کسبِ حلال و اکلِ حلال کی فضیلت و ترغیب

0
68

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آبادی ، بھٹکلی ، امام و خطیب جامع البر والتقویٰ ، أبوظبی ، متحدہ عرب امارات.

پہلی قسط

کتبه : مؤرخہ 15/جولائی 2021 ء مطابق 5/ذوالحجہ 1442ھ

الحمد لله رب العالمین ، والصلوة والسلام علی رسوله الکریم الامین ، وعلی اٰله وصحبه أجمعین ، ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین . أما بعد !

یہ ضروریاتِ دین میں سے ہے کہ ایک اچھی اور پاک زندگی گزارنے کے لئے حلال طریقہ سے کمانا اور حلال چیزیں کھانا اور کھلانا فرض ہے . اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا! ” يَاَيُّهَاالنَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِى الْاَرْضِ حَلَالاً طَيِّبًا “. اے لوگو! زمین میں جو پاک حلال چیزیں ہیں انھیں کھاؤ . ( سورۃ البقرۃ/ 168 ) . اسی لئے جو شخص حلال کمائی کے لئے گھر سے نکلتا ہے تو وہ اللہ کے راستہ میں ہوا کرتا ہے .

دوسری طرف حرام کمائی اور چیزوں سے بچنا بھی واجب ہے ، حدیث میں آتا ہے ” جو گوشت حرام سے پلتا ہے تو ( جہنم کی ) آگ اس سے بہتر ہے “. حرام مال کھانے والوں کی چالیس دنوں کی عبادت مقبول نہیں ہوتی . لہذا پوری طرح سے حرام کمائی سے بچنا ضروری ہے .

اگر اشیاء کی اصلیت کی طرف دیکھا جائے تو ہر پاک چیز حلال ہے

فقہائے کرام نے بنیادی دس چیزوں کے علاوہ تمام چیزوں کو حلال کہا ہے ، اور بنیادی دس چیزیں جو حرام ہیں وہ درج ذیل ہیں : (1) آدمی . (2) ضرر رساں چیزیں ، جیسے زہر ، پتھر اور مٹی . (3) گندی چیز ، جیسے منی . (4) ( سخت ) پنجوں والے پرندے ، جیسے چیل ، شاہین ، عقاب . (5) مضبوط کونچلیوں والے خونخوار درندے ، جیسے شیر ، تیندوا ، بھیڑیا . (6) قرآن کریم میں ” حُرّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ والدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ (الخ) “. تم پر مردار ، ( بہتا ) خون اور سور کا گوشت حرام ٹہرایا گیا o ( سورۃ المائدہ/3 ) آیت کریمہ کے ذریعہ حرام ٹہرائی گئی چیزیں . (7) وہ چیزیں جن کا کھانا عرب برا ( خراب ) سمجھتے ہوں ، جیسے کیڑے مکوڑے . (8) وہ حیوانات جن کو جان سے مار ڈالنے سے روکا گیا ہو ، جیسے ” خطاب ” پرندہ ، شہد کی مکھی اور مینڈک . (9) وہ حیوان جنھیں مار ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے ، جیسے سانپ ، بچھو . (10) اور وہ چوپائے جن پر سواری کی جاتی ہو ، اونٹ اور گھوڑے کے علاوہ . ( اعانةالطالبین ، ج/2 ، ص/ 349 )

افضل کمائی

زراعت ( کھیتی باڑی ) سب سے افضل کمائی ہے ، اس لئے کہ اس کمائی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر تمام کمائیوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ توکل ہوتا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ عام طور پر تمام لوگوں کی ضروریات اسی سے وابستہ ہوتی ہیں ، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ مسلم کی حدیث میں آتا ہے ،

1/239 : ” مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا إِلَّا كَانَ مَا اَكَلَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ ، وَمَا سُرِقَ مِنْهُ صَدَقَةٌ ، وَلَا يَرْزَءُهُ اَحَدٌ إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةٌ “. کوئی مسلمان ایسا نہیں جوکوئی درخت لگاتا ہو مگر اس میں سےجو کچھ وہ کھاتا ہو اس پر اس کے لئے ایک صدقہ ہے اور اس سے جو چُرایا گیا ہو اس سے اس کے لئے ایک صدقہ ہے ، اور کوئی ( جانور یا حشرات الأرض ) اس ( کھیتی ) کو مصیبت ( نقصان ) نہیں پہونچاتا مگر یہ کہ اُس کے لئے ( اس پر ) ایک صدقہ ہے . ( مسلم )

2/240 : حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ ایک حدیث میں آتا ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” کوئی مسلمان کوئی درخت نہیں لگاتا ، کوئی کھیتی باڑی نہیں کرتا ، کہ اس سے کوئی انسان ، کوئی پرندہ ( ایک روایت میں اس کی جگہ میں چوپایہ آیا ہے ) اور کوئی چیز نہیں کھاتی ، مگر یہ کہ اس کے لئے اس پر ایک اجر ہے “. ( امام طبرانی نے اس حدیث کو اسناد جید سے روایت کیا ہے )

3/241 : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” کوئی مسلمان کوئی پودا ( یا درخت ) نہیں لگاتا ، یا کوئی کاشت کاری نہیں کرتا کہ اس سے کوئی پرندہ یا کوئی انسان کھاتا ہے مگر یہ کہ اس پر اس کے لئے ایک صدقہ ہے “. ( بخاری ، مسلم ، ترمذی )

*زراعت کے بعد کَسْبِ حلال کی افضل کمائی میں صَنَاعت کا درجہ ہے*

زراعت کے بعد صناعت ( صنعت وحرفت ، انڈسٹری کا کام ) ہے ، اس لئے کہ اس کی کمائی میں قوتِ بازو زیادہ کارفرما ہوتی ہے ،

4/242 : مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا! ” ماعمل آدمی قط خیرا من ان یاکل من عمل یدہ ، وان نبي اللہ داود علیہ الصلوۃ والسلام کان ياکل من عمل یدہ “. کسی کا اپنے ہاتھ سے کئے ہوئے کام سے زیادہ بہتر کوئی اور کھانا نہیں ، اور اللہ کے نبی داؤد علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ہاتھ سے کئے ہوئے کام سے کھایا کرتے تھے “. ( بخاری وغیرہ )

اس کے بعد تجارت کا نمبر آتا ہے ، اس لئے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تجارت ہی کیا کرتے تھے ، اور تجارت کی کمائی ہی سے کھاتے اور کھلاتے تھے .

دوسری قسط

ایک صحت مند غریب آدمی کو حلال طریقہ سے کمانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے ، جتنی بھی محنت ومشقت ہوتی ہو ، حتی کہ اگر اس کی نظر میں کسب حلال کا کوئی ذریعہ نظر نہ آرہا ہو تو وہ جنگل کی لکڑیاں کاٹ کر فروخت کر کے حلال کمائی حاصل کرے ، یہ اس کو کسی کے پاس ہاتھ پھیلانے کے مقابلہ میں زیادہ بہتر ہے ، مسئول اس کو دے یا اس کے پھیلائے ہاتھوں کو لوٹائے ، اور اس میں ایک خود دار انسان کی خودداری پر ایک کاری ضرب ہے ، مندرجۂ ذیل احادیث میں اس کی ترغیب آئی ہے .

5/243 : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” لِاَنْ يَحْتَطِبَ اَحَدُكُمْ حُزْمَةً عَلَى ظَهْرِهِ خُيْرٌ لَهُ مِنْ اَنْ يَسْاَلَ اَحَدًا فَيُعْطِيَهُ أَوْ يَمْنَعَهُ “. تم میں سے کسی کا اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا لانا اُس کے لئے کسی کے پاس سوال کرنے سے زیادہ بہتر ہے ، چاہے وہ اس کو دے یا منع کرے . ( مالک ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی )

6/244 :حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” تم میں سے کسی کا رسی لے جاکر لکڑیوں کا کوئی گٹھا اپنی پُشت پر لاد کر اس کو بیچنا کہ اللہ اس کے چہرہ کو ( ذلیل ہونے ، اور لوگوں کے سامنے مانگنے سے بچانا ) روکنا اس کے لئے لوگوں سے سوال کرنے کے مقابلہ میں زیادہ بہتر ہے ، وہ اس کو دیں یا دینے سے منع کریں “. ( بخاری )

7/245 ؛ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انصار کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر کچھ مانگنے لگا ، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس سے پوچھا ” کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟ ” انھوں نے کہا ، ہاں! ایک ٹاٹ ( یا موٹا سا کپڑا ) ہے جس کے بعض حصہ کو ہم پہنتے ہیں اور بعض کو بچھاتے ہیں ( یعنی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے ) اور گاری مٹی کا ایک برتن جس میں ہم پانی پیتے ہیں ، فرمایا! یہ دونوں چیزیں لے آؤ ، وہ ( صحابی ) وہ دونوں چیزیں لے آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا! ” ان دونوں چیزوں کو کون لے گا ؟ ” ایک شخص نے کہا! میں ان دونوں کو ایک درہم سے لوں گا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” ایک درہم سے زیادہ کون دے گا ؟آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دو یا تین مرتبہ فرمایا ” ایک شخص نے کہا! میں انھیں دو درہم کے عوض خریدوں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دو چیزیں انھیں ( صحابی ) دیں ، دو درہم لئے اور انھیں انصاری کو عطا کیا اور فرمایا! ” ان میں سے ایک سے خوراک لو اور اس کو اپنے گھر والوں کو دے دو ، اور دوسرے ( درہم ) سے ایک کلہاڑی خریدو اور اس کو لیکر میرے پاس آؤ ” ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے دیا اور فرمایا! ” جاؤ لکڑیاں کاٹو اور ان کو فروخت کرو ، میں تمہیں پندرہ دنوں تک نہیں دیکھوں ، ( یعنی پندرہ دنوں تک تم میرے پاس نہیں آوگے ، اس کے بعد آکر اپنا حال بیان کرو گے ) انھوں نے ایسا ہی کیا ، پھر جب آئے تو ان کے پاس دس دراہم تھے ، جن میں سے چند درہموں سے انھوں نے کپڑے خریدے تھے ، اور چند سے کھانا ، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا! ” یہ تمہارے لئے اس بات سے بہتر ہے کہ تم روز قیامت میں اس حال میں آؤ کہ تمہارے چہرہ پر سوال کا ایک دھبہ ہو “. ( اس حدیث کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے ، الفاظ انہی کے ہیں ، اور نسائی اور ترمذی نے. ،اور انھوں نے اس حدیث کو حسن کہا ہے )

8/246 : حضرت جُمَيْع بن عُمَير اپنے ماموں رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں ، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے افضل کمائی کے تعلق سے پوچھا گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” بیع مبرور ، ( ایسا مبارک لین دین جس میں نہ جھوٹ ہو ، نہ دھوکہ اور نہ ہی کسی قسم کی چال ) اور آدمی کا اپنے ہاتھوں سے کام کرنا “. ( احمد ، بزار ، طبرانی نے اختصار کے ساتھ کبیر میں ، اور کہا خالد ابوبردہ بن نیار سے ، اور بیہقی نے محمد بن عبداللہ بن نمیر سے ، اور انھوں نے اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ حدیث سعید بن عمیر سے مروی ہے )

9/247 : سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے امام احمد کی روایت کردہ حدیث میں کچھ زیادتی آئی ہے ، الفاظِ حدیث یہ ہیں ” وعن ابي هريرة رضي الله عنه ايضا قال! قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَاَنْ يَّاخُذَ اَحَدُكُمْ حَبْلَهُ فَيَذْهَبَ بِهِ اِلَى الْجَبَلِ فَيَحْطِبَ ، ثُمَّ يَاتِيْ بِهِ فَيَحْمِلُهُ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَاْكُلُ خَيْرٌلَّهُ مِنْ اَنْ يَسْاَلَ النَّاسَ ، وَلَاَنْ يَّاْخُذَ تُرَابًا فَيَجْعَلَهُ فِيْ فِيْهِ خَيْرٌ لَّهُ مِنْ اَنْ يَجْعَلَ فِيْ فِيْهِ مَا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ “. کہتے ہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اللہ کی قسم جس کے ہاتھ ( قبضہ ) میں میری جان ہے یقینا تم میں سے کسی کا اپنی رسی کو لے کر پہاڑ کی طرف جانا پس لکڑیاں جمع کرنا ، پھر انہیں اپنی پیٹھ پر لاد کر لانا ( اور فروخت کرنا ) پھر کھانا اُس کے لیے لوگوں کے پاس مانگنے سے زیادہ بہتر ہے ، اور البتہ مٹی لے کر اس کو اپنے منہ میں پھانکنا اُس کے لیے اپنے منہ میں اُس پر حرام کردہ چیز کو کھانے سے ( زیادہ ) بہتر ہے . { احمد نے اس حدیث کو اِسنادِ جید سے روایت کیا ہے }

10/248 : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی گئی ہے ، کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ، کونسی کمائی افضل ہے ؟فرمایا! ” آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ، اور مبارک لین دین “. ( امام طبرانی نے اس حدیث کو اوسط میں روایت کیا ہے ، اور اس کے رُوات ثقات ہیں )

11/249 : حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پوچھا گیا! یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کونسی کمائی پاک ہے ؟فرمایا! ” آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ، اور مبارک خرید وفروخت “. ( احمد ، بزار ، بزار کی اسناد کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ، سوائے مسعودی کے ، کہ انھیں اختلاط ہوا تھا ، اور ان کی سند سے احتجاج کرنے کے سلسلہ میں اختلاف کیا گیا ہے ، لیکن متابعات ( ایسی دوسری احادیث آنے کی وجہ سے اس ) میں کوئی حرج نہیں .

12/250 : حضرت سعید بن عمیر نے اپنے چچا سے روایت کیا ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ، کونسی کمائی زیادہ پاک ہے ؟فرمایا! ” آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ، اور ہر بیعِ مبرور ( مبروک ) “. ( اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کرکے صحیح الاسناد کہا ہے ، ابن معین نے کہا سعید کے چچا براء ( رضی اللہ عنہ ) ہیں ، اور بیہقی نے اس کو سعید بن عمیر سے مرسلاً نقل کیا ہے ، اور کہا یہی محفوظ ہے ، اور جنھوں نے ان کے چچا سے نقل کیا ہے ( کہا ہے ) ، وہ خطا کرگیا .

تیسری قسط

حلال کمانا ، حلال کھانا فرض ہے ، اور ہر آدمی کو کسبِ حلال کو طلب کر کے خود کھانا اور اہل وعیال کو کھلانا واجب ہے ، یہ بھی ایک عبادت ہے جس سے بندہ کو ثواب ملتے ہیں ۔

13/251 : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِيْضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيْضَةِ “. حلال ( رزق ) کو طلب کرنا ( نماز وغیرہ ) فرض ( احکام ) کے بعد ایک فرض ہے. ( طبرانی ، بیہقی )

14/252 : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” حلال کو طلب کرنا ( یعنی رزقِ حلال کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہنا ) ہر مسلمان پر واجب ہے “. ( طبرانی نے اوسط میں اس حدیث کو روایت کیا ہے ، اور اس کی سند ان شاء اللہ حسن ہے )

15/253 : اللہ سبحانہ و تعالیٰ صرف پاک چیزوں کو ہی پسند فرماتا ہے ، کیونکہ اللہ عزوجل کی ذات وحدہ لاشریک لہ خود پاک ہے ، اور اس نے انبیاء کرام علیہم الصلوت والسلام اور مؤمنین کو صرف پاک چیزوں کو ہی کھانے کا حکم دیا ، ایک آدمی کا کھانا پینا اوڑھنا بچھونا حرام ہو تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں ، جیسا کہ درج ذیل حدیث ہمیں بتاتی ہے .

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، انھوں نے کہا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” بیشک اللہ پاک ہے ، اور پاک ( یزہ چیزوں ) ہی کو پسند کرتا ہے ، اور اس نے مؤمنین کو انھیں چیزوں کا حکم دیا جن چیزوں کا اس نے رسولوں کو حکم دیا ، فرمایا! ” یا أیھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا ، اِنِّي بما تعملون علیم “. اےرسولو! ( اللہ کی حلال کردہ ) پاک چیزیں کھاؤ ، اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو میں بخوبی جانتا ہوں . ( سورۃ المؤمنون/51 ) دوسری ایک جگہ میں فرمایا! ” یا أیھا الذین اٰمنوا کلوا من طیبات ما رزقناکم “. اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جن پاک چیزوں کو ہم نے تمھیں بطور رزق عطا کیا ہے ان کو کھاؤ . ( سورۃ البقرۃ/172 ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا تذکرہ کیا جو بکھرے ہوئے بالوں ، گرد آلود ہوتے ہوئے طویل سفر کرتا ہے ، اپنے دونوں ہاتھوں کوسوئے آسماں کرکے کہتا ہے ” یا رَبِّ ، يَا رَبِّ ” اور حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا کھانا حرام ، اس کا پینا حرام ، اس کا لباس حرام ، اور حرام سے غذا دی گئی ہو ،( یعنی اپنے اہل وعیال کو مالِ حرام سے کھلا رہا ہو ) تب اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟ “. ( مسلم ، ترمذی )

چوتھی قسط

اللہ جل ذکرہ صنعت وحرفت کی کمائی کرنے والے سے محبت کرتا ہے ، اور جو شخص اپنے ہاتھ سے کام کرکے تھکا ہارا اپنے گھر لوٹ آتا ہے تو اس کی مغفرت کی جاتی ہے ، جیسے نیچے آنے والی احادیث ہمیں بتاتی ہیں .

16/254 : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اِنَّ اللَّه يُحِبُّ الْمُؤْمِنَ الْمُحْتَرِفَ “. بیشک اللہ ( عزوجل ) حرفت ( وصنعت ) کا کام کرنے والے مؤمن سے محبت کرتا ہے . ( طبرانی نے ” الکبیر ” میں ، اور بیہقی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے )

17/255 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا گیا ہے ، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جو شخص اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کے ذریعہ تھک ( ہار ) جاتا ہے تو اس کی مغفرت کی جاتی ہے “. ( طبرانی نے اوسط میں ، اور اَصبہانی نے اس حدیث کو ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کیا ہے )

18/256 : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جب تمہارے اندر چار چیزیں ہوں ، تو دنیا سے فوت شدہ چیزوں کا تمہیں کوئی غم نہیں ہونا چاہئے ، امانت کی حفاظت کرنا ، سچ بولنا ، اچھے اخلاق والا ہونا اور کھانے میں پاکدامنی اختیار کرنا “. ( احمد ، طبرانی ، دونوں ہی کی اسناد حسن ہیں )

19/257 : جو شخص حلال کمائی سے کھاتا پیتا ہے ، یا اپنے سے مالی حیثیت سے کم والے کسی شخص کو کھلاتا پہناتا ہے تو وہ اس کے حق میں زکوٰۃ بن جاتی ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ اس سے اس کے مال کو پاک وصاف کرتا ہے ، اور اس کو اس کا ثواب عطا کرتا ہے ، جیسا کہ حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں آتا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جب بھی کوئی شخص مال حلال سے خود کو کھلاتا ہے ، یا اپنے سے کم حیثیت والی اللہ کی مخلوق کو پہناتا ہے تو وہ اس کے لئے زکوٰۃ بن جاتی ہے “. ( اس حدیث کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں درّاج سے ، ابوہیثم سے روایت کیا ہے )

20/258 : جس شخص کی کمائی پاک ہو. ،اس کی نیت اور دل صاف ہو ، اس کے ظاہری اخلاق اچھے ہوں اورلوگ اس کی شرارتوں سے محفوظ رہتے ہوں ، اور اپنے مال میں سے جوبچتا ہے اس میں سے خرچ کرتا ہو ، زبانی خرچ زیادہ نہ کرتا ہو تو اس کے لئے جنت میں ایک اتنا بڑا درخت ملے گا جس کے سایہ میں کوئی سوار سو سال تک بھی سفر کرے گا تب بھی اس کا سایہ ختم نہیں ہوگا ، جیسا کہ نصیح العنبسی کی رکب المصری رضی اللہ عنھما سے روایت کردہ حدیث میں آتا ہے. ،کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اس شخص کے لئے اچھائی ہے ، ( خیر ہے ، خوشخبری ہے ، یا جنت کا وہ درخت ہے جس کے سایہ میں ایک سوار سو سال تک سفر کرے گا پھر بھی اس کے سایہ کو پار نہ کرسکے گا ) کہ جس کی کمائی اچھی ہو ، اس کی اندرونی کیفیت ( نیت وغیرہ ) صاف ہو ، اس کی ظاہری چیزیں اچھی ہوں ، اور وہ لوگوں کو شر نہ پہونچاتا ہو ، اور اس شخص کے لئے طوبی ( خوشخبری ، اچھائی ، یا جنت کا درخت ہے ) جو اپنے علم کے ذریعہ عمل کرتا ہو ، اپنے بچے ہوئے مال کو خرچ کرتا ہو ، اور بیکار باتوں ( جمع خرچ ) سے بچا رہتا ہو “. ( طبرانی )

21/259 : جوشخص ایک لقمہ بھی حرام کمائی کا اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے اس کی چالیس دنوں کی عبادت قبول نہیں ہوگی ، اور جس شخص کا گوشت حرام کمائی یا رشوت کے مال سے پلتا ہے ، ایسے شخص کے لئے اس کمائی سے بہتر جہنم کی آگ ہے ، جیسا کہ مندجہ ذیل حدیثیں ہمیں بتاتی ہیں .

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے کہ یہ “یا أیھا الناس کلوا مما فی الارض حلالا طیبا “. اے لوگو! زمین میں جو حلال پاک چیزیں ہیں انھیں کھاؤ . کی تلاوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کی گئی ، تو سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ سے دعافرمائیے کہ وہ مجھے ” مستجاب الدعوہ ” بنائیے ، آپ نے فرمایا! ” اے سعد! اپنےکھانے کے سامان کو پاک رکھ ،( یعنی مال حلال کی کمائی کر ) تم مستجاب الدعوہ ہوجاؤ گے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ” ایک بندہ اپنے پیٹ میں حرام کا ایک لقمہ ڈالتا ہے تو اس کے چالیس دنوں کے عمل کو قبول نہیں کیا جاتا ہے ” اور جب بھی کسی بندہ کے گوشت کی مال حرام سے پرورش ہوتی ہے تو اس کے مقابلہ میں ( جہنم کی ) آگ بہتر ہے “. ( طبرانی نے صغیر میں روایت کیا ہے )

22/260 : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا! ” جس شخص نے دس درہم سے کوئی کپڑا خریدا ، اور اس میں ایک درہم بھی حرام کا رہا ہو ، تو جب تک وہ شخص وہ کپڑا پہنتا رہے گا تب تک اللہ عزوجل اس کی نمازیں قبول نہیں کرےگا ، پھر انھوں نے اپنے کانوں کے سوراخوں میں اپنی دونوں انگلیاں ڈالیں اور فرمایا! یہ دونوں بہرے ہوجائیں اگر میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہو “. ( یہ اثر ہے ) . ( احمد )

پانچویں قسط

ایک شخص کا رزق اس کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی لکھ دیا جاتا ہے ، مرنے سے پہلے ہر حال میں اس کو مل کر ہی رہے گا ، اس بات کو اپنی گرہ میں باندھ کر رکھتے ہوئے اسے ہر حال میں حلال ہی رزق کو طلب کرنا ضروری ہے ، بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ ان باتوں کا خیال نہیں رکھتے ہیں اور مال دار ہونے کی تمنا انھیں ہر حال میں دولت جمانے پر اکساتے رہتی ہے ، اور ایک اچھا خاصا دین دار شخص بھی دولت کمانے کی چکر میں حلال وحرام کی کسوٹئ تمیز کو کھو بیٹھتا ہے اور تھوڑی سی حصولِ دنیا کے لیے اپنی عاقبت خراب کر لیتا ہے ، اس تقدیرِ رزق کو بھول جاتا ہے جو اس کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے ، اور ساتھ ساتھ اس بات کو بھی کہ جتنا رزق اس کے پیٹ میں جانے والا ہے وہ جاکر ہی رہے گا ” لا تبدیل لکلمات الله ” آخر میں کروڑوں کا مال دنیا میں چھوڑ کر مسکین کی حالت میں سفرِ آخرت کی طرف روانہ ہوجاتا ہے ، درجِ ذیل احادیث شریفہ اسی مفہوم کو بیان کر رہی ہیں .

23/261 : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” لَاتَسْتَبْطِئُوا الرِّزْقَ ، فَاِنَّهُ لَمْ يَكُنْ عَبْدٌ لِيَمُوْتَ حَتَّى يَبْلُغَ آخِرَ رِزْقٍ هُوَلَهُ ، فَاَجْمِلُوا فِى الطَّلَبِ اَخْذِالْحَلَالِ وَتَرْكِ الْحَرَامِ “. رزق کو طلب کرنے کے سلسلہ میں جلدی نہ کرو ، ( یعنی رزقِ حلال کا کسی طریقہ سے دیر سے حاصل ہونے کی وجہ سے مایوس نہ ہوں ، کیونکہ ہر چیز قضاوقدر سے ہوتی ہے ) اس لئے کہ کوئی بندہ اس وقت تک نہیں مر پائے گا جب تک کہ اس کا آخری رزق اس کو حاصل نہ ہو ،
سو تم حلال کو اخذ کرنے اور حرام کو ترک کرنے کے سلسلہ میں خوبصورتی سے ( اللہ تعالی سے رزق ) طلب کرو . ( یعنی طلبِ رزق میں زیادہ مبالغہ آرائی سے کام نہ لو اور نہ ہی رزق سے مایوس ہوں اس لیے کہ ہر انسان کا رزق تقسیم شدہ ہے ) . { اس حدیث کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، اور حاکم نے ، اور کہا صحیحین کی شرط پر یہ حدیث صحیح ہے } ۔

24/262 : حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت کی گئی ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” لوگو! اللہ سے ڈرو ، اور طلب کرنے کے سلسلہ میں خوبصورتی کو اختیار کرو ، اس لئے کہ کوئی انسان ہرگز اس وقت تک نہیں مرے گا جبتک کہ وہ اپنا پورا رزق حاصل نہ کرے ، خواہ وہ دیر سے اسے حاصل ہو ، پس تم اللہ ( عزوجل ) سے ڈرو ، اور طلبِ ( رزق ) میں خوبصورتی اختیار کرو ، جو حلال ہے اس کو لو ، اور جو حرام ہے اس کو چھوڑو. ( ابن ماجہ ، الفاظ انہی کے ہیں ، حاکم ، اور کہا کہ یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے )

25/266 : حضرت ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” طلبِ دنیا کے سلسلہ میں خوبصورتی اختیار کرو ، اس لئے کہ ہر ایک کے لئے وہی میسر ہوگا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے “. ( حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ، اور الفاظ انہی کے ہیں ، اور ابوشیخ ابن حبان نے ” کتاب الثواب ” میں ، اور حاکم نے ، اِلَّا یہ کہ ان دونوں نے ( مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ کہ ہر ایک کے لئے وہی میسر ہوگا جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے ، کی جگہ میں ) میسر لما کُتِبَ لَهُ مِنْهَا کہ ہر ایک کے لئے وہی میسر ہوگا جو اس کے لئے لکھ دیا گیا ہے ” کہا ہے ، حاکم نے کہا کہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے )

26/267 : حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” کوئی عمل ( تمھیں ) جنت سے قریب نہیں کرسکتا مگر وہی جس کا میں نے تمہیں حکم دیا ہے ، اور نہ ہی کوئی عمل آگ ( جہنم ) سے قریب کرے گا مگر یہ کہ جس سے میں نے تمھیں روکا ہے ، ( یعنی جس سے میں نے تمھیں روکا ہے اگر تم اس سے رکے رہو گے تو مجال ہے کہ جہنم کی آگ تمہارے قریب پھٹکے بھی؟ ) تم میں سے کوئی اپنے رزق کو آہستہ سے حاصل شدہ نہ سمجھے ، یقینا جبرئیل ( امین ) نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی ہے کہ تم میں سے کوئی دنیا سے اس وقت تک نہیں نکلے گا جب تک کہ وہ اپنا مکمل رزق حاصل نہ کرے ، لوگو! اللہ سے ڈرو ، اور مانگنے میں خوبصورتی کو اختیار کرو ، پس اگر تم میں سے کسی کو اس کا رزق دیر سے حاصل ہوتا ہوا لگے تو وہ اس ( رزق ) کو اللہ کے گناہ کے ذریعہ طلب نہ کرے ، اس لئے کہ اس کا فضل اس کا گناہ کرنے سے نہیں حاصل ہوتا “. ( حاکم )

27/268 : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اے لوگو!بےنیازی ( مال و متاع کے ذریعہ کسی سے بے نیاز ہونا ) کثرتِ عَرَضْ ( دنیا کے کثیر مال و متاع) سے نہیں ، لیکن غِنَى ( بے نیازی ) تو نفس کی بے نیازی سے ہے ، اور بلاشبہ اللہ عزوجل اپنے بندہ کو اس کے لیے لکھا ہوا رزق ( ضرور ) عطا کرے گا ، سو تم مانگنے میں خوبصورتی اختیار کرو ، جو حلال ہے اس کو اخذ کرو ، اور جوحرام ہے ، اس کو چھوڑو “. ( ابویعلی ، ان شاء اللہ اس کی سند حسن ہے )

28/269 : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ، لوگوں کو بلایا ، اور فرمایا! میرے پاس آؤ ، صحابہ کرام آپ کے قریب آکر بیٹھ گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” یہ ربُّ العالمین کے رسول جبرئیل علیہ السلام ہیں ، انھوں نے میرے دل میں پھونکا کہ کوئی نفس اس وقت تک نہیں مرے گا حتی کہ وہ اپنا رزق مکمل طور سے حاصل نہ کرے ، اگر چہ کہ وہ رزق اس کو دیر سے حاصل ہو ، پس تم اللہ سے ڈرو ، اور طلب کرنے کے سلسلہ میں خوبصورتی کو اپناؤ ، رزق کا دیر سے ملنا کہیں تمھیں اللہ کا گناہ کرنے کی طرف نہ ابھارے ، اس لئے کہ اللہ کے پاس والا ( یعنی پاس والی نعمتیں ) تو اس کی اطاعت کرنے کے ذریعہ ہی حاصل کیا جاتا ہے “. ( اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے ، اور اس کے رُوات ثقات ہیں ، سوائے قدامہ بن زائدہ بن قدامہ کے ، کہ میرے ( امام حافظ زکی الدین عبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری ) پاس ان کے تعلق سے کوئی جِرَح آئی ہے اور نہ تعدیل ) .

چھٹی قسط

حلال روزی اور کمائی فرض ہے ، اس سے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے ، دور حاضر میں آدمی کو طرح طرح سے رزق حلال کے سلسلہ میں آزمایا جاسکتا ہے ، اس لئے کہ یہ وہ دور ہے جس میں حلال کمائی کرنا ایک جہاد سے کم نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے دور کی خبر ہمیں تقریبا ساڑھے چودہ سو سال پہلے دی ہے ، کہ جس میں آدمی صرف کمائی اور مالدار بننے کی کوشش کرے گا ، یہ دیکھے بغیر کہ اس کی کمائی حلال کی ہے یا حرام کی ، جیسا کہ

29/270 : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” يَاءْتِيْ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَايُبَالِيْ الْمَرْءُ مَا اَخَذَ ، اَمِنَ الْحَلَالِ اَمْ مِنَ الْحَرَامِ “. لوگوں پر ( قیامت کے قریب آخری زمانہ میں ) ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی اپنی حاصل کی ہوئی چیز میں اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ ایا یہ حلال طریقہ سے حاصل شدہ ہے کہ حرام طریقہ سے . ( بخاری ، نسائی )

رزین نے اس حدیث میں ان الفاظ کی زیادتی کی ہے ” فَاِذْ ذَالِكَ لَاتُجَابُ لَهُمْ دَعْوَةٌ ” جب یہ زمانہ آئے گا تو ان کی دعا قبول نہیں ہوگی . ( رزین )

30/271 : حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جس نے پاک ( کھانا ) کھایا ، اور سنت پر عمل کیا ، اور لوگ اس کی شرارتوں سے محفوظ رہے ، تو وہ جنت میں داخل ہوگا ” ، صحابہ کرام نے عرض کیا! یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ آج ( اس دور میں ) زیادہ ہے ؟ فرمایا! ” عنقریب یہ میرے بعد والی صدیوں میں ہوگا “. ( ترمذی ، اور کہا کہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ، حاکم ، اور کہا کہ صحیح الاسناد ہے )

31/272 : اپنے رشتہ داروں کو مال حرام کھلانے اور صدقہ کرنے سے وہ قبول نہیں ہوگا ، اور نہ ہی اس پر ثواب ملیں گے. ،بلکہ اس کے الٹ اس پر وبال ہوگا ، جیسا کہ درجِ ذیل احادیث اس پر دال ہیں ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا! ” جس نے چوری کئے ہوئے مال کو یہ جانتے ہوئے خریدا کہ یہ چوری کا مال ہے تو وہ اس کے عیب اور گناہ میں شامل ہوا “. ( بیہقی ، اس حدیث کی اسناد میں تحسین کا احتمال ہے ، اور اس بات کا شبہ ہے کہ وہ موقوف ہو ) ، ( ایسے میں الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ ہوکر ابو ہریرہ کے ہوں گے )

32/273 : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جب تم نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی تو تم نے اپنے ذمہ پر رہنے والی چیز کو ادا کیا ، اور جس نے مالِ حرام کو جمع کیا ، پھر اس کو صدقہ کیا ، تو اس کے لیے اس میں کسی قسم کا کوئی اجر نہیں ملے گا ، اور اس کا وبال ( عقاب ) اس پر ہوگا “. ( ابن خزیمہ اور ابن حبان دونوں نے اس حدیث کو اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، اور حاکم نے ، سبھوں نے دراج کی روایت سے ، انھوں نے ابن حجیرہ سے )

33/274 : اس حدیث کو طبرانی نے حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں کہ ” جس نے حرام مال کی کمائی کی ، اس سے اس نے کسی ( غلام یا باندی ) کو آزاد کیا ، اور اس سے رشتہ داروں پر احسان کیا ، تو وہ اس پر ایک عقاب ہوگا “. ( طبرانی )

35/275 : حضرت قاسم بن مُخَيْرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جس شخص نے حرام طریقہ سے مال کمایا ، اس کے ذریعہ اس نے اپنے رشتہ داروں کو جوڑے رکھا ، یا اس ( مال ) کو اللہ کے راستہ میں خرچ کیا ، تو اس تمام مال کو جمع کرکے اس کو جہنم میں پھینکا جائے گا “. ( ابوداؤد نے اس حدیث کو مراسیل میں روایت کیا ہے )

36/276 : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” بیشک اللہ ( تعالیٰ ) نے تمہارے درمیان تمہارے اخلاق کو تقسیم کیا جیسا اس نے تمہارے درمیان تمہارے ارزاق کو تقسیم کیا ، بلاشبہ اللہ دنیا اس شخص کو دیتا ہے جو چاہتا ہے ، اور اس شخص کو ( بھی ) جو نہیں چاہتا ہے ، اور دین تو وہ اسی شخص کو دیتا ہے جو چاہتا ہے ، سو اللہ جس کو دین عطا کرتا ہے اس سے محبت کرتا ہے ، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوسکتا ، یا محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائے ، یا اس کا دل اور زبان محفوظ نہ ہوں ، اور وہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کی بوائق سے محفوظ نہ ہو ” صحابہ نے پوچھا! بوائق کیا ہیں ؟فرمایا! ” اس کا بے انتہا ظلم وزبردستی کرنا ، کوئی بندہ مال حرام کما کر صدقہ کرنے پر اس کا صدقہ قبول نہیں کیا جائے گا ، اور اس میں سے خرچ کرنے پر اس میں برکت نہیں ہوگی ، اور اپنے پیچھے چھوڑنے پر وہ اس کی آگ ( جہنم ) کو بڑھاتے رہے گا ، بیشک اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ، ( یعنی کسی آدمی کا مال حرام سے صدقہ کرنے ، احسان کرنے اور اچھے کاموں میں خرچ کرنے پر اس کے گناہ نہیں مٹیں گے ، کیونکہ برائی ، برائی سے نہیں مٹتی ہے ، وہ تو بھلائی سے مٹتی ہے ) لیکن برائی تو اچھائی سے مٹتی ہے ، بلاشبہ برائی ، برائی کو نہیں مٹاتی “. ( بلکہ وہ تو اس میں اور زیادتی کرتی ہے ) . ( احمد وغیرہ نے ابان بن اسحاق کے طریقہ سے ، انھوں نے صباح بن محمد سے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، بعضوں نے اس حدیث کی اسناد کو حسن قرار دیا ہے ، واللہ اعلم )

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here