رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری
اگر اسلام کی آمد سے قبل عورت کے مقام و مرتبہ کی حیثیت و اہمیت کے تعلق سے تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اسلام سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک کے مذاہب میں عورت اپنے بنیادی حقوق سے بالکل ہی محروم تھی ، کہیں عورت کے تعلق سے یہ تصور تھاکہ وہ اپنی قدر و منزلت اور حیثیت میں نصف مرد کے برابر تھی تو کہیں یہ تصور تھا کہ عورت سے ترقی کے منازل طے کرنا دشوار و محال ہے اور نہ ہی ترقی میں اس کا کچھ عمل دخل ہے ، لہذا اسے ہر شہری حقوق سے محروم رکھا گیا اور تعلیم کے دروازے اس پر بند کئے گئے ، صرف چھوٹے اور معمولی کام کاج کی مزدوری کے علاوہ وہ کوئی اور کام نہیں کر سکتی تھی . کہیں وہ انسانوں کو برائی کی طرف مدعو کرنے والی ایک شیطانی روح تصور کی جاتی تھی تو کہیں ناپاک و پلید ، لہٰذا اسے عبادت گاہوں سے دور رکھا جاتا . کہیں ستی یعنی شوہر کے انتقال کے بعد اس کی بیوی کو اس کے شوہر کے ساتھ زندہ آگ میں جلانے کا رواج تھا تو کہیں اسے دوسری شادی سے محروم رکھنے اور اسے طعن و تشنیع کرنے اور ذلت و حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کا ، لہٰذا شوہر کی وفات کے بعد اپنے گھر میں نوکرانی کی زندگی گذارتی یا پھر اپنے مرنے والے شوہر کے ساتھ ہی جل کر خود کشی کر لیتی .
اگر ہم قوم عرب کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے یہاں بیٹی کے پیدا ہونے کو عار سمجھا جاتا تھا اور بیٹی کی پیدائش ان کے لئے غم و اندوہ کا پیام لاتی تھی جس کے تعلق سے خود قرآن کہتا ہے .
” واذا بشراحدهم بالانثی ظل وجهه مسودا وهو كظيم ، يتوارى من القوم من سوء ما بشر به ، أيمسكه علي هون أم يدسه في التراب الا ساء مایحکمون ” ( النحل )
ترجمہ : جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدائش کی خبر دی جائے تو ان کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے ، اس خبر کو وہ اس قدر برا سمجھتا ہے کہ اپنے آپ کو اپنی قوم سے چھپائے پھرتا ہے ، آیا ذلت کو برداشت کرتے ہوئے اس کو باقی رکھے یا زمین میں دفن کر دے .
عربوں کے یہاں لڑکیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ زمین میں درگور کرنا عام اور معمولی بات تھی ، پھر عورتوں کے حقوق کے تعلق سے اس قدر ناقدری اور حقوق کی پامالی ہوتی کہ اگر کوئی آدمی مر جاتا تو جس طرح وراثت کی اشیاء اس کی اولاد میں تقسیم ہوتی ہیں بالکل اسی طرح بیوی بھی اس کے اولاد کے نکاح میں آجاتی ، عورت کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کی وہ حقدار تھی ، لہٰذا اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا .
اسلام سے پہلے عورت کی تاریخ مظلومی اور محکومی کی تاریخ تھی ، اس کو کمتر سمجھا جاتا ، اسے سارے فساد اور برائی کی جڑ کہا جاتا ، جس طرح سانپ بچھو سے بچا جاتا ہے بالکل اسی طرح عورت سے بچنے کی تلقین کی جاتی تھی ، اور عورت کی کوئی مستقل حیثیت نہ تھی ، بلکہ وہ مرد کے تابع تھی ، وہ اپنے حق کے ساتھ جی نہیں سکتی تھی یہی وجہ تھی کہ اس کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا تھا ، پھر اسلام اس وقت آیا جب انسانیت دم توڑ رہی تھی اور عدل و انصاف و مساوات کالعدم ہو چکا تھا اور عورت پر جانوروں سے بھی زیادہ ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے تو ایسے ناساز گار حالات کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انصاف و برابری کا نعرہ بلند کیا اور عملا بھی اس کی شاندار تصویر پیش کی ، جب اسلام آیا تو عورت کو انتہائی ذلت سے اٹھا کر بلندی کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا اور اس کو ایسے ایسے حقوق عطا کئے جس کا تصور اسلام سے پہلے ناپید و معدوم تھا ، جس کے نتیجہ میں عورت کو منحوس سمجھا جا رہا تھا تو اس وقت اللہ نے اپنے نبی کو اسلام کی نعمت کے ساتھ مبعوث فرما کر عورت کے مقام کو نکھارا ، سب سے پہلے آپ نے لوگوں کے ذہن و قلوب میں یہ بات بٹھائی کہ لڑکی یا لڑکے کے پیدا ہونے میں انسان کا کچھ عمل دخل نہیں ہے ، لہٰذا لوگوں کے سامنے قرآن کا یہ پیغام پیش کیا .
” لله ملک السمٰوات والأرض یخلق ما یشاء یھب لمن یشاء اناثا و یھب لمن یشاء الذکور ، او یزوجھم ذکرانا و اناثا و یجعل من یشاء عقیما ، انہ علیم قدیر “
یعنی آسمان و زمین میں اللہ کی ہی بادشاہت ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، جسے چاہتا ہے لڑکیاں اور جسے چاہتا ہے لڑکے عطا کرتا ہے ، یا ان کو لڑکے یا لڑکیاں دونوں عطا کرتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے اولاد نہیں دیتا ، بیشک وہ علم والا اور قدرت والا ہے ( الشوریٰ )
اس پیغام ربانی سے اللہ کے نیک بندوں کے دل میں بات اترتی چلی گئی ، پھر آپ نے اپنے مفید کلمات سے اس کی اہمیت دل میں بٹھا دی اور مختلف احادیث میں لڑکیوں کی فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو دو بیٹیوں کی تربیت اور پرورش کرے گا، یہاں تک کہ اس کا نکاح کرے گا ، تو وہ آدمی جنت میں داخل ہو گا ، اسی طرح آپ وقتا فوقتا موقعہ و محل کے مطابق وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے . پھر آپ کی صحبت کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ آپ کے جانثار بن گئے اور دین اسلام کو سیکھنے لگے ، نتیجہ یہ ہوا کہ جن بیٹیوں کو وہ کمتر سمجھتے تھے اور کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے انھیں اللہ کی نعمت سمجھنے لگے .
اسلام کی آمد سے دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا ہوا ، فکر و نظر کی دنیا ہی بدل گئی اور معاشی طور پر انسانی اقدار میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جس سے جہالت کے طور طریق اور رسومات و آداب انہیں برے لگنے لگے اور اب اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں اور نئی زندگی نے ایک اعلی اقدار کے معاشرہ کی بنیاد رکھ کر انسانی زندگی میں خوشیاں اور امید کی کرنیں روشن کردیں ، اسے عورتوں کے حقوق سے روشناس کرایا جس سے انسان کا عورت کے بارے میں پورا نقطہ نظر اور عملی رویہ بدل گیا .
اسلام نے عورت کو کتنی ترقی دی. کیا بلند مقام دیا ، اس کا اندازہ قرآن کریم کی آیتوں اور احادیث مبارکہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے . اسلام نے دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا تصور و نظریہ جس سے اپنوں کے ساتھ غیر بھی عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اسلام ہی در اصل حقوق نسواں کا علم بردار اور حقیقی ضامن ہے . عورت کو جو تکریم محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دی وہ مغربی معاشرہ اور دوسرے مذاہب نے اسے کبھی نہیں دئے ، اسلام کے بعد عربوں کی زندگی بدل گئی ، اس سے قبل عورت کو کبھی وہ احترام حاصل نہ تھا ، جو اسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات میں ملا ، اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا ، دیگر اقوام کے بالعکس ذاتی جائداد و مال رکھنے کا حق عطا کیا ، وراثت میں اس کا حصہ مقرر کیا ، اور اسے انسانیت کا حق دلوایا ، حالانکہ اس سے قبل اسے باندی بنایا جاتا ، مرد کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا لیکن محمد صلی اللہ علیہ علیہ و سلم نے اسے آزادی ، خود مختاری اور خود اعتمادی کے ساتھ جینے کا حق دیا ، اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا بالکلیہ خاتمہ کیا .
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں اسلام نے عورت کو یہ درجہ اور مقام و رتبہ اسے عطا فرما کر زینت بخشی اور عزت دی تو آج کچھ عورتیں اسلامی تعلیمات کو عار ، بوجھ یا نا انصافی سمجھتی ہیں ، حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ انہیں اپنی پیدائش کا مقصد ہی معلوم نہیں ، اور یہ تمام پیچیدگیاں اہل مغرب سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے جہاں معاشرہ کی پاکیزگی ، حیاء و پاکدامنی اور اخلاق کی کوئی قیمت نہیں ، لہٰذا اس تقسیم کو غیر ضروری سمجھا گیا اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کو رکاوٹ سمجھا گیا ، اہل مغرب میں جب عورت کی آزادی کی ہوا چلی تو مرد نے عورت کو گھر میں رکھنے کو بوجھ اور مصیبت سمجھا ، کیونکہ اس سے ان کی آزادانہ شہوت پرستی کی جڑ کٹ رہی تھی چنانچہ انہوں نے اس کا یہ عیارانہ حل نکالا کہ اس کا نام تحریک آزادی نسواں رکھا اور عورت کو یہ سکھایا اور پڑھایا گیا کہ تم گھر کی چہار دیواریوں میں قید تھی ، اب آزاد ہو . اب تم گھر کے باہر کام کر کے مرد کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر کام پیش پیش رہ کر انجام دے سکتی ہو ، جس طرح مرد دنیا کے کام میں حصّہ لیتا ہے ، اور دنیا کے اعزازات حاصل کر کے اونچے اونچے منصب پر فائز ہوتا ہے اسی طرح تمھارے لئے بھی یہ موقعہ فراہم کیا جا رہا . بیچاری عورت ان مردوں کے نعروں میں پھنس گئی اور ترقی کے ارادہ سے اس نے کالجوں ، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کا قصد کیا اور خوب ڈگریاں جمع کیں اور پھر مردوں کو نوکری کے بہانے اپنی عزت چھیننے کے مواقع فراہم کئے جس کے واقعات بھرے پڑے ہیں .
آپ دیکھیں گے کہ کہیں عورت کو اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سکریٹری بنا دیا گیا تو کہیں تجارت جمانے کے لئے سیلز گرل اور ماڈل گرل بنے کا شرف بخشا گیا اور اس کی عزت کو برسر عام نیلام کیا گیا . وہ عورت جس کے سر پر اسلام نے عزت کا تاج رکھا تھا، جس کو حیاء و عفت سے مالا مال کیا تھا ، اسی کو تجارتی اداروں کے لئے شو پیس بنایا گیا اور نام یہ دیا گیا کہ عورت کو غلامی سے نکال کر آزادی دی گئی ہے . کہیں ہوٹلوں میں ویٹر کی حیثیت سے رکھا گیا تو کہیں مسافروں کے کمروں کی صفائی ستھرائی کے لئے ، کہیں دوکانوں پر مال بیچنے اور دفتروں میں استقبال کرنے پر مامور کیا گیا تو کہیں کسی اور کام کے لئے . یہ کم علمی کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اپنے گھر کی دیکھ بھال اور اپنے شوہر ، والدین ، بھائی بہن اور اولاد کی خدمت کرنا اور ان کے کام میں ہاتھ بٹھانا اور چہار دیواریوں میں محفوظ رہنا ذلت ہے؟ اور کیا دوکانوں میں کام کرنا ، ہوٹلوں میں مردوں کے لئے کھانا پکانا اور ان کے کمروں کی صفائی ستھرائی کرنا اسی طرح ہوٹلوں اور جہازوں میں غیروں کی خدمت کرنا اور دوکانوں میں اپنی مسکراہٹ کے ذریعہ سے گاہکوں کو متوجہ کرنا آزادی اور اعزاز ہے ؟؟؟
آج ہمارا معاشرہ مغربی تہذیب کا شکار ہو چکا ہے ، اگر آپ اسکولوں اور کالجوں کی تعلیمات پر ذرا غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ مغرب کی تعلیم محض دنیاوی تعلیم ہے جو اخلاقی تعلیم سے عاری ہے اس سے معاشرہ کبھی نہیں سنور سکتا ، اہل مغرب نے یہ نعرہ بلند کیا کہ اپنے ملک کی ترقی کے لئے عورتوں کو بھی مرد کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا اور انہیں اس کے لئے آزادی دینی پڑے گی ورنہ ترقی ممکن نہیں ہوگی لہذا اس بات کو خوب ملون کر کے پیش کیا گیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل دنیا ان سے متاثر ہوئے اور ان کے دم میں دم بھرنے لگے ، حالانکہ یہ استدلال بے بنیاد ہے ، اسلام نے عورتوں کو میدان میں پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی ، وہ ہر میدان میں کام کرے لیکن شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے اپنا فرض انجام دیں ، خوب پڑھیں لکھیں ، اعلی تعلیم حاصل کریں لیکن اسلامی وضع قطع کے ساتھ .
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عورت کے مقام مرتبہ کواسلام سے قبل و بعد کے حالات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں پھر اندازہ لگائیں کہ وہ کس دور سے گذری تھی اور ان حالات میں اسلام نے اسے کیا عزت دی .
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عورتوں کے مقام و مرتبہ کو سمجھ کر ان کے حقوق کی ادائیگی اور اسلامی نظام کے مطابق ہمیں اپنی زندگیوں کو گذارنے کی توفیق عطا فرمائے . آمین .