آہ! آرمے شیرور کی ایک بزرگ شخصیت اللہ کو پیاری ہو گئی

0
1037

رپورٹر : مولانا محمد زبیر ندوی شیروری

مؤرخہ 31/اکتوبر بروز سنیچر بعد نماز فجر محترم جناب اسحاق بن مرحوم علی صاحب بکبا آرمے شیرور ، اپنی عمر مستعار کو مکمل کر کے اپنے اہل خانہ ، پڑوسیوں ، متعلقین اور کنبہ والوں کو داغ مفارقت دے گئے . انا لله و انا الیه راجعون .

مرحوم کی پیدائش 1952 ء میں ہوئی تھی . اس حساب سے آپ نے تقریباً 68/ سال کی عمر پائی . مرحوم کو دو بھائی ، چار بہنیں ، ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں تھیں . ماشاء اللہ سب شادی شدہ ہیں . آپ نے پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنی اولاد کی تربیت فرمائی تھی . لہذا وہ ایک بہترین باپ کے سایہ تلے پروان چڑھی ، آپ نے انھیں دینی و دنیوی تعلیم سے آراستہ کیا اور اپنے گھر کے ماحول کو دین سے آراستہ کرنے کے لئے کوشاں رہے اور اپنے آپ کو گھر والوں کے سامنے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے پیش کرتے رہے .

آپ بہت ملنسار اور اپنے معاشرہ و پڑوسیوں کے ہر دل عزیز تھے ، سب کے ساتھ خوشی و مسرت سے ملتے . لہذا آپ اپنے اہل خانہ اور خاندان والوں کے لئے ایک بزرگ ہستی کے مانند تھے .

مرحوم عبادات کے بڑے پابند شوقین اور دلدادہ تھے . اذان سے قبل ہی مسجد کی طرف نکلتے اور راستہ پر ملنے والے مسلمانوں کو نماز کی طرف بلاتے . آپ نرم مزاج اور ” من صمت نجا ” کے مصداق و آئینہ دار تھے . آپ کو بچوں سے والہانہ شفقت و محبت تھی . آپ اپنے آخری وقت تک عبادت کے لئے پیادہ ہی مسجد جاتے اور اپنی زبان کو زیادہ تر ذکر اللہ سے تر رکھنے کی کوشش کرتے .

مرحوم کا انتقال فجر کی اذان کے بعد اس وقت ہوا جب وہ وضو سے فارغ ہو کر نماز کی تیاری کر رہے تھے کہ انھیں اپنے جسم میں ہلکا سا درد محسوس ہونے لگا جس سے طبیعت ہلکی سی ناساز ہو گئی اور اسی حالت میں کچھ ہی دیر بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملے .

یہ وہی وقت تھا جس میں پروردگار آسمانی دنیا پر آکر اپنے بندوں کو مغفرت کی طرف بلاتا ہے ، سحر کے وقت ان کا اپنے مالک حقیقی سے جا ملنا عند اللہ آن کے مقبول ہونے کی ایک روشن دلیل ہے .

واضح رہے کہ دنیا میں اموات مختلف شکلوں میں ہوتی ہیں جن میں کچھ قابل رشک بھی ہوتی ہیں منجملہ ان میں سے روزہ ، نماز اور تلاوت وغیرہ کی حالت میں ہونے والی اموات بھی ہیں جو ان کی مقبولیت کی دلیل ہوا کرتی ہیں .

اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے ، ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے . آمین .

جو یقین کی راہ پر چل پڑے انھیں منزلوں نے پناہ دی

جنھیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here