ولدیت و نسبیت کی تبدیلی کا شرعی حکم

0
1865

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی أبوظبی ، متحدہ عرب امارات .

شریعت میں نسبیت کی بڑی اہمیت ہے اور اسی سے ایک آدمی کا نسب ثابت ہوتا ہے . اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا! ” أُدْعٌوْاهُمْ لِاَبَائهِمْ هٌوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ” انھیں ان کے باپوں سے پکارو ، وہی اللہ کے پاس زیادہ انصاف والا ہے . ( سورۃالاحزاب/5 ) .

اپنے والد کو چھوڑ کر کسی دوسرے شخص کو باپ ہونے کا دعوی کرنے کی حرمت پر نیچے آنے والی احادیث سے استدلال کیا گیا ہے .

عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنه ، أَن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال! ” مَنْ اِدّعَيٰ اِلَي غَيْرِ اَبِيْهِ وَهٌوَبَعْلَمُ اَنّه غَيْرَ اَبِيْهِ ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامْ ” حضرت سعید بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ شخص کا دعوی کیا ( اپنے باپ کے علاوہ شخص کی طرف خود کو جوڑا ) یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کے باپ کے علاوہ شخص ہے تو جنت اس پر حرام ہے “. ( بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، ان تمام محدثین نے سعد اور ابوبکرہ رضی اللہ عنھما دونوں سے روایت کی ہے ) .

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہتے ہوئے سنا ” کوئی ایسا شخص نہیں جو جانتے ہوئے بھی اپنے باپ کے علاوہ شخص ( کے باپ ہونے ) کا دعوی کرتا ہے ، مگر یہ کہ اس نے کفر کیا اور کسی شخص نے کسی ایسی چیز کا دعوی کیا جو اس کی نہیں ہے ، تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم کو بنائے ، اور جو شخص کسی آدمی کو کافر کرکے بلاتا ہے ” یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ” اللہ کا دشمن ” کے الفاظ کہے ہیں اور وہ ایسا ( کافر یا اللہ کا دشمن ) نہیں ہے ، مگر یہ کہ وہ ( قول ) اسی کی طرف لوٹے گا . ( بخاری ، مسلم ) .

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، انھوں نے کہا! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا ” جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کا دعوی کرتا ہے ، یا ( خود کو ) اپنے آقا کے علاوہ کی طرف منسوب کرتا ہے ، تو اس پر مسلسل روز قیامت تک اللہ کی لعنت ہوتی رہے گی “۔ ( ابوداود )

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا! کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ کا دعوی کیا تو وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا اور بلا شبہ وہ اس کی خوشبو ستر سال کے دوری ( کی ) بقدر دوری سے پائے گا ، یا ستر سال کی مسافت سے پائے گا ” ( احمد ، ابن ماجہ ) مگر انھوں نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں اور البتہ بیشک وہ اس کی خوشبو کو پانچ سو سال کی دوری سے پائےگا “۔ ان دونوں محدثوں کے لوگ ( راوی ) صحیح لوگ ہیں ، اور ( سند میں واقع ) عبدالکریم جزری ہیں ، ثقہ ہیں ، ان سے شیخین ( بخاری و مسلم ) وغیرھما نے احتجاج ( دلیل اخذ کی ) کیا ہے . ان کے سلسلہ میں جو کہا گیا ہے اس پر دھیان نہیں دیا جائے گا .

مذکورہ تمام احادیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے شخص کے تعلق سے جانتے بوجھتے ہوئے دعوی کرنا حرام ہے . اسی طرح کسی غیر معروف نسب کی طرف خود کو جوڑنا یا اپنے نسب کا انکار کرنا حرام ہے ، جیسا کہ درج ذیل حدیث اس پر دلالت کرتی ہے .

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، انھوں نے کہا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” جس شخص نے کسی ایسے نسب کا دعوی کیا،جو پہچانا نہیں جاتا ہو ،( جو غیر معروف ہو ) یا کسی نسب کی نفی کی ؛اگر چہ کہ ( ایسا کرنا ) دشوار ہو ، تو اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا “. ( امام طبرانی نے اس حدیث کو حجاج بن ارطاۃ کی روایت سے نقل کیا ہے اور عمرو بن شعیب کی حدیث اس کو تقویت پہونچاتی ہے .

آج کل بہت سارے علاقوں میں دیکھا جاتا ہے کہ جو جمعرات میں پیدا ہوتا ہے اس کو سید ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خاندان ) سے جوڑا جاتا ہے اور غالبا پیر کو پیدا ہونے پر شیخ سے ، یہ سب جایز نہیں ہے .

کیا نسب کی تبدیلی بطلانِ نکاح کا سبب ہے ؟؟

نسب کی تبدیلی سے نکاح کی صحت میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی ، البتہ لڑکی کا نکاح صحیح ہونے کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے ، ہاں! اگر کسی باپ دادا یا ولی نے اپنی ولایت کسی کو سونپ دی تو اس شخص کی ولایت سے نکاح ہوجاتا ہے کیونکہ نکاح کے شرائط میں سے ایک شرط ولی کا ہونا بھی ہے .

نکاح کے پانچ ارکان ہیں : زوج ، زوجہ ، صیغہ ، ولی اور دو گواہ .

دوسری ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کسی مصلحت کے تحت اولاد سے بے نیاز رکھا اور اس شخص نے کسی بچہ یا بچی کو گود لیا تب وہ کیا کرے ؟ ایسی صورت میں گود لینے والے کو مجازاً باپ کہلوانا جائز ہوگا ، لیکن یہ بات اس کو تسلیم کرنی ہوگی کہ وہ اس کا نسبی باپ نہیں ہے اور بچہ بڑا ہونے کے بعد اس کو سمجھا کر کہنا ہوگا ، تاکہ شریعت کا پورا پاس کیا جائے اور وہ اس کا وارث نہیں ہوگا ، بلکہ مجازی باپ کو اپنی اس اولاد کو وقف کرنا یا ہدیتاً اپنا مال دینا جائز ہوگا ۔ ؛واللہ اعلم بالصواب .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here