پانی کے جہاز سب سے پہلے بنانے اور چلانے والے

0
2898
دنیا کے قدیم ترین جہاز سب سے پہلے مصریوں نے بنائے ۔ اس بات کو پانچ ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ قدیم مصری باشندے تہذیب یافتہ تھے اور انھوں نے یہ ابتدائی جہاز دریائے نیل پر چلانے کے لئے بنائے تھے ۔ مصر کے شمال میں بحیرہ روم واقع ہے ۔ دریائے نیل جنوب سے آکر اسی سمندر میں گرتا ہے ۔
جب قدیم مصریوں کو اپنے ابتدائی جہاز دریائے نیل پر چلانے میں کامیابی ملی ، تو ان کا حوصلہ بڑھا اور وہ دریائے نیل سے نکل کر کھلے سمندر میں آگئے ۔ اس طرح ابتدائی جہاز بحیرہ روم پر آئے ۔ اُس زمانہ میں بھاپ یا تیل سے چلنے والا انجن ایجاد نہیں ہوا تھا ، اس لئے ان جہازوں یا بحری کشتیوں کو چپوؤں کی مدد سے چلایا جاتا تھا ۔ ایک کشتی میں بیس یا بیس سے زیادہ آدمی چپو سنبھال کر بیٹھتے تھے اور سب ایک ساتھ زور لگا کر اسے چلاتے تھے ۔ جتنے آدمی کشتی کے ایک طرف بیٹھتے تھے ، اتنے ہی آدمی اپنے اپنے چپو سنبھال کر دوسری طرف بیٹھتے تھے ۔ کشتی پر بادبان بھی لگا ہوتا تھا ۔
مصر کے شمال میں بحیرہ روم واقع ہے ۔ اس کے مشرقی ساحل پر ایک الگ قوم آباد تھی ۔ تجارت کا سامان لانے اور لیجانے کے لئے وہ بڑی اور مضبوط کشتیاں بناتے ۔ وہ صرف بحیرہ روم کا ہی سفر نہیں کرتے تھے بلکہ اس سے آگے بحر اوقیانوس پر بھی نکل جاتے تھے۔ وہ مغربی یورپ اور برطانیہ کے قدیم باشندوں کے ساتھ بھی تجارت کرتے تھے ۔ اس قوم کے بعد جن لوگوں نے بحری قوت حاصل کی ، وہ قدیم یونانی تھے ۔ یونانیوں کی طرح قدیم رومن باشندے بھی جنگی کشتیاں استعمال کرتے تھے ۔ اہلِ روم کے جہاز چھوٹے ، لیکن مضبوط ہوتے تھے ۔ تجارتی سامان کے لئے ان میں خاصی جگہ رکھی جاتی تھی اور بادبان اس طرح لگایا جاتا تھا کہ جہاز کی رفتار اور طاقت بڑھ جائے ۔ یہ جہاز روم کی مختلف بندرگاہوں کے درمیان سفر کرتے تھے ، جو پورے مغربی یورپ میں پھیلے ہوئے تھے ۔ ان کی حکومت برطانیہ پر بھی تھی ۔ پورے علاقہ میں فوج رہتی تھی ، جس کے لئے رسد ان کشتیوں پر ہی جاتی تھی ۔
جب سفر کی نئی راہیں کھلیں ، دلیر ملاّح نئے سمندروں پر پہنچے ۔ مثلاً 1492 ء میں کولمبس نے بحر اوقیانوس کو بحری جہاز کی مدد سے پار کیا اور ایک نئی دنیا دریافت کی ، جس کا نام امریکا پڑا ۔ اسی طرح کمپاس کی مدد سے 1497ء میں واسکوڈی گاما نے افریقا کے جنوبی سرے سے چاروں طرف سفر کیا اور جون کیبٹ نے نیو فاؤنڈلینڈ ( نیا دریافت کردہ ملک ) دریافت کی ا۔ 1514ء میں انگریزوں نے ’’ وول وچ ‘‘ بندرگاہ میں ایک نیا جہاز پانی میں اتارا ، جس پر اُس زمانہ کے شاہ برطانیہ ہنری ہشتم اور تمام اہلِ برطانیہ کو فخر تھا ۔ یہ جہاز ، جہازرانی کی تاریخ میں ’’ گریٹ ہیری ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ۔ اس کا وزن ڈیڑھ ہزار ٹن تھا اور اس پر چار بادبان لگائے گئے تھے ۔ اس کے ’’ محلّاتات ‘‘ دور سے نظر آتے تھے ۔ ملاّحوں کی تعداد 907 تھی اور اس پر 195 توپیں نصب تھیں ۔ اس کے چاروں طرف مختلف رنگوں سے خوب صورت نقش و نگار بنائے گئے تھے اور نہایت خوب صورت جھنڈے لہرا رہے تھے ۔ برطانیہ کئی جزیروں پر مشتمل ہے ، اس لئے بحری جہازوں کے بغیر کہیں آنا جانا ممکن نہ تھا ۔ اس لحاظ سے وہاں جہاز رانی اور جہاز بنانے کے فن نے بے حد ترقی کی ۔

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here