حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے لقب غسیل الملائکہ کی وجہ تسمیہ

0
3548

ایک نوجوان صحابی حضرت حنظلہ بن ابو عامر رضی اللہ عنہ شادی کی پہلی رات اپنی بیوی کے ساتھ حجلۂ عروسی میں تھے کہ کسی پکارنے والے نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر جہاد کے لئے پکارا۔ وہ صحابی اپنے بستر سے اُٹھے۔ دلہن نے کہا کہ آج رات ٹھہرجاؤ، صبح جہاد پر روانہ ہو جانا۔ مگر وہ صحابی جو صہبائے عشق سے مخمور تھے، کہنے لگے : اے میری رفیقۂ حیات! مجھے جانے سے کیوں روک رہی ہو؟ اگر جہاد سے صحیح سلامت واپس لوٹ آیا تو زندگی کے دن اکٹھے گزار لیں گے ورنہ کل قیامت کے دن ملاقات ہوگی۔

اس صحابی رضی اللہ عنہ کے اندر عقل و عشق کے مابین مکالمہ ہوا ہوگا۔ عقل کہتی ہوگی : ابھی اتنی جلدی کیا ہے؟ جنگ تو کل ہوگی، ابھی تو محض اعلان ہی ہوا ہے۔ شبِ عروسی میں اپنی دلہن کو مایوس کر کے مت جا۔ مگر عشق کہتا ہوگا : دیکھ! محبوب کی طرف سے پیغام آیا ہے، جس میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی روا نہیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ اسی جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ اللہ رب العزت کے فرشتوں نے انہیں غسل دیا اور وہ ’غسیل الملائکہ‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ جب جنگ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملائکہ کو انہیں غسل دیتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مخاطب ہوئے:إنّ صاحبکم لتُغَسّله الملائکة يعني حنظلة، فسألوا أهله : ماشأنه؟ فسئلت صاحبته فقالت : خرج و هو جنب حين سمع الهائعة، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لذالک غسلته الملائکة، وکفي بهذا شرفاً و منزلة عنداﷲ تعالٰي.

ترجمہ:تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتوں نے غسل دیا ان کے اہلِ خانہ سے پوچھو کہ ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے فرشتے اسے غسل دے رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ جنگ کی پکار پر حالتِ جنابت میں گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے اسے غسل دیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے مقام و مرتبے کے لئے یہی کافی ہے۔(ابن اثير، اسد الغابة، 2 : 286)(حاکم، المستدرک، 3 : 225، رقم : 34917

ابن حبان، الصحيح، 15 : 495، رقم : 47025)(بيهقي، السنن الکبري، 4 : 15، رقم : 56605

ابن اسحاق، سيرة، 3 : 6312)(ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 723)(ابن کثير، البدايه والنهايه(السيرة)، 4 : 821)(حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 9525)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 1069)(ابو نعيم، دلائل النبوة، 1 : 11110)(ابو نعيم، حلية الاولياء، 1 : 357)

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here