رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری
اللہ کا بڑا ہی فضل و کرم ہوا کہ اُس نے پوری عافیت وصحت یابی کے ساتھ رمضان کے روزوں کو پابندی سے رکھنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی اور بھرپور عبادت کا موقع فراہم کیا . لیکن افسوس کہ ہم اس مہمان کا کما حقہ حق ادا نہیں کر سکے . مگر پھر بھی اللہ کی ذات عالی سے امید واثق ہے کہ وہ ہماری ان ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو قبول فرمائے گا اور ہمارے روزوں ، عبادتوں صدقات اور دیگر نیک اعمال کا بہترین نعم البدل دنیا و آخرت میں عطا فرمائے گا . اور ان شاء اللہ اپنی شان کے مطابق نوازے گا .
رمضان ہم سے مفارقت چاہتا ہے جس کی الوداعی صدائیں کانوں میں گونج رہی ہیں . اور ہر مومن فرد بشر سے جدا ہوا چاہتی ہیں . یہ وہی مہینہ ہے جو بے شمار نعمتوں رحمتوں اور اجر و ثواب کا گنجینہ لے کر آیا تھا . نہ معلوم کتنوں نے اس کا پاس و لحاظ رکھا یا غفلت میں گذارا . اللہ ہم سب کو معاف فرمائے . آمین .
ضرورت اِس بات کی ہے کہ رمضان کے ان معمولات کو غیر رمضان میں بھی انجام دیں اور اس رمضان کو حیات نو کا آغاز بنائیں تاکہ زندگی کے بقیہ لمحات بھی دینی نہج پر بسر ہوں . دل میں تقوی کی صفت پیدا ہو اور حتی المقدور گناہوں سے اجتناب کی کوششیں ہوں .
اللہ تعالیٰ نے ہم مومن بندوں اور بندیوں کے لئے دو عیدیں طے فرمائی ہیں . ایک عید الاضحی اور دوسری عید الفطر . لیکن ہمیں ان کو غیروں کے تہواروں کی طرح شور و شغف ، إسراف ، فضولیات ، رسم و رواج ، ناچ گانوں اور بے حیائی کے کاموں کے ساتھ منانے سے پرہیز کرنا چاہئے . ہمارے بعض مسلمان برادران غیروں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے ان عیدوں میں بھی غیروں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں جبکہ حدیث کا قطعہ ہے ” من تشبّه بقوم فھو منه ” یعنی جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں شمار کیا جائے گا . لہذا اس وعید سے اجتناب ضروری ہے .
مسلمانوں کے لئے دونوں عیدیں جہاں ان کے لئے خوشی کا باعث بنتی ہیں وہیں خوشی کی مناسبت سے عبادات کا بہترین ذریعہ بھی . غیروں میں خوشی کے مواقع پر اسراف ، فضول کام اور گناہ زیادہ ہوتے ہیں جبکہ مسلمان ان کو انفاق فی سبیل اللہ اور تکبیرات و عبادات سے مزین و منور کرتے ہیں .
ایک روایت میں وارد ہے کہ جس نے پانچ راتوں کی عبادت کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئ . آٹھ ذی الحجہ ، عرفہ ، پندرہ شعبان اور عیدین کی راتیں .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ” جس نے عیدین کی رات میں عبادت کی ، اس کے قلب پر پژمردگی نہ چھائے گی جس دن سارے دلوں پر پژمردگی چھائے گی .
ضرورت اس بات کی ہے کہ عید کو ناچ گانوں ، فضولیات اور من گھڑت رسم و رواج میں نہ گذارا جائے بلکہ عید کی مسنون تکبیرات میں گذارا جائے . یہ انعام اور مزدور کو اپنے اجرت کی وصولی اور اپنے رب کو راضی کر کے اپنی مغفرت کرانے کا دن ہے .
اس خوشی کے موقعہ پر اپنے تمام بھائیوں کی خطاؤں کو معاف کیا جائے ، اپنے رشتہ داروں اور دوست و احباب سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ تمام امت مسلمہ کے لئے دعائیں کی جائیں .
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم پر اس طرح کی خوشی کے مواقع ہر سال لوٹاتا رہے . آمین .