پرسنالٹی ڈیولپمنٹ یعنی شخصیت کی تعمیر و کردار کا ارتقاء امت مسلمہ کی ایک اہم دینی و بنیادی ضرورت

0
629

مرتب : مولانا ابراہیم فردوسی ، ندوی

پہلی قسط

شخصیت و ارتقاء کی لغوی و اصطلاحی تشریح

شخصیت دراصل عربی زبان کا ایک ایسا لفظ ہے جو پانچ معانی و مطالب کے لئے اردو زبان میں مستعمل ہے . اس کے لفظی معانی میں سے پہلا معنیٰ : انفرادی وجود ، ذات ، فرد اور ہستی کا ہے . دوسرا معنیٰ : ذاتی خصوصیات یا کردار اور عادات وصفات کا مجموعہ ہے . تیسرا معنیٰ : ذاتی عزت ، وقار ، حرمت ، وقعت ، شان ، بزرگی اور مرتبہ کا ہے . چوتھا معنیٰ : شیخی، غرور اور شان کا ہے . پانچواں معنیٰ : شرافت ، اصالت ، خوبی اور بھلائی کا ہے . لیکن شخصیت کا لفظ عام طور پر ، فرد کی کسی ایسی خصوصیت یا فرق کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو اسے اپنے اندر پائی جانے والی خصوصیت یا فرق پیدا کرنے والی کسی چیز میں دوسرے افراد سے ممتاز کرتی ہو ، کیونکہ شخصیت کا ایک معنی ذاتی خصوصیات یا کردار اور عادات وصفات کا مجموعہ بھی ہوتا ہے .

شخصیت کی جامع اصطلاحی تشریح کرنا دریا کو کوزہ میں بند کرنے کے مترادف ہے کیونکہ ماہرین فن نے اپنے اپنے انداز میں اس کی مختلف تشریحات کی ہیں ، البتہ بطور اصطلاح ان کا لب لباب اور خلاصہ بیان کیا جا سکتا ہے .

دراصل شخصیت کا اصطلاحی معنیٰ ! فرد کے ذہنی وجسمانی اور شخصی ، برتاؤ ورویہ اور اوصاف وکردار کا مجموعہ ہوتا ہے ، جسے سہل انداز میں باالفاظ دیگر یوں کہا جا سکتا ہے کہ شخصیت انسان کے اندر پائے جانے والی ظاہری و باطنی صفات ، نظریات ، اخلاقی اقدار ، افعال ، احساسات اور جذبات کے اس مجموعہ کا نام ہے جو اس کی طرف منسوب ہوتا ہے .

شخصیت کی اصطلاحی تشریح عام فہم اور سیدھے سادھے انداز میں یوں بھی بیان کی جا سکتی ہے کہ شخصیت انسانی ظاہری و باطنی اور اکتسابی وغیر اکتسابی صفات ، نظریات ، اخلاقی اقدار ، افعال ، احساسات اور جذبات کو ان مہارتوں کے ذریعہ جاننے ، سمجھنے اور زندگی میں لانے کا نام ہے ، جن سے وہ اپنے اور پوری انسانیت کے لئے ایک نہایت ہی مہذب ، پرسکون اور نفع بخش زندگی گذار سکے .

ارتقاء بھی دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ، بلند ہونے ، ترقی کرنے ، ( درجہ ومرتبہ اور مقام و حیثیت کی ) بلندی ، درجہ بدرجہ ترقی اور زینہ بزینہ اوپر چڑھنے کے آتے ہیں .

اسی طرح ارتقاء کے اصطلاحی معنیٰ ! کسی فرد کا اپنی شخصیت کی تعمیر و کردار سازی کے لئے خود شناسی اور خدا شناسی کے حصول میں ، بتدریج اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ ہو جانے کا ہے .

خلاصہ کلام یہ کہ انسان کی ظاہری وباطنی اور اکتسابی وغیر اکتسابی خصوصیات وصفات ، افعال ونظریات ، احساسات وجذبات اور اخلاقی اقدار کو تدریجی ترقی کے ساتھ ساتھ زینہ بزینہ نشو ونما کرنے اور پروان چڑھانے کو شخصیت کا ارتقاء اور انگریزی زبان میں Personality development کہا جاتا ہے .

پرسنالٹی کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ پرسونا persona سے نکلا ہے جس کے معنی نقاب یا ماسک کے آتے ہیں ، اور اردو میں ذاتِ ظاہر اور اظہار شخصیت کے آتے ہیں ، کیونکہ شخصیت کے ارتقاء کے دو بنیادی اور اہم پہلو ہوتے ہیں ایک ظاہری اور دوسرا باطنی . لہذا یہ عین ممکن ہے کہ انسان اپنے اندرون پر خوبصورت پردہ ڈال کر اپنے ظاہر کو پرکشش اور خوبصورت ظاہر کرے ، جیسا کہ بدصورت جسم والے پر خوبصورت نقاب ڈال کر اس کے باطن کو بظاہر حسین وجمیل شکل میں پیش کیا جا سکتا ہے اور اس کے اچھے اثرات دیکھنے والوں پر مرتب کئے جا سکتے ہیں .

بالکل اسی طرح شخصیت کے ظاہر کو پرکشش بناکر معاشرہ میں اس کے اچھے نتائج برآمد کئے جا سکتے ہیں کیونکہ دراصل پرسنالٹی ڈیولپمنٹ انسان کے ان حرکات و سکنات کا نام ہے جن کا ظاہری تعلق معاشرتی زندگی میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے

جب دونوں پہلوؤں کا انفرادی طور پر تقابلی موازنہ کیا جائے تو ظاہری پہلو کو زیادہ ترجیحی حق حاصل ہوگا کیونکہ اس کے ظاہری اثرات اس کی ذات کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی میں بھی دوسروں پر مرتب ہوتے ہیں اور اس کے اثر ورسوخ کے دائرہ کو وسیع کر دیتے ہیں .

اس کے برعکس اگر دونوں پہلوؤں کا اجتماعی طور پر تقابل کیا جائے تو ان میں باطنی پہلو کو ترجیحی حق حاصل ہوگا کیونکہ شخصیت کے ارتقاء میں دونوں ہی پہلو یکساں طور پر مطلوب ہوتے ہیں ، لیکن ان میں دوسروں پر اپنی ذات کو مقدم رکھا جائے گا تاکہ اس کے اثرات کو مؤثر اور پائیدار بنایا جاسکے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا! ” یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ ، کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللّٰهِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ”. اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں، تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ کو سخت ناپسند ہے. ( سورۃ الصف/2 ) 

دوسری قسط

شخصی ارتقاء کی اہمیت و فضیلت اور افادیت وضرورت

شخصیت کا ارتقاء اور اس کی کردار سازی آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لیکر حضور صلی اللہ علیہ و سلم تک کے تمام ادیان و مذاہب کا ایک اہم ترین دینی و مذہبی موضوع رہا ہے . اللہ تعالیٰ نے انسان کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی فضیلت یوں بیان کی کہ ” لَقَدْ خَلَقْنَا الانْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ “. یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا . (التین/4) ، وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِیْ الْبَرِّ والْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً “. یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انھیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انھیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انھیں فضیلت عطا فرمائی (الاسراء/70) ، وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُ “. اور اس نے تمھارے لئے تابع کر دیا آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو . (الجاثیة/13) ، وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِکَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الاَرْضِ خَلِیْفَةً “. اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں . (البقرۃ/30) . ” وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا “. اور اس (اللہ) نے آدم کو تمام نام سکھائے . (البقرۃ/31) ،” عَلَّمَهُ الْبَیَانَ “. اس (اللہ) نے اسے (انسان) کو بولنا سکھایا (الرحمن/4) ، ” عَلَّمَ بِالْقَلَمِ “. جس (اللہ) نے قلم کے ذریعہ (علم) سکھایا . (العلق/4) .

اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر بے پناہ ایسی قوتیں پیدا کی ہیں جنھیں انسان اپنے عزم و ارادہ سے بآسانی پروان چڑھا سکتا ہے اور اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھار کر کامیاب ہوسکتا ہے اور جو انھیں دبا رہنے دیتا ہے وہ ناکا م رہ جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ” قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰئھَا ہ وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰئھَا “. جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوا (الشمس/9،10) ۔

انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بنیادی اور اہم ترین مقاصد میں سے ایک مقصد انسان کی شخصیت اور کردار سازی بھی ہے . جسے قرآنی اصطلاح میں ” تزکیۂ نفس ‘” کہا جاتا ہے . چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ “. وہی (ذات) ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ، ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے . ( سورۃ الجمعة/6 )

انبیاء علیہم السلام کا بنیادی فریضہ انسانوں کا تزکیہ ہی تو تھا . نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالہ سے قرآن نے چار مقامات پر تزکیۂ نفوس کی ذمہ داری اور اس کے ذرائع کے طور پر ، تلاوت آیات ، تعلیمِ کتاب و تعلیم حکمت کی نشاندہی کی ہے . ( البقرۃ/151،129 ، آل عمران /164 ، الجمعة/2 ) .

مسلم شریف میں درج حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی حدیث/2638 ” اَلنَّاسُ مَعَادِنُ کَمَعَادِنِ الذَّھَبِ وَ الْفِضَّةِ ” میں انسان کو سونے اور چاندی کے کان سے تشبیہ دے کر یہ حقیقت واضح کی ہے کہ انسان کے اندر غیر معمولی صلاحیتوں اور قوتوں کے خزانے پنہاں ہوتے ہیں جنھیں بروئے کار لانے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے . اسی سے شخصیت کے ارتقاء کی اہمیت سامنے آتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کی شخصیت سازی کا کثرت سے تذکرہ فرمایا تاکہ وہ روئے زمین پر صحیح معنوں میں خلیفۃ اللہ کی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دے سکے کیونکہ اسی پر پورے نظام کائنات کی اصلاح کا دارو مدار ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ” وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ ، وَمَا کَانَ اللهُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ “. 

اس کا ثبوت سورۃ التین کی وہ آیت بھی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا لیکن اس کے باوجود بھی قرآن کثرت سے شخصیت سازی کی بات کرتا ہے جیسے ’’ فلاح پاگیا وہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا ‘‘۔

در اصل نفس کا تزکیہ انسانی شخصیت سازی کا ہی دوسرا نام ہے کیونکہ انسان کا نفس ہی وہ چیز ہے جو اگر پاک صاف ہو تو ارتقاء کی طرف گامزن ہوتا ہے اور اگر وہیں بغض و عناد اور بد اخلاقی موجود ہو تو وہ ایسے جمود یا تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے جس میں ارتقاء کی کوئی خاص امید باقی نہیں رہ پاتی ہے .

اسلام فرد کی شخصیت سازی کا اصل منبع قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بتاتا ہے اسی سلسلہ میں قرآن مجید کی رہنمائی اور اس کی رہنمائی میں تربیت یافتہ گروہ کے تذکرے ضروری ہیں جس کی روشنی میں اجتماعی طور پر معاشرہ کا اور انفرادی طور پر خود کا جائزہ لیا جانا ناگزیر ہے ۔ انسانوں اور جانوروں کے درمیان فرق یہی ہے کہ جانور میں ارتقائی نظام نہیں پایا جاتا اور انسان کے اندر ارتقا کا عمل موجود ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان ترقی کے مراحل پار کرتا ہے شخصیت کا ارتقاء دو قسم کا ہوتا ہے ایک جسمانی ارتقاء اور دوسرا اخلاقی ارتقاء ۔

جسمانی ارتقاء سے مراد انسان کا جسم اور اس کی نشو ونما اور اخلاقی ارتقاء سے مراد اس کے نفس کی پاکیزگی ہے ۔ مولانا صدرالدین اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ اسلامی اخلاقی نظام کے متعلق لکھتے ہیں کہ ” کسی شخص کی روح کی پاکیزگی یا گندگی کی سب سے عام اور سب سے نمایاں کسوٹی اس کے اخلاق ہوتے ہیں باطن جس طرح کا ہوتا ہے اخلاق بھی ویسے ہی ظہور میں آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عام طور سے انسان کے اخلاق ہی اس کی انسانیت کے آئینہ دار سمجھے جاتے ہیں . جہاں تک دین کا تعلق ہے اس کا فیصلہ بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں حسن اخلاق کو بڑی زبردست اہمیت دی گئی ہے اتنی کہ ایک پہلو سے گویا وہی حاصل دین ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ سلم کے یہ الفاظ سنیے فرماتے ہیں کہ ” میں اس لیے بھیجا گیا ہوں تاکہ حسن اخلاق کی تکمیل کردوں ” نیکی حسنِ خلق کا نام ہے ۔ یہ ہے اخلاق کی وہ غیر معمولی اہمیت جس کی بناء پر اس کے بارے میں اسلام نے بڑی تفصیل اور بڑی تاکید سے کام لیا ہے ان وجوہ سے اسلامی نظام کے دوسرے اجزاء سے پہلے اسی جز کا مطالعہ کیا جانا مناسب ہوگا “۔ ( اسلام ایک نظر میں ص/ 146 ، 145 )

اسلام جہاں روحانی ارتقاء کی بات کرتا ہے وہیں جسمانی ارتقاء پر بھی زور دیتا ہے جس کی مثال وہ ارشاد مبارکہ ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قوی مومن کو کمزور مومن پر فوقیت دی اور مختلف موقعوں پر آپؐ نے صحابہ کرام کو جسمانی ارتقاء کے لئے مواقع فراہم کئے تاہم جنگوں میں لڑائی سب سے بڑا ثبوت ہے کہ بغیر جسمانی ارتقاء کے عسکری قوت ناکارہ ہے لیکن آج مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ نا تو روحانی و اخلاقی ارتقاء پر توجہ ہے اور نہ ہی جسمانی ارتقاء پر جس کے نتیجہ میں ہم رفتہ رفتہ حمیت اسلامی اور غیرت ایمانی سے عاری ہوتے جا رہے ہیں .

قرآنِ مجید نے شخصیت کے ارتقاء میں اہم رول ادا کیا ہے ، قرآنِ مجید انسان کی مکمل زندگی کو مخاطب کرتا ہے اور قرآن کا اصل موضوع ” انسان ” ہی ہے ۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ ” جیسے جیسے اس کا مطالعہ کرتے جائیں گے انکشافات ہوں گے “۔

قرآنِ مجید اور فرد سازی کو جاننا ہو تو نبی کریمؐ کے دور کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔ نبی کریمؐ کی پیدائش جس معاشرہ میں ہوئی وہاں کی اخلاقی گراوٹ انتہا درجہ پر تھی ، ایک دوسرے کا قتل و غارت گری عام بات تھی ، فحاشی ، عریانیت عروج پر تھی ۔ انسانیت کی دھجیاں اڑائی جاتی تھیں لیکن جب آپؐ کو نبوت عطا ہوئی اور قران مجید کے نزول کاآغاز ہوا اور لوگوں نے حضرت محمدؐ کے کردار اور قرآنی تعلیمات سے متاثر ہو کر اس دعوت کو قبول کیا اور عمل کرنا شروع کیا تو ، ہم دیکھتے ہیں کہ یہی عرب کی جاہل قوم عزت کے عظیم مرتبہ سے سرفراز ہوئی ۔ تکریمِ انسانیت کی انتہا یہ تھی کہ ایمان لانے سے قبل جو خاندانی دشمن تھے وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہونے کے بعد ایک دوسرے میں شیر و شکر ہوگئے ۔ جس مقام کا سفر کیا وہاں اپنے کردار سے لوگوں کے دلوں پر راج کیا ۔ یہ ایسے ہی نہیں ہوگا ، اس کے پیچھے جو محرکہ تھا وہ یہی تھا جو آج بھی ہمارے پاس موجود ہے اور وہ ہے دنیا میں ربِ کائنات کا آخری پیغام ” قرآنِ مجید ” جس کو تھام کر عرب کی جاہل قوم نے دنیا میں بھی انسانوں کے دلوں پر حکمرانی کی اور آخرت میں بھی سرخروئی حاصل کی ۔

قرآنِ مجید نے صرف عرب قوم کو ہی سرخرو نہیں کیا بلکہ ہر اُس فرد کو کامیاب کیا جس نے اس میں تفقہ کیا اور عمل کا داعیہ پیدا کیا ۔ بقولِ علامہ اقبالؒ ” تقدیرِ اُمم دید پنہاں بہ کتاب اندر ” ( میں نے اس کتاب کے اندر امتوں کی تقدیر کو پنہاں دیکھا ہے ) ۔ مسلمانوں کے پاس قرآنِ مجید کی شکل میں سرچشمہ ہدایت موجود ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس سرچشمہ ہدایت کو آج تک سمجھنے سے قاصر ہیں . 

مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ ” قرآن تو خیر کا سرچشمہ ہے جتنی اور جیسی خیر تم اس سے مانگو گے یہ تمہیں دے گا ۔ تم اس سے محض جن بھوت بھگانا ، کھانسی بخار کا علاج اور مقدمہ کی کامیابی اور نوکری کے حصول اور ایسی ہی چھوٹی ذلیل و بے حقیقت چیزیں مانگتے ہو تو یہی تمہیں ملیں گی۔ اگر دنیا کی بادشاہی اور روئے زمین کی حکومت مانگو تو وہ بھی ملے گی اور اگر عرشِ الٰہی کے قریب پہنچنا چاہو گے تو یہ تمہیں وہاں بھی پہنچا دے گا یہ تمہارے اپنے ظرف کی بات ہے کہ سمندر سے پانی کی دو بوندیں مانگتے ہو ورنہ سمندر تو دریا بخشنے کے لئے بھی تیار ہے “. 

موجودہ حالات میں قرآنِ مجید کی روشنی میں شخصیت سازی انتہائی ضروری ہے ۔ امتِ مسلمہ کا وجود اور اس کا وزن اسی وقت ممکن ہے جب قرآنِ مجید کو بنیاد بنایا جائے اور اس پر عمارت کھڑی کی جائے ورنہ اگر دوسری چیزوں کو بنیاد بنایا جائے گا تو موجودہ حالات ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ بقولِ علامہ اقبالؒ ’’ وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہوکر    اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر ‘‘۔

مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبال کا بنیادی طور پر جو سرمایہ تھا وہ صرف دو ہی چیزیں تھیں ، ایک قرآنِ مجید اور دوسرا عشقِ رسولؐ ۔ علامہ اقبالؒ کے بارے میں آتا ہے کہ جب آپ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے تھے تو آپ کے آنسوؤوں سے قرآں کے اوراق بھیگنے لگتے ، گویا قرآن کی ہیبت آپ پر طاری ہوجاتی اور یہی وجہ تھی کہ اقبالؒ کی شاعری میں قرآنِ مجید کا عکس نمایاں نظر آتا ہے ۔ اقبالؒ کی والدہ محترمہ نے بھی آپ کی تربیت کو قرآن مجید سے جوڑ کر رکھ ا۔ ایک دفعہ اقبالؒ کی والدہ نے علامہ اقبال کے قرآں کی تلاوت نہ کرنے پر کہا کہ آج تم نے اللہ سے گفتگو نہیں کی ، لہٰذا ہم بھی تم سے بات نہیں کریں گے ۔ یہ کردار سرپرستوں کا بھی تھا کہ انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت اس طرز پر کی جس پر آج کے والدین کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

مولانا مودویؒ نے کسی مدرسہ سے تربیت حاصل نہیں کی لیکن آج بھی دنیا ان کے علم اور خیالات سے فیض یاب ہو رہی ہے ، ان کی جاری کردہ تحریک کے ساتھ لاکھوں نفوس منسلک ہیں ، صرف وجہ یہی تھی کہ آپ نے قرآن مجید کو اپنی تربیت کی بنیاد بنایا ۔

قرآنِ مجید کے متعلق مولانا مودودیؒ نے مقدمہ تفہیم القرآن میں قرآنِ مجید کے مقام کو جس طرح پیش کیا ہے وہ قابلِ غور ہے ، مولانا فرماتے ہیں کہ ” لیکن فہمِ قرآن کی اِن ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی رْوح سے پْوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریّات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام دہ کْرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں ، یہ دْنیا کے عام تصوّرِ مذہب کے مطابق ایک نِری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسہ اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کر لیے جائیں ، جیسا کہ اس مقدمہ کے آغاز میں بتایا جا چکا ہے ، یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے ۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پِھِری ہوئی دنیا کے مقابلہ میں لاکھڑا کیا ، باطل کے خلاف اس سے آواز اْٹھوائی اور وقت کے علمبردار ان کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا ۔ گھر گھر سے ایک ایک سعید رْوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشہ گوشہ سے ایک ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اْٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کروائی ، ایک فردِ واحد کی پْکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافتِ الہٰیہ کے قیام تک پْورے تئیس سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی ، اور حق و باطِل کی اس طویل و جاں گْسل کشمکش کے دَوران ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلہ پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے ۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکۂ اسلام و جاہلیّت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں ۔ اسے تو پْوری طرح آپ اْسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اْٹھیں اور دعوتِ اِلَی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اْس طرح قدم اْٹھاتے چلے جائیں ۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نْز ْولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکّہ اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اْحْد سے لے کر حْنَین اور تَبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابْو جَہل اور ابْو لَہَب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا ، منافقین اور یہْود بھی آپ کو ملیں گے ، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے ۔ یہ ایک اَور ہی قسم کا ” سْلوک ” ہے ، جس کو میں ’’ سْلوکِ قرآنی ‘‘ کہتا ہوں ۔ اِس سْلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے ، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اْتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں ۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لْغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھْپے رہ جائیں ، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی رْوح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بْخل برت جائے ۔ پھر اسی کْلّیہ کے مطابق قرآن کے احکام ، اس کی اخلاقی تعلیمات ، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات ، اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اْصْول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اْس وقت تک آہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے ۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں ‘‘۔

تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کی آفاقی تعلیمات نے شخصیات کی تعمیر اور کردار سازی میں جو انقلابی رول ادا کیا ہے وہ تاریخ کے ہر دور کا ایک نمایاں باب ہے ۔ اسلام نے خدا جانے کتنے لوگوں کی زندگی کی کایا پلٹ دی اور نہ جانے کتنے دلوں میں ہلچل مچادی ۔ اسلام کی پوری تاریخ عبقری شخصیات سے پُر ہے ۔ علم و أخلاق ، فکر وفلسفہ اور سیاست وحکومت کے ہر میدان میں ایسی بے شمار عالمی شخصیات پیدا ہوئیں جن کی نظیر کسی اور مذہب میں مل ہی نہیں سکتی ۔ حضرات صحابہ کے بعد تابعین اور بعد کے ادوار میں عالم اسلام کے اندر کتنے عباقرہ ، اکابر علماء و زعماء ، محدثین و مفسرین اور مشہور عالمی شخصیات پیدا ہوئیں یہ یقینا اسلام کی ان ہی انقلابی تعلیمات کی پیدوار تھیں ۔ ان کی زندگی میں حرکت وعمل کی انقلاب آفریں روح تھی جو اسلام نے ہی ان میں پھونکی تھی اور ان کی زندگی میں جس رفتار سے برقی لہر دوڑ رہی تھی اس کی سپلائی اسلام ہی کے پاور ہاؤس سے ہو رہی تھی ۔

اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ مومن کے دو دن یکساں نہیں ہو سکتے اور قرآنِ مجیدنے بھی مومن اور منافق کے درمیان تفریق کرتے ہوئے دونوں کے اوصاف کی وضاحت کی ہے جس کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لے سکتے ہیں کہ آیا ہم ان اوصافِ حمیدہ سے متصف ہیں یا نہیں جو ہم کو منافقین کی صفوں سے علیحدہ رکھتے ہیں اور جو ان اوصاف کے حصول میں جدوجہد کرتا ہے وہی درحقیقت شخصیت کے ارتقاء کے لئے کوشاں ہے ۔ شخصیت کا ارتقاء اسی وقت ممکن ہے جب انسان خود ارتقاء چاہتا ہو، کوئی فرد کسی تنظیم یا جماعت سے وابستہ ہو اور اس میں اپنی صلاحیتیں اور وقت صرف کر رہا ہو لیکن اس کو اس کے وقت کے صرف کرنے سے فرد کی صلاحیتوں میں اضافہ نہیں ہوتا ہے تو یہ سارا وقت اسراف کہلائے گا ۔ کیوں کہ جب تک انفرادی طور پر فرد کی صلاحیتوں میں اضافہ نہیں ہوگا اس وقت تک اجتماعی طور پر تنظیم یا جماعت کے معیار اور مقام میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآنِ مجید کو مضبوطی سے تھامیں ، اس پر تفقہ کریں ، اس کے ذریعہ سے اجتہاد کریں اور سماج میں پھیلی برائیوں کے تدارک کے لئے اس سے روشنی حاصل کریں۔ موجودہ حالات میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اسلامی قوانین سے ناآشنا ہے ، علماء کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید کو ہر خاص و عام تک آسان فہم انداز میں پہنچائیں اور عوام کو بھی چاہئے کہ وہ قرآنِ مجید کی روشنی میں اپنی شخصیت کو بنانے کی کوشش کریں . 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں     اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار    ( علامہ اقبال )

شخصیت کے ارتقاء کے موضوع پر مسلم اہل علم ودانش کی مزید توجہات اکیسویں صدی عیسوی کی ایک اہم دینی و بنیادی ضرورت


شخصیت کا ارتقاء یعنی پرسنالٹی ڈیولپمنٹ ایک نہایت ہی دلچسپ اور اہم موضوع ہے ، لیکن اس موضوع پر برصغیر میں اہل علم و دانش اور طلبہ کی توجہ نہ کے برابر ہے ، گو کہ اسے دوسرے ناموں سے پڑھا اور پڑھایا بھی جاتا ہے ۔

اس موضوع کو کئی دہائیوں پہلے ہی اہل مغرب نے بحیثیت موضوع سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس پر بہت بڑا کام بھی کیا ہے ، اس پر وہ آئے دن ورکشاپ ، سمپوزیم اور ٹریننگ کا انعقاد کرتے رہے ہیں ، جن میں سے بعض ٹریننگ کا دورانیہ کئی کئی ماہ کا بھی ہوتا ہے ، آج اس موضوع پر مغربی اہل علم اور مفکرین کی سیکڑوں کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، جن میں سے بعض اتنی مقبول ہوئی ہیں کہ چند سالوں میں اس کے پندرہ ملین ( ڈیڑھ کڑور ) سے زیادہ نسخے طبع ہوکر فروخت ہو گئے ہیں ۔ اور انھوں نے ایسے ایسے عناوین پر ریسرچ کی ہے کہ بعض کوتاہ فہم لوگوں کو اس ریسرچ کے مطالعہ سے پہلے وہ عناوین مضحکہ خیز لگیں گے ، جیسے ” نہ کہنے ” کے ایک سو پچاس طریقے .

عالم عرب میں اس موضوع کے تئیں وہ بیداری تو ابھی نہیں پیدا ہوئی ہے جو ہونی چاہیے ، اس موضوع پر تربیتی پروگرام اور ٹریننگ کے بارے میں بھی خال خال ہی سننے کو ملتا ہے ، لیکن پھر بھی اہلِ مغرب کی کتابوں کے ترجمہ سے معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ کریم شاذلی اور ان جیسے دوسرے جواں حوصلہ محققین اور اصحاب قلم نے اس موضوع کو اپنی بحث و تحقیق کا محور بنایا ہے ، اور ان کی اس موضوع پر مختلف تالیفات طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں ۔

برصغیر کی علمی کاوشیں صدیوں سے قدر اور اعتبار کی نگاہوں سے دیکھی جاتی رہی ہیں اور آج بھی یہاں کے کہنہ مشق علماء و دانشوران اور جواں سال اصحابِ دانش و بینش کی علمی کاوشیں دنیا بھر میں لوگوں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں ، لیکن ہمیں اس بات پر تعجب اور افسوس بھی کہ ” شخصیت کا ارتقاء ” کے موضوع پر بحث و تحقیق ایک اونچے معیار تک پہنچ گئی ! لیکن ہمارا حصہ اس میں نہ کے برابر ہے ، نتیجا اردو میں اس موضوع پر کتابیں اور مقالات بلکہ دوسری زبانوں سے ترجمہ شدہ کتابیں بھی نہ کے برابر ہیں . پاکستان کے ایک مشہور صاحب علم جناب قاسم علی شاہ صاحب اور ان کی فاؤنڈیشن نے اس موضوع کے تئیں بیداری کو اپنا مشن بنا لیا ہے ، اس موضوع پر ان کی کچھ کتابیں بھی ہیں اور ان کے ٹریننگ سیشن کی سیکڑوں ویڈیوز بھی ہیں ، جو یقیناً برصغیر میں کام کا رخ دیتی ہیں . ہمارے برادرانِ وطن میں بھی اس میدان کے بعض اچھے ٹرینر ہیں ، جن کی ٹریننگ سیشن کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں ، اور جن میں اچھا مواد اس موضوع سے متعلق موجود ہے .

پھر موصوف اپنے خیالات جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں نے مغربی اسکالرز اور مفکرین کی کتابیں ، اس کے عربی ترجمے اور ٹریننگ سیشن کی ویڈیوز دیکھنی شروع کیں ، تو نہایت ہی مفید اور زندگی میں مثبت و تعمیری تبدیلی لانے والی محسوس ہوئیں ، لیکن مستقل یہ احساس رہتا تھا کہ یہ چیزیں ” الحكمة ضالة المؤمن ، فأنى وجدها فهو أحق بها ” ( حکمت و دانائی کی بات مومن کی متاع گم گشتہ ہے ، وہ اسے جہاں کہیں پائے ، اسے لے لینے کا زیادہ حق دار ہے ) بلکہ ” ترد اِلینا بضاعتنا ” ( ہمارا سرمایہ ہمیں لوٹایا جا رہا ہے ) کی قبیل سے ہے .

کریم شاذلی کی تحریروں کو پڑھنے اور جناب قاسم علی شاہ کی ویڈیوز کو دیکھنے کے بعد حدیث پاک کی معتبر اور مشہور کتابوں کے اخلاقیات اور معاشرتی ابواب پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو خوشی وافسوس کے دونوں پہلو سامنے آئے ہیں ، خوشی اس بات کی کہ ” شخصیت کا ارتقاء ” کے سارے مبادیات اور اصول کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں موجود ہیں . اور افسوس اس پر کہ اس اعتبار سے عصرِ حاضر کے مسلمان اہل علم اور اسکالرز کا کام اس موضوع پر جدید علمی منہج کے مطابق زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے نہ کہ اہلِ مغرب کا .

یہ موضوع زندگی کے تمام چھوٹے بڑے پہلوؤں اور گوشوں پر گفتگو کرتے ہوئے ان باتوں کی وضاحت کرتا ہے کہ ہمیں کس طرح گفتگو کرنی چاہیے ، کیسے سوچنا چاہیے ، کون سی تعلیم حاصل کرنی چاہیے ، اپنے پڑھنے کے لیے کس موضوع کا انتخاب کرنا چاہیے ، ہمیں کون سا ذریعۂ معاش اختیار کرنا چاہیے ، زندگی کے اتار چڑھاؤ سے کس طرح نبرد آزما ہونا چاہیے ، لوگوں سے تعلقات کن بنیادوں پر اور کس کس نوعیت کے ہونے چاہیے ، مجلس میں کس طرح بیٹھنا چاہیے ، کس طرح کھانا چاہیے ، کس طرح پینا چاہیے ، اور اس جیسی تمام چیزیں، جن کا بے سلیقگی سے کرنا پوری شخصیت کو ہلکا اور بسا اوقات داغدار کر دیتا ہو ۔

سیدنا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ان سے کافروں نے بہ طور استہزاء کے کہا کہ تمہارے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو تمہیں پیشاب پائخانہ تک کا طریقہ سکھاتے ہیں ، سیدنا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے بہ طور فخر کے کہا کہ ہاں ! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہمیں سکھاتے ہیں ، پھر انہوں نے قضاء حاجت کے کچھ نبوی اصول کا ذکر کیا ۔ ( ابو داؤد، حدیث نمبر: 19 ) شخصیت کا ارتقاء کے موضوع کا جو حاصل ہے وہ یہ ہے کہ زندگی کی صرف بڑی بڑی نہیں ، بلکہ ہر چھوٹی چیز کو بھی برتنے اور ہر صورت حال میں جینے کا سلیقہ پیدا کرنی کی مہارتیں حاصل کی جائیں اور یہ کہ کوئی بھی سلیقہ بغیر سکھائے یا سیکھے نہیں آتا ہے ، اس حدیث میں واضح طور پر یہ دونوں اصولی باتیں آگئی ہیں ۔

اسی طرح شخصیت کا ارتقاء کے فن میں ایک اہم ضابطہ ( Win Win ) یعنی دوسروں کو جیتنے دو اور خود بھی جیتو ہے ، اس کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ زندگی جینا دوسرے انسانوں کے ساتھ کرکٹ اور فٹبال کے میچ کی طرح نہیں ہے کہ ایک کے جیتنے کے لیے دوسرے یا دوسروں کا ہارنا ضروری ہو ، بلکہ یہ ممکن ہے کہ زندگی کے کسی بھی معاملہ میں ہم بھی جیتیں ، کامیابی حاصل کریں اور ہمارا بھائی اور دوست بھی ہماری ہی جتنی کامیابی حاصل کرے ، اب ذرا اس حدیث کو پڑھیں ” لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه ” ( بخارى ، حدیث نمبر/14) . تم میں سے کوئی شخص مؤمن ہو ہی نہیں سکتا ، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہ رہا ہے ۔ کیا WIN WIN کا اصول اس حدیث پاک میں انسانیت کو بہت پہلے ہی نہیں دیا گیا ہے ؟ ۔

غرض یہ کہ شخصیت کے ارتقاء کا موضوع بہت ہی اہم اور ضروری ہے ، انسان کی مثبت خطوط پر تعمیر و ترقی ، پرسکون ، شکر اور امیدوں سے معمور صحت مند زندگی کے گذارنے میں یہ ایک بہترین معاون ثابت ہوتا ہے ۔ لہذا اس موضوع کے تئیں بیداری بھی ہونی چاہیےکہ اسے پڑھیں ، سمجھیں ، فائدہ اٹھائیں ، نیز حوصلہ مند ، دل دردمند اور فکر ارجمند رکھنے والے جواں سال اہل علم و دانش کو اس پہلو سے بھی توجہ دینی چاہیےکہ جدید پیرہن میں ، نئے علمی منہج اور اصول کے مطابق اس موضوع پر کام کریں اور اس پہلو پر بھی کام کریں کہ اس بیش قیمت فن اور موضوع کے مبادیات اور اصول قرآن و سنت میں موجود ہیں ، اسی طرح جو الحادی افکار اس میں در آئے ہیں ، منطقیت اور معقولیت کے ساتھ اس کا رد بھی کیا جائے اور اس کا متبادل بھی پیش کیا جائے ۔

اگر یہ کہا جائے کہ دعوتی نقطۂ نظر سے اس موضوع پر ( انگریزی ، عربی ، اردو اور فرانسیسی جیسی عالمی زبانوں میں ) کام کرنا فرض کفایہ کے درجہ میں ہے ، تو یہ ایک معقول اور ذمہ دارانہ بات ہوگی ، کیوں کہ اس فن اور موضوع ( کی کتابوں ، لائیو سیشن اور ٹریننگ پروگراموں ) سے مغرب میں لوگ بہت استفادہ کر رہے ہیں اور یہ ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کا سبب ہو رہا ہے ، چنانچہ فطری طور پر لوگوں کا اس موضوع کی طرف رجحان ہے ، اگر اس کام کو مناظرانہ اور تردیدی اسلوب کے بجائے علمی ، منطقی اور معروضی اسلوب میں پیش کیا جائے اور اس فن کے مبادیات و اصول کو کتاب وسنت کے عقائد ، اخلاق ، معاشرت اور دوسرے مختلف ابواب سے مستنبط کیا جائے ، تو اس موضوع سے استفادہ کرنے والا ہر فرد ایک بار ضرور اس حوالہ سے اسلام کے بارے میں مثبت طور پر سوچنے پر مجبور ہوگا ، اور ہماری دعوتی ذمہ داری یہی تو ہے کہ اپنے کافر بھائی کے لیے اسلام کے تئیں فکر کے دریچے کھول دیں ، باقی ہدایت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔

تیسری قسط 

شخصی ارتقاء کے مختلف گوشوں ، ناحیوں و پہلوؤں کا ایک سرسری جائزہ

علم نفسیات کی طرح شخصیت اور کردار کی تعمیر بھی دین کا ایک اہم ترین موضوع ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی جو ہدایت انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعے دنیا میں بھیجی ہے ، اس کا بنیادی مقصد ہی انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی ہے ۔ اسی کا نام ’’ تزکیہ نفس ‘‘ ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے! ” هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ’’. وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں ایک رسول انہی میں سے اٹھایا ہے جو اس کی آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ( اس کے لئے ) انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔ ( الجمعة/2 )

انسان کی یہ خصوصیات بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں ، ایک تو وہ ہیں جو اسے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں ۔ یہ غیر اکتسابی یا قدرتی صفات کہلاتی ہیں ۔ دوسری وہ خصوصیات ہیں جنھیں انسان اپنے اندر یا تو خود پیدا کر سکتا ہے یا پھر اپنی قدرتی صفات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرکے انھیں حاصل کرسکتا ہے یا پھر یہ اس کے ماحول کی پیداوار ہوتی ہیں ۔ یہ اکتسابی صفات کہلاتی ہیں ۔ قدرتی صفات میں ہمارا رنگ ، نسل ، شکل و صورت ، جسمانی ساخت ، ذہنی صلاحیتیں وغیرہ شامل ہیں ۔ اکتسابی صفات میں انسان کی علمی سطح ، اس کا پیشہ ، اس کی فکر وغیرہ شامل ہے ۔

شخصیت کی تعمیر ان دونوں طرز کی صفات کو مناسب حد تک ترقی دینے کا نام ہے ۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی شخصیت کو دلکش بنانے کے لئے اپنی قدرتی صفات کو ترقی دے کر ایک مناسب سطح پر لے آئے اور اکتسابی صفات کی تعمیر کا عمل بھی جاری رکھے ۔ شخصیت کے باب میں ہمارے نزدیک سب سے اعلیٰ و ارفع اور آئیڈیل ترین شخصیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے ۔ اعلیٰ ترین صفات کا اس قدر حسین امتزاج ہمیں کسی اور شخصیت میں نظر نہیں آتا ۔ آپ بحیثیت ایک انسان اتنی غیرمعمولی شخصیت رکھتے ہیں کہ آپ کی عظمت کا اعتراف آپ کے مخالفین نے بھی کیا ۔ دور جدید کے متعصب مغربی مفکرین نے بھی آپ کی شخصیت اور کردار کی عظمت کو کھلے لفظوں میں بیان کیا ہے ۔

قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ہمیں سابقہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی شخصیات کے بہت سے اعلیٰ پہلو ملتے ہیں لیکن ان سب میں مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں صحیح اور درست معلومات بہت کم میسر ہیں ۔ یہ خصوصیت صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے کہ آپ کی سیرت طیبہ کا تفصیلی ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے ۔ آپ کے زیر تربیت صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بھی ہمیں اعلیٰ شخصی صفات بدرجہ اتم ملتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریر میں آپ کو جگہ جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت سے حوالے ملیں گے ۔ انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک اس کا ظاہر اور دوسرا اس کا باطن ۔ انسان کا ظاہر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ اس میں اس کی ظاہری شباہت اور رویے شامل ہیں ۔ باطن میں انسان کی عقل ، علم ، جذبات ، احساسات اور رجحانات شامل ہیں ۔ عام طور پر انسانوں کا ظاہر ان کے باطن ہی کا عکس ہوتا ہے البتہ بعض افراد عارضی طور پر اپنے باطن پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں ۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ان میں سے بعض صفات مستقل نوعیت کی ہوتی ہیں جبکہ کچھ کیفیات عارضی نوعیت کی ۔ انسان کی مستقل صفات وہ ہوتی ہیں جو ایک طویل عرصہ میں ارتقاء پذیر ہوتی ہیں اور ان میں تبدیلیاں بہت آہستہ آہستہ آتی ہیں۔ یہ صفات انسان کی پوری عمر اس کے ساتھ رہتی ہیں۔ مثلاً انسان کی علمی و عقلی سطح ایک طویل عرصہ میں ہی بلند ہوتی ہے اور اس میں تبدیلی کی رفتار کو سالوں میں ناپا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس انسان کی خوشی یا غمی ایک عارضی کیفیت ہے جو ہر تھوڑی دیر کے بعد بدل جاتی ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص پانچ بجے خوش ہو لیکن ساڑھے پانچ بجے کسی وجہ سے غمگین ہو گیا ہو ۔ انسان کی مستقل صفات اس کی عارضی کیفیتوں پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں ۔ اگر انسان اپنی عارضی کیفیتوں میں بھی ایک مخصوص رویہ اختیار کرنے لگ جائے تو یہ بھی اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے ۔ مثلاً ایک شخص اگر بات بات پر بھڑک اٹھتا ہو تو سب لوگ اس کی شخصیت کے تصور میں اس کا غصہ ور ہونا بھی شامل کر دیتے ہیں ۔ ذیل میں ہم انسان کی شخصیت کے ان دونوں پہلوؤں کی تفصیلی صفات کی ایک نامکمل فہرست دے رہے ہیں ۔ آپ مزید غور و فکر کرکے اس فہرست میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں ۔

شخصی ارتقاء کے مختلف پہلو وگوشے ہجائی ترتیب پر 

ابلاغ کی صلاحیتیں ، اپنے ارد گرد کی چیزوں کے بارے میں رویہ ، اپنی ذات پر کنٹرول ، احساس ذمہ داری ، احساس برتری یا کمتری ، احسان ، اخلاص ، اخلاق وکردار ، استقامت ، اعتدال ، اعتماد ، انتہا پسندی ، انصاف پسندی ، انسان دوستی ، ایثار و قربانی ، ایمان ، ایمانداری ، بخل و سخاوت ، بھائی چارگی ، پرامیدی ، پسند ( Reactions ) ، پیش قدمی ، پسندیدگی اور ناپسندیدگی ، تخلیقی صلاحیتیں ، ترجیحات ، تقویٰ ، تندرستی ، ٹیم اسپرٹ ، جذبات و احساسات کا طریق اظہار ، جرأت ، جوش و ولولہ ، جنسی جذبہ ، چستی ، حوصلہ افزائی ، حیا ، حیرت و تجسس ، خطرات کے بارے میں رویہ ، خود احتسابی ، خود اعتمادی ، خود شناسی ، خود غرضی ، خوشی و غمی ، خود انحصاری یا دوسروں پر انحصار ، خوش اخلاقی ، خوش مزاجی ، خوف ، دلیری ، دوستانہ رویہ ، دوسروں کا خیال رکھنا ، دوسروں کا دکھ محسوس کرنا ، دوسروں کے ساتھ عزت واحترام سے پیش آنا ، دیانت داری ، ذہانت ، ذہنی پختگی ، رحم دلی ، سچائی ، سخاوت ، شجاعت و بہادری ، شکر گذاری ، شفقت و محبت ، صداقت وسچائی ، صبر و شکر ، صبر وتحمل ، طرز فکر اور مکتب فکر ، ظاہری شکل و شباہت اور جسمانی صحت ، عاجزی و انکساری ، عادات ، عادات حسنہ ، عصبیت ، عفت و پاکدامنی ، عفو ودرگذر ، علمی سطح ، غیبت ، غصہ ، فطری رجحان ، فعالیت ، فنی اور پیشہ ورانہ مہارت ، قوت برداشت ، قائدانہ صلاحیتیں ، قانون کی پاسداری ، قناعت ، قوت ارادی ، کامیابی کی لگن ، گفتگو ، لالچ ، مایوسی و تشویش کی صورت میں رویہ ، محبت ونفرت ، مستقبل مزاجی ، معاملہ فہمی ، وفاداری ، ہر دم متحرک رہنا ، ہم دردی ، نرم مزاجی وغیرہ .

چوتھی قسط 

پرسنالٹی ڈیولپمنٹ یعنی شخصیت سازی میں ارکان اسلام کا کردار

شخصی ارتقاء میں عقیدۂ توحید کا کردار

لفظ عقیدہ کی لفظی واصطلاحی تشریح

عقیدہ کی لفظی تشریح : عقیدہ دراصل خالص عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ایمان ویقین اور اعتقاد ونظریہ اور یقین کامل کے آتے ہیں ، یہ لفظ عَقْدٌ سے مأخوذ ہے جس کے معنی گرہ باندھنے کے آتے ہیں لہذا میاں بیوی کے بندھن کو بھی عقد سے تعبیر کیا جاتا ہے .

یہ لفظ عام طور پر مذہب یعنی (religion) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، جیسے مذہبی اصول پر اعتقاد ، مذہبی یقین ، ایمان یعنی وہ مذہبی اصول جن پر ایمان لانا ضروری ہو ، وہ دلی بھروسہ یا اعتبار جو کسی امر یا شخص کو درست یا حق سمجھنے سے پیدا ہوا ہو .

عقیدہ کی اصطلاحی تشریح : عقیدہ کے اصطلاحی معنی مضبوط بندھی ہوئی گرہ کی طرح کسی بات کے دل میں رچ بس جانے کے آتے ہیں ، یعنی وہ مذہبی اصول جن پر ایمان لانا ضروری ہو یا وہ دلی بھروسہ یا اعتبار جو کسی امر یا شخص کو درست یا حق سمجھنے سے پیدا ہوتا ہو . شریعت میں عقیدہ ، دین سے متعلق اس خبر یا بات کو کہتے ہیں جو دل میں خوب جم جائے کہ اس کے خلاف سوچنے یا عمل کرنے کی ہمت نہ ہو اور اس کے خلاف سننے یا دیکھنے سے دل پر چوٹ سی لگتی ہو ۔ عقیدہ کسی اچھی بات کا بھی ہو سکتا ہے اور کسی بری بات کا بھی .

توحید یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے ساتھ اس کے کائناتی وآفاقی نظام سے متعلق بنیادی عقائد پر ایمان لانا ہے جسے اسلامی اصطلاح میں ایمان مفصل سے تعبیر کیا جاتا ہے .

انسانی جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنی زندگی کسی کی رضا جوئی یا کسی کی گرفت سے بچتے ہوئے گذارتا ہے ، اگر ان دونوں چیزوں کی نسبت اللہ وحدہ لا شریک لہ کی طرف کی جائے تو اسے اسلامی اصطلاح میں توحید وتقویٰ اور اس کے برعکس کو اتباع ہویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے . جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ” ومن یؤمن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی لا انفصام لھا ” (سورۃ البقرہ /257). دوسری جگہ ارشاد ہے ” افرأیت من اتخذ الھہ ھواہ”

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اس کائناتی وآفاقی نظام کے بہت سارے شعبوں میں اپنے آپ کو بے بس وعاجز پاتا ہے لہذا فطرتاً وہ کسی ایسے سہارے کی تلاش میں ہوتا ہے جو اس کی عاجزی وبےبسی میں اس کا سہارا بنے ، اسی چیز کو اسلامی اصطلاح میں عقیدہ توحید اور ایمان و یقین سے تعبیر کیا جاتا ہے . جیسا کہ ارشاد باری ہے ” أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ” ( سورۃ النمل/62 ) کون ہے جو بیقراری کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے ؟ اور ( کون ہے جو ) تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ( یہ کام کرنے والا ) ہے ؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو . دوسری جگ ارشاد ہے ” وَمَنْ یُّؤْمِنْ بَاللّٰهِ فَقَدَِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیٰ لَا انْفِصَامَ لَھَا “. جو ( طاغوت کا انکار کر کے ) اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں . ( سورۃ البقرہ /257 )

لہذا تعمیرِ شخصیت کی اولین ضرورت خداوند عالم پر قلبی اعتقاد اور دل سے اس کے وجود کو تسلیم کرنا ہے . یعنی انسان اس بات کو اپنے دل میں جگہ دے کہ یہ عظیم کائنات اور اس میں موجود مخلوقات کا ایک خالق ہے کہ جس نے اس کائنات کو خاص نظم کے ساتھ ، مخصوص اہداف کے لیے تخلیق فرمایا ہے . مناجات شعبانیہ کا ایک جملہ اسی حقیقت کا عکاس ہے جس میں امام حسین رضی اللہ عنہ خداوند کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں! ” الهِي إِنَّ مَنِ انْتَهَجَ بِكَ لَمُسْتَنِيرٌ ” اے پروردگار! جس نے تیرے ذریعہ راستہ ڈھونڈا وہ یقیناً ہدایت کی روشنی پا گیا .

ہم اگر انسانی تفکرات کو کلی نظر سے دیکھیں تو دو قسم کے لوگ سامنے آتے ہیں ، ایک وہ جو اس کائنات کو اتفاقی خیال کرتے ہیں ، ان لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ کائنات خود بخود وجود میں آگئی اور خود بخود چل رہی ہے ، اس کائنات کا کوئی ہدف و مقصد نہیں ہے .

اور دوسرے وہ کہ جو کائنات کو ایک خاص نظم کا حصہ سمجھتے ہیں ، ان کی نگاہ میں اس کائنات کے خالق نے اسے ایک مخصوص مقصد کے تحت ، بڑے متقن انداز میں بنایا ہے اور یہ کائنات اسی کی مشیت سے چل رہی ہے . اگر آپ ان دو قسم کے انسانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو وہ ایک دوسرے سے مکمل فرق کرتی ہیں ، اس لیے کہ ان دونوں کا کائناتی تصور جدا جدا ہے اور یوں پھر انسان کی تعریف ، اس کی ذمہ داریاں ، سماجی روابط اور دیگر موجودات سے متعلق جو تصور ہے وہ بھی جدا ہے .

ایک کی نظر میں فقط چند روزہ زندگی ہے اور بس . ایسے لوگ مشینری کی طرح دن رات دنیاوی لذات کے پیچھے بھاگ دوڑ کرتے رہتے ہیں اور لا شعوری طور پر اپنے آپ کو تھکاتے رہتے ہیں . وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دن رات کام کرنے سے انہیں سکون نصیب ہو جائے گا حالانکہ یہی کثرت سے محنت ہی ان کے اعصاب کو کمزور بنا دیتی ہے اور یونہی وہ اس دنیا سے سرگردان ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں .

قرآن کریم ایسے لوگوں کی زندگی کو سراب سے تعبیر کرتا ہے ، جو ہر وقت پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں ، جبکہ آخری سانسوں تک پیاسے رہتے ہیں ، اور پھر اسی حالت میں خداوند متعال سے ان کی ملاقات ہو جاتی ہے ، اور یوں ان کی حساب رسّی کا وقت آن پہنچتا ہے ۔ ( دیکھئیے سورۃ النور/39 )

اس کے مقابلہ میں دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو اس ہستی کو ایک خالق کی عطا سمجھتے ہیں ، اس عظیم کائنات کو ایک ہی محور کے گرد گھومتا دیکھتے ہیں جس کا نام توحید ہے . اس نکتہ نگاہ کے مطابق کائنات کی ہر چیز اللہ تعالی کی حمد و ثناء میں مشغول ہے اور فقط انسان ہی ہے جو اس کائنات سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے باوجود کفران نعمت میں مشغول ہے اور فقط مٹھی بھر لوگ ہیں جو شکر خداوند بجا لاتے ہیں . ایسے لوگوں سے خداوند بات بھی کرتا ہے اور انہیں یہ بتاتا ہے کہ اے لوگو! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں بیکار پیدا کیا گیا ہے اور تم اپنے خالق کی طرف نہیں پلٹو گے . نہیں! یقینا ایسا نہیں ہے بلکہ ایک دن ضرور تمہیں خالق کی بارگاہ میں لوٹایا جائے گا .

ایسے انسانوں کی زندگی امید سے مالا مال ہوتی ہے ، کیونکہ ان کے پاس اللہ کی ذات کا سہارا ہوتا ہے ، وہ نہ کسی خوف کا شکار ہوتے ہیں نہ حزن و اندوہ ان تک پہنچ پاتا ہے ، یوں تقویٰ اور خدا خوفی کا لباس زیب تن کرکے اور باک ہو کر اپنے اہداف کی طرف بڑھتے ہیں . اس کی روشن مثال ہمیں احد اور کربلا کے میدان میں ملتی ہے ، جہاں مٹھی بھر افراد ہزاروں کے لشکر کے آگے صبر و استقامت کی مثال نظر آتے ہیں ۔

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here