گھر کے ماحول کو پرسکون بنانے میں بہو کا کردار

0
1225

رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کو ان کی پرورش کے آخری مراحل کے بعد جب وہ بلوغ کی عمر کو پہونچ جاتی ہے تو ان کا بیاہ کرا دینا چاہتے ہیں.تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی ادائیگی کی ذمہ داری سے دست بردار ہو سکیں . اور یہ اولاد کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ، گناہوں سے حفاظت ، اپنی آبرو کی حفاظت ، متعدد امراض سے نجات اور ایک بہترین ماحول کا ذریعہ بن سکے .

اسی طرح گھریلو اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ بچوں کی افزائش اور ان سے حاصل ہونے والی فرحت و انبساط کا ذریعہ ہے ، یہی وہ چیز ہے جس کے حصول کے لئے ﮨﺮ گھرانہ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮍﮮ اﺭﻣﺎنوں ﺳﮯ ﺑﮩﻮ ﺑﯿﺎﮦ ﮐﺮ ﻻﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺗَﻮَﻗُّﻌﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ ﺗﻮ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺍﺭﻣﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻭﺱ ﭘﮍ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ . لہٰذا ان حالات میں ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺍﻣﻦ ﮐﺎ ﮔﮩﻮﺍﺭﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﮦ ﮐﺮ ﻻﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﮩﻮ ﮐﺎ ﮐﺮﺩﺍﺭ بہت ہی ﺍہمیت کا حامل ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ . ﺍﮔﺮ ﺑﮩﻮ ﺣﺴﻦِ ﻣُﻌﺎﺷَﺮَﺕ ، ﺳﻠﯿﻘﮧ ﺷِﻌﺎﺭﯼ ، ﻋﺰّﺕ ﺍَﻓﺰﺍﺋﯽ ، ﺳﻤﺠﮭﺪﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﻨﺴﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﮯ ﺗﻮ ﺳﺎﺱ و ﺳﺴﺮ ﺯﺑﺎﻥِ ﺣﺎﻝ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ کہ ” ﺑﮩﻮ ہو تو ایسی ہو “ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﮩﻮ اگر چرب ﺯﺑﺎﻥ ، ﮐﺞ ﻓﮩﻢ ، ﻣﺰﺍﺝ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ، ﻏﺼﯿﻠﯽ ، ﭘﮭﻮﮨﮍ ، ﻓﻀﻮﻝ ﺧﺮﭺ ، ﺿﺪﯼ ، ﮐﺴﯽ ﮐﻮ خاطر میں نہ لانے ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﻏﺮﺽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﺎﺱ و ﺳﺴﺮ ﺯﺑﺎﻥِ ﻗﺎﻝ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ کہ” ایسی ﺑﮩﻮ سے اللہ کی پناہ “ ﺍﺏ ان کے دلوں کو اپنے بہترین اوصاف سے جیتنے کا ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺑﮩﻮ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ہوتا ﮨﮯ .

اسی حل کے لئے ﺍِﺳﻼﻣﯽ ﻭ ﺍَﺧﻼﻗﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﺰﺭﮔﺎﻥِ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﻓﺮﺍﻣﯿﻦ ﻭ ﻧﺼﺎﺋﺢ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ میں ﭼﻨﺪ مھکتی کلیوں کی شکل میں کچھ مفید باتیں بطور رہنمائی ﭘﯿﺶ کی جارہی ہیں ، ﺍﻣﯿﺪ ﮐﮧ اگر ﺑﮩﻮ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﭘﯿﺮﺍ ﮨﻮجائے ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮩﮧ ﺍﭨﮭﯿﮟ ﮔﮯ کہ ” ﺑﮩﻮ ہو تو ایسی ہو “

ﺯﻧﺪﮔﯽ کی ایک تقسیم ازدواجی و غیر ازدواجی کے اعتبار سے بھی کی جاتی ہے ، لیکن ہماری بحث کا موضوع ازدواجی زندگی ہے جب عورت ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮩﻮ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻧﺌﮯ ﮔﮭﺮ ، ﻧﺌﮯ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﻧﺌﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ تو اسے اپنی ﺳﻤﺠﮭﺪﺍﺭﯼ سے کام لیتے ہوئے سب سے ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮨﺎﮞ کے ﻣﺎﺣﻮﻝ ، ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﺻﻮﻝ ﻭ ﺿﻮﺍﺑﻂ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے ، کیونکہ ﺑﯿﻨﮏ (Bank) ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﯿﻨﺠﺮ ﺳﮯ ﭼﯿﮏ (Cheque) ﮐﯿﺶ (Cash) ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺪ ﮐﺮﮮ ﯾﺎ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻟﯿﮧ کاؤنٹر (Reception) ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﮨﻮﭨﻞ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺪ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺮﺍﺩ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﯽ ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺑﮩﻮ ﮐﻮ ﻧﺌﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ اور ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﻭ ﻟﻮﺍﺯﻣﺎﺕ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﭼﺎﮨﺌﯿﮟ . ﻋﻤﻮﻣﺎً ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡِ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻣﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺑﮩﻮ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ کو ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ کرنے سے پرہیز کرنا ﭼﺎﮨﺌﮯ ، ﺟﺘﻨﺎ ﮐﺎﻡ ﺳﻮﻧﭙﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗَﻦ ﺩَﮨﯽ ﺳﮯ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻣُﻌﺎملہ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﻧﻨﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ لینے کی کوشش کرتی رہے . ﺳﺴﺮﺍﻝ میں ﻣﯿﮑﮯ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣَﻦ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮯ ﻗﺼﮯ ﺳﻨﺎ کر ﺳﺴﺮﺍﻝ ﮐﻮ ﻧﯿﭽﺎ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮنے سے پرہیز کرنا چاہئے ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ بے حیثیت ﺑﺎﭖ کی اولاد ﺑﻨﻨﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ . اگر ﮔﮭﺮ ﮐا ﻧﻈﺎﻡ ، پکوان کا ﺍﻧﺪﺍﺯ ، ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﺮﺗﯿﺐ ، ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺩﻭﮞ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻧﺎﻣﻨﺎﺳﺐ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺑﺮﻣﻼ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺮﻧﮯ کے ﺑﺠﺎﺋﮯ ﭘﯿﺎﺭ و ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﺎﻭﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﺭﺳﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮنا چاہئے ، کیونکہ ﺑﻼﻭﺟﮧ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﮐﺮسکتی ﮨﮯ . ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ کے کھانوں پر کسی بھی قسم کا موازنہ کئے بغیر میکے کے ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺗَﻮﮮ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮭﺎنے کو ترجیح دینا چاہئے ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭘﺴﻨﺪ و ناپسند ﭘﺮ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﮐﺮﮐﮯ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﺟﮭﮕﮍﮮ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻋﺎﺩﯼ بنانا چاہئے . ﺍﮔﺮ ﺳﺎﺱ ﯾﺎ ﺳﺴﺮ کسی غلطی پر ﮈﺍﻧﭧ کرﯾﮟ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮنے کی کوشش کرنا چاہئے ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺍخ دﻟﯽ ﺳﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮﮐﮯ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺟﯿﺘﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮنا چاہئے اور ﺟﻮﺍﺑﯽ غصہ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ہر معاملہ میں نباہ کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ ﻧﻘﻄﮧٔ ﻧﻈﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭺ کی ﺗﺒﺪیلی سے ﺑﮭﯽ ﺑﮍے بڑے ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺣﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ‏اس کا اندازہ آپ اس فرضی حکایت سے بآسانی لگا سکتے ہیں کہ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ ، ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ٹخنہ ﭘﺮ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻟﮕﯽ ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ غصہ ﺳﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ مڑ کر ﺩﯾﮑﮭﺎ ، ﻟﯿﮑﻦ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻏُﺼّﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﻭ ﺧﺪﺍﺗﺮﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﮔﯿﺎ ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺑﮯﭼﺎﺭﮦ ﭼﮭﮍﯼ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﭨﭩﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺍﺏ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺍِس بندہ ﻧﮯ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﮐﻮ تسلی دی اور مزید برآں ﺳﮍﮎ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﺭ ﮐﺮﻭﺍﺩﯼ ، ﺍِﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺲ ﺩﻥ ﺑﮩﻮ ﺳﺎﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩیگی ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺍﻓﻌﺎﻝ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﻃﺮﺯِﻋﻤﻞ سمجھنے لگے ﮔﯽ تو بہت سارے ﻣﺴﺎﺋﻞ و جھگڑے ﺣﻞ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ، ﻭرنہ وہی ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﮐﮍﻭﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮنے والی ، ﺳﺎﺱ ﮐﯽ ﻣﯿﭩﮭﯽ ﺑﺎتوں کو ﺑﮭﯽ ﮐﮍﻭﯼ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ اور نت نئے مسائل کھڑا کرے گی . اسی لئے ہر ماں کو اپنی اولاد کی تربیت اور اخلاق واطوار کو درست کرنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ وہ ہر موڑ پر کامیاب ہو سکے خواہ وہ گھریلو زندگی ہو کہ خارجی ، لیکن اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مائیں اپنی اولاد کو چھوڑ کر دوسروں کی اصلاح کی فکر زیادہ کرتی ہیں اور خود اپنی اولاد کو ہی بھول جاتی ہیں خصوصاً وہ عورتیں جو تعلیم یافتہ نہیں ہوتیں .

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اس معاملہ میں ہر وقت محتاط رہیں . کیونکہ اولاد کی غلطی پر سب سے پہلے انگلی انھیں پر اٹھے گی .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here