بچوں کے روزوں کی شرعی حیثیت

0
979

از : ابواللیث بن عبدالمجيد بنگالی ، ساکن فردوس نگر ، تینگن گنڈی

شرعی حیثیت سے یہ بات صاف اور واضح ہے کہ بچے سن بلوغت سے قبل کسی بھی شرعی احکام کے مکلف نہیں ہوتے ، خواہ وہ احکام عبادات سے متعلق ہوں یا معاملات سے ، معاشرت سے متعلق ہوں یا زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق ہوں ، الا یہ کہ وہ سن بلوغ کو پہونچ جائیں .

منجملہ ان احکامات میں سے ایک حکم روزہ بھی ہے جو صرف سال کے ایک ہی مہینہ رمضان المبارک میں فرض ہوتا ہے اور اپنے ایک خاص مقام و مرتبہ اور اہمیت و فضیلت کے پیش نظر مسافر ، سخت بیمار اور حائضہ عورت سے بھی ہمیشہ کے لئے ساقط نہیں ہوتا بلکہ عارضی رخصت کے ایام گذر جانے کے بعد بھی دوبارہ قضاءاً رکھا جاتا ہے .

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ اپنی اس عظمت اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے بچوں سے بھی ساقط ہوگا یا نہیں ؟؟

در حقیقت روزہ بچوں کے ذمہ سے تو ساقط ہو جاتا ہے ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اُس حدیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا! ” رُفع القلم عن ثلاثة ، عن النائم حتى يستيقظ وعن المبتلى حتى يبرأ وعن الصبي حتى يكبر “. یعنی تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ایک سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے دوسرا مریض یہاں تک کہ وہ شفایاب ہو جائے اور تیسرا بچہ یہاں تک کہ وہ بڑا یعنی بالغ ہو جائے . ( ابو داؤد )

البتہ ان کے والدین کے لئے مسنون ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اگر وہ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں تو انھیں روزوں کا عادی بنانے کے لئے موقعہ محل اور صحت و گرمی سردی کا لحاظ رکھتے ہوئے روزوں کا حکم دیتے رہیں ، تاکہ جب وہ سن بلوغ کو پہونچیں تو روزوں کو پابندی کے ساتھ رکھ سکیں اور اس بنیادی اسلامی رکن پر بآسانی عمل پیرا ہو سکیں .

بلوغ سے پہلے بچوں سے روزہ رکھوانے کے تعلق سے کسی خاص عمر کی وضاحت شرعی حیثیت سے وارد نہیں ہوئی ہے ، البتہ بچوں کے روزوں کے حکم کو نماز کے حکم پر محمول کیا گیا ہے کیونکہ دونوں ہی عبادات ارکان اسلام میں شامل ہیں لہذا بچوں کے لئے روزہ کا حکم دینے کی مناسب عمر سات سال ہوگی کیونکہ آپ کا نماز کے تعلق سے سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کی تاکید کا حکم موجود ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ” مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ “. یعنی اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائے اور اس کو نماز نہ پڑھنے پر مارو جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائے اور ان کے بستروں کو الگ کرو .

ابو داؤد/495 ، احمد/6650 ، البانی فی الارواء/247 . و صححه

خلاصہ کلام یہ کہ بچوں سے روزہ رکھوانے کے لئے کسی خاص عمر کی قید نہیں بلکہ بچوں کی صحت اور طاقت و قوت اور ان کی بھوک کو برداشت کرنے کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے روزہ رکھوانے کی عادت ڈالی جاسکتی ہے اور ضرورت پر روزہ کو قبل از وقت افطار بھی کرایا جا سکتا ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی اپنے بچوں سے روزہ رکھواتے تھے اور انھیں بھوک کا احساس ہونے پر افطار تک کھلونوں سے بہلانے رہتے تھے جیسا کہ درج ذیل بخاری کے کتاب الصیام میں بچوں کے روزہ رکھنے والی حدیث نمبر 1960 سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے .

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَکْوَانَ عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ قَالَتْ! أَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِليٰ قُرَی الْأَنْصَارِ ، مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ ، وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا فَليَصُمْ قَالَتْ! فَکُنَّا نَصُومُهُ بَعْدُ وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا وَنَجْعَلُ لَهُمْ اللُّعْبَةَ مِنْ الْعِهْنِ ، فَإِذَا بَکیٰ أَحَدُهُمْ عَلَی الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّی يَکُونَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا ، ان سے بشر بن مفضل نے بیان کیا ، ان سے خالد بن ذکوان نے بیان کیا ، ان سے ربیع بنت معوذ ( رضى الله عنه ) نے کہا کہ عاشورہ کی صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار کے محلوں میں کہلا بھیجا کہ صبح جس نے کھا پی لیا ہو وہ دن کا باقی حصہ ( روزہ دار کی طرح ) پورا کرے اور جس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ روزہ سے رہے . ربیع نے کہا کہ پھر بعد میں بھی ( رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد ) ہم اس دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں سے بھی رکھواتے تھے ، انھیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے ، جب کوئی کھانے کے لئے روتا تو وہی دے دیتے ، یہاں تک کہ افطار کا وقت آجاتا ۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلامی تعلیمات کو اس کے صحیح پس منظر میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here