مردوں اور عورتوں کے لباس اور حرکات و بول چال وغیرہ میں ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا

0
2085

از : مولانا عبدالقادر بن اسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد ، تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارت . 

لحمد للہ والصلوة والسلام علی رسول اللہ ومن والاہ .

مردوں کا عورتوں کا سا لباس یا عورتوں کی استعمال کی جانے والی اشیاء کو استعمال کرنا اور اسی طرح عورتوں کا مردوں والا لباس پہننا اور ان جیسی شکل و صورت اختیار کرنا حرام ہے . درج ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہوئے ۔

184/1 : عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال ! ” لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم المتشبھین من الرجال بالنساء ، والمتشبھات من النساء بالرجال ” حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے شباھت رکھنے والے مرد اور مردوں سے شباہت رکھنے والی عورتوں پرلعنت بھیجی ” ( بخاری ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، طبرانی ) طبرانی کے الفاظ یہ ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سے ایک ایسی عورت کا گزر ہوا جس نے ایک کمان اپنے گلے میں ڈالی ہوئی تھی ، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اللہ ( رسول کی جگہ میں یہاں لفظ اللہ آیا ہے ) مردوں سے شباہت رکھنے والی عورتوں اور عورتوں سے شباھت رکھنے والے مردوں پر لعنت بھیجتا ہے ” ۔ ( جملوں کے نیچے اوپر ہونے کے ساتھ یعنی بخاری ابوداود اور ترمذی کی روایت کردہ حدیث میں پہلے “شباہت رکھنے والے مرد ” کے الفاظ آئے ہیں اور شباہت رکھنے والی عورتوں کے الفاظ بعد میں ، جبکہ طبرانی کی حدیث میں اس کے برعکس اور لفظ رسول کی جگہ میں لفظ اللہ ، جیسا کہ اس پر تنبیہ گذر گئی . لیکن بعض نسخوں میں جیسے مشکوٰۃ میں ” لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم المتشبھین الخ ” کی جگہ میں ” لعن اللہ المتشبھین الخ ” آئے ہیں ، لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہو اور لفظ ” اللہ ” کے آنے کا بھی سرے سے انکار نہیں کیا جاسکتا . واللہ اعلم .

آج کی بہت ساری لڑکیوں اور عورتوں نے تو اس کو فیشن بنالیا ہے آپ پوری دنیا میں دیکھیں گے کہ عورتیں ٹی شرٹ اور کرتوں قمیصوں میں نظر آتی ہیں اور سلواروں کی جگہ آپ انھیں پینٹوں میں سارے بازار میں گھومتے ہوئے دیکھیں گے ، اس سے کوئی ملک اچھوتا نہیں رہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ مسلمان قوم غیروں سے بھی آگے بڑھی ہوئی نظر آتی ہے افسوس اور صد افسوس کا مقام ہے کہ اس حد تک عورتیں مرد بن کر گھوم رہی ہیں پھر بھی مسلمانوں کا ایک طبقہ اس کو برا ماننے کے لئے تیار نہیں ہے اور بعض لڑکیاں تو آپ کو ٹی شرٹ اور جنس پتلون میں پورے مرد ہی نظر آئیں گی . تف ہے ایسی لڑکیوں اور عورتوں پر اور اس سے بھی بڑی شرم کی بات اور بڑا افسوس ان مردوں پر ہے جو باپ ، بھائی اور شوہر وغیرہ ہوتے ہوئے بھی اندھے بنے ہوئے ہیں . ارے ڈوب مرنے کا مقام ہے ہم مسلمان ہیں ، اسلامی طور و طریقہ کو اپنانا ہمارا فرض اور ذمہ داری ہے اور ہم ہیں کہ پورا کا پورا کام خلاف اسلام کر رہے ہیں ، اگر اب بھی ہم نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور اپنے اسلام اور معاشرہ کے تیں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی نہیں بخشیں گی ۔ لہذا ہمیں یہ تہیہ کر لینا چاہئے کہ ہم اپنے کلچر کو ایک عظیم کلچر کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کریں گے اور اس کی حفاظت کو اپنی اور تمام معاشرہ کی ذمہ داری سمجھیں گے .

آئیے ! آج سے یہ عزم مصصم کرلیں کہ ہم اپنی ماں بہنوں کو آدھے مرد اور مردانہ کپڑے ہرگز پہننے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس کا آغاز ہم اپنے گھروں سے ہی کریں گے تاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت سے ہم بچ سکیں اور کماحقہ اسلامی طریقہ سے زندگی گزار سکیں . اللہ ہم سبھوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے . آمین .

دوسری قسط

پہلی قسط میں اس کے تعلق سے کافی تفصیل گذری اور اس قسط میں بھی اسی کے اطراف واکناف کلام ہوگا .

مرد کے لئے عورتوں کا سا لباس پہننا اور عورت کے لئے مرد کا سا لباس پہننا حرام ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے .

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کا لباس ( پوشاک ) پہننے والے مرد اور مرد کا لباس پہننے والی عورت پر لعنت بھیجی ہے ” ( ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو روایت کیا ہے . اور حاکم نے ) اور انہوں نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے )

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے مردوں اور عورتوں پر صراحتاً لعنت بھیجی ہے جو آپس میں ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں کیونکہ مرد کی ایک اپنی شخصیت ہوتی ہے،اگر کوئی شخص اپنی مردانیت والی شخصیت کو چھپا کر نسوانیت کی سی شکل وصورت اختیار کرتا ہے تو اسکا رعب ، دبدبہ اور رجولیت عورت کے لباس میں چھپ کر رہ جائے گی ، اسی طرح کوئی عورت اگر مردوں کا پوشاک پہنے گی تو پوری مضحکہ خیز لگے گی ، کیونکہ وہ ایک عورت ہے اور عورت کا معنی ہی چھپنا ہے اگر وہ چھپے رہنے کی بجائے خود کو مرد ظاہر کرنے کی کوشش کرے گی تو یہ عورت کی فطرت کے خلاف ہوگا . لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ عورت آزادی کے نام پر ہر وہ کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اس کی عورت پن کے خلاف ہے ، چنانچہ آپ نے بہت ساری ایسی عورتوں کو دیکھا ہوگا جو بڑی بے حیائی سے شرٹ وپتلون پہن کر دھڑلے سے ہر جگہ جاتی آتی ہیں ، اس سے اس کی خوبصورتی میں نکھار آنا تو دور کی بات بلکہ وہ ایک ہیولہ سا نظر آتی ہے . ایسی عورتوں اور مردوں سے اللہ کی پناہ .

168/3: بہت سے ایسے مردوں کو آپ نے دیکھا یا سنا ہوگا ، جو عورتوں کی سی باتیں کرتے ہیں اور اسی طرح کا نرم لہجہ اور ترنم اختیار کرتے ہیں جو عورتیں اختیار کرتی ہیں بلکہ ان کا لہجہ ہی یہی ہوتا ہے اور بہت ساری عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو مرد کا سا رویہ ، ان کا انداز اور انہی جیسا لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہیں .

اس قسم کا ، ایک دوسرے کی زبان اور لہجہ اختیار کرنا حرام ہے ، ایسے لوگوں پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت ہے .

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے شباھت رکھنے والے ، باتیں کرنے والے مردوں ، اورمردوں کی سی شباہت اختیار کرنے والی عورتوں پرلعنت بھیجی ہے ” ( بخاری )

169/4 : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان عورتوں کی طرف مائل ہو کر باتیں کرنے والے مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں سے شباھت رکھتے ہیں ، اور ان مردوں کی طرح ہوکر رہنے والی عورتوں پر ( لعنت بھیجی ) جو مردوں سے شباہت رکھتی ہیں ، اور اکیلے (اختیاراً ) بیابان ( یا بے آب وگیاہ والی جگہ ) میں سفر کرنے والے سوار پر ” ( اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال کو صحیح رجال کہا ہے ، سوائے طیب بن محمد کے ، ان میں کچھ کلام ہے اس کے باوجود یہ حدیث حسن ہے ) .

تیسری قسط

اس قسط میں موضوع کا محور یہ ہوگا کہ برقعہ پردہ ہے یا فیشن ؟ برقعہ نمائش کی چیز ہے یا بدن پر ڈال کر بدن چھپائے جانے والی چیز ؟؟ برقعہ لوگوں کی چبھتی ہوئی اور زہریلی نظروں سے بچنے کا ذریعہ یا ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ ؟؟؟ یہ اور اس قسم کے بہت سارے سوالات موجودہ دور میں برقعہ کی پہنی جانے والی چادر کے متعلق اٹھنا ایک لازمی بات ہے کیونکہ دور حاضر میں جو برقعے پہنے جا رہے ہیں ان میں سے بہت سارے تو برقعے کہلانے کے لائق ہی نہیں ، کیونکہ شریعت عورتوں سے عورت کے بدن پر ڈالی جانے والی چادر سے جو تقاضہ کرتی ہے آج کل کا برقعہ کسی طور سے بھی اس پر پورا نہیں اتر رہا ہے ، کیونکہ اس وقت کی عورت جو برقعہ پہنتی ہے اس سے اس کا بدن اندر کم اور باہر زیادہ رہتا ہے ، پاکدامنی کا ذریعہ کم اور زنا کی دعوت کا زیادہ ، اجنبیوں کی چبھتی ہوئی نظروں سے بچاؤ کم اور انکی رال ٹپکتی ہوئی نظروں کی آسودگی کا ذریعہ زیادہ بنا ہوا ہے ، پاکدامن اور گھریلو عورتوں کے پردہ کا ذریعہ کم اور آزاد خیال اور بے لگام عورتوں کی نمائش کا ذریعہ زیادہ بنا ہوا ہے . اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر انسٹھ میں ارشاد فرماتاہے ” یا أيها النبي قل لازواجك و بناتك و نساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن ” اے نبی اپنی بیبیوں ( ازواج مطہرات مراد ہیں،جو ہماری مائیں ہیں ) اور دختروں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں . ( الاحزاب/59 )

دوسری جگہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے ” وقل للمؤمنات يغضضن من ابصارهن ويحفظن فروجهن ولا يبدين زينتهن إلا ما ظهر منها،ولیضربن بخمرهن علي جيوبهن ” ( اے نبی ! صلی اللہ علیہ و سلم ) مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظروں کو پست ( جھکائے ، بچا کر ) رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار ( زیب و زینت ) نہ ظاہر کریں بجز اس کے جو ( خود سے ) ظاہر ہو جائے ، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں . ( سورۃ النور/31 ) اللہ جل مجدہ کے قول ” اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کرے ” کی تفسیر میں مفسرین کرام کہتے ہیں کہ اپنی زیب و زینت کو کسی غیر محرم ( اجنبی مرد ) پر ظاہر نہ کریں . اور اللہ عزوجل نے اس سے خفیہ ( اندرونی ، پوشیدہ ) زینت مراد لی ہے ، اس کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری بناؤ سنگھار اور دوسرا اندرونی ، اندرونی بناؤ سنگھار میں پا زیب ، پیروں پر مہندی رنگنا ، ہتھیلیوں میں کنگھن پہننا ، بالیاں اور ہار پہننا شامل ہے ، سو کسی عورت کا ایسی چیزوں کو ظاہر کرنا جائز نہیں اور نہ ہی کسی اجنبی کا اس کی طرف دیکھنا جائز ہے . اور قرآن کریم میں آئے ہوئے لفظ ” زینت ” سے مراد زیب و زینت کرنے کی جگہ ہے . اور اللہ عزوجل کے قول ” بجز اس کے جو ظاہر ہوجائے ” سےمراد ظاہری زیب وزینت ہے . اس زینت ظاہرہ کے سلسلہ میں اہلیان علم نے اختلاف کیا ہے جس کو اللہ عزوجل نے مستثنیٰ ( الگ ) کیا ہے ( یعنی بجز اس کے ، کے ذریعہ ) سعید بن جبیر ، ضحاک اور اوزاعی کہتے ہیں کہ یہ چہرہ اور دونوں ہتہیلیاں ہیں ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس سے مراد کپڑے ( لباس ) ہیں ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قول ” خذوا زينتكم عند كل مسجد ” ہر سجدہ ( عبادت ) کرنے کی جگہ پر اپنی زینت سے آراستہ رہو ” سے استدلال کرتے ہوئے حسن ( بصری ) نے کہا کہ چہرہ اور کپڑے ہیں ، ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ سرمہ ، انگوٹھی اور ہتھیلیوں پر مہندی رنگنا ، سو جو ظاہری زینت ہے اس کی طرف کسی اجنبی کا دیکھنا اس شرط پر جائز ہے کہ اس سے کسی فتنہ یا شہوت ابھرنے کا خوف نہ ہو اگر اس قسم کا کوئی خوف ہو تو اپنی نظروں کو جھکالے ” اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینوں پر ڈالیں ” سے مراد چادروں یا برقعوں سے اپنے سینوں کو اس طرح چھپائیں کہ ان کے بال ، سینے ، گردنیں اور انکی بالیاں پوری طرح چھپ جاتی ہوں ۔

لیکن دور حاضر میں کیا ہورہا ہے ، برقعہ کے نام پر ایسی انتہائی چست اور تنگ چادر یا کپڑا لپیٹا جارہا ہے ، جس سے عورت کے اعضاء چھپنے کی بجائے پوری طرح ظاہر اور واضح ہو رہے ہیں اور نہ دیکھنے والا شخص بھی ان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، آج پردہ اور برقعہ کے نام پر عریانیت اور فحاشیت کو عام کیا جا رہا ہے ، ہر طرف کاسیات ، عاریات اور اپنے جسم کی نمائش کرتی ہوئی بہت ساری لڑکیاں نظر آرہی ہیں اور حد تو یہ ہوگئی کہ آج کل برقعوں کی نمائش رینٹ پر بھی کی جارہی ہے اور شادی بیاہ میں مالدار لوگ ایک دولاکھ تو کچھ بھی نہیں ،دسیوں بیسیوں لاکھ برقعہ پر ، بالفاظ دیگر اپنی لڑکی کے جسم کی نمائش پر اڑا دیتے ہیں ، اگر وقت رہتے اس اسراف اور فیشن ایبل برقعوں کو نہیں روکا گیا تو وہ دن دور نہیں ہوگا جب برقعہ صرف نام کا ہی رہ جائے گا .

اللہ عزوجل تمام مسلمانوں اور ان کی ماں بہنوں ، دختروں اور عورتوں کی حفاظت فرمائے اور انھیں ہدایت عطا فرمائے . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here