انسانی زندگی میں پرہیزگاری اور عفت وپاکدامنی کی اہمیت وفضیلت

0
478

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آبادی ، بھٹکلی ، امام و خطیب جامع البر والتقویٰ ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات . 

پہلی قسط

الحمد لله رب العالمین ، والصلوة والسلام علی رسوله الکریم الامین ، وعلی آله وصحبه أجمعین ، وتابعیھم الی یوم الدین .

حلال وحرام چیزیں واضح ہیں ، لیکن ان میں ہزاروں لاکھوں ایسی چیزیں ہیں جن کے اندر شک وشبہ رہتا ہے کہ اَیا یہ چیزیں حلال ہیں کہ حرام ، ان کو بہت سارے لوگ نہیں جانتے ، ایسی چیزوں سے شریعت نے پرہیزگاری اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، کیونکہ ایسی چیزوں سے احتراز نہ کرنے کی وجہ سے بعض اوقات لوگ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشتبہ چیزوں سے دور نہ رہنے والوں کو حرام میں واقع ہونے کا خوف ظاہر کیا ہے ، اللہ عزوجل اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر چلنا اور ان کے قائم کردہ حدود پر ٹہرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اور یہ اسلام کا شعار ہے ، اسی موضوع پر احادیث ملاحظہ فرمائیں .

(273)1 : عن النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما قال! سَمِعْتُ رَسولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم یقول! ” اَلْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ ، وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَايَعْلَمُهُنَّ كَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ ، فَمَنْ اِتَّقَى الشُّبُهَاتِ اِسْتَبْرَاَ لِدِيْنِهِ وَعِرْضِهِ ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِيْ الْحَرَامِ ، كَالرَّاعِيْ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَىٰ يُوْشِكُ اَنْ يَرْتَعَ فِيهِ ، اَلَا وَاِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى ، اَلَا وَاِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ ، اَلَا وَاِنَّ فِيْ الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، وَاِذَافَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، اَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ “. حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، انھوں نے کہا! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا ” حلال واضح ہے اور حرام ( بھی ) واضح. ،اور ان کے درمیان بہت ساری چیزیں شک پیدا کرنے والی ہیں جن کو بیشتر لوگ نہیں جانتے ، پس جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے پرہیزگاری اختیار کی تو وہ اپنے دین اور آبرو سے برئ ( الذمہ) ہوا ، اور جو شخص شبہات ( شک وشبہ والی چیزوں ) میں پڑ ( گر ) جائے تو وہ حرام ( چیزوں ) میں پڑجاتا ہے ، اس چرنے والے ( چوپائے ) کی طرح جو باڑ کے اطراف چرتا ہے قریب ہے کہ وہ اس میں گر پڑے ، سنو! ہر بادشاہ کے لئے ایک باڑ ہے ، سنو! اللہ کی باڑ اس کے محارم ہیں ، سنو! اور جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ( لوتھڑا ) ہےجب وہ درست رہتا ہے تو سارا جسم درست رہتا ہے ، اور جب وہ بگڑ ( خراب ہو ) جاتا ہے تو سارا جسم خراب ہو ( بگڑ جا ) تا ہے ، سنو! اور یہ دل ہے “. ( بخاری ، مسلم ، ترمذی ) ترمذی کے الفاظ یہ ہیں ” حلال واضح ہے اور حرام واضح ، اور اس کے درمیان بہت سارے ایسے امور ہیں جنہیں بیشتر لوگ نہیں جانتے اَیا یہ حلال میں سے ہیں یا حرام میں سے ؟سو جس نے ان کو ترک کیا تو وہ اپنے دین اور آبرو سے بری ہوا اور محفوظ ہوا ( رہا ) اور جو شخص ان میں سے کسی میں واقع ہوا ( گر پڑا ) قریب ہے کہ وہ حرام میں گر پڑے اس چوپائے کی طرح جو باڑ کے اطراف ( واکناف ) میں چرتا ہے قریب ہے کہ وہ اس میں گر پڑے ، سنو! اور ہر بادشاہ کے لئے ایک باڑ ہے اور اللہ کی باڑ اس کے محارم ہیں”. ( ترمذی ، ابن ماجہ ، اور ابوداؤد نے اختصار کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا ہے ) .

دوسری قسط

پہلی قسط میں آپ حضرات کے سامنے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ ” بخاری ومسلم ” کی حدیث شریف آئی تھی ، حدیث کے الفاظ ہم نے ” امام حافظ زکی الدین عبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری رحمہ اللہ ” کی تالیف ” الترغیب والترھیب ” سے لیے ہیں ، جو ہوبہو امام نووی کی ” ریاض الصالحین ” اور محدث محمد بن عبداللہ الخطیب تبریزی ” رحمھما اللہ کی ” مشکاةالمصابیح ” وغیرھما کے الفاظ ہیں ،

اب ذیل میں اسی مفہوم کی آئی ہوئی احادیث آئیں گی ، ہم ہر قسط کی پہلی حدیث کے الفاظ کو عربی اور اردو دونوں الفاظ میں پیش کرتے ہیں ، تاکہ ثواب حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ عربی الفاظ حدیث کی برکت بھی حاصل ہو ، اسکے بعد صرف احادیث کا ترجمہ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اَلْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ ، وَبَيْنَهُمَا اُمُوْرٌ مُشْتَبِهَةٌ ، فَمَنْ تَرَكَ مَاشُبِّهَ عَلَيْهِ مِنْ الْاِثْمِ كَانَ لِمَا اِسْتَبَانَ اَتْرَكَ ، وَمَنْ اِجْتَرَاَ عَلَى مَايَشُكُّ فِيْهِ مِنَ الْاِثْمِ اَوْشَكَ اَنْ يُّوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ ، وَالْمَعَاصِيْ حِمَى اللَّهِ ، وَمَنْ يَرْتَعَ حَوْلَ الْحِمَىٰ يُوْشِكْ اَنْ يُّوَقِعه “. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! حلال واضح ہے اور حرام واضح ،( ہے ) اور ان دونوں کے درمیان بہت سارے شک وشبہ والے امور ( شک وشبہ پیدا کرنے والی چیزیں ) ہیں ، پس جس شخص نے ایسی چیز کو چھوڑ دیا جس میں گناہ کا شبہ ہے تو وہ ( اس چیز کو جس میں گناہ ظاہر ہے ) واضح ( گناہ والی ) چیز کو پوری طرح سے چھوڑ دیگا ، اور جو شخص ایسی چیز کے مرتکب ہونے کی جرأت کرے جس میں گناہ ہے تو اندازہ ہے کہ وہ ظاہری ( گناہ والی ) چیز میں واقع ہوجائے ، اور گناہ اللہ کی باڑ ( حدود ) ہیں ، اور جو جانور ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انسان کو جو شک وشبہ والی چیزوں سے دور نہیں رہتا اور آخر میں اس میں ملوث ہوجاتا ہے ایک چوپائے سے تشبیہ دی ہے ) باڑ کے چو طرف چرے تو اسکا اس ( باڑ ) کے اندر گرنے کا ( پوری طرح ) اندازہ ہے . { بخاری ، نسائی }

275/3 : ایک اور حدیث میں جس کو ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” یقیناً حلال واضح ہے اور حرام ( بھی ) واضح ، اور ان دونوں کے درمیان بہت سارے شبہ والے امور ( چیزیں ) ہیں ، ابھی میں تمہیں اسکی ایک مثال دیتا ہوں ، اللہ نے ایک باڑ لگائی ، اور اللہ کی باڑ وہ چیزیں ہیں جو اس نے حرام ٹہرائی ہیں ، اور جو شخص باڑ ( اللہ کی حرام کردہ چیزوں ) کے اطراف چرنے لگے گا تو یقیناً اسکا اسمیں مل جانے کا ( پورا ) اندیشہ ہے ، بیشک جو شخص شک میں مل جاتا ( خلط ملط ) ہوتا ہے تو اسکا نقصان اٹھانا قریب ہے “. ( اس کا خسارے میں پڑنا طے ہے ) . { ابوداؤد ، نسائی }

276/4 : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” حلال واضح ہے اور حرام واضح ، اور اس ( ان ) کے درمیان بہت سی ( شک و ) شبہ والی اشیاء ہیں ، جو شخص اس کے اندر گِر پڑتا ہے تو سزاوار ہے کہ وہ گنہگار ہوجائے ، اور جو شخص اس سے اجتناب ( پر ہیزکرتا ہے ، دور رہتا ہے ، احتیاط ) کرتا ہے تو وہ اپنے دین کا پورا پابند ہے ، ( پورے طریقہ سے دیندار ہے ) اس چرنے والے کی طرح جو کسی باڑ کے پہلو میں چَرائی کرتا ہے ، اور اللہ کی باڑ ( کو پھاندنا ) حرام ہے . { طبرانی }

تیسری قسط

ایک آدمی حلال کماتا اور کھاتا ہے اور جس قدر ممکن ہو شک وشبہ پیدا کرنے والی اشیاء سے دور رہنے کی کوشش کرتے رہتا ہے تو اس کے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری آتی جاتی ہے یہی وہ چیز ہے جو شریعت ہم سے چاہتی ہے .

اس کے برخلاف اگر کوئی شخص حلال وحرام میں تمیز نہیں کرتا ، مال ودولت ہی اس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے تو ایسے شخص کے پیٹ میں مالِ حرام کا جانا بعید نہیں ، اور جب اس کے پیٹ میں حرام چیزیں جانے لگتی ہیں تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں ، ایسے شخص کے تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے مالِ حرام کے کھانے پینے ( اور اس کا جسم اس سے بڑھنے ) سے اس کے لیے آگ بہتر ہے ، چند احادیث درج ذیل ہیں :

277/5 : عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال! ” يَاتِيْ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِيْ الْمَرْءُ مَا اَخَذَ ، اَمِنَ الْحَلَالِ اَمْ مِنَ الْحَرَامِ “. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی اپنی لی ہوئی چیز کے تعلق سے پرواہ نہیں کرے گا ( جو کہ قریب قیامت ہوگا ) اَیا اس نے وہ حلال ( طریقہ ) سے لیا ہے یا حرام ( طریقہ ) سے . {بخاری ، نسائی } . رزین نے یہ ” فَاِذْ ذَالِكَ لَا تُجَابُ لَهُمْ دَعْوَةٌ ” پس اس وقت ان کی دعا نہیں قبول کی جائے گی . کے الفاظ اس حدیث میں زیادہ کیے ہیں . اور ایسے شخص کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ شخص جنت میں ہی نہیں جائے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ہیں ” اے کعب بن عجرہ وہ گوشت ( شخص ) بہشت میں داخل نہیں ہوگا جو ( مالِ ) حرام سے بڑھا ( پَلا ) ہو “. حدیث کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے .

پرہیزگاری اور تقویٰ میں سینہ کے اندر رہنے والی ایسی چیزوں سے بھی دور رہنے کی کوشش کرنا ضروری ہے جن کا لوگوں کے سامنے ظاہر ہونا آپ نہیں چاہتے ، جیسا کہ نیچے آنے والی حدیث ہمیں بتاتی ہے :

278/6 : حضرت نَوَّاس بن سمعان رضی اللہ عنہ نے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” نیکی اچھے اخلاق سے پیش آناہے ، گناہ وہ ہے جو تیرے سینہ میں کھرچ رہا ہوتا ہے ( جو تجھے کچوکے لگا رہا ہوتا ہے ، جو تجھے پس وپیش میں ڈالا ہوا ہوتا ہے ) اور لوگوں کا اس پر مطلع ہونا ( تیرے دل کے اندر والی بات کا لوگوں پر ظاہر ہونے کو ) تو ناپسند کرتا ہے “. { مسلم }

279/7 : حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، کہتے ہیں! میں نے کہا! یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے وہ چیزیں بتا دیجئے گا جو میرے لیے حلال ہوتی ہیں اور مجھ پر حرام ( ہوتی ہیں ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” نیکی وہ ہے جس کی طرف تیرا نفس پرسکون ہو اور جس کی طرف تیرا دل مطمئن ہو ، اور گناہ وہ ہے جس کی طرف تیرا نفس پُرسکون ہو اور نہ ہی دل اس کی طرف مطمئن ہو ، اگر چہ کہ فتنہ پیدا کرنے والے تجھے آزمائش میں ڈالیں “. { حدیث کو امام احمد نے جید اسناد سے روایت کیا ہے }

چوتھی قسط

ایک آدمی حلال کمانے اور حلال رزق کھانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے تو اس کے اندر رفتہ رفتہ اللہ عزوجل کا خوف اور پرہیزگاری گھر کرنے لگتی ہے ، اور وہ ایک اچھا انسان بنتا ہے ، جب شکوک و شبہات والی چیزوں سے وہ دور رہنے لگتا ہے تو اس کے اخلاق بھی بہتر ہوتے ہیں ، اسی ضمن میں چند اور احادیث پیش خدمت ہیں:

280/8 : حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھما سے منقول ہے ، کہتے ہیں کہ حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللَّه صلي اللہ علیہ وسلم ” دَعْ مَا يَرِيْبُكَ اِلَى مَالَا يَرِيْبُكَ “. تجھے شک پیدا کرنے والی چیزوں کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی طرف جانا چاہئے جن میں تجھے کسی قسم کا شک نہ ہو ۔ { ترمذی ، نسائی ، اور ابن حبان نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے }

281/9 : حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور ( وہیں ) میرا ارادہ ہوا کہ (موقع اچھا ہے ) میں نیکی اور برائی کی کوئی چیز نہ چھوڑوں مگر یہ کہ اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں ، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اے وابصہ قریب ہوجاؤ ” میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا قریب ہوا کہ میرے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( مبارک ) گھٹنوں سے چھونے لگے ، آپ نے مجھ سے فرمایا! ” وابصہ! جس بھی چیز کے تعلق سے تم پوچھنے آئے ہو وہ میں تمہیں بتاؤں گا ” میں نے عرض کیا! یارسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے بتائیگا ،” تم نیکی اور گناہ کے تعلق سے پوچھنے آئے ہو؟ ” میں نے کہا! جی ہاں! تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تین ( مبارک ) انگلیوں کو جمع کیا اور ان سے ( آہستہ آہستہ ) میرا سینہ ٹھونکنے لگے اور فرمانے لگے! ” اے وابصہ! تمہارے دل سے اچھی طرح سے فتوٰی پوچھو ( تمہارے دل سے مخاطب ہوکر پوچھو ) اور نیکی وہ ہے جس کی طرف تیرا نفس مطمئن ہو ، جس کی طرف تیرا دل مطمئن ہو ، ( یعنی جس کی طرف تمہارا نفس ، دل میں کسی خلش کے بغیر اور اس چیز کے لوگوں پر ظاہر ہونے کے خوف کے بغیر اس کی طرف مائل ہو ) اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں خلش ( تردد ) پیدا کرتا رہے ، اگر چہ کہ لوگ تمہیں فتویٰ دیں ، اور وہ تمہیں فتوے دیں “۔ { احمد نے اس حدیث کو اسناد حسن سے روایت کیا ہے }

راستہ پر اگر کوئی ایسی کھائی جانے والی چیز ہو جس کے نہ اٹھائے جانے پر وہ خراب ہو سکتی یا سڑ سکتی ہو تو اس کو اٹھا کر کھانا جائز ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے ایسی چیز کے اٹھانے کا عندیہ ملتا ہے ، ایک مرتبہ ایسا ہی ہوا کہ راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گری ہوئی ایک کھجور پائی ، آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو صرف اس خوف کی وجہ سے نہ اٹھایا کہ کہیں وہ صدقہ کا نہ ہو ، ( آپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر صدقہ حرام ہے ) جیسا کہ نیچے حدیث میں آتا ہے:

282/10 : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں ایک کھجور پایا تو فرمایا! ” اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ یہ صدقہ میں سے ہے تو البتہ میں اس کو کھالیتا ” ۔{ بخاری مسلم }

پانچویں قسط

پرہیزگاری کی اولین چیز حلال وحرام میں تمیز کر کے حرام چیزوں سے کوسوں دور رہنا اور شک وشبہ والی چیزوں سے پوری طرح احتیاط کرنا اور سینوں کے اندر پیدا ہونے والے تمام شیطانی وساوس کو اکھاڑ پھینکنا ہے . اسی سلسلہ کی چند اور احادیث درج ذیل ہیں :

283/11 : حضرت عَطِيَّہ بن عروہ سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” لَايَبْلُغُ الْعَبْدُ اَنْ يَكُوْنَ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ حَتَّى لَايَدَعَ مَا لَا بَاْسَ بِهِ حَذَرًا لِّمَابِهِ بَاْسٌ “. بندہ متقین کے درجہ تک اس وقت تک نہیں پہونچتا حتی کہ سختی ( یا فقر وفاقہ ، یا مشتبہ چیزوں ) اور حرج والی چیزوں سے بچنے کے لئے غیر حرج والی ( جس میں کوئی گناہ اور شبہ نہ ہو جیسی ) چیزوں کو ترک نہ کرے ۔ ( اس قسم کا سخت احتیاط اور مشتبہ چیزوں سے دور رہنے اور چھوڑ دینے پر ہی ایک آدمی متقی یعنی کماحقہ اللہ سے ڈرنے والا ہوجاتا ہے ) . { اس حدیث کو ترمذی نے روایت کرکے ” حدیث حسن ” کہا ہے ، اور ابن ماجہ اور حاکم نے ، اِنہوں نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے ۔
جیسا کہ سابقہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھما سے روایت کردہ صحیح حدیث میں واقعہ گزر گیا کہ “مشکوک جو بھی چیز ہو اس کو چھوڑا جائے ، اور جس میں کسی قسم کا شک نہ ہو ایسی چیزوں کو استعمال کیا جائے ، اور جیسا کہ متفق علیہ کی حضرت انس سے روایت کردہ کھجور والی حدیث میں گزر گیا اور جیسا کہ متقیوں کے سردار ، صحابہ کے سر کے تاج سیدنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ احتیاط : حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ” حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو ان کے لیے خراج ( غلہ کا مقررہ حصہ ) نکالا کرتا تھا ، اور ابوبکر اس کے خراج کو کھایا کرتے تھے ، سو غلام ایک دن آپ کے پاس کوئی چیز لیکر آیا وہ چیز ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) نے کھالی ، تب غلام نے آپ سے پوچھا! آپ جانتے ہیں کہ یہ کیا ( چیز ) ہے ؟ ابوبکر نے پوچھا! کیا ہے یہ ؟ کہنے لگا! میں زمانۂ جاہلیت میں ایک انسان کے لئے کَهَانَت (جو تشیت ، نجومی ، یا کسی چیز کی پیش گوئی کرنے والا ) کا کام کرتا تھا ، خیر سے میں کہانت کا کام اچھے طریقہ سے جانتا نہ تھا ، تاہم اس کو دھوکہ ضرور دیتا تھا ، سو اس کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے یہ چیز دی جو آپ نے ( ابھی ابھی ) کھائی ہے ، پھر ( کیا تھا ، حضرت ) ابوبکر نے ( منہ ) میں ہاتھ ڈالا اور قئ کر کے اپنے پیٹ کے اندر کی ہر چیز نکالی “. { بخاری }

یہ ہے تقویٰ اور پرہیزگاری ، کیا تقویٰ کی اس سے بہتر کوئی اور مثال ہوسکتی ہے ؟ اللہ جل مجدہ سے دعا کریں کہ اللہ عزوجل ہمیں حلال کمانے ، حلال کھانے اور حرام اور شک وشبہ والی چیزوں سے کوسوں دور رکھے .

چھٹی قسط اور آخری قسط

بات ہو رہی ہے پرہیز گاری کی ، اور اس کے لیے حرام وشبہات والی تمام چیزوں سے دور رہنا ضروری ہے ، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا وَرِع ( متقی ، پرہیزگار ) کون ہے؟ فرمایا! ” وہ شخص جو شبہات سے رک جاتا ہے “، ( ان کو پھلانگنے کی کوشش نہیں کرتا ) . { طبرانی نے واثلہ ابن اسقع سے نقل کیا ہے } اسی کے ضمن میں چند اور احادیث نیچے دی جارہی ہیں :

285/13 : حضرت امامہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے ، کہتے ہیں ، سَاَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم مَاالْاِثْمُ ؟ قَالَ! ” إِذَا حَاكَ فِيْ نَفْسِكَ شَيْءٌ فَدَعْهُ ” ، قال! فما الإيمان ؟ قال! ” إِذَا سَاءَتْكَ سَیِّئَتُكَ ، وَسَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ فَاَنْتَ مُؤْمِنٌ “. ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گناہ کیا ہے ، ( کونسی چیز گناہ والی ہے ؟ ) فرمایا! ” جب تیرے جی میں کوئی چیز کھٹکے ( یعنی کسی ایسی چیز کے تعلق سے اس کے حلال یا حرام ہونے میں جو مشتبہ ہو تیرا دل مضطرب اور بےچین ہو ) تو تو اس کو چھوڑ دے ” اس نے پوچھا! ایمان کیا ہے ؟فرمایا! ” جب تیری برائی تجھے بری لگے ، ( یعنی برائی کرنے میں تنگی وحرج محسوس ہوتا ہو اور اس کے کرنے پر ندامت بھی ہوتی ہو ) اور تیری اچھائیاں تجھے اچھی لگتی ہوں تو تو مؤمن ہے “. { امام احمد نے اس حدیث کو صحیح اسناد سے روایت کیا ہے }

286/14 : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے ، انھوں نے کہا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جس شخص کے اندر تین چیزیں ( خصلتیں ) موجود ہوں تو وہ ثواب کا مستحق ہوگا اور ( اس کا ) ایمان مکمل ہوگا ، (1) ایسے اخلاق کہ جسکے ساتھ وہ لوگوں کے درمیان زندگی گزارتا ہو ، (2) ایسی پرہیزگاری جو اس کو اللہ ( تعالی ) کے محارم ( حرام کردہ چیزوں ) سے روکتی ہو ، (3) اور ایسی بردباری جس کے ذریعہ وہ جاہل کی جہالت کو رد ( ٹالتا ہو ، دور ) کرتا ہو “۔ { بزار }

287/15 : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” سب سے افضل عبادت فقہ ( علوم شرعیہ حاصل ) حاصل کرنا ہے ، اور سب سے افضل دین ورع ہے “. { مذکورہ بالا تینوں حدیثوں کو طبرانی نے اپنی معاجیم میں روایت کیا ہے }

288/16 : حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! علم کی فضیلت عبادت ( کرنے ) کی فضیلت سے افضل ہے ، اور تمہارا بہترین دین تقویٰ ہے”. { طبرانی نے اوسط میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اور بزار نے بھی اسناد حسن سے }

289/17 : حضرت واثلہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے ، کہا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” پرہیزگار بن جاؤ ، تمام لوگوں میں تم سب سے زیادہ بندگی کرنے والے ہو جاؤ گے ،( اس لئے کہ ایسے میں تم اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عبادت اطمینان سے کر سکوگے ) قناعت کرنے والے ہو جاؤ ، تمام لوگوں میں سب سے زیادہ شکر گزار بندے بن جاؤ گے ، لوگوں کے لئے وہی اختیار کرو جو اپنے لئے اختیار کرتے ہو،مومن ہو جاؤ گے ، اس شخص کے ساتھ نیک برتاؤ کرو جوتمہارا پڑوسی ہے ، مسلمان بن جاؤگے ، اور کم ہنسا کرو ، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بناتا ہے “. { ابن ماجہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، اور بیہقی نے زہد کبیر میں ، اور یہ حدیث ترمذی کے پاس اسی طرح سے حسن کے طریقہ سے اور انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے ، لیکن حسن نے اُن ( ابوہریرہ ) سے نہیں سنا ہے }

290/18 : حضرت نُعَیم بن هَمَّارٍ غَطَفانی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” بہت ہی برا ہے وہ بندہ جو کرتا اور اتراتا ہے ، اور کبیر المتعال ( اللہ تبارک و تعالیٰ ) کو بھولتا ہے ، کیا ہی برا ہے وہ بندہ جو دین کے بدلہ دنیا میں کھو جاتا ہے ، کیا ہی برا ہے وہ بندہ جو شبہ والی چیزوں کے ذریعہ محارم کو حلال سمجھنے لگتا ہے ، ( یعنی متشابہات میں من مانی تاویلات کرکے حرمت ظاہر نہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے محارم کا مرتکب ہونے لگتا ہے ) کیا ہی برا ہے وہ بندہ جو ایسی خواہشات کا شکار ہوتا ہے جو اسے گمراہ کرتی ہیں ، کیا ہی برا ہے وہ بندہ جو ایسی چیزوں میں رغبت رکھتا ہے جو اس کو ذلیل کرتی ہیں “. { طبرانی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، اور ترمذی نے اس کو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا سے اس سے بھی طویل حدیث روایت کی ہے }

اللہ جل ذکرہ سے دعا کیجیے گا کہ رب العالمین ہم تمام کو حلال کمانے کھانے اور مشتبہ چیزوں سے کوسوں دور رہنے کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے ۔

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here