مجسمہ سازی اور تصویر کشی کی حرمت کے دلائل کی پہلی قسط

0
1458

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ،جامعہ آباد تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد سلیمان بن عشیر بن علی المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات .

؛مشرق سے مغرب تک تمام علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ مجسمہ سازی حرام ہے ، کیونکہ اس کی حرمت پر صریح نصوص وارد ہوئے ہیں ، اسی طرح جمہور کے نزدیک تصویر کشی بھی حرام ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” جو لوگ ان صورتوں ( مجسموں ) کو بناتے ہیں ان کو روز قیامت میں عذاب دیا جائے گا ، ان سے کہا جائے گا کہ جن کو تم نے پیدا کیا ہے ان میں جان ڈال دو” ( بخاری ، مسلم ) .

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” جس نے دنیا میں کوئی صورت بنائی تو روز قیامت میں اس کو اس میں روح پھونکنے کا مکلف بنایا جائے گا اور وہ اس میں ( اس کے اندر روح پھونکنے کی طاقت نہ رہنے کی وجہ سے ) روح پھونکنے والا نہیں ہے . ( بخاری ) .

حضرت عائشہ سے روایت کردہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” روز قیامت میں سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا جو ان صورتوں کی تصویر کشی کرتے ہیں “.

حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی کتا یا تصویر ہو”. ( بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ )

مذکورہ بالا تمام احادیث صریحہ و صحیحہ ، مجسمہ سازی اور تصویر کشی کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں ۔

کیا بعض حالات میں مجسمے اپنے گھر میں رکھ سکتے ہیں؟

بعض ایسی احادیث آئی ہیں کہ جن سے بوقت ضرورت مجسمے اور تصاویر کو گھروں میں رکھنے کی رخصت معلوم ہوتی ہے ،جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں .

بچوں کے کھلونے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے وہ کہتی ہیں کہ ” میں بچیوں کے کھلونوں ( گڑیوں ) سے کھیلتی تھی ، بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس اس حالت میں تشریف لاتے کہ میرے پاس لڑکیاں ہوا کرتیں ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( گھر میں ) تشریف لے آتے تو وہ نکل جاتیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لے جاتے تو وہ اندر آتیں ” ( بخاری ، ابوداود )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ تبوک یا خیبر سے اس وقت لوٹ آئے جب ان ( عائشہ ) کے گھر کے طاق میں ایک پردہ تھا ، تبھی ہوا چلی اور اس نے عائشہ کے کھلونے بیٹیوں ( گڑیوں ) کو کھول دیا ، سو آپ نے پوچھا! ” اے عائشہ! یہ کیا ہے؟ ” کہنے لگیں کہ میری بیٹیاں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درمیان ایک ایسے گھوڑے کو بھی دیکھا جس کے پیوندکاری سے دو بازو بنائے ہوئے تھے ، فرمایا! ” ان کے درمیان میں یہ کیا چیز دیکھ رہا ہوں؟ ” کہنے لگیں! گھوڑا ، پوچھا! ” اور اس پر یہ کیا ہے؟ ” کہنے لگیں! دو پر ، فرمایا! ” گھوڑا اور اس کے دوبازو ( بھی ) ؟کہنے لگیں! ( قربان جاؤں ان کی معصومیت پر ) کیا آپ نے نہیں سنا ہے کہ سلیمان ( علیہ السلام ) کے گھوڑے کے کئی بازو تھے ؟ کہتی ہیں! ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے ، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی( مبارک ) کونچلیاں ظاہر ہوئیں ” ( میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قربان ). ( ابو داؤد ، نسائی )

دوسری قسط

ایسی تصاویر دیوار ، کاغذ اور پردہ جیسی چیزوں پر بنانا جائز ہے ، جن کا فی نفسہ کوئی سایہ نہ پڑتا ہو ۔ان کے جواز اور غیر جواز دونوں قسم کی احادیث آئی ہیں ، جواز کے تعلق سے یوں استدلال کیا جائے گا کہ پردوں وغیرہ پر جاندار چیزوں کی تصاویر کی حرمت ہونے کے تعلق سے جو احادیث آئی ہیں وہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھیں ، کیونکہ وہ دور بت پرستی کے قریب تھا ، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں اسلام پختہ ہوگیا تواس میں رخصت دی گئی .

حرمت والی حدیث : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس اس حالت میں تشریف لے آئے کہ میں نے طاق ( طاقچہ ) کو میرے ایک ایسے پتلے پردہ سے ڈھانک کر رکھا تھا جس پر مجسمے یعنی ان کی تصویریں تھیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دیکھا تو اس کو نکال دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور فرمایا! ” عائشہ! روز قیامت میں سخت ترین عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا جو اللہ کی مخلوق کی جیسی صورتیں بناتے ہیں . حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ پھر ہم نے اس کو پھاڑا اور اس کا ایک یا دوتکیے بنائے”.

جن احادیث سے اس کے رخصت کا پتہ چلتا ہے وہ یہ ہیں :

حضرت بسر بن سعید نے زید بن خالد سے انھوں نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے حدیث نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” اس گھر کے اندر فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں صورتیں ہوں ” بسر کہتے ہیں کہ پھر زید نے ( ان کے گھر میں تصویریں ہونے کی ) شکایت کی ، سو ہم نے لوٹ کر دیکھا تو ان کے گھر پر لٹکائے ہوئے پردہ پر صورتیں تھیں ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ میمونہ ( رضی اللہ عنھا ) کے متبنی عبیداللہ سے کہا! کیا زید ہمیں پہلے ہی دن ( جاہلیت کے ابتدائی دور ) سے تصویروں کے تعلق سے نہیں بتایا کرتے تھے ؟ ( کہ یہ ناجائز ہیں؟ ) تب عبیداللہ نے کہا! کیا تم نے انھیں ( اس کے ساتھ ) یہ کہتے ہوئے نہیں سنا ؟ ” مگر کپڑوں پر رہنے والی تصویروں کے ” ( مسلم و اربعہ سنن ) ( یعنی یہ حرام نہیں )

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، وہ کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک پردہ تھا جس پر پرندوں کے مجسموں کی تصویریں تھیں ، جب کوئی ( گھر میں ) داخل ہوتا ، تو وہ اس کے بالکل سامنے پڑتیں ، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” اس کو گھوماؤ ، اس لئے کہ جب بھی میں اندر آتا ہوں اور اس کو دیکھتا ہوں تو مجھے دنیا یاد آتی ہے”. ( مسلم )

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ پردوں وغیرہ پر جاندار چیزوں کا ہونا حرام نہیں ، اس لئے کہ اگر یہ حرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیتے ، نہ کہ اس کو صرف اپنے چہرہ کے سامنے سے ہٹانے کا ، پھر آپ صلی اللہ نے اس کو اپنے مبارک چہرہ کے سامنے سے ہٹانے کی علت یہ بیان فرمائی کہ اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا کی یاد نہ آئے .

ائمہ احناف میں سے امام طحاوی نے اسی علت کی تائید کرتے ہوئے کہا! جزایں نیست کہ شارع نے ابتدائی دور میں تمام اقسام کی تصویروں ہی سے منع فرمایا ، اگر چہ کہ وہ کسی پردہ وغیرہ پر چھڑائی ہوئی ہی کیوں نہ ہوں ، اس لئے کہ صحابہ کرام صورتوں ( مجسموں ) کی عبادت کئے ہوئے زمانہ سے نئے نئے ( بالکل ) قریب تھے ، تو انھیں ان تمام اقسام سے روک دیا ، پھر یہ بات ثابت ہوگئی کہ اب وہ اس سے پوری طرح سے رک گئے ہیں ، تو برائے ضرورت کپڑوں کو بناتے وقت ان میں صورتوں کے استعمال کو مباح کیا .

علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ یہ صرف بچوں کے لئے جائز ہے ، خصوصاً شکل و صورت والے کھلونوں سے کھیلنا ، اور ان کے علاوہ کے لئے جائز نہیں ، اور تصویریں حرام ہیں ، مگر یہ اور وہ صورتیں جو لباس پر منقش ہوتی ہیں ، پھر انھوں نے استدلال کے طور پر مذکورہ زید بن خالد کی حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث لکھی ہے ۔ ( تو کیا آج کل کی موبائل وغیرہ سے فلمائی ہوئی فوٹو گرافی کو ہم مباح ، یا کم از کم ” الضرورات تبیح المحظورات ” کے زمرہ میں نہیں رکھ سکتے ؟

تیسری اور آخری قسط

علامہ وقت حضرت السید سابق اپنی معرکہِ آرا کتاب ” فقہ السنہ” کی تیسری جلد کے صفحہ/264 میں لکھتے ہیں کہ جن صورتوں کا کوئی سایہ نہ ہو ( ان کی شرعی حیثیت ) جن تمام صورتوں کا آگے ذکر گذرا یہ ان جسم والی صورتوں کے ساتھ ہیں جن کا سایہ پڑتا ہو ، رہا مسئلہ ان صورتوں ( تصاویر ) کا جن کا کوئی سایہ نہ ہو ، جیسے دیواروں میں کندہ نقوش اور اوراق پر چھڑائی ہوئی تصویریں ، اور وہ صورتیں جو پردوں اور ملابس پر چھڑائی جاتی ہیں اور فوٹو گرافی ، تو یہ تمام جائز ہے ۔ اور یہ اول اسلام میں ممنوع تھا ، پھر اس کے بعد اس میں رخصت دی گئی ۔ ( انتہی )

اگر ہم اختصار کے ساتھ ائمہ اربعہ کے مسالک پر نظر ڈالیں تو ان ائمہ کے پاس جو سختی اور شدت مجسموں میں نظر آتی ہے وہ لباس ، پردوں اور تکیہ جیسی چیزوں پر بنائی گئی تصویروں میں نظر نہیں آتی ، جیسا کہ علامہ طحاوی کی عبارت گذری اور بہت سارے علماء نے جسم والے کھلونوں کو بھی جائز قرار دیا ہے . رہا مسئلہ ہمارا یعنی شوافعی کا تو وہ یہ ہے کہ اگر کوئی کسی انسان یا جاندار کا کوئی ان اعضاء کا مجسمہ بناتا ہے جس سے ایک آدمی کی جان باقی نہ رہ سکتی ہو تو جائز ہے ، جیسے کسی کا سر کٹے ہوئے انسان کا مجسمہ بنانا یا صرف سر بنانا ، یا سر اور کمر کا حصہ بنانا پیٹ کو چھوڑ کر ، یا پورا جسم ہی بنانا ، لیکن پیٹ کے اندر اتنا بڑا سوراخ بنانا جس کی وجہ سے خوراک پیٹ میں نہ رہ سکے ، یا گردن کے علاوہ کوئی ایسا مجسمہ بنانا جس سے جسم کے اندر روح نہیں رہ سکتی ہو ، تو یہ تمام جائز ہے ، خواہ انسان کا مجسمہ بنایا جائے ، کہ کسی مویشی کا ، کہ کسی پرند اور درند کا ( اس سے صاف واضح ہوا کہ اگر یہ تصویر کی شکل میں ہو تو بالاولی جائز ہوگا ) اور ہمارے پاس بچوں کے کھلونوں کا مجسمہ بنانا اور انکو فروخت کرنا جائز ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی ہمارے قریب قریب ہی مسلک ہے البتہ امام مالک رحمہ کے پاس کچھ زیادہ حلت کی وسعت نظر آتی ہے ، عاقل اور غیر عاقل کا مجسمہ ان کے پاس بھی حرام ہے ، اس شرط پر کہ ایسا مجسمہ بنایا جائے کہ اگر اس میں روح ڈالی جائے تو وہ زندہ رہے ،( شوافعی کی طرح ) البتہ ان کے پاس امام شافعی رحمہ اللہ کی طرح کھلونے مثلا گڑیا گڈا بنانا ، کسی قسم کی گڑیا کی شکل کی ڈمی بنانا وغیرہ جائز ہے ، کیونکہ اس سے بچوں کو گھریلو کاموں وغیرہ کی مشق کرانا مراد ہے ، البتہ ان کے پاس کھلونے فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں یہ مسئلہ نظر نہیں آیا اور یہ بات طے ہے کہ تمام ائمہ اور مجتہدین کے پاس غیر ذی روح کی تصاویر اور مجسمے بنانا بغیر کسی کراہت کے جائز ہے ، جیسے درختوں ، کشتیوں ، گھروں اور دوسری چیزوں کی . واللہ اعلم بالصواب ۔

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here