موجودہ دور میں صباحی وشبینہ مکاتب کی اہمیت وافادیت

0
1561

رشحات قلم : مولانا محمد زبیر ندوی شیروری

یہ ایک مُسَـلَّـمہ حقیقت ہے کہ ایک بہترین وپرسکون معاشرہ کی تعمیر حیات ، اولاد کی دینی تربیت ونشو ونما اور تعلیم کے بغیر ممکن ہی نہیں . اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس میں علمی واخلاقی اور تعمیر حیات کی مکمل آب پاشی اور سیرابی کا حل ممکن ہے ، لہٰذا جس طرح مال و زر کے تحفظ کے لیے ایک مخزن کی ضرورت والی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، بالکل اسی طرح علمی مخزن کے تحفظ کے لیے مدارس کے قیام سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا . جس کا ایک نمونہ ہمیں صفۂ نبوی سے ملتا ہے ، اسی لئے علماء کرام اپنی خدمات کے لیے ہمہ وقت کوشاں وسرگرداں رہتے ہیں اور جگہ جگہ دینی مدارس ومراکز کا جال بچھاتے رہتے ہیں تاکہ نسل نو کے مستقبل کو روشن وتابناک بنایا جاسکے اور وہ ملت کے لیے باعث خیر ثابت ہو ، ملت کی ترقی کے لیے دینی وعصری علوم کا حصول بےحد ضروری ہے ، مگر اس سے بڑھ کر انسان میں انسانیت وایمان کی روح پھونکنا اور بڑھتی آبادی کے جدید ٹیکنالوجی دور میں ہماری اولاد کے دامن کو ایمان سے بھرنا بھی از حد ضروری ہے .

دور حاضر پر بات کریں تو آج جابجا اسکول و کالجس نت نئی ٹکنالوجی کے ساتھ اپنے اپنے میدانوں میں سرگرم عمل ہیں اور صرف اسی پر اپنی توجہات مرکوز کر رہے ہیں جس سے ہماری نسلوں کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے ، البتہ ان سے اسلامی اسکول و کالجس مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان میں دینی و دنیوی دونوں طرح کا ماحول پایا جاتا ہے اس کے برعکس اسکولوں و کالجس میں نصاب و مضامین کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اغیار کی تعلیمات سے لبریز کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن سے نسل نو کے عقائد و ایمان پر ایک شدید ضرب پڑ رہی ہے ، ان ہی میں بعض ان اسکولوں وکالجوں کو بھی شمار کیا جا سکتا ہے جن میں برائے نام دین کے نصاب کو شامل کیا گیا ہے مگر حاصل کچھ نہیں ، ایسے میں اس سوال کا اٹھنا لابدی وضروری ہے کہ کیا ہماری نسل نو ان تعلیمات صحیح استفادہ کر پائے گی ؟ اور کیا کبھی ان ماں باپ کو جو خواب خرگوش میں ہیں ، کبھی اس بات کی توفیق ہوگی کہ وہ خود ہی چل کر اس کا جائزہ لیں گے کہ ان کے بچوں کو صبح صبح اسکولوں میں ایسا خلاف شرع ترانہ پڑھایا جا رہا یے جو ان کے ایمان کی بنیادوں پر کاری ضرب لگا رہا ہے؟ .

غور طلب بات ہے کہ ہماری نسل نو ایسے اسکولوں و کالجوں میں زیر تعلیم ہے جہاں اسلامی کتابوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ، جس کے سبب طلباء و طالبات کے اذہان میں مثبت افکار کا فقدان نظر آتا ہے ، اس طرف التفات کے لئے سالانہ چھٹیوں میں موقعہ تو ہوتا ہے لیکن اس راہ میں ٹوشن اور ڈھیر سارا ہوم ورک سد راہ بن جاتا ہے اگر یہی صورت حال رہی تو نسل نو کی بلوغت ، نوجوانی اور ازدواجی زندگی کا کیا حال ہوگا اور یہ والدین کے منصب میں پہنچ کر اپنی اولاد کی تربیت کس طرح دینی منہج پر کر پائے گی ؟ ، بلکہ الٹا اپنی ذات اور معاشرہ کے لئے ہی ایک بوجھ ثابت ہوگی جیسا کہ معاشرہ میں اس کی عکاسی وترجمانی ہو رہی ہے . پھر بھی اگر اس کے لیے الگ سے کوئی انتظام نہ کیا گیا تو مضر نتائج کے سوا ہمارے سامنے اور کیا بچے گا ؟ لہٰذا آپ ہی سوچ لیں کہ یہ نسل ایسے اسکولوں و کالجوں سے فراغت کے بعد کن کن خطرناک راہوں پر گامزن ہوسکتی ہے اور کتنے بڑے خسارہ کا باعث بن سکتی ہے ؟ اس وقت اس کا نہ کوئی پرسان حال ہوگا اور نہ ہی اس کے پاس زندگی کا کوئی منصوبہ اور نصب العین ، یہ فضولیات میں اپنے اوقات صرف کر رہی ہوگی اور رہن سہن میں اوروں کی مماثلت و مشابہت اختیار کر چکی ہوگی جس کے مسئول *کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیته* کے تحت خاص کر والدین اور دانشوران ہی ہوں گے .

قــارئـین کـرام! بچوں کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لیے لازمی ہے کہ بنیاد ہی سے ان کی ذہنی فضاء کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور مکاتب کی تعلیم سے انھیں مربوط رکھا جائے تاکہ کفرستان میں بھی ان کا ایمان باقی رہ سکے ، اس کے بالعکس کہیں ایسا نہ ہو کہ ایمانستان میں بھی ان کے ایمان کے بقا کی کوئی گیارنٹی نہ ہو ،

آج ہماری بچیاں مرتد ہوکر کھلے عام گھوم رہی ہیں جن کا نہ کوئی پرسان حال ہے اور نہ ہی انہیں کوئی ٹوکنے والا ، یہ حالات اس وجہ سے پیش آرہے ہیں کہ ہم نے بچوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا اور شبینہ وصباحی مکاتب کو کوئی اہمیت نہیں دی ، اسی طرح ہم اپنے معاشرہ میں پلنے والی نسل کے رہن سہن اور لباس وحلیہ کو دیکھیں تو ان میں مکمل غیروں کی مشابہت ملے گی ، اسی طرح اور بھی بہت سی باتیں ہیں جنھیں بیان کرنا طوالت کے سبب مناسب نہیں معلوم ہوتا .

اگر ملکِ ہندوستان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آئے دن نت نئی چیزیں وقوع پذیر ہورہی ہیں اور دن بدن حالات اپنا نیا رخ لے رہے ہیں ، روز افزوں مسلمانوں کے خلاف سازشیں اور پروپیگنڈے رچے جا رہے ہیں . ہر چہار سو زہریلی ہوائیں ، نئی نئی پالیسیاں اور خفیہ تحریکیں چلائی جا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ نئی نئی تعلیمی پالیسیاں بھی پاس کی جا رہی ہیں جو مسلمانوں سے دشمنی و عداوت ہی کا ایک واضح مظہر ہے ، اسکول و کالج کے سبجیکٹ مضامین سے ممکن ہے کہ دنیوی اعتبار سے استفادہ ہو مگر وہ دینی اعتبار سے مسلمانوں کی نئی نسل کے حق میں انتہائی خسران کا باعث اور مہلکِ دین و ایمان ہے ، جس کی بنیاد سراسر عقیدۂ توحید کے خلاف اور تعلیماتِ اسلامی کے بالکل برعکس ہے اور اس کا بس واحد علاج مکاتبِ دینیہ کا قیام ہے جو بقائے اسلام اور تحفظِ دین و ایمان کا واحد ذریعہ اور نسل نو کے دین کی بقا کا ایک دینی وبنیادی گہوارہ بھی .

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہماری نئی نسل سے ہی مستقبل کے ایسے رجالِ کار اور ملت کے معمار بنتے ہیں جو مستقبل کا دیرینہ خواب اور قوم وملت کا ایک حسین درپن ہوتے ہیں لہذا ان کی ذہنی و اخلاقی نشو ونما اسلامی تعلیمات پر ہونا از حد ضروری ہے اور ایسے ماحول و فضا کا فراہم کرنا ان کے لیے لابدّی ہے جس میں خالص اسلامی تہذیب کی چھاپ ہو اور اجنبی ثقافت کے تمام ایمان سوز اثرات سے پاک ہو ، یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ معاشرہ اور سوسائٹی میں مکاتب کا قیام بقائے اسلام کا ضامن اور تحفظِ ایمان کا کفیل ہے ، ان مکاتب سے علم کی جو روشنی نکل رہی ہے اس سے معاشرہ سیراب ہو رہا ہے اور نسل نو ایمان و خالص عقیدہ کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑی ہے جس کی نظیر ان محلوں میں ضرور دیکھی جا سکتی ہے جہاں مدارس قائم ہیں اور دین سے نسل نو کو مربوط رکھنے کے لئے دانشوران اور مدارس و جماعتوں کے ذمہ داران کوشاں ہوں .

بہر حال بچے چوں کہ خالی الذہن ہوتے ہیں تو ان کے معصوم اذہان پر مکتب کی تعلیم کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے ، عربی کا ایک مقولہ ہے کہ ” التعلم في الصغر كالنقش في الحجر “یعنی بچپن میں علم حاصل کرنا پتھر کی لکیر کی طرح ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں اس کے لئے مستعد اور تیار رہنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ اگر اس دور میں ان کا ذہن دینی مزاج کا بن گیا تو زندگی کے ہر موڑ پر وہ دین کا دامن تھامے رکھیں گے اور ہر موقعہ پر ان کا رشتہ دین سے مربوط رہے گا .

لہذا اس سلسلہ میں علماء و حفاظ کو نائبینِ رسول اور وارثینِ انبیاء ہونے کی حیثیت سے ہر ہر محلے کی ہر ہر مسجد میں منظم طور پر مکاتب کا قیام عمل میں لانا چاہیے اور مستحکم انداز میں با تجوید قرآن کی تعلیم کا انتظام کرنا چاہئے ، جس میں احادیثِ نبویہ اور ادعیہ یومیہ کا حفظ اور عقائدِ دینیہ ( توحید ، رسالت ، بعث بعد الموت ، وغیرہ ) کی تفہیم ہو ، تب کہیں جاکر ہماری نئی نسل ارتداد کی لہروں سے بچ سکتی ہے اور دولتِ ایمان باقی رہ سکتی ہے قرونِ اولیٰ میں مکاتب کے اہتمام اور ان کے قیام کا مقصد مسلمان بچوں کو پڑھنے لکھنے اور حفظ قرآن کی تعلیم دینا ہوتا ہے ، خود نبی کریم ﷺ نے بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم کا خصوصی اہتمام کیا ہے ، چنانچہ آپ نے بدر کے مشرک اسیروں کی رہائی دس مسلمان بچوں کو لکھنا سکھانے پر موقوف رکھی تھی ، انہیں دنوں میں زید بن ثابت نے انصاری بچوں کی ایک جماعت کے ساتھ لکھنا سیکھا تھا،پھر رفتہ رفتہ لکھنے پڑھنے کا دور شروع ہوا . مختصرا یہ کہ اگر ہم اپنے مستقبل کے سورج کو روشن وتابناک دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی سے ہی اس کی فکریں کرنی ہوں گی . اللہ ہمیں اس کی توفیق دے . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here