رزق حلال اور دیگر اچھے کاموں کے لئے علی الصبح نکلنا باعث خیر و برکت

0
2066
Documents related to CFORCO. Photo by Jiro Ose

از : مولانا عبدالقادر بن اسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد ، تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد عشیر بن علی المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارت

الحمد للہ رب العالمین ، والصلوة و السلام اشرف الأنبیاء و المرسلین ، و علی اٰلہ و صحبہ اجمعین ، والتابعین لھم بإحسان إلی یوم الدین . و بعد :

” البکور ” کے معنیٰ باء اور کاف کے ضمہ یعنی پیش کے ساتھ ، طلب رزق اور اچھے کاموں کے لئے صبح سویرے یعنی تڑکے نکلنے کے آتے ہیں

عربی میں بَکَرَ یَبْکُرُ بُکُوْرًا ، ” باب نَصَرَ یَنْصُرُ ” کے وزن پر طلوع آفتاب سے پہلے نکلنے کے معنی میں آتا ہے اور اس کا مصدر ” البُکُور ” ہے اور اسی سے اَبْکَرَ یُبْکِرُ اِبْکَارًا باب إِفْعَالّ کے وزن پر آتا ہے اور نماز فجر اور ضحی کے درمیانی وقت پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ! “و سبح بالعشی والإبکار ” اور تو شام اور صبح میں ( اپنے رب کی ) تسبیح بیان کر ۔ ( سورہ آل عمران/42 )

تلاش رزق اور دیگر تمام اہم کاموں کے لئے صبح سویرے نکلنا سنت ہے ، اس میں برکت رہتی ہے اور کام کو جلدی نمٹانے میں سہولت حاصل ہوتی ہے جیسا کہ 160/1 : حضرت صخر بن وداعہ غامدی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” اے اللہ ! میری امت کے صبح سویرے ( کئے جانے والے کاموں ) میں برکت عطا فرما ” ۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی سریہ ( لشکر کی وہ ٹکڑی جو پانچ سے تین سو فوجیوں پر مشتمل ہو ، اس کی جمع سرایا آتی ہے ) یا فوج کو بھیجتے تو انھیں دن کے ابتدائی وقت ہی میں بھیجتے . اور صخر ( رضی اللہ عنہ ) ایک تاجر تھے ، جب وہ سامان تجارت ( دے کر ) بھیجتے تو دن کے آغاز ہی میں بھیجتے ، سو وہ مالدار ہوجاتے اور ان کے مال میں زیادتی ہوتی ۔ ( ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو نقل کیا ہے . ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے . صخر الغامدی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس حدیث کے علاوہ کوئی اور حدیث نہیں آئی ہے ) اسی طرح کی ایک اور روایت 161/2 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے ، وہ کہتی ہیں ک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ” رزق کو ڈھونڈنے کے سلسلہ میں صبح سویرے جلدی نکلا کرو اس لئے کہ صبح ( سویرے نکلنے میں ) برکت اور کامیابی ہے ” ( اس حدیث کو بزار نے اور طبرانی نے اوسط میں نقل کیا ہے )

صبح کے وقت سونا رزق کی تنگی کا سبب بنتا ہے کیونکہ وہ تقسیم ارزاق کا وقت ہوتا ہے لہذا طلوع آفتاب سے پہلے سونے سے پرہیز کرنا چاہئے جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث اس پر دال ہیں 162/3 : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ” صبح ( طلوع آفتاب سے پہلے ) کی نیند رزق کو روکتی ہے ” ( اس حدیث کو احمد ، بیہقی و غیرھما نے روایت کیا ہے )

163/4 : حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و سلم رضی اللہ عنھا سے روایت ہے ، ( وہ کہتی ہیں ) کہ مجھ پر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر اس حال میں ہوا کہ میں صبح سویرے پہلو لیٹی ہوئی تھی ( یعنی صبح ہونے تک میں اپنے بستر پر پڑی ہوئی تھی ) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ( مبارک ) پیر سے مجھے ہلایا ( یعنی ہلکی سی ٹھوکر ماری ہوگی ، آپ حضرات جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت فاطمہ کو کس قدر چاہتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ ” فاطمہ میرا ایک ٹکڑا ہے ” ) پھر فرمایا ! ” اے بیٹی ! اپنے رب کے رزق کے وقت گواہ رہ ( یعنی تقسیم ارزاق کے وقت حاضر ( بیدار ) رہ  اور غافلین میں سے نہ ہو جا . اس لئے کہ اللہ عزوجل لوگوں کے ارزاق کو طلوع فجر سے طلوع آفتاب کے درمیان تقسیم کرتا ہے ” ( بیہقی ) 164/5 : انہوں ( بیہقی ) نے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صبح کی نماز ادا فرمانے کے بعد فاطمہ پر اس حالت میں داخل ہوئے کہ وہ سو رہی تھیں ۔ پھر آپ نے اسی معنی کی حدیث بیان کی ” ( بیہقی )

165/6 : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طلوع آفتاب سے پہلے سونے سے منع فرمایا ہے ” ( ابن ماجہ )

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ بکور کا یہی معنی اور مفہوم کیا ان تمام لوگوں پر صادق آئے گا جو اپنے رزق ، کام اور دفتروں کے لئے صبح سویرے ہی نکل جائیں یا اپنی اپنی وسعت اور وقت کے مطابق وقت پر نکلیں؟

اس میں شک نہیں کہ بکور یا ابتکار کا معنی صبح سویرے ہی کا آتا ہے یعنی فجر اور ضحی ( چاشت ) کا درمیانی وقت ہے لہذا یہ وقت تمام ہی افراد کے لئے وسعت رکھتا ہے ، کوئی اپنے کام کے لئے فجر کی نماز کے ساتھ ہی نکل پڑے تو اس کے حق میں ، کوئی فجر ادا کر کے کافی دیر کے بعد نکلے تو اس کے لئے اور کوئی طلوع آفتاب کے بعد نکلے تو اس کے حق میں بھی حتی کہ کوئی اگر طلوع آفتاب کے دیڑھ دو گھنٹوں کے بعد بھی نکلا ہو تو اس پر بھی ابکار یا بکور کا لفظ صادق آتا ہے ، تو جس آدمی کی ڈیوٹی فجر کے بعد فورا شروع ہوجاتی ہے تو اس کو ہم کہیں گے کہ بکور ہی میں نکل گیا ہے اور جس شخص کی ملازمت نو ساڑھے نو بجے شروع ہوتی ہے اور وہ اس وقت نکل جاتا ہے ، تو وہ بھی اپنی تلاش رزق کے سلسلہ میں ” بکور “میں جانے والا کہلائے گا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here