افسانہ بعنوان آنگن کا پیڑ
از : عبد العلیم ابو۔جامعہ آباد۔تینگن گنڈی۔بھٹکل
بچو ! عبدالعلیم ابو ندویؔ ہماری قوم ، قوم ناخدا کے ایک عالم دین ہیں جو جامعہ آباد ، تینگن گنڈی ، بھٹکل میں رہتے ہیں۔وہ بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور بچوں کے لئے بڑے سادھے اور پیارے انداز میں چھوٹے چھوٹے افسانے اور کہانیاں لکھتے رہتے ہیں ۔ابھی انھوں نے والدین کی اہمیت اور قدر و قیمت کو سمجھانےاور بتانے کے لئے ‘‘ آنگن کا پیڑ ’’ کے عنوان سے ایک چھوٹا سا دل کو چھونے والا افسانہ اپنے پیارے بچوں کے نام لکھا ہے۔آپ اسے شوق و ذوق سے پڑھئے اور اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئےدوسروں کو بھی بتائیےاور ساتھ ساتھ مولانا عبدالعلیم کے نام اپنے تاثرات وخیالات کا اظہار اپنے بڑوں کی مدد سے ہمارے‘‘ امژو زون ’’ ویب سائٹ پر ای۔میل کیجئے اور اپنے اپنے استادوں اور جاننے والوں سے میل کرنا سیکھئے۔امژو زون ویب سائٹ ہماری قوم کے چند نوجوانوں کا تیار کیا ہوا ویب سائٹ ہے۔لہذا آپ بِلا خوف و خطر اپنے تاثرات وخیالات کا اظہار مولانا عبدالعلیم کے ساتھ کرسکتے ہو تا کہ وہ آپ کے لئے اس سے بھی اچھے افسانے اور بہترین کہانیاں لکھتے رہیں۔اللہ ہم سبھی بچوں کو اسکی توفیق دے۔آمین۔
یہ لو بچو! آپ کا افسانہ بعنوان : آنگن کا پیڑ
کریم…یار کیا ہوگیا ؟ کیوں چلّا رہے ہو؟ صبح صبح گھر میں شور کیسا؟ منیر… میرے والد بوڑھے ہو چکے ہیں، جومنہ میں آیا بکتے جارہے ہیں، میں پورا دن محنت کرتا ہوں شام ڈھلے جب گھر لوٹتا ہوں تو اس بوڑھے کا منہ کھلتا ہے تو پھر بند ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، میں اس بوڑھے سے تنگ آ چکا ہوں جی توچاہتا ہے میں اس بوڑھے کو ختم ہی کردوں روز کا جھنجھٹ ہی ختم ہوجائے گا اور میں چین وسکون کی زندگی گذار سکوں گا “نہ رہے گی بانس نہ بجے گی بانسری “منیر… ارے یار ! تم یہ کیا بولے جارہے ہو، جس کو تم بوڑھا کہہ کر پکار رہے ہو وہ تمہارے والدِ محترم ہیں، کریم….. دیکھو منیر میں تو بس ان سے تنگ آچکا ہوں اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، منیر….. میری بات غور سے سنو ! اللہ کے نزدیک والدین کا مرتبہ بڑا اونچا ہے ، اسلام نے ہمیں ان کے ادب و احترام کا حکم دیا ہے ان کے خلاف اف تک کرنے سے روک دیا گیا چہ جائیکہ ان سے بڑی آواز سے بات کریں، والد صاحب کی مثال آنگن کے اس پیڑ کی طرح ہے جو خود دھوپ میں تپ کر ہمیں سایہ دیتا ہے،بہت سی آندھیاں برداشت کرتا ہے، سخت ترین ہوا کو برداشت کرتا ہے لیکن کبھی اپنی تکلیف ہم پر ظاہر نہیں ہونے دیتا، اب جب یہ پیڑ سوکھ چکا ہے تو اس کو کاٹ دینے کی بات کر رہے ہو ؟ میرے یار والد کی خدمت کو اپنی خوش قسمتی سمجھو اس ملے ہوئے موقع کو غنیمت جانو، کیا پتہ وہ اس دنیا سے کب رخصت ہو جائے، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، زندگی ہی میں ان سے گستاخی کی معافی مانگ لو کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی معاملہ کر بیٹھے۔اللہ ہمیں اپنے والدین کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
ماشاءاللہ مولانا بہت خوب لکھا ہے۔