رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری
” لقد کان لکم في رسول اللہ أسوۃ حسنة “
اخلاق کا لفظ ذہن میں آتے ہی ایک ایسا خاکہ ابھر کر سامنے آ جاتا ہے کہ جس کو ہر شخص اپنانے کی کوشش کرتا ہے ، کیونکہ اخلاق انسان کی ایک ایسی صفت ہے کہ جس کسی کے اندر یہ صفت پائی جائے تو سمجھ لیجئے کہ وہ کامل انسان ہے . یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم علم و ادب کی زینت اخلاق کو قرار دیتے تھے . قیامت کے دن مومن کے میزان عمل میں کوئی چیز حسنِ اخلاق سے زیادہ وزنی نہیں ہوگی . سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کے موضوع پر دنیا کی مختلف زبانوں میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا شمار بمشکل ہی کیا جا سکتا ہے . سیرت کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جس پر روشنی نہ ڈالی گئی ہو ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اس طور پر ہوئی کہ آپ بیک وقت ہادی ، داعی ، مبشر ، معلم ، مبلغ ، نورمبین ، مزکی ، حاکم اور رحمۃ للعالمین تھے ، جس کا خود قرآن گواہ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا بچپن اور شباب دونوں بے داغ تھے . آپ تمام مشرکانہ رسوم اور دیگر عیوب سے بالکل پاک تھے ، آپ مہمانوں کی مہمان نوازی ، غرباء کی مدد و نصرت اور بیواؤں یتیموں اور بے کسوں کی دستگیری فرماتے تھے تھے ، بات کے سچے اور وعدہ کے پکے تھے ، بد سلوکی سے پیش آنے والوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے اور انھیں معاف فرماتے تھے ، جب دو باتوں کا اختیار دیا جاتا تو اس میں امرِ سہل کو اختیار کر لیتے بشرطیکہ اس میں کسی گناہ کا شائبہ نہ ہو ، کیونکہ آپ گناہ سے دور تھے . آپ نے اپنے ذاتی معاملہ میں کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا ، لیکن اگر کوئی احکام الہی کی خلاف ورزی کرتا تو آپ اسے سزا دیتے ، آپ نے کبھی کسی مسلمان کا نام لے کر لعنت نہ کی ، آپ نے کبھی کسی غلام ، لونڈی ، عورت ، یا کسی خادم ، جانور کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا ، آپ کسی درخواست کو رد نہ فرماتے بشرطیکہ وہ ناجائز نہ ہو ، آپ جب کہیں سے گھر تشریف لاتے تو مسکراتے ہوئے داخل ہوتے ، آپ کا تکلم جوامع الکلم ہوتا ، تکلم فرماتے تو ٹہر ٹہر کر بولتے ، اگر کوئی یاد کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا ، آپ نرم خو تھے ، سخت مزاج اور سنگ دل نہ تھے ، آپ شور و غل ، بد کلامی اور عیب جوئی سے دور رہتے تھے .
آپ نے اپنے نفس سے تین چیزیں بالکل ہی خارج کر دی تھیں ، بحث و مباحثہ ، بے ضرورت باتیں کرنا اور بے مطلب کی بات میں پڑنا. اور اسی طرح دوسروں کے متعلق تین باتوں سے پرہیز کرتے تھے . کسی کے ٹوہ میں نہیں لگتے تھے ، کسی کو برا نہیں کہتے تھے اور نہ ہی کسی کی عیب جوئی کرتے تھے اور دوسروں کی زبان سے اپنی تعریف سننا پسند نہیں فرماتے تھے ، آپ نہایت فیاض ، نرم طبع اور خوش مزاج تھے ، اگر کوئی دفعتا سامنے آجاتا تو مرعوب ہو جاتا ، لیکن جیسے جیسے آشنا ہو جاتا تو آپ سے محبت کرنے لگتا ، آپ کے مکارم اخلاق میں سے ایک یہ بھی ہیکہ آپ کسی کی توہین گوارہ نہ فرماتے ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اظہار تشکر فرماتے ، کسی چیز کو برا نہیں گردانتے ، اگر کھانے کے لئے بیٹھتے تو کھانے میں عیب نہیں نکالتے اگر پسند ہوتا تو نوش فرماتے ورنہ اپنا ہاتھ روک لیتے . آپ رحم دل و رقیب القلب تھے ، آپ کا حسن سلوک صرف انسانوں کے ساتھ ہی محدود نہ تھا بلکہ جانوروں ، پرندوں اور دیگر مخلوقات کے ساتھ بھی تھا . آپ مویشیوں کو چارہ خود ڈالتے ، گھر میں جھاڑو خود لگاتے ، اپنے خادموں کے کام میں ہاتھ بٹھاتے ، انکے ساتھ بیٹھ کر کھانا نوش فرماتے ، بازار سے سودا خود خرید لاتے ، ادنی و اعلی کو خود سلام میں پہل کرتے ، انسانوں کے مابین فرق نہ فرماتے ، ہر ایک سے یکساں طریقہ سے پیش آتے ، کوئی بھی حقیر شخص دعوت دیتا فوراً قبول فرماتے ، مذاق بھی شریعت میں رہ کر کرتے جو بالکل حقیقت پر مبنی ہوتا ،جس میں جھوٹ و کذب کی بو تک نہیں پائی جاتی ، قہقہہ لگا کر زور زور سے نہ ہنستے ، بلکہ صرف تبسم فرماتے ، سخی تھے ، لیکن فضول خرچی سے پرہیز فرماتے ، اپنے خاندان والوں اور خادموں پر مہربان تھے ، دوسروں کی ایذا رسانی پر صبر کرتے ، اپنے کنبہ کی اصلاح اور خاندان کی درستگی پر خوب توجہ فرماتے ، ہر چیز کی قدر و منزلت سے آگاہ تھے ، سکینت آپ کا حسن ، نیکی آپ کا شعار ، اور تقوی آپ کا لباس ، حکمت آپ کا کلام ، عدل آپ کی سیرت ، اور رہنمائی آپ کا مشن تھا ، آپ کا گفتار جتنا پاکیزہ تھا کردار بھی اتنا ہی پاکیزہ تھا ، تعلیم جتنی روشن نظر آتی سیرت بھی اتنی ہی صیقل نظر آتی ، ایک بے نکاح لڑکی اپنے اندر جس قدر حیا رکھتی ہے اس سے کئی گناہ زیادہ حیادار تھے ، آپ وفا کرنے والےتھے ، نہ کہ جفا کرنے والے اور نہ ہی عہد شکنی کرنے والے تھے ، آپ دشمنوں کے جواب میں پھولوں کا گلدستہ پیش کر نے والے تھے ، تاریخ کی اوراق گردانی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ فتح مکہ کے بعد دشمنان اسلام سے اگر چاہتے تو بدلہ لے سکتے تھے ، مگر فرمایا ” انتم التلقاء ” کہ تم سب آزاد ہو ، یہ وہی اوصاف تھے جن کی وجہ سے قرآن میں فرمایا گیا ” انک لعلی خلق عظیم ” اور ایک جگہ خود آپ نے فرمایا ” انما بعثت لاتم مکارم الاخلاق ” مجھے اس لئے مبعوث کیا گیا تاکہ میں نیک خصلتوں اور مکارم الاخلاق کی تکمیل کروں .
ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کیا تھے . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” کان خلقہ القرآن ” جس وجہ سے آپ کے مخالفین تک آپ کو اعلی اخلاق و کردار کا حامل گردانتے تھے ، آپ پوری دنیا کے لئے اپنی آپ روشن مثال تھے ، یہی وجہ ہے کہ ایک انگریز آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد خود اللہ سے شکایت کر بیٹھا کہ تو نے ایسا انسان ایک ہی کیوں پیدا کیا ؟
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنےاندر آپ کے اخلاق حسنہ کو پیدا کرنے کی کوشش کریں اور دوسروں کے سامنے بھی آپ کی سیرت مبارکہ کو حتی المقدور پیش کریں . آمین .