہتے ہیں جس کا سرا گول ہو اور اسے دستہ یعنی ہینڈل بھی نہ ہو ، جیسا کہ بعض عربی لغات میں ہے کہ اَلْکُوْبُ : قدح من الزجاج و نحوہ ، مستدیر الرأس لا عروة له ، وهو من اٰنية الشراب .

کاسو : کٹورا ، یہ عربی لفظ کَأْسٌ سے مأخوذ ہے جس کے معنی ایسے برتن کے ہیں جس میں شراب یا مشروبات ہوں ، جیسا کہ بعض عربی لغات میں ہے کہ اَلْکَأْسُ : القدح ما دام فیه الخمر أو إناء يشرب فيه ” چونکہ اس میں سالن وغیرہ رکھا جاتا ہے اس لئے ناخدائی زبان میں کَأْسٌ کے آخر میں حرف واؤ کا اضافہ کر کے” کاسو ” بنایا گیا ہے .

فی الحال : اس وقت ، ابھی . یہ عربی جار مجرور کی ترکیب سے مأخوذ ہے جس کے معنی وہ وقت جس میں ہم ہوں کے آتے ہیں .

شِڑَاع : بادبان ، یہ عربی لفظ شِرَاعٌ سے مأخوذ ہے اور ایک قریب المخرج حرف کی تبدیلی کے ساتھ ہو بہو ناخدائی زبان میں منتقل ہوا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ عربی میں حرف ” ر ” کے ساتھ اور ناخدائی زبان میں حرف ” ر ” کی جگہ اردو حرف ” ڑ ” کے ساتھ مستعمل ہے ، شاید یہ مرور زمانہ کے ساتھ لاعلمی میں کثرت استعمال کی وجہ سے بدل گیا ہو کیونکہ یہ لفظ قوم ناخدا کے مختلف فنون میں سے ایک خاص فن ” بادبان سازی ” میں کثرت سے استعمال ہوتا آیا ہے .

سُکَّان : پتوار ، پتوال ، کشتی کا دنبالہ . کشتی کے رخ موڑنے کی لکڑی یا تختہ ، کشتی یا جہاز کا پچھلا حصہ . یہ اصلاً عربی لفظ سُکَّانٌ جمع سُکَّانَاتٌ سے مأخوذ ہے جس کے ایک معنی کشتی کے رخ موڑنے کی لکڑی ، تختہ ، آلہ یا دنبالہ کے آتے ہیں . جیسا کہ مختلف عربی لغات میں ہے کہ ” ألسُّکَّانُ : آلة فى مؤخرة السفينة تستخدم فی توجیھھا أو تُعدّل فی سیرھا أو خشبة فی مؤخر السفینة توجه حرکتھا و تضبطھا “. اسی طرح اس کے اور ایک معنی چپو ، پتوار یا پتوال کے آتے ہیں جس کو ناخدائی زبان میں ” وَلَّا یا فَلٹِی ” کہا جاتا ہے جیسا کہ بعض عربی لغات میں مذکور ہے کہ ” ألسُّکَّانُ : اَلدَّفَّةُ : ماتسکن به السفینة و تمنع من الحرکة و الإضطراب ، وتعدل به فی سیرھا ، أو ما تقوم به السفینة فی سیرھا .خلاصہ کلام یہ کہ ناخدائی زبان میں بڑی کشتی یا جہاز کے رخ موڑنے والے آلہ کو ” سُکّان ” اور چھوٹی کشتی کے رخ موڑنے والے آلہ کو ” وَلَّا یا فَلٹِی کہا جاتا ہے .

1 تبصرہ

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here