کورونا وائرس طاعون اور دیگر وبائی امراض کا ایک علمی جائزہ

0
9005

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی أبوظبی ، متحدہ عرب امارات .

اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو خوف بھوک قحط سالی اور جان و مال کے نقصان کے ذریعہ آزمائے گا جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے ” ولنبلونکم بشیئ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات ” اور ہم تمھیں ضرور ( دشمن کے ) کچھ خوف ( ابن عباس کی تفسیر ہے ) اور بھوک ( خشک سالی ) اور کچھ مالوں اور جانوں ( کے قتل ، موت اور بیماریوں ) اور پھلوں کی کمی ( تباہی مچانے ) کے ذریعہ آزمائیں گے . ( یعنی خدا کی قسم ہم ضرور تمھیں آزماکر دیکھیں گے اَیا تم صبر کرتے ہو کہ نہیں ؟ ( جلالین ) اللہ تعالیٰ کی جانب سے ابتلاء ( یعنی آزمانا ) سے مراد گنہگار سے فرمانبردار شخص کو ظاہر کرنا ہے ، نہ یہ کہ کسی نامعلوم چیز کو جاننا ( بغوی )

سب سے پہلی طاعونی وبا کہاں پھیلی تھی ؟

سیدنا عمر بن الخطاب اور طاعون عمواس : طاعون ایک ایسا عام مرض ( وبا ) ہے جو بہت سارے لوگوں کی وفات کا سبب بنتا ہے . یہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں طاعون عمواس کے نام سے مشہور حادثہ واقع ہوا تھا ،

یہ وبا سنہ 18/ہجری میں بیت المقدس کو فتح کئے جانے کے بعد واقع ہوئی ، اس وبا کو “طاعون عمواس” کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ فلسطین میں رملہ اور بیت المقدس کے درمیان والی ایک چھوٹی سی بستی ” عمواس ” ہے ، چونکہ پہلے پہل طاعون اسی بستی میں پیدا ہوا ، پھر پھیلتے پھیلتے اس نے پورے بلادِ شام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، لہذا اسی بستی کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس بیماری کو ” طاعون عمواس ” کہا گیا .

ڈاکٹر علی صلابی اس کی ایک اور علت یہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس بلاء کے ساتھ انتہائی درجہ احتیاط بایں طور برتی کہ جب آپ نے اس ملک میں طاعون پھیلنے کی خبر سنی تو وہیں سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس لوٹے اور شام میں جانے کا اپنا ارادہ ملتوی کردیا ۔ لہٰذا اس وجہ سے اس کو طاعون عمواس کہا گیا .

کورونا کیا ہے ؟

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ موجودہ دور کی ایک سخت آزمائش ” کرونا کوڈ 19 ” کیا ہے ؟

باور کیا جاتا ہے کہ پہلے پہل کورونا دسمبر کے اواخر میں چین کے ” وھان ” نامی شہر سے بری ( خشکی کے ) حیوانات کی خرید و فروخت کے درمیان ظاہر ہوا اور اس کے شہریوں کا جنوری میں چھٹیاں گذارنے کے لئے مختلف ممالک کا سفر کرنے کے ساتھ انتہائی تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں پہونچا اور آج یعنی 6/4/2020 تک یہ وباء تقریبا دوسو ممالک تک پھیل چکی ہے اور اس تیزی کے ساتھ کہ پوری دنیا میں اب تک اس کے متاثرین کی تعداد حیرت انگیز طور پر ساڑھے تیرہ لاکھ سے پار کر گئی ہے اور 74/ہزار سے زیادہ لوگوں کو اپنا لقمہِ اجل بنا چکی ہے ۔ ( اللھم احفظنا من کل بلاء الدنیا ومصیباتھا وفتناتھا وعذاب الآخرہ ، اللھم انا نعوذبك من البرص والجنون والجذام ومن سیئ الأقسام ، اللھم انا نعوذبك من کل الاوبیة من الطاعون والکرونا )

مرکزی وزارت صحت کی کل شام چھ بجے کی ویب سائٹ سے لی گئ خبر کے مطابق بھارت میں اب تک ” کرونا کووڈ 19 ” وائرس سے متاثرین افراد کی تعداد 4281 تک پہنچ گئی ہے اور اس میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے ، جن میں سے اب تک 318/متاثرین صحت یاب ہوئے ہیں اور 111/افراد نے داعئِ اجل کو لبیک کہا ہے ۔

تیزی سے اس وائرس کی لپیٹ میں آئے ہوئے چند ممالک کی تصویر کچھ اس طرح ہے

امریکہ : اس ملک میں کسی بھی ملک سے سب سے زیادہ ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں اور لوگوں میں بہت زیادہ خوف وہراس پھیلا ہوا ہے اور مہلوکین کی تعداد ساڑھے دس ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے ۔

اٹلی میں مہلوکین کی تعداد ساڑھے سولہ ہزار سے بھی زیادہ ہے اور یہ تعداد دوسرے کسی بھی ملک کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہے .

ہسپانیہ : یہاں اب تک ساڑھے تیرہ ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں .

فرانس میں نو ہزار کے قریب جانیں گئی ہیں .

اور برطانیہ میں چھ ہزار سے زیادہ لوگ اب تک موت کی آغوش میں پہنچ چکے ہیں ( اور تازہ ترین اطلاع کے مطابق برطانیہ کے 55 یا 56 سال کے وزیر اعظم ” بورس جانسن ” کو بھی کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ” ICU ” میں داخل کیا گیا ہے اور ان کی حالت قابل اطمئنان نہیں ہے کچھ ہی روز قبل انھیں برطانیہ کے بازار میں خریداری کرتے اور لوگوں سے ملتے اور تصاویر کھنچواتے ہوئے دکھایا گیا تھا ) .

دوسری قسط

کیا طاعون اور کورونا جیسے وبائی امراض میں وفات پانے والے مؤمنوں کو شہادت کا درجہ ملے گا ؟ .

اگر طاعون و کورونا کووڈ 19 جیسے وبائی امراض کسی ریاست یا ملک میں پھیلنے لگے تو اجتماع کے مراکز میں جانے سے گریز کرتے ہوئے ثواب کی نیت سے اس اعتقاد کے ساتھ گھروں میں رکے رہنا کہ مقدر میں جو ہے وہ ہوکر ہی رہے گا تو اس پر اس کو شہید کا ثواب ملے گا ، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے ، وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے طاعون کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” إنه کان عذابا یبعثه الله علی من یشاء ، فجعله رحمة للمؤمنین ، فلیس من رجل یقع الطاعون فیمکث فی بیته صابرا محتسبا یعلم انه لا یصیبه الا ما کتب الله له الا کان له مثل اجر الشھید “.

یہ ایک ایسا عذاب ہے اللہ جس پر چاہتا ہے اس پر یہ بھیج دیتا ہے ، سو وہ اس کو مؤمنین کے لئے رحمت بناتا ہے ، کوئی شخص ایسا نہیں جو طاعون ( یا موجودہ وقت میں کورونا ) میں مبتلا ہو اور وہ اپنے گھر میں صبر کرتے ہوئے ، اللہ سے اس کے اجر کی امید رکھتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ اسے وہی چیز ( بیماری ) پہونچے گی جو اللہ نے اس کے لیے لکھ رکھی ہے ، اپنے گھر میں ٹہرا رہا ، تو اس کے لئے شہید کے اجر جتنا اجر ( ثواب ) ملے گا ۔ ( بخاری ، نسائی نے سنن کبریٰ میں اور امام احمد نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ) .

اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو طاعونی وبا کی یہ حدیث ہمارے اس دور میں بڑے پیمانہ پر پورے عالم میں ہلاکت کا بازار گرم کر کے تباہی وبربادی مچانے والی وبا ” کورونا کووڈ 19 ” پر پوری طرح اترتی ہے ، بلکہ اس سے بھی زیادہ تباہی مچانے والی ثابت ہو رہی ہے ، جہاں ساری دنیا میں اس بیماری نے لگ بھگ بیس لاکھ لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور تقریبا ایک لاکھ کے قریب لوگ اب تک اس بڑی بیماری سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، جہاں اس بیماری نے آدھی کو دنیا میں گھر بیٹھنے پر مجبور کیا ہے وہیں لاکھوں کی تعداد میں کمپنیوں سے ملازمین کی چھٹی ہوئی ہے ، اسی طرح ایک طرف اقتصادی ، تجارتی اور تعلیمی طور پر عالمی پیمانہ پر بہت برا اثر ڈالا ہے تو دوسری طرف مساجد کو مقفل کیا ہے ، مزید برآں رمضان المبارک قریب ہی دستک دینے والا ہے لیکن رمضان المبارک تک مساجد کو کھولنے کا کوئی اندازہ نہیں ، اسی طرح عمرہ پر بھی پابندی لگائی گئی ہے اور اگلے چند ہی ماہ میں حج بیت اللہ کا آغاز ہونے والا ہے لیکن سعودی حکام ابھی ہی سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ابھی سے ہی حج کا ارادہ نہ کیا جائے . اللھم احفظنا .

مذکورہ تمام چیزوں کی طرف دیکھتے ہوئے تمام لوگوں پر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اس بڑی وبا سے بچنے کے سارے طریقوں کو بڑی تندہی کے ساتھ بروئے کار لاتے ہوئے پوری طرح ان پر عمل کریں ۔

کیا طاعون ( یا کورونا ) ایک عذاب اور سزا ہے ؟

بہت ساری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی بیماریاں نفس علت سے ہی پھیلنا شروع ہوجاتی ہیں ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” وما اننتشرت الفاحشة فی قوم حتی یعلنوا بھا الا عمتھم الاوجاع والطواعین التی لم تکن فی اسلافھم ” .

اور کسی قوم میں بے حیائی نہیں پھیلتی ہے حتی کہ وہ اسے کھلے طور پر کرنے لگتے ہیں مگر یہ کہ ان میں المناک بیماریاں اور طاعون پھیل جاتا ہے جو ان کے پہلے لوگوں میں نہیں تھا “. ( ابن ماجہ ، بیہقی ، طبرانی ) .

جیسا کہ موجودہ دور کے بڑے گناہ ، زنا ، شراب خوری اور ایڈز جیسی وہ بڑی بڑی بیماریاں جن سے سال بھر میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مرتے ہیں .

اگر کسی ہلاک کرنے والی بیماری کی وجہ سے لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو جاتے ہیں تو یہ مؤمنین کے حق میں ایک رحمت بن جاتی ہے ، اس لئے کہ ایسے میں یہ لوگ شہیدوں کی صف میں شمار ہوں گے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اصلی ” اعلاء کلمة اللہ ” کے لئے کئے جانے والے جہاد میں شہید شدہ لوگوں کے علاوہ بھی کئی اور طریقوں سے انتقال شدہ لوگوں کو بھی شہید فرمایا ہے ، جن میں کسی دیوار کی زد میں آکر مرنے والا ، غرق ہوکر مرنے والا ، جل کر مرنے والا اور پیٹ کے درد وغیرہ سے مرنے والا شامل ہے ، یہ لوگ یا تو شہید ہیں یا شہید کے حکم میں ، ( اصلی شہید کے علاوہ لوگوں کو غسل دیا جائے گا اور نماز بھی پڑھی جائے گی ) . کورونا سے فوت ہونے والا بھی ( ان شاءاللہ ان ہی شہیدوں میں شامل ہوگا ) ، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس نیت کے ساتھ ٹہرا رہے کہ اللہ کے پاس اس کا اجر و ثواب ملے گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک الفاظ ” إلا ماکتب الله له إلا کان له مثل أجر الشھید “. الا یہ کہ اللہ نے جو کچھ اس ( کی تقدیر میں ) کے لئے لکھ دیا ہے ( ٹہرا ہو ) مگر یہ کہ اس کے لئے شہید کے اجر جتنا اجر ملے گا اور شہید کا اجر تو بہت بڑا ہے .

تیسری قسط

طاعون ، کورونا وائرس و دیگر متعدی امراض کی چند علامات و نشانیاں اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات .

طاعون ( اور موجودہ دور کا کورونا کووڈ 19 ، جس کی لپیٹ میں آکر آج جمعہ 10/4/2020 ، تک پندرہ لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ کے لگ بھگ یا اس سے زیادہ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے ہیں ) . یہ ایک خاص مرض ہے جس سے بکثرت لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں ، جو شخص اس بیماری سے انتقال کر جاتا ہے وہ شہید ہے ، جیسا کہ بخاری و مسلم نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” اَلطَّاعُوْنُ شَهَادَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ ” طاعون ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے . ( متفق علیہ ) .

قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ طاعون اصل میں جسم سے نکلنے والے پھوڑے ہیں اور وباء عام بیماریاں ہیں ، ان بیماریوں کو طاعون کا نام اس لئے دیا گیا کہ یہ بیماریاں ( لوگوں کے کثرت سے ) ہلاک ہونے میں طاعون سے شباہت رکھتی ہیں ( جیسے موجودہ دور کا کورونا وائرس ) ورنہ تو ہر طاعون وبا ہے اور ہر وبا طاعون نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” الطاعون وَخز أعدائکم الجن ” طاعون تمھارے دشمن جن کا درد ( چھبن ) ہے “.

سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ سے روایت کردہ حدیث میں ہے کہ ” شام میں واقع شدہ وباء طاعون اور پھوڑے ( کی صورت ) والا مرض تھا . ( اکمال المعلم 132/7 ) .

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” باب الوصیة میں جس طاعون کا ذکر کیا گیا ہے وہ معروف مرض ہے جس میں پھنسیاں ( جیسے دانے ) نکلتی ( تے ) ہیں ، جسم میں شدید درد کے ساتھ ورم رہتا ہے ، دانے سوزش کے ساتھ نکلتے ہیں اور اپنے ارد گرد والے حصہ کو یا تو کالا بناتے ہیں یا ہرا یا سرخ بنفسج مائل گدلا کے رنگ کا سا بناتے ہیں ، اس سے دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے اور قئ بھی ہوتی ہے اور دانے غالباً پیٹ کے نرم حصوں ، بغلوں ، ہاتھوں ، انگلیوں اور سارے جسم پر نکل آتے ہیں . ( تہذیب الاسماء و اللغات ، 187/3 )

ابن حجر رحمہ اللہ طاعون کے اہل لغت اطباء اور فقہاء کے کلام کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ” حاصل یہ ہے کہ اس کی حقیقت ایک ایسا ورم ہے جو خون کے ہیجان ( جوش ) یا کسی عضو کی طرف خون بہہ کر اس کو بگاڑنے کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ دوسری وہ عام بیماریاں جو ہوا ( اور ماحول ) کے بگڑنے سے پیدا ہوتی ہیں ان کو مجازی طور پر طاعون کا نام دیا جاتا ہے ، کیونکہ یہ دونوں بیماریاں عام مرض کے پھیلاؤ اور ان میں کثرت سے اموات واقع ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے میں مشترک ہوتی ہیں .

طاعون وباء سے الگ ہے

اور اس بات کی دلیل کہ طاعون وبا سے مختلف ہوتا ہے وہ حدیث ہے جو عنقریب چوتھے باب کی احادیث میں آئے گی کہ ” طاعون مدینہ میں نہیں داخل ہوتا ، حدیث عائشہ میں بات گذر گئی کہ ” ہم مدینہ میں اس حال میں آئے کہ وہ اللہ کی سب سے بڑی وباء والی زمین تھی ” اور اس میں بلال کا یہ قول بھی ہے کہ ” انھوں نے ہمیں وباء والی زمین کی طرف بھیجا ” اور ابوالاسود کی جنائز ( کے باب ) میں حدیث گذر گئی ” میں خلافت عمر میں اس حال میں مدینہ میں پہونچا کہ لوگ بکثرت مر رہے تھے ( موت چو طرف پھیلی ہوئی تھی ) اور طہارت کے باب میں جو حدیث عرینیین کے سلسلہ میں گذری کہ وہ مدینہ میں آئے تو انھیں مدینہ کی ہوا راس نہیں آئی اور ایک حدیث میں انھوں نے کہا کہ ” أنھا أرض وبئة ” کہ یہ وباء والی سر زمین ہے “.

سو یہ تمام حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وباء مدینہ میں موجود تھی ، پہلی حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ طاعون مدینہ میں داخل نہیں ہوا تھا ، یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو وباء مدینہ میں تھی وہ طاعون کے علاوہ ( وباء ) تھی ، سو جو کوئی مطلق طور پر یہ کہتا ہے کہ” ہر وباء طاعون ہے ” مجاز کے طریقہ پر ( کہتا ) ہے .

اہلِ لغت کہتے ہیں کہ الوباء ، ایک عام مَرَض ہے ، کہا جاتا ہے کہ اَوْبَاَتِ الاَرْضُ ( زمین پر وبا آئی ) فھی موبِئَةٌ اور وَبَئَتْ ، فتحہ کے ذریعہ ، اس کا اسم فاعل وَبِئَةٌ آئے گا اور اسم مفعول ، موبوئة . اور حدیث جو اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ جن کے طعن میں سے ہے کہ اس کا معتدل الفصول ( موسموں ) کی اچھی اور صحیح ہوا اور میٹھے پانی والے گاؤں میں غالبا واقع ہونا ہے ، اس لئے کہ طاعون کا واقع ہونا اگر فسادِ ہوا کی وجہ سے ہوتا تو وہ زمین پر ہمیشہ رہتا ، اس لئے کہ ہوا بعض اوقات خراب ہوتی ہے اور بعض اوقات صحیح اور کبھی ادھر سے یہ ہوا نکل جاتی ہے اور دوسری ہوا آتی ہے ، یہ قیاس کے الٹ ہے اور تجربہ کے خلاف . بعض اوقات سال سال آتی ہے اور بعض اوقات کئی سال کے بعد اور یہ بات بھی کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ بیماری لوگوں کے ساتھ حیوانوں میں بھی عام ہوتی اور مشاہدہ میں یہ موجود ہے کہ بہت سارے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جو ان کے مزاج کے لوگ ان کے اطراف و اکناف میں رہتے ہیں ان کو نہیں پہنچتی ہے . اور اس لئے کہ فسادِ ہوا ، تغیرِ اخلاط اور کثرتِ أسقام کا تقاضہ کرتا ہے اور یہ چیز غالبا بلا مرض ہی مار ڈالتی ہے .

اس سے معلوم ہوا کہ طاعون ، طعنِ جن میں سے ہے ، جیسا کہ اس سلسلہ میں آئی ہوئی احادیث سے ثابت ہے ، ان میں سے ابو موسیٰ کی مرفوع حدیث بھی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” فناء امتی بالطعن و الطاعون ” میری امت کی فنا طعنِ ( جن ) اور طاعون سے ہوگی ” عرض کیا گیا! یا رسول اللہ! اس طعن کو تو ہم پہچانتے ہیں ، طاعون کیا ہے ؟ فرمایا! ” وَخز أعدائکم من الجن یعنی تمھارے دشمن جن کا درد ہے “. ( وَخْزْ واؤ کے فتح اور خا کے سکون کے ساتھ ، اہل لغت نے کہا کہ بغیر مارے کے پیدا شدہ درد ، ( ظاہراً کسی چیز سے مارے بغیر پیدا ہونے والا درد ) ” وفی کلٍ شهادة اور ہر ایک میں شہادت ہے”. ( احمد ، ابن خزیمہ اور حاکم نے اس حدیث کا اخراج کرکے اس کو صحیح قرار دیا ہے ، احمد اور طبرانی نے ایک دوسرے طریق سے ابوبکر بن ابو موسیٰ اشعری سے روایت کیا ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا! ” ھو وخز أعدائکم من الجن ، وھو لکم شھادة . وہ تمھارے دشمن جن کا درد ہے اور وہ تمھارے لئے ایک شہادت ( کے درجہ میں ) ہے . ( اس حدیث کے رجال صحیح ہیں سوائے ابو بلج کے اور ان کا نام یحییٰ ہے ، ابن معین نسائی اور ایک جماعت نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اور ایک جماعت نے ان کے شیعہ ہونے کی وجہ سے انھیں ضعیف قرار دیا ہے ، لیکن جمہور کے پاس اس کی روایت قبول کرنے کے سلسلہ میں کوئی قدح ( عیب ، دھبہ ) نہیں ہے . ایک تیسرے طریق سے بھی اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے .

اس باب میں سب سے عمدہ حدیث ابو موسیٰ اشعری کی ہے ، اس لئے کہ کئی طریقوں سے اس حدیث پر صحت کا حکم لگایا گیا ہے اور طعنِ جن کے ذریعہ اس بیماری کو متصف کرنا کہ وہ وخز ( ایک درد ) ہے جو اندر سے باہر کی طرف آتا ہے ، پہلے وہ باطن میں اثر انداز ہوتا ہے پھر ظاہر میں ، بعض اوقات وہ ختم نہیں ہوتا اور یہ انسان کے طعن کے الٹ ہے کہ یہ ظاہر سے باطن کی طرف آتا ہے ، پہلے ظاہری حصہ پر اثر انداز ہوتا ہے پھر اندرونی حصوں میں اور بعض اوقات اس کو ختم نہیں کرتا . (فتح الباری 180-182/10 ، سے ملخص ) .

چوتھی قسط

کیا کورونا کووڈ 19 طاعون ہی کی کوئی قسم ہے ؟

الحمد للہ ، علامہ حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی ” بذل الماعون فی فضل الطاعون ” پر لکھی گئی گراں قدر تالیف کو سنا تو تھا ، لیکن اس کے مطالعہ کا وقت یا یہ کہئے کہ مطالعہ کی توفیق نہیں ہوئی تھی .

اس وقت ہم تمام اللہ جل شانہ کی ایک بڑی آزمائش سے گذر رہے ہیں ، ایک ایسا دور جس میں ہم تمام کو صبر کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے لو لگانے ، ذکر و اذکار اور توبہ واستغفار کرنے ، بھوکوں کو کھانا کھلانے ، حاجت مندوں کی حاجت روائی اور دوسرے بہت سارے نیک کام کرنے کی ضرورت ہے ، اسی طرح ہم تمام کو اس کی آزمائش و امتحان میں بھی پوری طرح کھرا اترنے کی ضرورت ہے ، شاید اس سے اللہ جل جلالہ کی التفات ہم گنہگاروں پر ہو جائے ،

ارے! اس سے بُرا دور ، کٹھن آزمائش اور بڑا امتحان اور کونسا ہوسکتا ہے جس میں ہم اپنی مسجدوں میں نہ باجماعت نماز ادا کرسکتے ہیں اور نہ جمعہ ، ( اللہ نہ کرے ) اسی طرح نہ تراویح کے ذریعہ مساجد کو آباد کرسکتے ہیں اور نہ ہی رمضان المبارک کے پاک مہینہ میں روزوں کے اتمام پر تمام لوگ اکٹھا ہوکر بڑی بڑی مساجد یا عیدگاہوں میں جاکر ایک دوسرے سے مل کر تکبیر کہتے ہوئے خوشی کے ساتھ عید کی نماز ادا کرکے ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کر سکتے ہیں .

ایسے وقت میں بتوفیق ایزدی باری تعالیٰ نے ذہن میں بات ڈال دی کہ چونکہ طاعون کی طرح ” کورونا وائرس کووڈ 19 ” بھی جماعت اور جمعہ سے رکنے کا ایک بہت بڑا عذر ہے ، کیوں نہ اسی عذر پر کچھ خامہ فرسائی کی جائے .

الحمد للہ ، اسی پر کمر بستہ ہوکر اس سلسلہ کا آغاز کیا اور تقریباً آٹھ قسطیں لکھیں حالانکہ اس سے قبل بندہِ عاجز کے پاس طاعون کے تعلق سے کچھ خاص معلومات نہیں تھیں ، بس واجبی سی معلومات تھیں جو عموماً ایک عالم کو ہونی چاہئے ، کیونکہ طاعون ایک خطرناک بیماری ہے جس پر متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں ، ظاہر ہے جب ایک طالب علم درسی نظام پورا کرتا ہے تو اس کے متعلق کچھ جانتا ہی ہے ، لیکن اس وقت طاعون کے سلسلہ میں مختلف علماء کی تحریریں پڑھنے اور کتابوں کا پڑھنے کا موقعہ ملا تو ماشاء اللہ اس معلومات میں اضافہ ہوتا گیا اور اسی میں ایک بڑی تالیف علامہ حافظ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی بھی ہے جس کی کچھ معلومات تو تھیں ، تاہم یکسوئی اور پوری توجہ کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنے کا موقعہ نکال نہ پارہا تھا ، آخرکار آج بعد نماز فجر اس کا موقعہ اللہ نے عطا فرما ہی دیا تو میں اس کے مطالعہ میں لگ گیا ، پھر جیسے ہی کتاب کو پڑھتا گیا ، کیا کہوں اتنا انہماک ہوا کہ تقریبا ڈھائی گھنٹہ تک دیڑھ سو صفحات چاٹ گیا ، کتاب کیا ہے ، ایک منظم جڑا ہوا ہیرا ہے ، علامہ نے الگ الگ باب دے کر اس پر احادیث کی روشنی میں مفصل بحث کی ہے ، تو سوچا کہ اس پیاری سی کتاب کے کچھ جواہر پارے اخذ کر کے موجودہ دور کی اہم ترین ضرورت پر کچھ قلمبند کروں ، اس کتاب کی تحقیق ” احمد حصام عبدالقادر الکاتب ” نے کی ہے . ( دارالعاصمہ ریاض )

محقق لکھتے ہیں کہ استاد یوسف خیاط کہتے ہیں کہ طاعون ایک ایسا مَرَض ہے جو چوہوں میں پھیلتا ہے اور مچھر اس مرض کو دوسرے چوہوں اور انسانوں میں پھیلاتے ہیں ، تو اس طرح اس کے پھیلاؤ کا مرکز چوہے ہیں . ( خلاصہ )

علامہ حافظ ابن حجر اس کتاب میں ولید باجی سے طاعون کی یہ تعریف نقل کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسا مرض ہے جو کسی جہت ( سمت ) کے بہت سارے انسانوں میں پھیل جاتا ہے لوگوں کے عادی امراض کے برخلاف ، ان ( طاعون سے گرفتار لوگوں ) کا مرض ایک ہی ہوتا ہے ، برخلاف بقیہ اوقات کے کہ ان ( اوقات ) میں ان کے امراض مختلف ہوتے ہیں .

طاعون کی تین قسمیں ہیں ، یا علمی تعبیر سے اگر اس کی تعریف کی جائے تو اس کی تین شکلیں ہیں .

پہلا وہ طاعون جس سے مبتلا شخص کے جسم میں ورم آتا ہے .

دوسرا پھیپڑے کا وہ طاعون ہے جو اپنے مبتلا شخص کے پھیپڑوں میں داخل ہونے کے بعد تیزی سے صاحب طاعون کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے اور تین چار دنوں ہی میں آدمی کو موت کے منہ میں لے جاتا ہے .

تیسرا وہ طاعون ہے جو اپنے مبتلا شخص کے خون میں تعفن ( سڑانڈ ) پیدا کرتا ہے اور اس کے خون کی رَو میں بیکٹیریاس یعنی جرثوموں کو پھیلاتا ہے اور اس کے ظاہر ہونے یا پھیپڑوں میں ان کا اثر ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس میں گرفتار شخص کی موت واقع ہوتی ہے ، بعض اوقات چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی ، اس کی پہچان جسم کی اکڑن اور دماغ کا ماؤف ہونا ہے اور قُدَماء کے اوصاف میں ہم اس مرض کو ایسا ہی پاتے ہیں جو ان تین قسموں میں واقع ہونے کا اشارہ دیتا ہے ، لیکن اس بیماری کے درمیان وہ ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں.

اور ابن سینا کا کلام تیسری قسم کے ارد گرد گردش کرتا ہے ، جہاں وہ کہتے ہیں کہ ” اور اس کا سبب ایسا خراب خون ہے جو بدبودار اور سڑنے لگتا ہے اور اس کو کسی جوہر کا نام دینا محال ہوتا ہے عضو اور اس کے ارد گرد والے حصہ کو بگاڑ دیتا ہے ، دل کو ایک بُری کیفیت تک پہونچاتا ہے اور مریض کو قئی ، دبلے پن ، غشی اور اضطرابِ قلب کی طرف لے جاتا ہے . غالباً لوگ اسی پہلی قسم کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں ، رہی دوسری اور تیسری قسم ، ان میں مبتلا لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں الا یہ کہ جلد از جلد اس کا علاج کیا جائے ، اور عادتاً مرض میں مبتلا ہونے کے بعد مریض تین تا چھ دنوں تک زندہ رہتا ہے ( اگر اس کو شفا نہ ہوئی ہو ) ، بعض اوقات اس سے کم دن چھتیس گھنٹون کے اندر اس کی موت واقع ہوتی ہے اور بعض اوقات کچھ دن زیادہ ہوتے ہیں اور دس دن تک مریض زندہ رہتا ہے . واللہ اعلم .

پانچویں قسط

طاعون ، کورونا وائرس و دیگر متعدی امراض کی ہولناکیاں و تباہ کاریاں .

سن اٹھارہ ہجری میں شام میں طاعون پھیلا اور اس کے بچاؤ کے لئے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جان کی حفاظت کے لئے شام میں داخل ہونے کا ارادہ ترک کر دیا ، یہ بیماری صرف شام یا جزیرہِ عرب پر ہی منحصر نہیں رہی بلکہ کئی صدیاں گذرنے کے بعد بھی اس نے پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، چنانچہ نویں صدی ہجری میں جب یہ بیماری پھیلی اور 933 ھ ” میں اپنے پورے شباب پر پہونچی تو پورے یوروپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کی تباہ کاریاں اس حد تک پہونچ گئیں کہ اس بیماری کو سیاہ موت ( Black Death ) کہا جانے لگا ( جو میلادی چودہویں صدی میں واقع ہوا تھا) اور اس خطرناک مہلک بیماری طاعون نے یوروپ کے دو تہائی باشندوں پر اپنی گرفت مضبوط بنالی اور اس وقت انتہائی بلندی پر پہونچی ہوئی اس بیماری نے یوروپ کے باشندوں کی زندگی کو اِس طرح تہس نہس کر کے رکھ دیا کہ ڈھائی کروڑ لوگ طاعون کا لقمہِ اجل بن گئے ،
پھر سن نو ہجری کے اواخر میں یہ بیماری یوروپ سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی خصوصا جنوبی چِین میں اور کہا جاتا ہے کہ اس وقت اس نے دس ملیون یعنی ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کو داعئ اجل کو لبیک کہنے پر مجبور کیا ،( محقق بذل الماعون فی فضل الطاعون ” کے ” الموسوعة البریطانیة “کے حوالہ سے )

اگر اس وقت کے کرونا کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کسی طرح بھی طاعون سے کم خطرناک نظر نہیں آرہا ہے ، بلکہ اگر حالات اسی طرح رہے تو ” کرونا وائرس کووڈ 19 ” کی یہ بیماری کس حد تک آگے بڑھ کر پوری دنیا میں تباہی مچا سکتی ہے سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ، کیونکہ تقریبا تین ماہ کے بعد بھی ابھی اس بیماری کا توڑ دریافت نہیں کیا جاسکا ہے اور یہ بیماری ہے کہ دن میں ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنا رہی ہے ،

آج رات ( 12/4/2020 ) تک کی کرونا وائرس سے متاثرین لوگوں کی کل تعداد تقریبا بیس لاکھ ہے اور ہلاکت شدگان کی تعداد ایک لاکھ انیس ہزار سے زائد ہے ، صرف یوروپ کے لوگوں کی اموات ساٹھ سے ستر ہزار تک پہونچ گئی ہے ، روم ( اٹلی ) میں ساڑھے بیس ہزار ، ہسپانیا ( اسپین ) میں ساڑھے سترہ ہزار ، فرانس میں پندرہ ہزار سے زائد ، یوروپ کے دوسرے ممالک میں اموات کی تعداد قدرے کم ہے ، اگر براعظم امریکہ کی طرف دیکھا جائے تو اس براعظم میں اب تک ساڑھے تیئیس ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور متاثرین کی تعداد میں بھی دھماکہ خیز اضافہ دیکھا جارہا ہے اور ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ اب تک اس بیماری سے متاثر ہوچکے ہیں ( اللھم احفظنا )

کیا طاعون کی طرح یہ ( کورونا کووڈ 19) بیماری دوسروں میں بھی پھیلتی ہے ؟

لا عدوٰی ولا طیرة ( نہ کوئی بیماری پھیلتی ہے اور نہ ہی کوئی بدشگونی ہے) جیسی احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قسمت کا لکھا نہیں مٹتا ایسے میں یہ بیماری دوسروں میں نہیں پھیلنی چاہئے ، لیکن بہت ساری صحیح احادیث ایسی بھی آئی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی بیماریوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے ، جیسے حدیث ” لایورد ممرض علی مصحِّ ” یعنی بیمار بنانے والا آدمی کسی تندرست آدمی کے پاس نہ آئے . ایسے میں ان احادیث کے درمیان والا تعارض ختم کرکے ان میں مطابقت کس طرح کی جائے ؟ اس کا جواب انشاء اللہ آگے دیا جائے گا )

علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں طاعون کا نظریہ

لگتا ہے کہ علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، عدوٰی (بیماری کا ایک سے دوسرے میں منتقل ہونے ) والے نظریہ سے متفق نہیں ہیں ( تاہم آخر میں انھوں نے اس قول کو بھی نقل کیا ہے جو بیماری کے دوسروں تک تجاوز کرنے والا نظریہ رکھتے ہیں)

عدوٰی والے مسئلہ کو انھوں نے اپنی اس کتاب کے چوتھے باب کی دوسری فصل میں ” ذکر ما اعتل به من اجاز الفرار من الطاعون والجواب عن شبھته ” ( اُس بیماری کا ذکر جس کی علت کی بِنا پر جنھوں نے اس ( یعنی طاعون ) سے بھاگنے کو جائز قرار دیا ہے اور اس کے شبہ کا جواب ) کے تحت عنوان دیا ہے ، پھر انھوں نے ” باب الخامس کی فصل ثالث ” میں اپنے نظریہ کو اجمالی طور پر پیش کیا ہے اور وہاں ان مذاہب کا خلاصہ پیش کیا ہے جو عدوٰی کے نظریہ کے قائل ہیں .

چھٹی قسط

بظاہر دوقسم کی متضاد صحیح احایث کے تعلق سے ہمارا رجحان یا عقیدہ کیا ہونا چاہئے ؟

اس تعلق سے ذیل میں چند مشہور علمائے کرام کی قیمتی آراء پیش خدمت ہیں .

محقق محمد عصام عبدالقادر الکاتب لکھتے ہیں کہ جو چیز ہمیں اس وقفہ ( ٹہراؤ ) پر غور کرنے کی دعوت دے رہی ہے وہ حافظ ابن حجر کی وہ رائے ہے جو اصلاً ایک کی بیماری کو دوسرے میں تجاوز ( منتقل ہونے ) کرنے کی نفی ہے اور جو یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ بیماری دوسرے میں تجاوز کرجاتی ہے یہ ( تجاوز کرنا ) تو اللہ تعالیٰ کا اس شخص میں ابتداءً بیماری کا پیدا کرنا ہے ، بیماری میں مبتلا شخص کی جانب سے منتقل ہوئے بغیر ، ( یعنی دوسرے شخص کا اسی قسم کی بیماری میں مبتلا ہونا میل ملاپ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا اس دوسرے شخص میں اسی طرح کی بیماری کو ابتداءً پیدا کرنا ہے ) اور یہی رائے اس سلسلہ میں وارد شدہ نصوص ( احادیث ) جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک قول ” لاعدوی ولاطیرة . نہ ( کسی بیماری کا ) تجاوز کرنا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی بدشگونی ہے “۔ اور سید المرسلین کا قول ” لايُعْدِيْ شیئٌ شيئًا . کوئی بیماری ( کسی کی بیماری ) کسی کو نہیں لگتی” ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اس شخص ( ان صحابی ) کو جو کہہ رہے تھے کہ فلاں ( اونٹ کی بیماری ) فلاں کو پہونچی ہے .” فَمَنْ اَعْدَى الْاَوَّلَ ؟ کہنا ( یعنی اگر تمہارے نزدیک کسی کی بیماری کسی کو لگتی ہے تو ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ) پہلے کو ( اس بیماری میں ) کس نے مبتلا کیا ؟ “. ( ظاہر ہے کہ ابتداءً اُس کو بھی اس بیماری میں اللہ تعالیٰ ہی نے مبتلا کیا اور دوسرے کو بھی اسی طرح ) کے موافق ہے .

دوسری جانب اگر ہم دیکھیں تو ایسی احادیث بھی کافی آئی ہیں جن سے بعض قسم کی بیماریوں میں مبتلا اشخاص کی بیماریاں دوسرے میں منتقل ہونے کو ثابت کرتی ہیں ، جیسے حدیث ” اذا سمعتم بالطاعون بارض فلا تقدموا علیھا . جب تم کسی سرزمین میں طاعون کے آنے کی خبر سنو تو تم اس زمین پر نہ آؤ ” اور حدیث ” لاعدوَى وَلَاطَيَرَةَ وَلَاهَامَةَ وَلَاصَفَرَ ” نہ کسی کی بیماری سے کسی کا بیماری میں مبتلا ہونا ہے ، نہ کوئی بد شگونی ( بد فالی ، نحوست ) ہے ، نہ کوئی زہریلی چیز ہے جس کے زہر سے آدمی مرجاتا ہو اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی صفر ( کا مہینہ ) ہے ، ( اس لفظِ حدیث کی دو مشہور تشریحیں آئی ہیں ، ( ابوعبیدہ نے غریب الحدیث میں رؤبہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ یہ وادی میں رہنے والا وہ سانپ ہے جو چوپایوں اور آدمیوں کو ڈستا تھا اور عرب کے پاس اسی سانپ کے ذریعہ دوسروں تک وہ بیماری تجاوز کرجاتی تھی ، اس قول ( یا عقیدہ ) پر حدیث کے ذریعہ ان کے اس عقیدہ کی نفی کرنا ہے جس کا وہ عقیدہ رکھا کرتے تھے کہ ایک کی بیماری سے دوسرا بھی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے ، یہ سفیان بن عیینہ ، امام احمد ، امام بخاری اور ابن جریر کا قول ہے ، دوسرے علماء کرام نے کہا کہ اس سے مراد ماہِ صفر ہی ہے ، اس سے مراد جاہلیت کے زمانہ میں لوگوں کا ایک مہینہ سے دوسرے مہینہ کا ( اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق ) مؤخر کرنا ہے ، یہ لوگ محرم (جو اشہر حرم کے چار ماہ میں سے پہلا ماہ ہے جن میں جنگ وغیرہ کرنا حرام تھا ) کو حلال ٹہرا کر اسکی جگہ میں صفر کے مہینہ کو حرام ٹہرایا کرتے تھے ، یہ امام مالک کا قول ہے ۔ ابوداؤد محمد بن راشد سے ان کی کسی سے سنی ہوئی حدیث کو روایت کرتے ہیں کہ ” زمانہ جاہلیت میں لوگ صفر کے ذریعہ ایک دوسرے کو بدشگونی کا فعل تصور کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ نحوست کا مہینہ ہے ، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اس عقیدہ کو ( مذکورہ حدیث کے ذریعہ ) باطل فرمایا ۔ ابن رجب کہتے ہیں کہ غالباً یہی قول تمام اقوال سے زیادہ ( حدیث کے معنی کے ) مشابہ ہے ۔ ( یہ تشریح امام ابوداود نے ” باب الطیرة ” ( 3915 ) میں ذکر کی ہے ۔

پوری حدیث یہ ہے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” لاعدوی ولاطیرة ولا ھامَّةَ ولاصفر . کوئی تجاوز کرنے والی بیماری ہے ، نہ کوئی بدشگونی نہ زہریلی چیزیں ہیں اور نہ ہی کوئی صفر ہے ، ( پھر آگے فرمایا ) وَفِرَّ مِنَ المجذومِ كما تفِرُّمن الأسد اور کوڑھی سے تم ایسا بھاگو جیسا تم شیر سے بھاگتے ہو “.

انہی سے ایک اور تفصیلی حدیث آئی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” لاعدوی ولا ھامة ولاصفر . نہ کسی کی بیماری سے کوئی بیماری میں گرفتار ہوتا ہے ، نہ کوئی زہریلا جانور ہے اور نہ ہی کوئی صفر ” ایک دیہاتی نے عرض کیا! یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) تب ان اونٹوں کا کیا حال ہے جو ریت میں رہتے ہیں گویا کہ وہ ہرنیں ہیں جن سے خارش زدہ اونٹ ملتے ہیں تو کیا یہ انہیں خارش زدہ بناتے ہیں ؟تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا! ( اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ ایک خارش زدہ اونٹ دوسرے کو خارش میں مبتلا کرتا ہے ) تو ” فمَنْ اعدی الأول؟ تب پہلے کو کس نے خارش زدہ بنایا ؟ “. ( بخاری )

اسی طرح عمرو بن شرید بن ثقفی کی اپنے باپ سے روایت کردہ حدیث ” کان فی وفد ثقیف رجل مجذوم ، فارسل الیه النبی صلی اللہ علیه و سلم ، ان قد بایعناك فارجع . کہ بنو ثقیف میں ایک کوڑھی شخص تھا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے پاس ایک آدمی بھیج کر فرمایا! کہ ہم نے تم سے بیعت کی ، سو تم لوٹ جاؤ “. اور اس کے علاوہ دوسری بھی اس مفہوم کی احادیث آئی ہیں ، عنقریب حافظ ابن حجر ان احادیث کے پیچھے ( ان کے جواب دینے میں ) لگ جائیں گے ۔

ان نصوص ( احادیث ) کا ظاہری مفہوم یہی بتاتا ہے کہ یہ احادیث پہلی والی احادیث سے ( مفہوم کی حیثیت سے ) معارض ( ایک دوسرے سے ٹکراتی ) ہیں لیکن حقیقت الامر میں مخالف نہیں ، علماء کرام نے اس تعارض کا ازالہ کرنے کے سلسلہ میں کافی مضبوط دلائل پیش کئے ہیں .

ابن صلاح کہتے ہیں کہ ان دو مفہوم کی حدیثوں کو جمع کرنے کا پہلو یہ ہے کہ یہ بیماریاں طبعی طور پر ایک دوسرے میں نہیں پھیلتی ہیں ، لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مریض کا تندرست آدمی سے ملنے کو اس کی بیماری کو دوسرے کی طرف تجاوز کرنے کا ایک سبب بنایا ہے ، پھر ( ابن صلاح نے ) کہا کہ بعض اوقات یہ مرض اپنے سبب سے پیچھے بھی ہٹتا ہے ، جیسا کہ تمام اسباب میں .

امام بیہقی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” لاعدوٰی : کوئی بیماری تجاوز نہیں کرتی ” لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے زمانہِ جاہلیت کے اس پہلو ( طریقہ ) کو مراد لیتے ہوئے ( اس کے توڑ میں ) فرمایا! جو یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ فعل کی اضافت ( نسبت ) غیر اللہ کی طرف ہوتی ہے ، بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ان عیوب ( بیماریوں ) میں گرفتار لوگوں سےکسی تندرست آدمی کا ملنا اس بیماری کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے اور یہ تمام اللہ تعالیٰ کی قدر وقضاء سے ہوتا ہے ۔

ایسے میں ایک کی بیماری دوسرے میں منتقل ہوسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اور یہ ایک ایسا حقیقی امر ہے جس میں کوئی دو رائے نہیں ہے اور یہ وہ حق ہے جو سارے ادلہ کے موافق ہے اور یہ چیز علم کی تدریجی تبدیلی اور بیماریوں کو منتقل کرنے والے جراثیم اور بکٹیریاس کے دریافت کرنے یا پائے جانے کی وجہ سے کسی طرح سے بھی تبدیل نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ یہ جراثیم بھی خود اللہ عزوجل کی تقدیر ہی سے کام کرتے ہیں اوراللہ سبحانہ و تعالیٰ جن پر انہیں مسلط کرنا چاہے مسلط کر دے ،

ہم تمام پر خصوصاً مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ ہم اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں ، سارے اسباب کو اپنائیں اور ان امراض سے حفاظت کرنے والی تمام چیزوں لقاح وتطعیم ( بدن میں پہونچائی جانے والی دوا ، vaccine اور ٹیکہ لگائیں ، inoculation ) اور جانچ جیسے اسباب کو اپنائیں ، خصوصاً پاکی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں اپنے صحنوں کو اپنے گھروں کو اور اطراف واکناف کی جگہوں کو اور زہریلے کیڑے اور تمام حشرات الارض کو پنپنے ہی نہ دیں جن سے بیماریاں پھیلیں ، ان اسباب کو اختیار کرنے کے باوجود بھی اگر بیماریاں پھیلتی ہوں تو صبر کریں اس پر اللہ کا اجر حاصل ہوگا یہ نیت کریں اور اللہ عزوجل پر بھروسہ رکھیں ، مقدرات کو تسلیم کریں اور بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے دواؤں کو استعمال کریں ، اس لئے کہ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ اللہ نے جو بھی بیماری بھیجی ہے اس کے توڑ کے لئے اس کی دوا بھی بھیجی ہے ، جیسا کہ علامہ حافظ ابن حجر کے کلام میں آئے گا ۔ ( ان شاءاللہ )

بچاؤ کا ایک اہم اور ضروری طریقہ ” حجر صحی” کو اپنا کر اپنی صحت کی حفاظت وبچاؤ کے لئے خود کو گھروں وغیرہ میں محصور کرلینا ( quarantine ، قرنطینہ ) ہے .

قاضی تاج الدین سبکی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں جو ہم کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر دو مسلمان عادل بیماریوں کو پہچاننے والے ڈاکٹر یہ گواہی دیں کہ یہ یعنی تندرست آدمی کا بیمار آدمی سے ملنا ، ملنے والے کے لئے اذیت کا سبب بنتا ہے تو اس سے ملنے سے منع کرنا جائز ہے ، بلکہ ایسے ( مشکل) وقت میں ایسے بیمار سے ملنے سے انتہائی درجہ احتیاط برتنا اور ضروری ہوجاتا ہے”

حافظ ( ابن حجر) اس کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسی گواہی دینے والے کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی ، اس لئے کہ ( قوتِ ) حس اس کو جھٹلاتی ہے ،( کیونکہ ) یہ طواعین ( جمع طاعون ) مصر اور شام کے شہروں میں کئی مرتبہ آچکی ہیں اور بہت کم ہی ایسا ہوا ہے کہ ان سے کوئی گھر بچا ہو اور اس بیماری میں گرفتار شدہ آدمی کی حفاظت اور اس کی تیمارداری کے لئے اس کے اہل وعیال اور خاص آدمی اس کے ساتھ رہے ہیں اور ان کا اس سے ملتے رہنا قطعی طور پر اس کے ارد گرد رہنے والوں کے ملنے سے بھی زیادہ سخت ہے ، اس کے باوجود دیکھا گیا ہے کہ ان ( گھروالوں ) سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ اس بیماری سے محفوظ رہے ہیں ، ( علامہ کی یہ علت واقعی غور کرنے والی ہے ، واضح ہوکہ اس بیماری نے ان کی تین بیٹیوں فاطمہ عالیہ اور زین خاتون ( یا زیتون ) کو ان سے جدا کیا تھا ، کہتے ہیں کہ اسی غم نے انکو یہ کتاب لکھنے کا محرک بنایا ) سو جو شخص ( ڈاکٹر ) اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ لوگوں کا ملنا اس بیماری کے منتقل ہونے کا سبب بنتا ہے تو وہ مکابر (حق کا مخالف ) ہے ۔

محقق کہتے ہیں کہ تاج الدین سبکی عادتًا ( عادی طریقہ سے ) ایک کی بیماری سے دوسرے کے گرفتار ہونے کے اثبات ( اقرار ) کی طرف چل پڑے ہیں اور جن احادیث میں بیماریوں کا دوسرے میں منتقل ہونے کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ بیماریاں اپنی طبیعت سے ( فی نفسہ) داخل نہیں ہوتیں .

حافظ اس میں خطا ( چوک ) کرگئے ، لیکن انھیں یہاں پر عذر ہے ، جیسا کہ ان کے غیر قدماء ، ان کے جدید علم کے امور میں ان کے کم پہچاننے کے سبب سے ، ( خطا کرگئے ) اسی وجہ سے حافظ نے سبکی کی رائے کا انکار نہیں کیا اور ان کے خلاف دلیل لے آئے ۔( محقق پوری طرح حافظ ابن حجر کی رائے کو بالائے طاق رکھنے پر تلے ہوئے ہیں ) آگے لکھتے ہیں کہ سبکی جس رائے کی طرف گئے ہیں وہی صحیح ہے اور یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اگر دو مسلمان ڈاکٹر جو مریض کا اثر صحیح شخص پر ہونے کو پہچانتے ہوں ، اگر وہ گواہی دیں تو مریض کا شفاء حاصل ہونے تک الگ رہنا واجب ہے اور یہ ادلہ کے رہنے کے ساتھ کوئی منافی بات نہیں ، ہماری ثابت کردہ علتوں کی وجہ سے .

اور بیماری کے تجاوز کرنے کی انکار والی جو احادیث آئی ہیں ان کو اس زمانہ جاہلیت کی عقیدت کے توڑ پر رکھا جائے گا جو یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جو بیماری ایک سے دوسرے کی طرف جاتی ہے وہ خود سے جاتی ہے نہ کہ اللہ کی طرف سے ، ( ایسے میں دونوں قسم کی حدیثوں کے درمیان کوئی تعارض نہیں ، واللہ اعلم )

کرونا کی مؤرخہ 15/اپریل 2020 ء تک کی اپڈیٹ .

بھارت میں گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے درمیان کورونا وائرس ( کووڈ 19 ) کے کل 1076 کیسز درج کئے گئے ہیں اور 38/اموات ہوئی ہیں ، اس طرح بھارت میں اب متاثرین افراد کی تعداد 11439 ، اور 377 اموات ہوچکی ہیں ، متاثرین میں سے 1306 لوگ مکلمل طور صحتیاب ہوچکے ہیں ۔ وہیں امریکہ میں متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ 581679 اور ہلاکتوں کی تعداد بھی تمام ممالک سے زیادہ 23064 ہوچکی ہے ، اٹلی میں متاٹرین کی تعداد 162488 اور 21067 لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ، اسپین میں 17756 ، فرانس میں 14967 ، برطانیہ میں 11339 اور خلیجی ملک ایران میں 4585 لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ۔ اس طرح پوری دنیا میں اب تک متاثرین کی تعداد 20/لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے ۔ ( اللھم احفظنا من کل بلاء الدنیا ومصیباتھا وفتناتھا وعذاب الآخرۃ . اللھم انا نعوذبك من البرص والجنون والجذام ومن سیئ الاسقام ) .

ساتویں قسط

طاعون ایک خطرناک مہلک و متعدی بیماری

طاعون چونکہ ایک بڑی بیماری رہی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طاعون بیماری سے پیشگی ہی آگاہ فرمانا کہ ” فناء امتی بالطعن و الطاعون : میری امت کا فناء ہونا طعن اور طاعون سے ہے ” ( یعنی بہت سارے لوگوں کا اس بیماری سے انتقال کرجانا ) اس بات کا واضح اور یقینی اشارہ تھا کہ یہ وباء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں ضرور پھیلے گی اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی ، یہ وبا پھیل کر ہی رہی ، حتی کہ جب ” طاعون عمواس ” کا اندوہناک واقعہ پیش آیا تو لوگوں نے طاعون کے تعلق سے آئی ہوئی احادیث کو انتہائی چھان بین کے ساتھ تلاش کرنا شروع کیا ، تاکہ ان کے ذریعہ جس ملک میں یہ وباء پھیلی ہے وہاں سے نکلنے اور نہ نکلنے اور اسی طرح دوسری بہت ساری چیزوں کے سلسلہ میں احکامِ شرعیہ کو مرتب کیا جا سکے اور ان سے اس بیماری کے خطروں سے آگاہ ہوکر اس سے بچنے کی ساری تدابیر اختیار کی جاسکے اور ان پر عمل کرتے ہوئے اور ان سے تجاوز نہ کرتے ہوئے شریعت کی حکمتوں پر پابند رہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے تجاوز کرنے اور اس کے اسباب اختیار نہ کرنے کے سبب گنہگار بن جائیں .

طاعونِ عمواس سے ( کم از کم ) پچیس ہزار لوگ ہلاک ہوئے ( طبری 101/4 ) . ان میں کئی بڑے جلیل القدر صحابہ کرام بھی تھے جن میں ابوعبیدہ بن جراح ، معاذ بن جبل ، شرحبیل بن حسنہ ، یزید بن ابی سفیان ، حارث بن ہشام بن مغیرہ وغیرھم ہیں . ( تاریخ بن خیاط ، ص/138 ، عنقریب حافظ ” باب الخامس اور خاتمہ میں اسکی تفصیل بیان کریں گے ) .

عربوں نے طاعون کی اس بیماری کو پہچانا تھا لیکن یہ ان کے ممالک میں نادر الوقوع تھی ، کیونکہ مناطق صحراء ( وسیع فضائی زمین ، شہر سے دور دراز دیہاتوں ) میں یہ شہروں کے مقابلہ میں بہت کم پھیلتی ہے .

رہا مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طاعون کو ذکر فرمانے کے بعد صحابہ کرام کا اس کے متعلق پوچھنا تو یہ بابِ استفسار ( پوچھ تاچھ ، انکوائری ) میں سے تھا ۔ جیسا کہ صحابہ کرام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں وارد ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” میری امت کا فناء ہونا طعن اور طاعون سے ہوگا ” عرض کیا گیا یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس طعن کو تو ہم نے پہچان لیا ، پر طاعون کیا ہے ؟ فرمایا! ” تمہارے دشمن جن کا درد ہے اور ہر ایک میں شہادت ( کادرجہ ) ہے “.

طاعون پر لکھی گئی تصانیف

جہاں تک طاعون پر لکھی گئی تصانیف کا سوال ہے تو اس میں ابن ابی دنیا سے قبل کسی نے کتاب کی شکل میں کوئی کتاب نہیں لکھی ہے ، کتابوں کے درمیان اس کا ذکر اور لوگوں کے سینوں میں اس کی معلومات تو تھیں لیکن اس کے لئے ایک کتابی شکل ابن ابو دنیا ( 281 ھ ) نے دی .

اگر ہم سنت کی کتابوں کی اوراق گردانی کریں تو پائیں گے کہ بعض محدثین نے طاعون کے لئے مستقل طور پر ایک باب ہی دیا ہے ، بعضوں نے کئی ابواب میں اس کے تعلق سے آئی ہوئی احادیث کا ذکر کیا ہے جہاں انھوں نے ایسے عناوین کا اشارہ نہیں کیا ہے جو طاعون کے ذکر کو شامل کرکے .

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کی ” کتاب الطب ” میں طاعون کے لئے دو باب مخصوص کئے ہیں ” باب مایذکر فی الطاعون ” اور ” باب اجر الصابر فی الطاعون ” اور کتاب الحیل میں ” باب مایکرہ من الاحتیال فی الفرار من الطاعون “. إن أبواب میں ہم کئی ایسی احادیث پائیں گے جن کو انھوں نے کتاب الفتن ، کتاب التوحید ، کتاب القدر ، کتاب الاذان ، کتاب الجھاد ، کتاب فضائل المدینہ ، کتاب المرضی اور کتاب الدعوات میں ذکر کیا ہے .

امام مسلم رحمہ اللہ نے احادیث طاعون کی غالب حدیثیں کتاب السلام میں ” باب الطاعون والطیرۃ ” میں کیا ہے اور اس کی چند احادیث کتاب الحج میں ” باب بیان الشھداء ” اور کتاب الامارہ وغیرہ میں ،( کیا ہے ) .

ابو داؤد رحمہ اللہ نے کتاب الجنائز میں دو باب دئے ہیں ” باب فضل من مات فی الطاعون ” اور ” باب الخروج فی الطاعون “

ترمذی رحمہ اللہ نے کتاب الجنائز میں ” فی کراھیة الفرار من الطاعون ” کے عنوان سے ایک باب دیا ہے اور اس کی چند احادیث کتاب الفتن کے ” باب ماجاء فی الدجال لایدخل المدینة ” میں .

نسائي رحمہ اللہ نے بعض احادیث کو ” کتاب الجھاد میں پھیلایا ہے اور بعض کو کتاب الجنائز میں ، انھوں نے طاعون کے سلسلہ میں کوئی باب مخصوص نہیں کیا ہے ، اور اسی طرح ابن ماجہ نے بھی طاعون کے لئے کوئی عنوان خاص نہیں کیا ہے ، لیکن انھوں نے کتاب الجہاد میں ” باب مایرجی فیه الشھادة ” میں دو حدیثوں کا ذکر کیا ہے اور کتاب الفتن کے ” باب العقوبات ” کے کتاب الفتن میں ایک حدیث اور چند احادیث کو جو طاعون سے تعلق رکھتى ہیں کتاب کی ابتداء میں ذکر کیا ہے .

امام مالک رحمہ اللہ نے ” مؤطا ” میں کتاب الجامع میں ” باب ماجاء فی وباء المدینة ” و ” باب ماجاء فی الطاعون ” میں اس کو خاص کیا ہے . اور حاکم رحمہ اللہ نے ” المستدرك ” میں ایک حدیث ” وفاة حارث بن ھشام فی طاعون عمواس ” ( 278/3 ) اور ” وقوع الطاعون بالشام سنة 18، ( 282/3 ) پیش کی ہے اور دوسری احادیث کتاب کے آغاز میں ، جیسا کہ کتاب الایمان ( 50/1 ) وغیرہ میں ابوبلج کی حدیث ۔

آٹھویں قسط

اس سے پہلی قسط میں طاعون پر لکھی گئی تصنیفات اور مشہور محدثین کے اپنی اپنی تصنیفات میں دئے گئے ابواب کا ، کُتُبِ سنت کی طرح کتب جوامع میں بھی بعض مشہور مصنفین ائمہ نے طاعون پر اچھی طرح روشنی ڈالی ہے .

حافظ ہیثمی نے ” مجمع الزوائد ” میں ” بابٌ فی الطاعون وما تحصل به الشھادة “کے عنوان سے باب دیا ہے . علامہ حافظ ابن حجر نے ( اس کتاب کے علاوہ ) ” المطالب العالیہ ” میں” باب الرجز عن الدخول الی ارض وقع بھا الطاعون والنھي عن الفرار منھا ” کے عنوان سے باب دیا ہے . ابن اثیر نے ” جامع الاصول ” میں ” الطاعون والوباء والفرار منه ” کے عنوان سے باب دیا ہے .

مام نووی رحمہ اللہ نے ” الاذکار ” میں بعنوان ” فصل فی الإشارة الی بعض ماجری من الطاعون فی الاسلام ” ( 152 تا 155 ، من الفتوحات البانیة ) سے ایک فصل دی ہے ، جس میں آپ نے اسلام میں واقع شدہ طواعین کا مختصرا ذکر کیا ہے ، یہاں پر مختصرا ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کیونکہ انھوں نے ” شرح مسلم ” میں اس کو بڑی تفصیل سے لکھا ہے ۔

یہ مشاہیر کتب سنة میں واقع غالب وہ طاعون کے متعلق معلومات ہیں جو فقہ کے ابواب پر مرتب ہیں ۔
رہی کتبِ مسانید ، ان میں طواعین کی بہت ساری احادیث کا احاطہ کیا گیا ہے ، ان میں سے امام جلیل احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ” مسند ” ہے ، آپ رحمہ اللہ نے اس میں احادیث طاعون کی ایک بڑی تعداد کی روایت کی ہے ، ( جیسا کہ حافظ ابن حجر کی کتاب میں آئے گا )

اگر ہم ان کتابوں کی بات کریں جو صرف طاعون ہی پر لکھی گئیں ہیں تو ان کی تعداد تیس سے اوپر جاتی ہے ، جن میں سے چند کا ہم ذکر کررہے ہیں .

1/ کتاب الطواعین ، حافظ ابوبکر عبداللہ بن محمد بن عبیداللہ بن ابو دنیا ، ( ت:281 ھ ) .

2/ جزء فی الطاعون ، تاج الدین عبدالوہاب بن علی بن عبدالکافی السبکی ، ابی نصر ، قاضی القضاة (ت:771 ھ) آپ رحمہ اللہ کی وفات طاعون ہی سے ہوئی ، حافظ نے اپنے ترجمہ میں ذکر کیا ہے کہ ان کی وفات 7/ذوالحجہ 771 ھ میں ہوئی ، جمعہ کے روز خطبہ دیا ، سنیچر کے دن طاعون میں مبتلا ہوئے اور منگل کے دن وفات پاگئے۔( الدرر ،428/3 ) .

3/ ولی الدین محمد بن احمد بن عثمان دیباجی ، المِلْويّی ، ابو عبداللہ ،( ت: 774ھ ) .

4/ جزء فی الطاعون ، شیخ شمس الدین محمد بن محمد بن محمود ، ابی عبداللہ ، المنجی ، الحنبلی ( 785 ھ ) .

5/ جزء فی الطاعون ، بدر الدین محمد بن بھادر بن عبداللہ المصری ، الزرکشی ، الشافعی ، ابی عبداللہ (ت:794 ھ ) .

6/ مختصر بذل الماعون ، شیخ شرف الدین یحیی بن محمد بن محمد بن محمد بن محمود بن مخلوف بن عبدالسلام الحداد ، المصری ، الشافعی ، ابو زکریا ، حافظ کے تلامیذ میں سے ہیں ( ت:871 ھ )

7/ مارواہ الواعون فی اخبار الطاعون ، جلال الدین ابوالفضل عبدالرحمن بن ابوبکر بن محمد بن عثمان السیوطی ، الشافعی ( ت:911 ھ )

8/ رسالةالوباء وجواز الفرار منه( عنه) : مصلح الدین مصطفی بن اوحد الدین البارحصاری ، القاضی ، الحنفی ( ت:911 ھ )

9/ تحفةالنجباء باحکام الطاعون والوباء ، شمس الدین محمد بن علی بن محمد بن طولون الصالحین ، الدمشقی ، الحنفی ، ابو عبداللہ ( ت:953 ھ ) .

10/ البشارةالھنیة بأن الطاعون لایدخل مکة والمدينة ، شمس الدین محمد بن محمد عبدالرحمن الحسینی ، الطرابلسی ، المالک ، ابو عبداللہ ، المعروف بخطاب الرعینی ( ت:954 ھ ) .

11/ مایفعلہ الاطباء والداعون لدفع شر الماعون ، شیخ مرعی بن یوسف بن ابوبکر بن احمد بن ابوبکر بن یوسف بن احمد اکرمی ، المقدسى ، الحنبلی ( ت:1033 ھ ) .

آگے دیکھئے علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ترتیب

کورونا وائرس کووڈ 19 کی تازہ تعداد ،

مؤرخہ 17/اپریل 2020 ء کی رات تک کورونا سے ہلاک شدگان کی تعداد 1/لاکھ 40/ہزار سے تجاوز ، کورونا کی وباء سے پوری دنیا میں ہلاکتوں کا سلسلہ ہنوز تھمتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے .

ذرائع ابلاغ کے مطابق چین میں دسمبر 2019 م کو سامنے آئے ہوئے کورونا وائرس سے ابتک پورے عالم میں 1/لاکھ 40/ہزار 902 افراد لقمہِ اجل بن چکے ہیں ، ایک رپورٹ کے مطابق یوروپ کا معاملہ انتہائی خطرناک نظر آرہا ہے جہاں ہلاکتوں کی تعداد 92/ہزار 900 کو پار کرچکی ہے ،

پچھلے ہفتہ سے امریکہ میں بھی متاثرین اور ہلاک شدگان کی تعداد میں غیر معمولی طور پر اضافہ دیکھا جارہا ہے ، امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد 32/ہزار ہوچکی ہے . اٹلی میں 22/ہزار 170 ، اسپین میں 19/ہزار 130 ، فرانس میں تقریباً 18/ہزار اور برطانیہ میں اب تک 14/ہزار کے قریب لوگ ہلاک ہوچکے ہیں .

بھارت کی سنگینی کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی بڑی تیزی کے ساتھ یہ وائرس پھیلتا جارہا ہے ، صرف چوبیس گھنٹوں میں بھارت میں دوہزار سے زائد لوگ کورونا وائرس کی زد میں آچکے ہیں ، آئی سی ایم آر ( ICMR ) کی سنیچر شام کی جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ ایک دن میں کورونا کے 2154/معاملوں کی تصدیق ہوئی ہے ، آئی سی ایم آر نے بتایا کہ ابھی تک ملک میں 16365/لوگوں کے کورونا وائرس پازیٹو ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے .

نویں قسط

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کی کتاب کا لبِ لباب

علامہ حافظ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کی ترتیب پانچ ابواب ایک خاتمہ اور ایک قدرے مختصر فصل پر دی ہے اور کتاب کے آغاز میں دو فہرستوں کا الحاق کیا ہے ، ایک فہرست عمومی ابواب کے لئے اور دوسری ان ابواب میں آنے والی فصلوں کو شامل کئے ہوئے ہے ، ظاہرًا انھوں نے اس فہرست کوکتاب میں ان زیادات کے اضافہ کے بعد کیا ہے جن کا ذکر انھوں نے نسخہ کے آخر میں کیا ہے .

علامہ حافظ نے بابِ اول میں طاعون کے قاعدے ( اصول ) پیش کئے ہیں اور یہ کہ وہ اممِ سابقہ کے لئے ایک رجز ( عذاب ) اور اس امت کے لئے ایک رحمت ہے . اور اس میں انھوں نے چار فصول بیان کئے ہیں .

دوسرے باب میں انھوں نے طاعون کی تعریف ، اس کا لغوی اشتقاق ، اس کے تعلق سے آئے ہوئے اطباء کے اقوال اور اس سے راہِ فرار اختیار کرنا اور ان احادیث کا ذکر کیا ہے جن میں اس بات کا فائدہ اور حکمت بتائی گئی ہے کہ وہ وخزِ جن میں سے ہے ، پھر ان احادیث کو اس میں جوڑا ہے جن کو پڑھنے والا جن کے کید ( دھوکہ اور مکر ) سے محفوظ رہتا ہے اور ان کو انھوں نے نو فصلوں پر ترتیب دیا ہے .

تیسرے باب میں انھوں نے ان ادلہ کا ذکر کیا ہے جن میں انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ ( اس سے یا موجودہ دور میں کورونا وائرس سے مرنے والے ) مسلمانوں کے لئے شہادت بن جاتی ہے ، اس میں انھوں نے شہید کے معنی ، شہداء کے مراتب اور شہادت کے شروط بیان کئے ہیں اور اسی طرح یہ بھی بیان کیا ہے کہ طاعون مدینہ نبویہ میں داخل نہیں ہوتا اور اس میں انھوں نے دس فصلیں بنائی ہیں اور چوتھے باب کے ضمن میں طاعون سے تعلق رکھنے والے احکام کا ذکر کیا ہے ، جیسے جس ملک ( یا شہر ) میں طاعون واقع ہوا ہے وہاں سے نکلنے یا اس میں داخل ہونے کے احکام اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ” سَرْع ” سے لوٹنے کا قصہ ، صحابہِ کرام کا اختلاف اور ایک کی بیماری سے دوسرے آدمی کا بیماری میں مبتلا ہونا ، اس میں انھوں نے چار فصول بنائے ہیں ، لیکن یہ باب کافی طویل ہے ۔

پانچویں باب میں انھوں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ طاعون کے واقع ہونے کے بعد لوگوں کو کونسی چیز مشروع ہے ، جیسے بآواز بلند دعا کرنا ، دعا کے لئے لوگوں کا جمع ہونا یا نہ ہونا ، وراثت کے متعلق چیزیں ، جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں ان سے تعلق رکھنے والے اور عیادت ( بیمار پرسی ) کے آداب .

علامہ نے کتاب کو ایک خاتمہ پر ختم کیا ہے جس میں اُنھوں نے اختصار کے ساتھ ان طواعین پر کلام کیا ہے جو اسلام میں 848 ہجری میں واقع ہوئے تھے . اس میں انھوں نے ابن وردی ، صفدی اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے مقام کا ذکر کیا ہے اور ہر باب کو ایک ایسی فصل پر ختم کیا ہے جس میں انھوں نے باب میں آئے ہوئے مشکل الفاظ کا کشف ( انکشاف کیا ہے ، الفاظ کے معنوں کی وضاحت کی ) کیا ہے ، حروف کے ذریعہ ان چیزوں کو ضبط ( ایڈجسٹ ، درست ) کیا ہے جن کو جہاں ضبط کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو اور ان حروف یا الفاظ کی تفسیر کی ہے جہاں ان کی تفسیر کرنا ضروری ہو اور جہاں انھیں قید کرنے ( باندھنے ، روکنے ) کی ضرورت پڑی ہو وہاں انھوں نے قید کیا ہے ،

کتاب کے ختم کرنے کی بات کرتے ہوئے علامہ لکھتے ہیں کہ میں نے ہر باب کو ایک ایسی فصل پر ختم کیا ہے جو اس میں آئے ہوئے الفاظ یا نام کے کشف کرنے پر مشتمل ہے اور میں نے ایسی احادیث لائی ہیں جن کی اسانید غالباً محذوف ہیں لیکن میں نے ان ائمہ کا ذکر کیا ہے جنھوں نے ان کو اخراج کیا ہے اور ان کے صحیح ، حسن اور ضعیف ہونے کا حکم ، کبھی ان کے خلاصہ کے ساتھ اور بعض اوقات ان کو اچھی طرح بیان کرنے کے ساتھ ذکر کیا ہے اور نام اس کا میں نے ” بَذْلُ الْمَاعُوْنِ فِيْ فَضْلِ الطَّاعُوْنِ ” رکھا ہے .

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جو کچھ ہم نے جان لیا ہے وہ ہم پر وبال نہ بنائے اور اپنے فضل و کرم سے ہمارا خاتمہ بالخير کرے .

علامہ لکھتے ہیں کہ بار بار میرے بھائیوں نے مجھ سے سوال کیا ( اللہ ان سے نفع پہونچائے ) کہ میں طاعون کے سلسلہ میں آئی ہوئی احادیث کو اس کی غریب شرح ، اس کے سمجھنے اور ذہن میں جلد آنے والے آسان معانی کو جمع کروں ، ان کے احکام کو بیان کروں اور اس کے اقسام کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کروں ، سو ان کی رغبت کو دیکھتے ہوئے میں نے ان کے سوالوں کے جواب دینے کا ارادہ کیا ، اللہ تعالیٰ ہی سے میں ان تمام مسالک میں اعانت کا سوال کرتا ہوں . اس کو میں نے پانچ ابواب پر ترتیب دیا ہے ، پہلا باب مبدا میں ، دوسرا اس کی تعریف میں ، تیسرا اس کی شہادت ( شہید ) ہونے میں ، چوتھا جس شہر میں وہ واقع ہوتا ہے اس شہر سے نکلنے اور اس میں داخل ہونے کے سلسلہ میں اور پانچواں اس کے واقع ہونے کے بعد مشروع فعل کے سلسلہ میں .

چونکہ ماہ رمضان المبارک کی آمد بالکل ہی قریب ہے اس لئے اس قیمتی کتاب کے چند اہم جواہر پاروں کو چن کر اگلی تین یا چار اقساط پر ختم کروں گا ، ماہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اس میں جتنا ہوسکے کلام اللہ کی تلاوت کی جائے ، سلف صالحین ماہ رمضان المبارک میں دوسری چیزوں کو چھوڑ کر صرف قرآن کریم ہی میں مشغول ہوتے تھے ، پہلے باب کی پہلی فصل میں جو ” گذرے ہوئے لوگوں پر ایک عذاب ہونے ” کے بیان میں ہے ، لکھتے ہیں کہ ( میں اس حدیث کے اسناد کی حافظ ابن حجر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک کی صرف ایک حدیث کی اسناد کی پوری کڑی بیان کروں گا بقیہ آنے والی احادیث میں صرف صحابی کو اور اس کے بعد حدیث کو بیان کروں گا ، کیونکہ بڑی بڑی اسناد کی کڑیوں کا قاری حضرات متحمل نہیں ہو سکتے ) . مجھے ابو المعالی ازہری نے خبر دی ہے ( حدیث بیان کی ہے ) ، انھوں نے کہا کہ مجھے ابو محمد بن صاعد نے خبر دی ہے ، انھوں نے کہا کہ مجھے ابوالقاسم الشیبانی نے ، انھوں نے کہا مجھے علی التمیمی نے ، انھوں نے کہا مجھے ابوبکر بن مالک نے ، انھوں نے کہا مجھے عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ، انھوں نے کہا مجھے میرے باب ( احمد ) نے حدیث بیان کی ہے ، انھوں ( باپ ) نے کہا ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا ہمیں شعبہ نے حبیب بن ابی ثابت نےحدیث بیان کی ہے ، کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں تھا پس مجھے خبر ملی کہ کوفہ میں طاعون ہے ، تب میں نے ابراہیم بن سعد ( وہ ابن ابو وقاص کو مراد لیتے ہیں ) سے پوچھا تو انھوں نے کہا میں نے اسامہ بن زید سے سعد کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” اِنَّ هَذا الوجع رجس وعذاب او بقیة عذاب ( راوی حبیب کو شک ہوا ہے کہ کونسا جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ) عُذِّبَ به ناس من قبلکم ” بیشک یہ درد گندگی اور عذاب ہے یا عذاب کا باقی حصہ ہے جس کے ذریعہ تم سے پہلے والے لوگوں کو عذاب دیا گیا تھا ” ( الحدیث ) . اسی طرح اس حدیث کو شیخان بخاری ومسلم نے شعبہ سے اخراج کیا ہے اور اعمش نے حبیب بن ابی ثابت سے اور کہا! ( اعمش ہونے چاہئیں ، حبیب بن ابی ثابت کا بھی امکان ہے ) ابراہیم بن سعد سے انھوں نے اسامہ اور سعد دونوں سے ، اس کو مسلم نے بھی روایت کیا ہے اور اس حدیث کو ثوری نے حبیب سے روایت کیا ہے ، انھوں نے ابراہیم بن سعد سے ، انھوں نے اسامہ اور خزیمہ بن ثابت سے ، امام احمد نے بھی اس حدیث کو وکیع سے روایت کیا ہے .

ابراہیم بن سعد نے سعد بن مالک ، اسامہ بن زید اور خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنھم سے روایت کیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” ان ھذا الطاعون رجز وبقیة عذاب ، عذب به قوم . یہ طاعون ایک رجز ( عذاب ، ہلاکت یا گندگی ) اور عذاب کا باقی حصہ ہے جس سے ایک قوم کو عذاب دیا گیا “. ( یہ ابوبکر بن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں ) .

سیدنا عامر بن سعد نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” ان ھذا الوباء رجز اھلك الله به بعض الأمم ، وقد بقی فی الارض منه شیئ یجیئ احیانا ویذھب احیانا . بیشک یہ وباء ایک ایسا عذاب ہے جس سے اللہ نے بعض امتوں کو ہلاک کیا اور زمین میں اس کا کچھ حصہ باقی ہے جو بعض اوقات آتا ہے اور کبھی جاتا ہے “. ( احمد ، مسلم )

ایک حدیث میں وجع یا اس کے بدلہ میں سقم کے الفاظ آئے ہیں ، جیسے اس حدیث میں ، عبداللہ بن عمر کے بیٹے ( سالم ) نے عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ سے حدیث روایت کی ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے انھیں اس حالت میں خبر دی ہے کہ وہ شام کے راستہ پر تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ اس میں طاعون ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” ان ھذا الوجع او السقم عذاب ، عذب به من کان قبلکم . کہ یہ درد ( یا بیماری ، شک راوی ) ایک ایسا عذاب ہے جس کے ذریعہ تم سے پہلے والے لوگوں کو عذاب دیا گیا تھا “. اس حدیث کو محمد بن منکدر اور ابوالنضر کے مولی سالم اور عمرو بن دینار نے روایت کیا ہے ، ان تمام نے عامر بن سعد سے ، انھوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے . بخاری اور مسلم نے ان کے طریقہ سے ، اور اس کے بعض طریقوں سے ” عذب به بعض بنی اسرائیل . کہ جس سے بعض بنو اسرائیل کو عذاب دیا گیا ” آیا ہے .

دسویں قسط

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کی کتاب ” بذل الماعون فی فضل الطاعون ” کے دوسرے باب کے کچھ اقتباسات

اس بات کا بیان کہ طاعون گذری ہوئی امت پر ایک عذاب تھا ، نہ کہ اس امت کے مسلمانوں پر اور یہ کہ یہ اس امت کے مؤمنوں پر رحمت اور شہادت ہے ۔

امام احمد کہتے ہیں کہ ہمیں یزید نے حدیث بیان کی ہے ( یہ ابن ھارون ہیں ) انھوں نے کہا کہ ہمیں مسلم بن عبید نے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام ابو عسیب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا! ” آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! میرے پاس جبریل علیہ السلام بخار اور طاعون لیکر حاضر ہوئے ، میں نے مدینہ میں بخار کو روکے رکھا اور طاعون کو شام کی طرف بھیجا اور طاعون میری امت کے لئے شہادت اور ان کے لئے ایک رحمت ہے اور کافر ( ایک روایت میں کافرین ) کے لئے ایک عذاب ہے “. یہ حدیث حسن ہے اور عسیب عظیم کے وزن پر ہے اور ان کا نام احمر ہے ، ( ایک قول میں یہ ام سلمہ کے غلام سفینہ ہیں ، حافظ نے اس کو دور کی بات کہی ہے ) .

ہمیں ان کی یہ حدیث “معجم طبرانی ” اور ابن مندہ کی ” ا لمعرفہ ” میں بلند پایہ کی لگی ، طبرانی میں ان کے الفاظ یہ ہیں ” فارسلت الحمی الی قباء ، تو میں نے حمی ( بخار ) کو قباء کی طرف بھیجا “. اور ان کی حدیث کے لئے دوسرے شواہد بھی ہیں .

ان میں سے عائشہ رضی عنھا سے روایت کردہ بخاری کی حدیث بھی ہے کہ ” کان عذابا یبعثه الله تعالیٰ علی من یشاء ، فجعله رحمة للمؤمنین . وہ ایک عذاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے ، پس مومنین کے لئے اس کو ایک رحمت بناتا ہے “.

عنقریب تیسرے باب میں آئے گا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے لئے ایک رحمت ہے . ( تو پھر کورونا کووڈ 19 کیوں نہیں مومنوں کے لئے رحمت ہوگا ؟ )

مذکور تفسیر کے قریب ہی وہ حدیث ہے جس کو ابن ابی الدنیا نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ اور ایک دوسرا شخص سیدہ عائشہ رضی عنھا کے پاس داخل ہوئے ، تب اس شخص نے سیدہ عائشہ رضی عنھا سے پوچھا! اے مؤمنین کی اماں ، ہمیں زلزلہ کی حدیث بیان کیجئے ، کہنے لگیں! ” اذا استباحوا الزنا ، وشربوا الخمر ، وضربوا بالمعازف ، غار الله تعالیٰ فی سمائه فقال ( للارض ) تزلزلی بھم ، فان تابوا ونزعوا والا ھدمتھا علیھم . جب لوگ زنا کو حلال سمجھنے لگیں ، شراب پینے لگیں ، اور آلاتِ موسیقی ( باجے ، ساز ) بجانے لگیں تو اللہ تعالیٰ اپنا آسمان غار کرتا ہے سو وہ زمین سے کہتا ہے تو ان کو لے کر زلزلہ پیدا کر ( زور کے جھٹکے دے ) پس اگر وہ توبہ کریں اور ہٹ جائیں ( باز آجائیں ، تو انھیں چھوڑ ) ورنہ اسے ان پر ڈال کر فنا کردے “. وہ کہنے لگا! اے ام المؤمنین ، کیا یہ ان کے لئے عذاب ہوگا ؟ کہنے لگیں! بلکہ مؤمنین کے لئے رحمت اور ایک نصیحت اور کافرین کے لئے ایک عذاب اور ایک ناراضگی . سیدنا انس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس حدیث سے زیادہ میرے لئے زیادہ خوشی والی کوئی اور حدیث نہیں سنی .

گیارہویں قسط

علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ اپنی کتاب ” بذل الماعون فی فضل الطاعون ” کے دوسرے باب کی دوسری فصل میں بیان کرتے ہیں کہ طاعون وباء کے مترادف نہیں اور یہ کہ اس پر وباء کا اطلاق کرنا بطریقِ مجاز ہے ، کیونکہ طاعون وباء سے اخص ہے .

صحیحین اور مؤطا میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث ثابت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” علی انقاب المدینة ملائکة لایدخلھا الطاعون ولا الدجال . مدینہ پر نقب لگانے والی جگہوں پر فرشتے ہوں گے ، اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوں گے “.

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” المدینة یاتیھا الدجال فیجد الملائكة ، فلا یدخلھا الدجال ولا الطاعون إن شاء الله تعالیٰ . مدینہ کے پاس دجال آئے گا تو وہاں وہ فرشتوں کو پائے گا ، ان شاءاللہ اس میں نہ دجال داخل ہوسکے گا اور نہ ہی طاعون ” ( بخاری )

بخاری اور مسلم نے ” کتاب الحج ” میں ابو اسامہ کے طریقہ سے ہشام بن عروہ کے اپنے باپ ( عروہ ) سے ان کا عائشہ سے روایت کئے ہوئے طریقہ سے حدیث روایت کی ہے ، کہتی ہیں کہ ” ہم مدینہ میں اس حال میں آئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ وباء والی زمین تھی”. اس حدیث میں بلال رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ” اللھم العن شیبة بن ربیعة ، وعتبة بن ربیعة ، وامیة بن خلف ، کما اخرجونا من ارضنا الی ارض الوباء . اے اللہ شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت بھیج ، ( اپنی رحمت سے دور کر ) جیسا کہ انھوں نے ہمیں اپنی زمین سے وباء والی زمین کی طرف بھیجا “. ( بخاری و مسلم )

اگر طاعون ہی وبا ہوتا تو دو حدیثوں کے درمیان تعارض ہوتا ( کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں طاعون کو داخل نہ ہونے کی دعا کی ہے اور مدینہ وباء والی زمین ہے ، جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے ، اگر وباء ہی طاعون ہوتا تو دو حدیثوں کے درمیان تعارض ہوتا اور یہاں پر کوئی تعارض و اختلاف نہیں ، کیونکہ وباء طاعون نہیں ) مصنف کہتے ہیں ! لیکن دونوں حدیثوں کے درمیان تعارض نہیں ، کیونکہ طاعون وباء سے اخص ہے ۔ ماضی کی ابوعسیب کی حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وبا کو طاعون پر اختیار کیا اور اس کو مدینہ میں رکھنے کا اقرار کیا پھر اللہ سے دعا فرمائی تو اللہ نے اس کو جحفہ کی طرف منتقل کیا ، جیسا کہ سیدہ عائشہ ہی کی حدیث سے صحیحین میں ثابت ہے اور اس میں سے کچھ مدینہ میں باقی رہا .

ان دو حدیثوں کے درمیان یوں جمع کیا جاتا ہے کہ بخار مدینہ کے رہنے والے لوگوں کو اور وہاں آنے والے اس کے غیر باشندوں کو پہنچتا ( لگتا ) تھا ، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ کے لئے یہ دعا فرمائی کہ بخار مدینہ سے جحفہ کی طرف منتقل ہوجائے تو وہاں رہنے والوں سے اس کو اٹھایا ( دور ) گیا سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے ( وہاں رہنے کی ) نذر کی تھی اور ان لوگوں پر باقی رہی جو اس کی ہوا کے موافق نہیں تھے اور وہ انھیں بھی لگی .

طاعون جن کے وخز سے ہے کا کیا معنی ہے ؟

کلا باذی ” معانی الاخبار ” میں چوتھے باب میں سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی حدیث ” ان ھذا الوجع . یہ درد ” اور عبدالرحمن بن عوف کی حدیث ” اذا سمعتم الوباء ببلد فلا تقدموا علیه . جب تم کسی شہر میں وباء آئی ہوئی ہے سنو تو اس میں نہ جاؤ “. کہتے ہیں کہ ( ایک حدیث میں وجع آیا ہے اور ایک حدیث میں وباء ) مرض اور وباء دوسرے امراض کی طرح وہ مرض ہے جو لوگوں کو ، طبیعتوں اور چیزوں کے ملاوٹ کی وجہ سے اپنی گرفت میں لیتا ہے اگر چہ کہ ( وہاں ) کسی انسان کا طعن اور کسی جن کا وخز نہ ہو ، ایسے میں طاعون کا دو قسموں میں تقسیم ہونا جائز ہے ، ایک وہ قسم جو بیماری یعنی وجع اور وباء ہے جو بعض چیزوں کی ملاوٹوں کی وجہ سے جو کہ خون اور صفراء ( پتہ ) کے غلبہ کی وجہ سے واقع ہوتا ہے جب وہ جل جائے ، یا اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے جن کے کسی سبب کے بغیر ہی ، اور اس کی دوسری قسم وخز جن کی وجہ سے ہے ، اور یہ اس طرح جیسا کہ پھوڑا ایک بیماری یا درد ہے جو انسان میں خون کے جلنے اور ملاوٹ کے غلبہ سے ہوتا ہے اور انسان کو بیمار بناتا ہے وہ اس کی جلد کو پھاڑ دیتا ہے اور گوشت کو کھول دیتا ہے اگر چہ کہ وہاں کوئی طعن ( زخم لگانے جیسی کوئی چیز ) نہ ہو ۔

علامہ حافظ ابن حجر کہتے ہیں ، ان کے کلام کا ماحصل یہ ہے کہ طاعون کو وباء ، وجع ، یا داء ( بیماری ) کانام دینا اُس معنی پر محمول ہے جو اس ” جن کے وخز ” کے غیر معنی میں ہے اور جو چیز ظاہر ہوتی ہے وہ ان کے ذکر کردہ معنی میں ہونا لازم نہیں ، اس لئے کہ وباء کثرتِ موت پر بولی جاتی ہے ، جیسا کہ آگے گذرا اور یہ کہ وہ ( وباء ) طاعون سے زیادہ عام ہے ، وہا ، داء اور وجع والا لفظ ان میں سے ہر ایک کو ہر مرض پر بولا جاتا ہے ، خواہ وہ مرضِ طاعون ہوکہ اس کے علاوہ کوئی بیماری . رہی بات بعض اوجاع ( جمعِ وجع ) کا طاعون میں ہونے کی تو یہ کبھی طبیعتوں کے غلبہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور ایسا ہونا طعن جن میں سے ہونے کے منافی نہیں ، اس بات کا احتمال رہنے کی وجہ سے کہ یہ تغیر ( جن کے ) طعن کے پائے جانے کے وقت ہی آیا ہو ، سو مطعون کے بدن میں گھبراہٹ آجاتی ہے جس سے اس کے خون میں ابال آجاتا ہے اور اس کی وہ بری کیفیت ہوجاتی ہے جس کی اطباء اپنے اصول وقاعدہ کے اعتبار سے جانچ کرتے ہیں اور یہ اس کے پہلے سبب ( طعن جن ) کے ہونے کی نفی نہیں کرتا ہے .

بارہویں قسط

علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” بذل الماعون فی فضل الطاعون ” کے دوسرے باب کی تیسری فصل میں ان احادیث کا تفصیلی ذکر کیا ہے جن میں وارد ہے کہ ” طاعون وخزِ جن میں سے ہے “.

امام احمد کہتے ہیں کہ ہمیں عبدالرحمن نے ( جو ابن مہدی ہیں ) حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا کہ ہمیں سفیان نے ( جو ثوری ہیں ) زیاد بن علاقہ سے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے ایک شخص سے ، انھوں نے ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” فناء امتی بالطعن و الطاعون ” آپ سے عرض کیا گیا! یا رسول اللہ! اس طعن ( نیزہ وغیرہ کی چبھن ) کو تو ہم جانتے ہیں ، طاعون کیا ہے ؟ فرمایا! ” وخز اعدائکم من الجن ، وفی کل شھادة . تمہارے جن دشمنوں کا وخز ( دکھ ودرد ) ہے اور ( طعن طاعون میں سے ) ہر ایک میں شہادت ہے “.

اس حدیث کو عبدالرزاق نے اپنی” مسند ” میں ثوری سے روایت کیا ہے اور اسی طریقہ سے اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو وکیع نے سفیان سے اور کہا! جریر سے ( یعنی ابو موسیٰ کے بدلہ میں انھوں نے کہا کہ ہم نے اس حدیث کو جریر سے روایت کیا ہے ) اسی طرح میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن ابی شیبہ کی ” مسند ” سے نقل کیا ہے ، لیکن میں اس ( سفیان کا جریر سے روایت کرنے ) کو ایک وہم سمجھتا ہوں . یہ اسناد ” زیاد بن علاقہ ” تک مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور اگر راوی مبہم نہ ہو تو اس کے صحیح ہونے کی وجہ سے متن ( نفس حدیث ) محکوم ( مضبوط ) ہوگا .

نیز احمد کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن جعفر نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے زیاد بن علاقہ سے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا کہ مجھے میری قوم کے ایک شخص نے حدیث بیان کی ہے ، شعبہ کہتے ہیں کہ میں اس ( آدمی ) کا نام جانتا ہوں ، اس ( آدمی ) نے کہا کہ ہم عثمان کے دروازہ پر اجازت کا انتظار کر رہے تھے ، تب میں نے ابو موسیٰ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” میری امت کا فناء ہونا طعن اور طاعون سے ہے ” ( ابو موسیٰ ) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا! یارسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ و سلم ) اس طعن کو تو ہم نے پہچانا ، پس طاعون کیا ہے ؟ فرمایا! ” تمہارے دشمن جن کا طعن ہے اور ہر ایک میں شہادت ہے “. زیاد کہتے ہیں کہ میں اس (میری قوم کے شخص ) کے ( کہے ہوئے ) قول سے راضی ( مطمئن ) نہیں ہوا ، میں نے قبیلہ کے سردار سے پوچھا جو ان( قبیلہ ) کے ساتھ تھا ، تو اس نے کہا کہ اس ( قوم کے شخص ) نے سچ کہا .

اس حدیث کو طبرانی نے حکم بن عتیبہ ، زیاد بن عِلاقہ کے طریقہ سے روایت کیا ہے ، وہ ( ضمیر غالباً حکم بن عتیبہ کی طرف لوٹتی ہے ) شعبہ کے ( اُس آدمی کے ) مبہم ہونے کے وصف پر ان کے موافق ہوئے کہ وہ زیادہ بن علاقہ کی قوم میں سے ہے ) . نیز انھوں ( طبرانی ) نے اس کو اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق کے طریقہ سے ، انھوں نے زیادہ بن علاقہ سے ، قبیلہ کے ایک شخص سے ، انھوں نے ابو موسیٰ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، پھر انھوں نے حدیث کو شعبہ کی حدیث کی طرح ذکر کیا ، لیکن اس میں انھوں نے جنس کے ارادہ سے افراد کے لفظ ” طعن عدوکم ” سے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔

اس حدیث کو علامہ حافظ ابن حجر نے کئی طریقوں سے لایا ہے ، اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح اور ثابت ہے اور اس کے برخلاف ایک حدیث میں جو ” طعن اخوانکم ” آیا ہے وہ حدیث ہے ، لیکن وہ ضعیف ہے ، علامہ حافظ ابن حجر نے ” طعن اعدائکم من الجن ” کو کئی طریقوں سے ثابت کرنے کے بعد اس کے خلاف آئی ہوئی حدیث ” طعن اخوانکم من الجن ” کو ضعیف ثابت کیا ہے .

یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کئی طریقوں سے آئی ہوئی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طاعون کو ” تمہارے دشمن جن کا درد ہے ” فرمایا ہے اور ایک حدیث میں ” تمہارے بھائی جن کا درد ” فرمایا ہے ، اب دشمن اور دوست میں ظاہر ہے تناقض ہے ، ایسے میں ان دونوں حدیثوں کو جمع کیسے کیا جائے ، تو علامہ نے دونوں حدیثوں کی تحقیق کر کے دشمن والی حدیث کو ضعیف ثابت کیا ہے ، یہ حدیث احمد بن حنبل نے روایت کی ہے ، جیسا کہ دوست والی حدیث کو ، پھر علامہ نے مختلف طریقوں سے لائی ہوئی حدیث کو لایا اور ان تمام میں دوست کا لفظ ہی آیا ہے اور ان کی دشمن والی ایک حدیث جو آئی ہے اس کے تعلق سے فرمایا کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، انھوں نے ان ( دوست ) الفاظ سے حدیث روایت نہیں کی ہے بلکہ ان کی طرف اس حدیث کو جوڑنا ہی غلط ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ” اللھم اجعل فناء امتی فی الطاعون . اے اللہ میری امت کی فنا طاعون سے کر “. حدیث کو احمد نے ابو موسیٰ سے روایت کیا ہے . ( حدیث عمدہ ہے ) . ایک روایت میں ” فناء امتی بالطعن و الطاعون . میری امت کی فنا طعن اور طاعون سے ہے ” آیا ہے ، ایک اور روایت میں جو ابو موسیٰ ہی سے مروی ہے” اللھم اجعل فناء امتی قتلا فی سبیلك بالطعن و الطاعون . اے اللہ! میری امت کی فنا کو تیرے راستہ میں قتل ہوتے ہوئے طعن اور طاعون سے کر “.

ابن مندہ نے کہا کہ حدیث کو ایک جماعت نے روایت کیا ہے ان میں عامر بھی ہیں اس حدیث کو احمد ابو نعیم اور حاکم نے بھی کئی طریقوں سے روایت کیا ہے ، حدیث صحیح ہے ، حاکم نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعا فرمائی ہے ، کیا اس میں آپ کی امت کے تمام لوگ شامل ہوں گے تاکہ تمام لوگوں کو شہادت کا درجہ مل جائے ؟ کیا واقعتاً اس سے دعا ہی مراد ہے یا خیر مراد ہے ؟

جن کے طعن وطاعون سے مرنے والوں کو شہادت کا درجہ ملے گا ، حافظ لکھتے ہیں کہ مذکور حدیث کے معنی ( اور تقویت ) میں شیخنا نے اپنی ” امالیہ ” میں یہ بیت پڑھی!

اُكرم بخیر أمة قد أخرجت
للناس فی الدنیا وفی عقباھا

اس بہترین امت کو جو لوگوں کے لئے دنیا اور اس کی آخرت میں نکالی گئی عزت دی گئی .

بالطن والطاعون وھم یستشھدون
ذاك وخز الجن من اعداھا

طعن اور طاعون کے ذریعہ وہ شہید ہوں گے ، یہ اس کے دشمن جن کے وخز ( درد ) سے ہے اور بعض لوگوں سے میں نے اس کے عکس پایا ہے .

محفوظ کہتے ہیں کہ ” فناء امتی بالطعن و الطاعون . میری امت کی فنا طعن اور طاعون کے ذریعہ ہوگی ” خیر پر ، نہ کہ دعا پر .

ابن اثیر ” النھایہ ” میں کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ ہے کہ امت کی فناء انُ فتنوں سے ہوگی جن میں خون بہے گا اور وباء کے ذریعہ ، انتھی .
ان کا یہ دعوی کہ وہ دعاء کے الفاظ سے محفوظ نہیں ہے ان حدیثوں کے ذریعہ مردود ہوتا ہے جن کو میں نے صحیح طریقوں سے پیش کیا ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعا اس کی گواہی دیتی ہے ، جیسا کہ میں عنقریب ہی ذکر کرنے والا ہوں . ( کہا گیا کہ امت سے مراد ایک جماعت ہے نہ کہ پوری امت ، ایک قول میں ہر دور کی ایک جماعت ) .

کورونا کی تازہ خبر

وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کل مؤرخہ 20/اپریل 2020 ء صبح تک کُل سترہ ہزار دو سو پینسٹھ آدمی کورونا سے متاثر ہوئے ہیں ، چوبیس گھنٹوں میں کل 1553 نئے معاملے سامنے آئے ہیں اور 36 لوگوں کی موت ہو چکی ہے ، اس طرح بھارت میں ہلاک شدگان کی تعداد 543 تک پہنچ چکی ہے ، جہاں مہاراشٹر اور دلی میں متاثرین کی تعداد ہزاروں میں ہے وہاں ہمارے صوبہ کرناٹک کی حالت کورونا وائرس کووڈ 19 سے متاثر ہونے والوں کے تعلق سے قدرے مطمئن ہے ، کرناٹک میں اب تک 390 لوگ کورونا سے متاثر ہیں ، وہیں بھارت کے سب سے بڑے صوبہ میں بھی کورونا سے متاثرین کی تعداد ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور وہاں اب تک کل 1084 لوگ کورونا سے متاثر پائے گئے ہیں ، اللہ تعالیٰ تمام کی حفاظت فرمائے . آمین .

جرمنی میں تقریبا دیڑھ لاکھ لوگ اس وائرس سے متاثر ہیں ، وہاں اب تک 4500 لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جو امریکہ ، اٹلی ، اسپین اور فرانس کے بعد پانچویں نمبر پر ہے .

پوری دنیا میں ہلاک شدگان کی تعداد ایک لاکھ 65 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور ان میں سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ صرف یوروپ کے ہیں .

تیرہویں قسط

طاعون مسلمانوں کے لئے شہادت اور رحمت ہے .

بخاری و مسلم کی سیدنا انس رضیکو جنوبی ہند کی ریاست کرناٹکا کے ضلع اڈپی کے شہر کنداپور کے گاؤں اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” الطاعون شھادة لکل مسلم . طاعون ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے “. ( متفق علیہ )

سیدہ عائشہ رضی عنھا سے روایت کردہ حدیث میں آتا ہے کہ طاعون ” رحمة للمؤمنین . مؤمنین کے لئے رحمت ہے “. ( بخاری )

امام احمد نے ایک دوسرے طریقہ سے سیدہ عائشہ رضی عنھا سے حدیث روایت کی ہے کہ ” المقیم فیه کالشھید . اس میں رہنے والا شہید کی طرح ہے”. ( احمد )

ایک اور وجہ ( طریقہ ، پہلو ) سے ابویعلی نے ان ہی سے روایت کی ہے کہ ” من اصیب به کان شھیدا . جو شخص اس میں ( گرفتار ہوکر ) انتقال کرجائے تو وہ شہید ہوگا . ( ابویعلی )

چوتھے باب میں شرحبیل بن حسنہ کی حدیث میں عنقریب آئے گا کہ ” ان ھذا ( یعنی الطاعون ) رحمة بکم . بیشک یہ ( ان کی مراد طاعون ہے ) تمہارے لئے رحمت ہے “.

ابوعبیدہ ومعاذ بن جبل رضی عنھما سے بھی اسی طرح کی حدیث آئی ہے ، سیدنا معاذ کی ایک حدیث میں” وشھادة یختص الله بھا من یشاء منکم . اور شہادت ہے جس سے اللہ تم میں سے جس کو چاہے خاص کردے ” آیا ہے .

آئیے غور کرتے ہیں کہ کیا موجودہ دور کا کرونا وائرس کووڈ 19 طاعون کی تعریف میں آتا ہے ؟؟

نفس طاعون پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی طاعون قسم کی ہی ایک بیماری ہے گو طاعون نہ ہو ، لیکن تکلیف پریشانی ، طاعون زدہ زمین سے کسی دوسری زمین پر نہ جانا ، جس زمین پر طاعون پھیلا ہے اس زمین ہی میں صبر کرتے ہوئے یہ نیت کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اجر وثواب دے گا ٹہرے رہنا ، اس کا جن سے طعن کرنا وغیرہ بہت ساری چیزوں میں کرونا وائرس بالکل اسی طرح ہے جس طرح طاعون ، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض اوقات اس سے بھی بڑھ کر ہے ،

آج کورونا کے لئے وہی ساری احتیاط اپنائی جارہی ہیں جو کورونا کے لئے ، ایک ملک سے دوسرے ملک میں نہ جانا ، اپنے ہی گھروں میں محصور رہنا ، پچیسوں لاکھ لوگوں کا اس بیماری سے متاثر ہونا اب تک دو لاکھ کے قریب لوگوں کا ہلاک ہونا ، اور مہینوں گذر جانے کے باوجود اس بیماری کا علاج نہ دھونڈ پانا ، بلکہ جو انتہائی ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ بھی اللہ کی اس آزمائش سے بری طرح بے بس ، مجبور اور لاچار نظر آرہے ہیں اور طرفہ یہ کہ انھیں ممالک میں اللہ تعالیٰ کا یہ قہر یا عذاب زیادہ نازل ہورہا ہے ، طاعون کی طرح اس بیماری میں بھی طعن جن کے ہونے کو انکار نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ جن کا طعن کرنا انسان کے اندرونی حصوں پر ہوتا ہے پہلے اندرونی حصوں پر برا اثر ڈالتا ہے پھر اس کا اثر باہر آتا ہے اور بعض اوقات باہر نظر بھی نہیں آتا ،

چنانچہ موجودہ دور کے کورونا میں بھی یہی دیکھا جارہا ہے بعض اوقات اچھی طرح ڈاکٹر کے چیک اَپ کے باوجود انسان میں یہ وائرس نظر نہیں آتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد خبر آتی ہے کہ جس شخص کا چیک اپ کیا گیا تھا اس کے اندر کورونا کے جرثومے پائے گئے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فلاں کی موت کورونا کی وجہ سے ہوئی ہے ، کیا یہ سب اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ کورونا کی آزمائش طاعون سے کسی طرح بھی کم نہیں ؟ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طاعون سے مرنے والے کو شہید کے درجہ سے نوازہ ہے تو کیا کورونا سے مرنے والا مسلمان شہید کہلائے جانے کا مستحق نہیں ہے ؟

جب کورونا سے جان گنوانے والا شہید ہوگا ( باذن اللہ تعالیٰ ) تو اسی طرح صبر کرتے ہوئے اللہ کے پاس اس کا اجر حاصل ہونے کی نیت کرتے ہوئے اپنے گھر میں بیٹھنے والے کو بھی اسی طرح شہید کا ثواب ملے گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طاعون کی وجہ سے گھر بیٹھنے والے کو شہید کے ثواب کی نوید سنائی ہے .

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ طاعون کی بیماری آدمی کے اَلْاَرْنبہ یعنی قصبة الأنف ( ناک کی نرم ہڈی ) سے بھی پھیلتی ہے ، اور آج دیکھ رہے ہیں کہ کورونا کس تیزی سے ایسے اعضاء کے ذریعہ ایک دوسرے میں پھیل رہا ہے،چنانچہ اسی پھیلاؤ کو روکنے اور کنٹرول کرنے کے لئے ہی ہر قسم کے اجتماعات پر تقریبا ہر ملک میں پابندی لگائی گئی ہے اور اس میں جمعہ یا جماعات کے لئے مساجد میں حاضر ہونا بھی ہے ۔

اعلاء کلمة اللہ کے لئے معرکہ آرائی کرکے شہید ہونے والوں کے علاوہ لوگوں کو بھی شہید کا مرتبہ ملے گا ، ادلہ درج ذیل ہیں :

امام مالک نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” الشھداء خمسة ، المطعون والبطون والغرق وصاحب الھدم والشھید فی سبیل الله . شہداء پانچ ہیں:طاعون کی وجہ سے مرا ہوا شخص ، پیٹ کے درد میں مبتلا ہوکر مرا ہوا ، پانی میں ڈوب کر مرا ہوا ، کسی گھر یا دیوار کے ڈھ جانے کی وجہ سے مرا ہوا اور اللہ کے راستہ میں شہید شدہ شخص ( بخاری نے اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ مالک سے روایت کیا ہے ، اس حدیث کو انھوں نے انھیں کے طریقہ سے مختصرا ان الفاظ سے بھی روایت کیا ہے .

” المبطون شھید والمطعون شھید . پیٹ کے درد سے انتقال شدہ شخص شہید ہے اور طاعون کی بیماری سے فوت شدہ شخص شہید ہے ” ( بخاری )

مسلم نے جریر کے طریقہ سے ،انھوں نے سہل بن ابی صالح سے انھوں نے اپنے باپ سے انھوں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا!” ماتعدون الشھید فیکم ؟. تم اپنوں میں شہید کس کو شمار کرتے ہو ؟ ” صحابہ نے عرض کیا! یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو اللہ کے راستہ میں قتل کر دیا جاتا ہے وہ شہید ہے ، فرمایا! ” ان شھداء امتی اذا لقلیل . تب تو یقیناً میری امت کے شہداء تھوڑے سے ہوں گے ” عرض کیا! پس وہ کون لوگ ہیں یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرمایا! ” من قتل فی سبیل اللہ فھو شھید ، ومن مات فی سبیل اللہ فھو شھید ، ومن مات فی الطاعون فھو شھید ، ومن مات فی البطن فھو شھید ، والغریق شھید . جو اللہ کے راستہ میں لڑتا ( یا قتل کردیا جاتا ) ہے تو وہ شہید ہے ، جو اللہ کے راستہ میں مر جاتا ہے وہ شہید ہے ، جو طاعون میں مر جاتا ہے وہ شہید ہے ، جو پیٹ کے درد میں مبتلا ہوکر مرجاتا ہے وہ شہید ہے اور پانی میں ڈوب کر مرا ہوا آدمی شہید ہے . ( مسلم )

ان کے علاوہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کئی اور طرح سے انتقال ہونے والے لوگوں کو شہید فرمایا ہے ، جن میں حاملہ خاتون ، جانور سے گر کر مرا ہوا اور جل کر مرا ہوا آدمی شامل ہے ۔

نوٹ : اللہ کے راستہ میں شہید شدہ شخص کے علاوہ شہیدوں کو غسلایا اور کفنایا جائے گا اور اس پر نماز بھی پڑھی جائے گی .

تو طاعون اور کورونا سے ہلاک شدہ لوگوں کو بھی غسلایا کفنایا اور دفنایا جائے گا ، بعض اوقات لوگ کورونا سے انتقال ہونے والے شخص سے اتنا ڈرتے ہیں کہ اس کے قریب بھی جانے سے خوف کھاتے ہیں ، انھیں ڈرنا نہیں چاہئے بلکہ اپنے بھائی کی تکفین تدفین میں شریک ہونا چاہئے ، اطباء کی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا سے مرنے والے کے جسم سے اس کے مرنے کے بعد جراثیم بھی مرتے ہیں ۔

بعض اوقات ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ اس کو غسلایا نہیں جاسکتا تو ایسی صورت میں اس کو تیمم کرا کر نماز پڑھی جائے ، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو بحالت مجبوری بکس میں اچھی طرح سے بند کرکے دفنایا جائے،ایسے میں اسکو اصلی شہید پر قیاس کرتے ہوئے بغیر نہلائے اور نماز پڑھے کے دفنایا جائے گا جیسا کہ بعض ائمہ کے ضعیف اقوال ہیں . واللہ أعلم بالصواب .

چودہویں قسط

جس شہر میں طاعون ( یا کورونا کووڈ 19جیسی وباء ) موجود ہو وہاں سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے نکلنے کی نہی آنے کی حکمت

بعض اہل علم کہتے ہیں کہ( اس میں کوئی حکمت نہیں بلکہ ) یہ ایک ایسا امر ِتعبدی ہے جس کا معنی عقل میں نہیں آتا اور ان کے پاس اس کا سبب یہ ہے کہ ہلاک کرنے والی چیزوں سے راہِ فرار اختیار کرنا ان چیزوں ( احکام ) کی وجہ سے ہے جس کا حکم دیا گیا ہے ، جس شہر ( یا ملک ) میں طاعون واقع ہوا ہے وہاں سے نکلنے کو منع کرنے کے لئے صحیح احادیث آئی ہیں ، یہ ایک ایسا راز ہے جس کی حقیقت کو جانا نہیں جاسکتا ، ایسے میں شارع نے جس کا حکم دیا ہے اس کو سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے اس کو بجا لانا اولیٰ ہے ۔

لیکن بہت سارے علمائے دین اس کی علت بیان کرنے کی طرف گئے ہیں اور اس میں بہت ساری حکمتیں ظاہر کی ہیں ، ان میں سے پہلی یہ ہے کہ طاعون ( غالباً ) جس شہر میں واقع ہوتا ہے وہ عام ہوتا ہے ، جب کسی شہر میں یہ واقع ہو اور کوئی شخص وہاں جانے کا ارادہ کرے تو اس کا داخل ہونا اس بیماری میں گرفتار ہونے کا سبب بنتا ہے اور اسی طرح اگر کوئی شخص وہاں سے کسی اور شہر یا ملک میں چلے جاتا ہے تو اس کے وہاں جانے سے وہاں کے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں ، ( اور موجودہ دور کا کورونا وائرس کووڈ 19 سو فیصد ایسا ہی ہے اور اسی علت اور سبب کی وجہ سے ساری دنیا میں اکثر ممالک میں اپنے اپنے حدود کو بند رکھا ہے ، جیسے امارات ، بھارت ، عمان ، یوروپی بہت سارے ممالک اور امریکہ وغیرہ نے ) ایسے میں اس کا فرار ہونا اس کو کوئی فائدہ نہیں دے گا بلکہ اس ملک میں داخل ہونا یاجس ملک میں طاعون ( یا کورونا ) ہے اس میں داخل ہونا اس کی موت کا سبب بنے گا ۔

جن علماء نے دو وجہ میں سے اس وجہ کو ترجیح دی ہے وہ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ جس شہر میں طاعون کی بیماری پھیلی ہوئی ہے اس شہر میں کسی تندرست آدمی کا تصرفات ( اقدامات و معاملات کسب وغیرہ کے سلسلہ میں آنے جانے کی کوششیں ) کرنا مریض کا حالت مرض میں تصرفات کرنے کی طرح ہے ، جیسا کہ اس کا بیان پانچویں باب میں عنقریب آئے گا ، ایسی صورت میں جب فساد ہی فساد ہونا تعین ہوا اور اس سے جدائی ممکن نہیں تو اپنے اپنے گھروں میں رہنا ( قرنطینہ ہونا ) ہی ایک بڑا اچھا قدم ہے ، کیونکہ ان علتوں کے رہتے ہوئے کسی شہر یا ملک کے لئے نکلنا بیکار ہوگا جو عقلمندوں کے لئے کسی طرح بھی لائق ومناسب نہیں ، ( ص/302 ) نیز اگر لوگ ایک ساتھ شہر سے نکل گئے تو شہر میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو نکلنے سے عاجز و مجبور ہوں ایسے میں بیمار لوگوں کی نگرانی اور موتیٰ کی تجہیز وتکفین کرنے والے لوگوں کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مصلحتیں ضائع ہوں گی اور یہ بھی کہ قوی اور طاقتور لوگوں کے سفر پر نکلنے کی وجہ سے سفر کی قدرت وطاقت نہ رہنے والوں کے دل ٹوٹ جائیں گے اور یہ حکمت بھی بتائی گئی ہے کہ معرکہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی جو شدت وسختی آئی ہے وہی سختی یہاں بھی ہے ، کیونکہ ان کے بھاگنے کی وجہ سے شہر میں رہنے والے باقی لوگ خوف وہراس تنگی وپریشانی میں رہیں گے ۔

امام غزالی نے ” الاحیاء ” میں دونوں چیزوں کو جمع کرتے ہوئے کہا کہ ہوا کا بدن کے ظاہری حصہ پر پڑنے پر کوئی نقصان نہیں بلکہ چھینکوں اور ناک کے نتنوں سے زکام ہونے کی وجہ سے ، ایسے میں ہوا پھیپڑوں اور دل میں داخل ہونے کی وجہ سے ان دونوں کو متاثر کرتی ہے اور یہ اثر جسم کے ظاہری حصہ پر اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتا جب تک کہ اندرونی حصہ کو اس نے اثر انداز نہ کیا ہو ، سو شہر سے نکلنے والا وہ شخص جو اندرونی طور پر طاعون سے متاثر ہوچکا ہو وہ اس بیماری سے غالبا چھٹکارا نہیں پاتا جو اس کے بدن سے پوری طرح چپک گئی ہو ، لیکن وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ ( شہر سے نکلنے کی وجہ سے ) وہ بیماری سے چھٹکارا پاچکا ہے ، اس طرح وہ توکل پر عیب ( ضرب ) لگانے والے بیکار اوہام کا شکار ہو جاتا ہے . اور ان میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ شہر ( یا ملک ) سے نکلنے والا ” لَوْ ” کا دروازہ کھولتا ہے اور کہتا ہے کہ اگرمیں وہاں سے نہ نکلتا تو مر ہی جاتا اور شہر میں قیام کرنے والا کہتا! اگر میں بھی فلاں شخص کی طرح نکلا ہوتا تو سلامت رہتا ، ایسے میں وہ اس لَوْ ( اگر ) کے پھندہ میں پھنستا جس سے ( شریعت کی طرف سے ) روکا گیا ہے اور اسی کی طرف ابن عبدالبر مائل ہوئے ہیں ، کہا! ( ملک یا شہر سے ) نکلنے سے منع کرنا ( قضاء و ) قدر پر ایمان رکھنے کی وجہ سے ہے اور ( ملک یا شہر میں ) جانے سے روکنا نفس کی ملامت کو دور کرنے کے لئے ہے ۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ طاعون ، مقیم اور اس ( شہر ) سے نکلنے والے کے لئے ایک آزمائش ہے ۔

ابن عربی” شرح الترمذی ” میں فرار سے منع کرنے کی حکمت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ مر نہ جائے اور اس ( کے سبب ) کو طاعون کی طرف نہ جوڑے ، وہ تو ایسی موت ہے جس کا وقت حاضر تھا اور جب جب بھی اسباب کے پاس موت واقع ہوتی ہے اس کو ان کی طرف نہیں جوڑا جائے گا اسباب کی طرف صرف اسی کو جوڑا جائے گا جس کو شریعت نے جوڑا ہے . اور کہا گیا ہے کہ بھاگنے سے اس لئے منع کیا گیا کیونکہ مرض کا سبب پختہ ہوچکا تھا ( اب بھاگنے کا کیا فائدہ ؟ ) . اور کہا گیا ہے کہ منع اس وجہ سے کیا گیا تاکہ بیمار لوگوں کو بغیر نگران کنندگاں کے ویسے ہی نہ چھوڑا جائے . کہا! بہرحال شہر میں آنے کو منع کرنے کی جو حکمت میرے نزدیک ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کی موت کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم دیا ہے گوکہ ( یہ بات الگ ہے کہ) اللہ کی قدر سے کس کو چھٹکارا نہیں ” مگر یہ اس روک کے باب میں سے ہے جس کو اللہ نے مشروع فرمایا ہے اور اس میں کفر سے بچنا بھی ہے تاکہ کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ اگر میں ( شہر میں ) داخل نہیں ہوتا تو بیمار نہ ہوتا اور اگر فلاں شخص داخل نہ ہوتا تو نہ مرتا ، کہا! اور کہا گیا ہے کہ داخل ہونے کو منع کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ان لوگوں سے زیادہ وہم ( وگمان ) نہ وابستہ ہو جائے جو باہر رہنے والے لوگوں کے دلوں میں ہوتا ہے . واللہ اعلم .

اس کے بعد علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کافی کچھ لکھنے اور علماء کے حکمت کے اقوال لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ معتمد قول میں اس میں ( داخل ہونے اور نکلنے کو منع کرنے کی ) حکمت وہی ہے جو ابن خزیمہ ، طحاوی اور ابن عبدالبر سے منقول گذر گئی ( لیکن یہاں اس کی تفصیلات کا موقعہ نہیں ہے ) . والله اعلم بالصواب . 

پندرہویں قسط

وقوع طاعون کے بعد مشروع اشیاء

علامہ حافظ ابن حجر نے پانچواں باب طاعون واقع ہونے کے بعد والی مشروع چیزوں پر باندھا ہے ، وہ اس کی فصل اول میں آگے ذکر کردہ کچھ چیزوں کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ہر شخص کو جن چیزوں کی طرف تیزی سے آگے بڑھنا ہے وہ مظالم ( ظلم و زبردستی حاصل کردہ چیزوں ) کو واپس کرنا ، لوگوں کے حقوق کو ادا کرکے چھٹکارا حاصل کرنا ، گناہوں کو ترک کرکے توبہ کی طرف لوٹنا ، اپنے سابقہ گناہوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور نادم وشرمندہ ہونا اور ظلم و کسی کی طرف مائل ہوئے ( جھکے ) بغیر وصیت کرنا ، یہ چیزیں ہر وقت مطلوب ہیں ، لیکن امراض کے واقع ہونے کے بعد عموماً پختہ اور ضروری ( سنت مؤکدہ ) ہو جاتی ہیں اور خصوصاً اس شخص کے لئے جو طاعون ( اور کورونا جیسے اوبیہ میں ) مبتلا ہو جاتا ہے .

اب تین مسائل پر کلام باقی رہ گیا ہے

پہلا مسئلہ : کیا طاعون ( یا اس جیسی مہلک کورونا جیسی وباء وغیرہ ) کو دور کرنے کے لئے دعا مشروع ہے یا نہیں؟. ( اگر دعا مشروع ہے تو ) دعا جمع ہوکر کی جائے یا ہر آدمی اپنی حالت کی مناسبت سے تنہا ہی دعا کرے ؟. اسی طرح اس کے دور ہونے کے لئے کیا دعاءِ قنوت اجتماعی طور پر پڑھی جائے ؟ جیسا کہ بعض مذاہب سے ثابت ہوتا ہے ، یا ( تین یا چار ) روزوں کے بعد صحراء ( کھلے چٹیل میدان ) کی طرف نکل کر کی جائے ؟ جیسا کہ استسقاء میں کیا جاتا ہے .

جواب : مسلمانوں کے شہروں میں طاعون یا کسی قسم کی وباء واقع ہو ( پھیل ) نے پر ان کا اجتماعی اور انفرادی طور پر قنوت میں دعا کرنا مشروع ہے ، خاص طور پر شافعیہ کے پاس ، اس بناء پر کہ وہ ( طاعون ) بھی منجملہ مصیبتوں میں سے ہے ، ( امام ) شافعی نے نازلہ ( کسی قسم کی عام مصیبت آنے ) میں قنوت پڑھنا مشروع کہا ہے ، رافعی نے وباء اور قحط سالی واقع ہونے پر قنوت پڑھی جانے کی مثال پیش کی ہے اور ( علماء ) کی ایک جماعت نے طاعون کی تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھی ایک وباء ہے ، ( اور موجودہ دور کا وائرس کورونا کووڈ 19 تو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ایک بہت بڑی وبا ہے جس کی لپیٹ میں آکر مؤرخہ 25/4/2020 تک صرف چار مہینوں سے بھی کم وقت میں اب تک ایک لاکھ بیاسی ہزار اموات ہوچکی ہیں اور 26/لاکھ 22/ہزار آدمی اس سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں ، تو اس وباء سے نجات پانے کے لئے دعائے قنوت ضرور پڑھی جانی چاہئے ) جیسا کہ بابِ اول میں اس پر گفتگو ہو چکی ہے ، تب اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ طاعون دور کرنے کے لئے دعائے قنوت مشروع ہے اور ابھی ابھی صرف ایک منٹ قبل جبکہ میں موبائل پر انگشتِ شہادت کو حرکت دے رہا ہوں ڈیسک پر یہ سرخی آئی کہ امریکہ میں ہلاک شدگان کی تعداد پچاس ہزار کو پار کر چکی ہے ، اللہ تعالیٰ سبھوں کو خصوصاً کائنات کے تمام مسلمانوں کو روز بروز بری طرح پھیلنے والی اس وباء سے محفوظ رکھے . آمین . )

شافعی رحمہ اللہ نے ” الام ” میں کہا کہ اگر کسی نازلہ کے وقت قنوت پڑھی جائے تو میں اس کو مکروہ نہیں سمجھتا اور اگر کسی غیر نازلہ ( بغیر کسی وباء یا مصیبت ) کے وقت کوئی ( فجر کی نماز کے علاوہ میں ) قنوت پڑھتا ہے تو میں اس کو مکروہ ( ناپسند ) سمجھتا ہوں .

شافعیہ میں سے بعض متاخرین نے اس پر توقف برتتے ہوئے کہا کہ چونکہ طاعون وباء سے اخص ہے اور یہ خیار صحابہ کے زمانہ ( دور ) میں واقع ہوچکا ہے ، پھر خیارِ تابعین کے زمانہ میں ، لیکن ان میں سے کسی سے یہ بات منقول نہیں ہے کہ انھوں نے اس ( طاعون ) کو دور کرنے کے لئے قنوت پڑھا ہو .

علامہ حافظ اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ جو آخری جملہ انھوں نے کہا ہے اس پر نظر ہے ، اس لئے کہ نازلہ میں قنوت کی اصل مشروعیت کسی بھی طعن کی وجہ سے لازم (سنت کے معنی میں ہے ) ہوتی ہے نہ کہ خصوصی طور پر طاعون میں قنوت پڑھنے سے اور نازل میں قنوت پڑھنے پر صاحب مذہب ( امام ) شافعی رضی اللہ عنہ نے نصاً کہا ہے ، تو جو بھی شخص ان کے مذہب کے تحت ہو اس کو بھی یہی کہنا چاہئے إِلاَّ یہ کہ اُس متاخر نے مذہب سے خارج ہوکر اس کے لئے اپنی ایک رائے اختیار کی ہو ، ( یہ علامہ کی غیر مقلد کے لئے ایک بڑی بات ہے ) کہ اس کا کلام درست ہو ، اس لئے کہ جس نے جس دلیل سے طاعون میں قنوت پڑھنے کو منع کیا ہے نفس دلیل ( اسی دلیل ) سے حنابلہ کے صاحب فروع ( شیخ شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن مفلح الحنبلی ( ت:٧٦٣ ) نے نازلہ میں قنوت پڑھنے کو منع کیا ہے ، انھوں نے کہا کہ اظہر میں وباء کو دور کرنے قنوت نہیں پڑھا جائے گا ، اس لئے کہ طاعونِ عمواس میں قنوت ثابت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے غیر میں ( 317 )

جی ہاں! شافعیہ کے علاوہ کے پاس نازلہ میں قنوت پڑھنا اصلاً مشروع نہیں ، رہی مطلق طور پر دعا کی جانی والی بات تو راجح قول پر یہ مشروع ہے ، بلکہ اوبیہ سے سالم رہنے والوں کا وباء واقع ہونے والی سر زمین پر رہنے والوں کے لئے دعا کرنا مستحب ہے ، جیسا کہ زرخیزی ( خوشحال ) زمین پر رہنے والوں کا قحط زدہ زمین پر رہنے والوں کے لئے ( قحط دور ہونے کے لئے ) دعا کرنا مستحب ہے ۔

بعض حنابلہ نے طاعون ( وغیرہ اوبیہ ) کو دور کرنے کے واسطہ دعا کرنے میں اختلاف کرتے ہوئے اس کو مکروہ کہا ہے یہ دلیل دیتے ہوئے کہ معاذ ( رضی اللہ عنہ ) نے اس کو منع کیا ہے اور اس کی یہ علت بتائی ہے کہ یہ (طاعون سے وفات پانا ) شہادت رحمت اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لئے دعا ہے اور طاعون میں مبتلا شخص کی غالباً موت ہوتی ہے ، ایسے میں طاعون کو دور کرنے کی دعا کرنا موت کو دور کرنے کو شامل کرتی ہے اور موت کا وقت حتمی ہے جس کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہے وہ نہ پلک جھپکنے کے وقت سے پہلے آسکتی ہے اور نہ ہی اس سے تاخیر کرکے ، انتھی .

علامہ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ معترض نے جو کچھ اعتراض کیا ہے وہ ضعیف ہے ، اس لئے کہ قدر کی دلیل دیتے ہوئے دعا کو ترک کرنے کے لیے کہنا تمام امور میں دعا اور اسباب کو ترک کرنے کو لازم کرتا ہے ، ( قاضی ) عیاض نے بعض متصوفہ سے اس کی حکایت کی ہے اور اس کے انکار میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے ، حالانکہ مریض کے لئے عافیت اور شفا کی دعا کرنے کے لئے آئی ہوئی دعاؤوں سے احادیث بھری پڑی ہیں اور اسی طرح جنون ( دیوانگی ) کوڑھ اور بری بیماریوں سے پناہ مانگنے اور برے اخلاق اور نفسانی خواہشات سے پناہ مانگنے کی ادعیہ تو شمار کرنے سے زیادہ اور ذکر کئے جانے سے زیادہ مشہور ہیں .

اور اسی طرح قدر کی رائے پر تمسک کر ( مضبوطی کے ساتھ قائم رہ ) نا بیماریوں سے شفاء حاصل کرنے کے لئے دوائیں لینے کے ترک کرنے کو لازم بناتا ہے اس کے باجود کہ احادیث صحیحہ میں دواؤوں کو لینا ثابت ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ادعیہ کے واسطہ سے دوا کرنا اصل دوائیں لینے سے زیادہ کامیابی کا ذریعہ ہیں ، ( لیکن ہمارے اس دور میں احادیث میں آئی ہوئی ادعیہ ( دعاؤوں ) کو چھوڑ کر لوگ فوراً مادی دواؤوں کی طرف بھاگتے ہوئے نظر آرہے ہیں ) اور طاعون موت نہیں ، وہ تو دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے ، تو اس کو دور کرنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے اور اللہ عزوجل سے اس سے پناہ مانگنا چاہئے ، جیسا کہ دوسری بیماریوں کو دور کرنے کی ہم دعا کرتے اور ان سے پناہ مانگتے ہیں ، اگر چہ کہ یہ بیماریاں گناہوں کے مٹانے کا سبب بنتی ہیں اور ان میں سے بعض بیماریوں سے موت واقع ہونے پر شہادت کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور یہ ثابت شدہ امر ہے جیسا کہ گذرا کہ وہ ( طاعون ) جنات کے وخز میں سے ہے اور ہمیں ان سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

طاعون ( اور اس قسم کے امراض پھیلنے پر لوگوں کو اکٹھا ہوکر دعائیں کرنی جاہئے یا نہیں ؟

کہتے ہیں! بہرحال اس کے لئے اجتماعی طور پر دعا کرنا جیسا کہ استسقاء میں ، سو یہ وہ بدعت ( نئی ایجاد ) ہے جو دمشق میں ٧٤٩ ھ میں طاعون کبیر میں وجود میں آئی ، میں نے المنبجی کے ” جزء ” میں ان کا لوگوں کے ایک جگہ جمع ہوکر دعا کرنے کے انکار کرنے کے بعد ، ان کی لکھی ہوئی کتاب میں پڑھا کہ لوگ ( اکٹھا ہوکر ) دعائیں کر رہے تھے اور زور زور سے چیخ رہے تھے اور یہ سنہ ھ 764 کا واقعہ ہے جب دمشق میں طاعون کی بیماری پھوٹ پڑی تھی اورعام لوگ اور شہر کے بڑے بڑے لوگ صحراء کی طرف نکل گئے تھے ، دعائیں کررہے تھے اور اللہ عزوجل سے ( چیخ چیخ کر ) مدد مانگ رہے تھے ، سو اس کے بعد طاعون اور زیادہ پھیل گیا جبکہ یہ ان کے دعا کرنے سے پہلے بہت ہلکا تھا .

میں کہتا ہوں کہ ہمارے زمانہ میں بھی جب قاہرہ میں 27/ماہ ربیع الآخر میں سنہ ھ 833 میں پہلا طاعون واقع ہوا تو اس وقت مرنے والوں کی تعداد صرف چالیس سے بھی کم تھی ، پھر لوگ جمادی الاولی کی چار تاریخ میں استسقاء کی طرح لوگوں کو تین دنوں کے روزے رکھے جانے کا حکم دئے جانے کے بعد جمع ہوگئے ، دعا کی اور ایک گھنٹہ وہاں رکے رہے ، پھر لوٹ گئے ، پھر مہینہ ختم ہونے تک لوگوں کے مرنے کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ ہر دن قاہرہ میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مرنے لگے ، پھر یہ تعداد بڑھتی ہی گئی ، ( ہوبہو کورونا وائرس کووڈ 19 کے طریقہ پر ، وہ تو حدیث کی موافقت میں درجہ شہادت پاگئے تو کورونا سے ہلاک ہونے والے مسلمان کو کیوں نہیں درجہ شہادت ملے گا ؟ اور ضرور ملے گا ، کیونکہ یہ دونوں بیماریاں بہت ساری علتوں اور چیزوں میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں )

کورونا نیوز اپڈیٹ

بھارت کے تعلق سے ایک نہایت ہی تشویشناک اور بری خبر اور سی ڈی ڈی ای پی کی رپورٹ

( سیاست نیوز کے مطابق ) جاریہ سال ستمبر تک بھارت میں کورونا وائرس کووڈ 19 کے 111/کروڑ کیس ہوجائیں گے ، جس کا معنی ہے کہ بھارت کے اسی فیصد سے بھی زیادہ لوگ بھارت میں اس وائرس سے متاثر ہوں گے ، امریکی کمپنی” سینٹر فارڈیسیس ڈائنامک اکنامک پالیسی ” ( سی ڈی ڈی ای پی ) کی اگر مانیں تو بھارت میں اس سال کے ستمبر تک لوگ مذکورہ تعداد میں متاثر ہوں گے ، اس کمپنی نے یہ رپورٹ 20/اپریل کو جاری کی ہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں جاری سال کے ستمبر تک ایک سو گیارہ کروڑ لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوں گے ، رپورٹ میں مزید یہ بھی بتایا ہے کہ سخت لاک ڈاؤن ، سماجی فاصلے اور آیسولیشن کے باوجود بھی یہ وباء بھارتی شہریوں کو بری طرح متاثر کرے گی ، یہ بڑی خطرناک اور ہوش اڑانی والی رپورٹ ہے ، بھارت میں یہ وبا بڑی تیزی سے اپنے پیر پسار رہی ہے اور حکومت اس کو ہلکے میں لے رہی ہے ، جن اقدامات کی ضرورت بھارت کو ہے ان اقدامات کو اپنانے میں بھارت کی حکومت کم از کم اب تک تو ناکام ہی ثابت ہو رہی ہے ، لاک ڈاون کرا کے غریبوں کو بھوکے مارنا ، لاک ڈاون کی آڑ میں لوگوں پر ڈنڈے لاٹھیاں برسا کر انہیں ادھ مرا کردینا کوئی مصلحت نہیں ہے .

ارے اس سب سے ناکام حکومت کو تو ہندو مسلم ہندو مسلم کرنے سے ہی فرصت نہیں بھلا وہ اس خطرناک مہلک بیماری کو کنٹرول کرنے میں وقت کہاں سے نکال پائے گی ، جس طرح ایک طبقہ کے لوگوں پر مصیبت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ، نفرت کی انتہا سارے حدود کو پار کرگئی ہے اور اس میں خریدی ہوئی بے ضمیر گودی میڈیا پوری طرح حکومت سے قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہے اور کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دیا جارہا ہے ، ایسے میں نہیں لگتا کہ یہ بیماری بھارت میں کنٹرول میں آسکتی ہے ، جہاں بھارت میں اس وائرس سے مرنے والوں کی تعداد ہزار تک پہونچنے اور متاثرین کی تعداد پچیس ہزار کو پار کرنے کے آنکڑے کو پار کرنے والی ہے یہ ناکام حکومت اب تک بھی ہندو مسلم ہندو مسلم ہی کرنے میں لگی ہوئی ہے ، بعض اسلامی ممالک نے بھارت کے مسلمانوں کے خلاف ہورے ظلم بربریت اور شدت پسندی کا آئینہ کیا دکھایا ، بھگوائی حکومت کو یہ غلط لگنے لگا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اس کا تدارک کرتی بھگوائیوں کو اس ظلم بربریت اور نفرت سے روکتی اس کے ذمہ دار لوگوں کو سزائیں دیتی اور معافی مانگتی الٹا وہ مسلمانوں کی حمایت میں آئے ہوئے لوگوں ہی پر افسوس ظاہر کر رہی ہے ، واہ رے مودی ، تیری مسلمانوں کے خلاف نفرت کا کوئی جواب نہیں . اگر تو اسی طرح مسلمانوں کے خلاف زہر گھولتا رہا ایک بڑے ملک کا وزیر اعظم جہاں ہندو مسلمان کے تہذیب کی چھ سال پہلے گنگا بہتی تھی بھگوائیوں کو مسلمانوں کا لباس پہچان کر ظلم ڈھانے کی دعوت دیتا رہا تو یہ جی ڈی پی جو ایک فیصد سے بھی کم رہنے والی ہے اور بھی اوندھے منہ گر جائے گی ، ابھی بس بھی کر ، تیرے جیسے نفرتوں کے بیج بونے والا کوئی وزیر اعظم بنا ہے اور نہ بنے گا ، تو وقت کا بدترین مسلمانوں کادشمن ہے فرعون اور شداد سے بھی بدترین ، ابھی بس بھی کر،تیرا مردہ ضمیر مرنے سے پہلے بیدار بھی ہوگا ؟

سولہویں اور آخری قسط

علامہ حافظ ابن حجر نے پانچویں باب کی ( چوتھی فصل ) میں ان آداب کا ذکر کیا ہے جو طاعون یا اس کے علاوہ ( کورونا وغیرہ ) کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں .

کہتے ہیں کہ پہلا ادب : اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرنا اور اس سے بیماریوں سے پناہ مانگنا ، اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے ” اُدْعُوُا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَة . تم اپنے رب سے گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو ( دعا مانگو ) . ( الاعراف/55 )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا! ” یا عباس أکثر من الدعاء بالعافية . اے عباس! عافیت کی کثرت سے دعا مانگا کرو “. ( حاکم نے اس حدیث کو ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کر کے اس کو صحیح قرار دیا ہے ) . ( لیکن درست یہی ہے کہ یہ حدیث حسن ہے . واللہ اعلم )

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” ماسئَلَ اللَّهُ شیئا احب الیه من العافیة . اللہ کے نزدیک عافیت مانگی گئی چیز سے زیادہ پسندیدہ کوئی اور چیز نہیں “. ( ترمذی نے اس حدیث کو روایت کرکے غریب قرار دیا ، حاکم نے اس کو روایت کرکے صحیح قرار دیا ، ( حافظ کہتے ہیں کہ انھوں نے صحت کا وہم کیا ہے ) اس لئے کہ اس کی سند میں ضعف ہے )

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” ما من دعوة یدعو بھا العبد افضل مِن اَللَّهُمَّ اِنِّي اَسْاَلُكَ المعافةَ فی الدنیا والآخرة . بندہ کی کی ہوئی کوئی دعا اللھم انی اسئلك المعافة فی الدنیا والآخرة سے زیادہ افضل نہیں “. ( ابن ماجہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، اس کے راوی ثقات ہیں جن سے صحیحین میں بھی استدلال کیا گیا ہے ، لیکن یہ حدیث العلاء بن زیاد البصری کی ابو ہریرہ سے روایت کردہ ہے اور ان کے ابو ہریرہ سے سننے میں میرے پاس نظر ہے ) ( بوصیری نے اس اسناد کو صحیح قرار دیا ہے ، ( ابن ماجہ/3851 اور منذری نے ترغیب میں اس حدیث کو عمدہ کہا ہے )

سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اِنَّ الناس لم یعطوا بعد الیقین خیرا من العافیة . لوگوں کو یقین کے بعد عافیت سے زیادہ بہتر کوئی اور چیز نہیں عطا گئی”. ( ترمذی اور نسائی نے اس حدیث کو کئی طریقوں سے روایت کیا ہے ، جن میں سے بعض صحیح ہیں )

سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے جسم میں ہونے والے درد کی شکایت کی ، فرمایا! ” اپنے ہاتھ کو اپنے جسم کے اس حصہ پر رکھو جہاں تمھیں درد ہو رہا ہے اور تین مرتبہ بسم اللہ پڑھو اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھو ” اَعُوْذُ بِاللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَااَجِدُ وَاُحَاذِرُ . میں اللہ سے اور اس کی قدرت سے ( اپنے جسم میں ) پانے والے شر اور خوف سے پناہ مانگتا ہوں “. ( مسلم ، مالک ) ان کی نکالی ہوئی حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں ” اعوذ بعزة الله وقدرته من شر مااجد . میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت سے ( اپنے جسم میں ) پانے والے شر سے پناہ مانگتا ہوں ” اور اسی طرح اس حدیث کو ابو داؤد اور ترمذی نے بھی روایت کیا ہے ، اس میں یہ الفاظ آئے ہیں ” اِمْسَحْ بِيَمِيْنِكَ . تم اپنا داہنا ہاتھ اس پر پھیرو ” اور ترمذی نے اس حدیث کو سیدنا انس سے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ زیادہ کئے ہیں ” ثم ارفع یدك ، ثم اعد ذالك . پھر اپنا ہاتھ اٹھاؤ ، پھر اس کو دہراؤ “

سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما سے منقول ہے وہ کہتی ہیں کہ مجھ پر میری گردن میں ایک پھوڑا نکلا ، اس سے میں خوف محسوس کرنے لگی ، میں نے عائشہ کو بتاتے ہوئے کہا! تم میرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے تعلق سے پوچھو ، انھوں نے اس کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اپنا ہاتھ اس پر رکھو ، پھر تین مرتبہ بسم الله ، اللهم اَذْهِبْ عني شر مااجد وفحشه ، بِدَعْوَةِ نَبِيِّكَ الطَّيِّبِ الْمُبَارَك الْمَكِيْنِ عِنْدك ، باسم الله . اے اللہ!مجھ سے میرا وہ درد اور برائی لے جا ( دور کر ) جو میں ( اپنی گردن پر ) پاتی ہوں ، تیرے پاکیزہ مبارک ، تیرے پاس عظیم عزت والے نبی کے واسطہ سے ، بسم الله! . کہتی ہیں کہ میں نے اس کو پڑھا تو وہ نکل گیا “. ( طبرانی نے اس حدیث کو دعا میں روایت کیا ہے )

دوسرا ادب : اللہ کی قضاء پر صبر کرنا اور اس کی تقدیر  پر  رضامندی  کا اظہار کرنا ۔
.
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” مؤمن کا معاملہ بڑا ہی عجیب ( حیرت والا ) ہے ، اس کا تو سارا معاملہ خیر ( ہی خیر ) ہے اور یہ مومن کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہے ، اگر اس کو کوئی خوشی ( و مسرت ، خوشحالی ) حاصل ہوتی ہے ( اس پر ) وہ شکر ادا کرتا ہے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت ( سختی ، تکلیف ) پہونچتی ہے ، وہ اس پر صبر کرتا ہے تو وہ اس کے لئے خیر ( بہتری ، بھلائی ) ہے “. ( مسلم )

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” من یرد الله به خیرا یصب منه “. اللہ جس سے بھلائی چاہتا ہے وہ اس کو ( کسی تکلیف یا آزمائش میں ) مبتلاء کردیتا ہے . ( بخاری )

سیدنا ابو سعید و ابو ہریرہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے ، ان دونوں نے کہا! کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” وما یصیب المؤمن من نصب ولا وصب ، ولا ھم ولا حُزْنٍ ، ولا اذى ولا غم ، حتی الشوکةُ یشاکُّها ، إلا کفر الله بھا من خطایاہ “. اور مؤمن کو جو کچھ تھکان ، بیماری ، پریشانی ، افسردگی ،( آزردگی ) اوررنج ( وملال ) پہونچتا ہے حتی کہ چبھنے والا کانٹا ، مگر یہ کہ اللہ اُس سے اس کے ( گناہوں میں سے ) بعض ( بہت سارے ) گناہوں کو مٹاتا ہے . دونوں ( بخاری ومسلم ) نے اس حدیث کو ” صحیحین ” میں روایت کیا ہے ، یہ الفاظ بخاری کے ہیں .

( اللہ تعالیٰ سے ) حسنِ ظن کے تعلق سے سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ ” صحیح بخاری ” میں ثابت حدیث کیا ہی اچھی ہے ، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” سید الاستغفار ( مغفرت طلب کرنے کے سردار کے ( اہم ترین الفاظ ) یہ ہیں کہ تم کہو ) ” اللھم انت ربی لااله إلا أنت ، خلقتنی وانا عبدك ، وانا علی عھدك ووعدك مااستطعت ، اعوذبك من شر ما صنعت ، ابوء لك بذنبی وابوء بنعمتك علَيَّ ، فاغفرلی فإنه لایغفر الذنوب إلا انت ، جو شخص اس کو صبح کے وقت پڑھے گا پھر اسی دن انتقال ہو جائے گا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو شخص اس کو شام میں پڑھے گا پھر اسی رات انتقال کرجائے گا تو وہ جنت میں داخل ہوگا “. ( بخاری )

سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت ( بیمار پرسی ) کرتا ہے تو وہ بدستور ( ہمیشہ ) جنت کے خرفہ میں رہے گا حتی کہ وہ لوٹ جائے “. عرض کیا گیا یارسول اللہ!خرفةالجنہ ” کیا ہے ؟ فرمایا! جَنَاها ، توڑے جانے والے ( جنت کے ) پھل “. ( مسلم )

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا! ” کوئی مسلمان ایسا نہیں جو ایک مسلمان کی صبح عیادت ( مزاج پرسی ، بیمار پرسی ) کرتا ہے ، مگر یہ کہ ستر ہزار فرشتے اس پر درود ( مغفرت کی دعا مانگتے ) بھیجتے ہیں حتی کہ شام ہوتی ہے اور اگر وہ شام میں عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس پر صبح تک درود بھیجتے ہیں اور جنت میں اس کے لئے ایک باغ ( تیار ) ہوتا ہے “. ( ترمذی نے اس حدیث کو روایت کرکے حسن قرار دیا ہے اور کہا! کبھی یہ ( حدیث ) موقوف مروی ہوتی ہے ، اس حدیث کو احمد اور ابوداود نے مرفوع اور موقوف روایت کیا ہے )

عیادت کرنے والا بیمار کے پاس کونسی دعائیں پڑھے ؟

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جس شخص نے کسی ایسے بیمار کی عیادت کی جس کی موت حاضر نہیں ہوئی تھی اور اس کے پاس سات مرتبہ ( یہ دعا ) پڑھی ” اَسْاَلُ اللهَ العظيمَ رَبَّ العرشِ العظيمِ اَنْ يَّشفيكَ ، ( میں عظیم اللہ سے ، عظیم عرش کے رب سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ تمھیں شفا عطا فرمائے ) مگر یہ کہ اللہ اس کو اس بیماری سے شفادے گا ” ( اس حدیث کو اصحاب سنن نے روایت کیا ہے ، ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے )

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی کی عیادت کی تو ( یہ دعا ) فرمائی ” لاَبَاْسَ ، طهور اِنْ شاءالله تعالیٰ “.( حدیث صحیح کی کتاب میں ہے )

سیدہ عائشہ رضی عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت فرماتے تو اس کے چہرہ اور سینہ کو اپنے ( مبارک ) ہاتھ سے چھوتے ( اپنا مبارک ہاتھ اس کے چہرہ اور سینہ پر پھیرتے ) اور فرماتے! ” اَذْهِبِ الْبَاْسَ ، رَبَّ النَّاسِ ، وَاشفِ انت الشافي ، لاَشِفَآءَ اِلاّ شفَاءُكَ ، شِفاءً لَّايُغادِرُ سَقَمًا “. اے لوگوں کے رب ، تو ( اس بیمار کی ) تکلیف کو دور فرما ، شفا دے ، تو ہی تَو شفا عطا فرمانے والا ہے ، تیرے علاوہ اور کسی کی شفاء نہیں ، ( تیرے علاوہ کوئی اور شفا عطا کرنے والا نہیں ہے ) ایسی شفاء عطا فرما جو کوئی بیماری ہی نہ چھوڑے ” ( بخاری مسلم نسائی ، ابن ماجہ )

اور ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں ” امسح الباس ، رب الناس ، بیدك الشفاء ، لاکاشف له إلا انت “. تو بیماری کا اثر ( اس سے ) دور فرما اے لوگوں کے رب ، تیرے ہاتھ میں شفاء ہے ، اس کودور کرنے والا تیرے علاوہ اور کوئی نہیں “.

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” بیمار کی پوری طرح عیادت کرنا اس طرح ہے کہ تم میں سے ہر کوئی اپنے ہاتھ کو اس کی پیشانی یا اس کے ہاتھ پر رکھ کر اس سے پوچھے ، کیسے ہو ؟ “. ( ترمذی نے اس حدیث کو سند لین سے روایت کیا ہے ، اس لئے کہ اس سند میں ایک راوی ( علی بن زید الالھائی ) ہیں جو ضعیف ہیں )

تیسرا ادب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کثرت سے درود بھیجنا ہے .

یخ شہاب الدین بن ابی حجلہ نے اپنے اس جزء میں جو انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے کے سلسلہ میں جمع کیا ہے اور اس میں انھوں نے طاعون کی بھی کئی اشیاء کا ذکر کیا ہے ، کہتے ہیں کہ قاہرہ میں ( یعنی سنہ ھجری 764 میں ) یہ بات پھیلی کہ رہائش گاہوں میں جب کثرت سے طاعون کی بیماری پھیلی تو بعض صالحین نے اس بات کا ذکر کیا کہ انھوں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور ( موجودہ ) حالت کی شکایت کی ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ دعا پڑھنے کے لئے کہا ” اَللَّهمَّ إِنَّا نَعُوذُبِكَ مِنَ الطَّعْنِ والطَّاعُوْنِ وَعَظِيْمِ الْبَلَآءَ فيِْ النَّفْسِ وَالْمَالِ وَالْاَهْلِ والْوَلَدِ . الله اکبر ، الله اکبر ، الله اکبر مِمَّا نَخَافُ وَنَحْذُرُ ، الله اكبر ، الله أكبر ، الله اكبر ، عَدَدَ ذُنُوْبِنَا حَتّّى تَغْفِرَ ، الله أكبر ، الله اكبر ، الله أكبر ، وصلی اللہ علی سیدنا محمد وآلہ وسلم/الله اكبر ، الله أكبر ، الله اكبر ، اللهم كَمَاشَفَّعْتَ نَبِيَّنَا ( شیخ کے جزء میں نبیك ” آیا ہے ) فِيْنَا فَاَمْهِلْنَا ، وَعَمِّرْ بِنَا مَنَازِلَنَا ، وَلَاتُهْلِكْنَا بِذُنُوْبِنَا ، يَآ اَرْحَمَ الرَّحِمِيْن . اے اللہ! ہم تجھ سے نفس مال اہل اور اولاد میں طعن طاعون اور بڑی بڑی بلاؤوں سے پناہ مانگتے ہیں ، جن ( بیماریوں ) سے ہم ڈرتے اور پرہیز کرتے ہیں تو اس سے بہت بڑا ہے ، بہت بڑا ہے ، بہت بڑا ہے ، تو ہمارے گناہوں کی عدد ( وشمار ) سے حتی کہ بخش دے ان سے بہت بڑا ہے ، بہت بڑا ہے ، بہت بڑا ہے ، تو سب سے بڑا ہے ، تو سب سے بڑا ہے ، تو سب سے بڑا ہے ، باری تعالیٰ ! تو ہمارے سردار محمد اور آپ کی اہل پر درود وسلام بھیج ، تو سب سے بڑا ہے ، سب سے بڑا ہے ، ( اور ) سب سے بڑا ہے ، اے اللہ! جیسا کہ تو نے ہمارے نبی کو ہمارے حق میں سفارش کرنے والا بنایا سو تو ہمیں مہلت عطا کر ، ہمارے گھروں کو زندہ رکھ ،( تعمیر کر ) اور اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے ، تو ہمیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہلاک نہ کر .

اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر روز کم از کم تین سو سے پانچ سو ( کوئی مختصر سا ہی صحیح ، جیسے اللھم صل علی سیدنا محمد وعلی آله وصحبه وبارك وسلم ، یا صلی اللہ علی سیدنا محمد وآله وسلم ) درود بھیجیں تو کیا ہمارے لئے یہ سعادت برکت اور موجودہ دور کی عظیم وباء کورونا وائرس کو ختم کرنے کے لئے ایک بہت بڑا سبب ثابت نہیں ہوگا ؟؟ اور اس سے ہم پر کم از کم پانچ ہزار اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں گی .

ادیب شہاب الدین بن ابی حجلہ نے اپنے اُس ” جزء ” میں جو انھوں نے طاعون میں جمع کیا ہے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ بعض صالحین نے انھیں یہ بات بتائی ہے کہ ” طاعون وغیرہ بڑے بڑے بلایا کو دفع کرنے والی چیزوں میں سے سب سے عظیم چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا ہے اور یہ کہ جب انھوں نے اس بات کا ذکر شیخ شمس الدین ابن خطیب سے کیا تو انھوں نے اس کو درست کہا اور اس کے لئے ( سیدنا ) اُبَيّ بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ، کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ” اَجْعَلُ لك نصف صلاتی؟ کیا میں آپ پر درود بھیجنے کے لئے ( میرے دن کا ) آدھا حصہ بنالوں؟ حدیث کے آخر میں ان شخص نے کہا کہ” أجعل لك صلاتی کلھا ؟ ” کیا میں اپنے پورے وقت کو آپ پر درود بھیجنے کیلیے لگاؤں ؟فرمایا! ” اِذَنْ تُكْفَى هَمُّكَ وَيُغْفَرُ ذَنْبُكَ “. تب ( یہ تمھارے لئے ) تمھاری پریشانیوں کو دور کئے جانے اور تمھارے گناہوں کو بخش دئے جانے کے لئے کافی ہوگا . ( حاکم نے اس حدیث کو روایت کرکے صحیح قرار دیا ہے ، اس کی سند عمدہ ہے ، واللہ اعلم ) .

نوازل قنوت میں وہ دعائیں پڑھی جائیں جو اس وباء سے تعلق رکھتی ہوں .

علامہ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ فقہاء کی کتابوں میں سے کسی بھی کتاب میں میں نے نوازل کے قنوت میں پڑھی جانے والی کوئی خاص دعا نہیں دیکھی ، جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے اس کو سامع کے سمجھی جانے والی دعاؤوں کی طرف سونپا ہے اور یہ کہ ہر نازلہ ( مصیبت ) میں وہی دعا کی جائے جو اس کے مناسب ہو .

( علامہ) زرکشی نے ذکر کیا ہے کہ بعض سلف اپنی نمازوں کے پیچھے ( فراغت کے فورا بعد ) یہ دعا پڑھتے تھے . ” اللهم انا نعوذبك من عظيم البلاء ، في النفس والأهل والمال والولد . جو کہ ابن ابی حجلہ سے آگے گذری ، انھوں نے اور چند اشیاء کا ذکر کیا ہے ، میں تو بس ( یہاں ) اسی مقدار پر اقتصار کرتا ہوں . ( بذل الماعون في فضل الطاعون/234 )

علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا اختتام اسلام میں واقع شدہ طواعین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا ہے . مدائنی نے پھر ابن ابی الدنیا نے اس کا ذکر کیا ہے اور قتیبہ نے ان میں سے تھوڑوں کا ، جن بعض متاخرین کو ہم نے پایا ہے انھوں نے اس میں وسعت دیتے ہوئے تقریبا چالیس فصلیں لکھ ڈالی ہیں ، لیکن ان میں سے بہت سوں نے مطلقًا انھیں ( اوبیہ) کو لکھا ہے جن میں ہلاکتوں کا ضیاع بکثرت ہوا ہے ، جیسے قحط سالی کے سبب سے پیدا ہونے والی بھوک ، یا کمرتوڑ بخار ، یا نزلات کے سبب واقع ہونے والی اموات کا . میں نے خصوصی طور پر ان میں سے انہی پر اقتصار کیا ہے جو طاعون کے سبب سے مرے اور جن پر میں واقف ہوا .

ابو الحسن مدائنی کہتے ہیں کہ اسلام میں مشہور بڑے طواعین پانچ ہیں .

طاعونِ شیرویہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدائن میں .

طاعونِ عمواس : عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں شام میں ، جس میں 25/ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے .

طاعونِ جارف : سنہ ہجری 69 میں .

طاعون فتیات ( یا فتیان ) سنہ ہجری 87 میں .

آگے طاعونِ عمواس ، ابوموسی اشعری کے زمانہ میں کوفہ میں واقع شدہ طاعون اور اُس طاعون کی طرف اشارہ گذرا جس کے سبب سے مغیرہ بن شعبہ کوفہ سے بھاگے تھے جس وقت وہ امیرِ کوفہ تھے ، اللہ ( تعالیٰ ) نے ان کے لئے مقدر کیا کہ وہ وہیں انتقال کر جائیں ، اور یہ سنہ ہجری 50 میں تھا . ( وہاں ان کے الفاظ یہ ہیں ” اور کوفہ میں ایک طاعون واقع ہوا تھا جس سے مغیرہ بن شعبہ بھاگ گئے تھے ، پس وہ لوٹے ، پھر مرگئے ، اور یہ سنہ ہجری 50 میں تھا ، اور اُس سے پہلے ابن مسعود ( رضی اللہ عنھما ) کے زمانہ میں بھی ، ( طاعون واقع ہوا تھا ) یہ تمام کوفہ میں تھے . اور مصر میں سنہ ہجری 80 میں بھی ./223 ) اور مصر میں سنہ ہجری 66 میں ایک طاعون واقع ہوا تھا ، پھر عبدالعزیز بن مروان کی وفات کے سال سنہ ہجری 85 میں ایک اور طاعون واقع ہوا تھا ، ایک قول میں 82 میں ، ایک قول میں 84 میں ، ایک اور قول میں سنہ ہجری 86 میں ( انتہی )

مدائنی کہتے ہیں ( یہ ان کے قول ” اسلام میں مشہور بڑے طواعین پانچ ہیں ” میں سے پانچواں طاعون ہے )

مصر میں واقع شدہ طاعون سے عبدالعزیز بن مروان بھاگ کر اپنے قریہ میں گیا اور وہیں رہنے لگا جبکہ اس وقت وہ مصر کا امیر تھا ، اس کے پاس اپنے بھائی عبدالملک جو خلیفہ تھا کی جانب سے ایک قاصد آیا ، عبدالعزیز نے اس سے پوچھا! تمہارا کیا نام ہے ؟ اس نے کہا! طالب بن مدرک ، عبدالعزیز نے کہا! اَوَّهْ ( آہ ) میں نہیں سمجھتا کہ میں فسطاط کی طرف واپس جا پاؤں گا ، سو وہ اسی قریہ ( بستی ) میں مرگیا . پھر وہ طاعون واقع ہوا جس میں زیاد مرا تھا . ( سنہ ہجری 53 میں ) پھر طاعون جارف واقع ہوا تھا ، کس سنہ میں یہ واقع ہوا تھا اس میں اختلاف ہے ، کہا گیا کہ 69 میں ، کہا گیا 72 میں اور کہا گیا 70 میں ، اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں . سنہ ہجری 87 میں طاعون فتیات ( یا فتیان ) واقع ہوا تھا ، کثرت سے جوان عورتیں اس میں ہلاک ہونے کی وجہ سے اس کا یہ نام پڑا .

پھر سنہ ھجری 100 میں عدی بن ارطاة کا طاعون . پھر 107 میں ، پھر 115 میں اور یہ دونوں شام میں واقع ہوئے تھے . پھر 127 میں طاعون غراب واقع ہوا تھا . پھر طاعون سلم ( یا سلمہ) بن قتیبہ سنہ ہجری 131 میں ، مدائنی کہتے ہیں کہ یہ ماہِ رجب میں بصرہ میں واقع ہوا تھا ، رمضان میں اس نے تیزی پکڑی ، پھر شوال میں ہلکا پڑا ، ہر دن اس میں ہزار جنازے نکلتے تھے . اور یہ تمام ( طواعین ) دولتِ امویہ میں واقع ہوئے تھے ، بلکہ بعض مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ بنو امیہ کے زمانہ میں واقع شدہ طواعین شام میں ختم نہیں ہوئے تھے حتی کہ طاعون کے زمانہ میں جو بنو امیہ کے خلفاء تھے وہ صحراء کی طرف نکل جاتے تھے ، اسی وجہ سے ہشام بن عبدالمک نے روم ( موجودہ اٹلی ) کے ایک پرانے شہر ” الرصافہ” کو اپنی منزل بنالی تھی . پھر یہ دولت عباسیہ میں خفیف ہوا ، پھر سنہ ہجری 221 ( ہم نے اختصار کی وجہ سے کافی طواعین چھوڑے ہیں ) بصرہ میں طاعون واقع ہوا ، اس کو ” المنتظم ” میں ذکر کیا گیا ہے ، انھوں نے کہا کہ اس میں مخلوق کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی ، حتی کہ ایک شخص کی سات اولاد ایک ہی دن میں ہلاک ہوئی . پھر 249 میں عراق میں طاعون واقع ہوا . پھر اصفہان میں 301 میں اور 324 میں . پھر 346 میں ایک طاعون واقع ہوا جس میں اچانک بہت سارے لوگوں کی موت واقع ہوئی ، حتی کہ قاضی نے حاکم کے پاس جانے کے لئے اپنے کپڑے پہنے ، وہ طعن زدہ ہوا اور اپنا ہلکا عبایا پہنتے ہوئے ہی انتقال کرگیا .

پھر سنہ ہجری 406 میں بصرہ میں طاعون واقع ہوا . پھر سنہ ہجری 423 میں بھارت ( اور عجم ) میں ایک عظیم طاعون واقع ہوا اور غزنہ ، خراسان ، جرجان ، ری ، اصفہان اور حلوان کے پہاڑوں کے اردگرد خوب پھیلا اور موصل تک کھنچ گیا یہاں تک کہا جاتا ہے کہ صرف اصفہان ( اصبھان ) میں 40 ہزار جنازے نکلے اور پھر وہ بغداد میں پھیلا . پھر یہ 425 میں شیراز میں واقع ہوا حتی کہ دفن کرنے والے لوگوں کی کمی کی وجہ سے لوگوں نے اپنے موتی رشتہ داروں کے دروازوں کو سختی سے بند کر دیا . پھر یہ واسط اھواز اور بصرہ میں پھیلا ( منتقل ہوا ) پھر بغداد میں ، حتی کہ ہر دن اس میں بہت سارے لوگ مرنے لگے ، کہا جاتا ہے کہ چند ہی دنوں میں اس میں 70 ہزار لوگ ہلاک ہوئے . پھر 452 میں حجاز اور یمن میں طاعون واقع ہوا ، حتی کہ بہت ساری بستیاں وہاں سے نکل گئیں ، پھر وہ دوبارہ بس نہ سکیں ، جو بھی ان میں داخل ہوا ہلاک ہوا .

پھر 455 میں مصر میں طاعون واقع ہوا وہاں دس ماہ میں سے ہر دن ہزار انسان ہلاک ہوئے ، ( یعنی دس ماہ میں تقریبا تیس لاکھ ) . ابن جوزی نے ” المرأة فی الحوادث ” میں نقل کیا ہے کہ 447 جمادی الآخرہ میں وارد بخارا کی ایک کتاب میں آیا ہے کہ ان کے پاس اتنی ہلاکتیں ہوئیں جتنی نہ کبھی واقع ہوئیں اور نہ سنی گئیں ، حتی کہ ایک اقلیم ( براعظم ) سے ایک دن میں اٹھارہ ہزار انسان نکل گئے اور اس ( اقلیم ) میں محصور ہو کر مرنے والے لوگوں کی تعداد 16 لاکھ یا اس سے بھی زیادہ تھی . پھر طاعون آذر بائجان میں واقع ہوا پھر اہواز میں پھر واسط میں پھر بصرہ میں حتی کہ لوگ ہلاک شدگان کو دفنانے کے لئے زُيْبَه ( شکار کو پھانسنے کے لئے بنایا جانے والا گھڈے کی طرح کا گڈھا ) بناتے تھے اور اس میں ایک ساتھ بیس بیس تیس تیس موتیٰ کو دفناتے تھے . اور طاعون سمر قند اور بلخ میں بھی واقع ہوا تھا ، یہاں ہردن چھ ہزار یا اس سے زیادہ لوگ وفات پاتے تھے اور لوگ دن رات غسلانے کفنانے اور دفنانے میں مشغول رہتے تھے ، ( کچھ تفصیل چھوڑ کر ) ایک مُؤَدِّبُ الاطفال جس کے پاس نو سو بچے ادب وتہذیب حاصل کرتے تھے ایک بھی ان میں سے نہیں بچا . اور شوال سے ذوالقعدہ کے آخر تک ( پانچویں صدی ہجری کے ، لگتا ہے تمام سالوں میں سب سے زیادہ اسی سال جانوں کا ضیاع ہوا پچاسوں لاکھ تو کہیں بھی نہیں بلکہ کروڑوں میں تعداد پہونچی ہوگی ) خاص سمرقند میں دو لاکھ چھتیس ہزار لوگ ہلاک ہوئے ، اس طاعون کی ابتداء ترکستان سے ہوئی تھی ، پھر کاشغر اور فرغانہ تک پہونچا ، پھر سمرقند میں ، بلخ اور نہر کے دوسری طرف نہیں پہونچا ، حتی کہ ایک جماعت بخارا سے بلخ کی طرف آنے لگی ، ایک مسافر خانہ میں انھوں نے پڑاؤ ڈالا اور صبح میں ان تمام کو مردہ پایا گیا .

کہتے ہیں ( ابن جوزی ) کہ عام اموات عورتوں ، بچوں ، نوجوانوں ، غلاموں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی کہول ( ادھیڑ ) عمر کے لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی تھیں ، پھر کہول کی بوڑھوں سے زیادہ اور عوام کی فوجیوں سے زیادہ ، الحاصل یہ کہ اس طاعون میں فوجی بوڑھے اور بوڑھیاں کم ہی مریں ۔ پھر یہ شام اور مصر میں پھیلا ، پھر سنہ ہجری ( چار سو ) اڑتالیس میں بغداد میں ، اور مصر میں اس حد تک حالت خراب ہوئی کہ ہر دن دس دس ہزار لوگ ہلاک ہوتے تھے .

پھر 455 میں مصر میں واقع ہوا اور چھپن تک اس نے شدت اختیار کی ، فصل ربیع میں شروع ہوا اور فصل خریف ( پت جھڑ کے موسم ) تک برقرار رہا ، ابن بطلان نے اپنے ” رسالہ ” میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلطان نے اسی ہزار اموات کو دفن کیا . پھر 455 میں مصر میں ابھرا اور ہر دن ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزار تک پہونچی .

پھر سنہ ھجری 467 میں دمشق میں طاعون واقع ہوا اس وقت اس میں رہنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ تھی ، جن میں سے صرف ساڑھے تین ہزار لوگوں کے علاوہ کوئی بچ نہ سکا ، من جملہ ان میں دو سو خَبَّاز ( نان بائی ، تنور والے ) بھی تھے جن میں سے صرف دو ہی بچ پائے تھے . پھر اس کے بعد بھی حافظ ابن حجر کے زمانے تک درجنوں تک طواعین آئے جن میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے ، جن کی تفصیلات کا موقعہ نہیں ہے .

ان واقعات اور اموات کے واقعات سے دل بیٹھ جاتا ہے ، آئیے طاعون سے متوفی ( جو دراصل شہید ہیں اور اسی طرح کورونا وائرس کوڈ 19 سے وفات شدگان کے لئے جو ان شاءاللہ تعالیٰ شہیدوں ہی میں شمار ہوں گے ) لوگوں کے لئے گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر ان کے ثواب کو ان کی روحوں کو پہونچاتے ہیں .

باری تعالیٰ ان تمام لوگوں کی مغفرت فرما ، ان پر رحم فرما اور جنت بریں میں انھیں جگہ عطا فرما .

مؤلف ( علامہ حافظ ابن حجر ) رحمه الله ورضی عنه وتغمدہ برضوانه واسکنه اعلی جناته ، کہتے ہیں کہ جمادی الآخرہ سنہ ہجری 833 میں وہ اس کتاب کو لکھ کر فارغ ہوئے ، سوائے اس کے جس کو انھوں نے بعد میں اس کتاب سے الحاق کیا شوال میں فارغ ہوئے ، پھر اس کے بعد کچھ اور الحاق کیا . والحمد لله وحدہ ، وصلی الله علی سیدنا محمد وآله وسلم تسلیما کثیرا کثیرا . ( پھر اس حقیر فقیر الی اللہ اور اس کے والدین کے لئے بھی دعا کریں )

کورونا اپڈیٹ

بھارت کورونا وائرس کوڈ 19 سے متاثر دنیا کا پانچواں متاثر ترین ملک بنا . بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد آج صبح 15/شوال 1441 ھ مطابق 8/جون 2020 ء تک ڈھائی لاکھ سے متجاوز ہو کر ( 2/لاکھ 56/ہزار 611 ) ہوچکی ہے ، اور سات ہزار سے زیادہ ( 7135 ) لوگ موت کی آغوش میں جاچکے ہیں ، اور حد درجہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پچھلے تین چار دنوں سے پیہم نوہزار سے زیادہ ( اور آج اخبار قومی آواز کے مطابق 9983 ، اور سیاست ڈاٹ کام کے مطابق 9971 ، ریکارڈ ) کورونا وائرس کوڈ 19کے کیس درج کئے گئے ہیں ، پچھلے ہفتہ جہاں بھارت کا نمبر کورونا وائرس کی فہرست میں دسویں نمبر سے بھی نیچے تھا وہاں اب وہ ہسپانیہ ( اسپین ) کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس فہرست میں پانچویں نمبر پر آگیا ہے ، کل رات تک بھارت میں اس وبا سے متاثرین کی کل تعداد 2/لاکھ 46/ہزار 628 تھی ، اور ہلاک شدگان کی تعداد 6929 ، جبکہ پوری دنیا میں متاثرین کی تعداد 69 لاکھ 76 ہزار 45 ( اور قومی آواز کے مطابق 70 لاکھ سے تجاوز کر چکی ) ہے ، اور اب تک 4/لاکھ 2/ ہزار 96 لوگ اس وباء کا لقمہِ اجل بن چکے ہیں . وہیں ہلاک شدگان کی تعداد میں بھی اس نے تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد وہاں 1/لاکھ 12/ہزار 96 تک پہونچ گئی ہے . برازیل 6/لاکھ 77/ہزار کے ساتھ دوسرے نمبر پر . روس میں 4/لاکھ 59/ ہزار . برطانیہ میں 2/لاکھ 85/ہزار، . اور بھارت کے اب تک 2/لاکھ 47 ہزار لوگ اس وائرس کی گرفت میں آچکے ہیں ، اور عجب نہیں کہ اب تک کی اس نکمی ترین سرکار کی ناسمجھی ، جھوٹ اور لوگوں سے حقیقت چھپاکر اندھیرے میں رکھنے والی کی ڈھیلی ڈھالی غلط پالیسیاں اختیار کرنے والی سرکار ماہ دو ماہ ہی میں برازیل کو پیچھے چھوڑ کر دوسرے نمبر پر آجائے . جہاں اس کو اپنی غلط پالیسی پر جس سے کہ کروڑوں لوگوں کی نوکری چلی گئی ماتم کرنا تھا

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہاں وہ اپنی اب تک کی ناکام ترین حکومت رہنے کے باجود جھوٹ موٹ کا سہارا لے کر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے اپنی حکومت کا چھ سالہ جشن منا رہی ہے ، اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہزاروں لاکھوں غریبوں کی ہلاکتوں پر جشن ؟؟

اللہ جل مجدہ تمام مسلمانوں کی اس بڑی آزمائش اور وبا سے حفاظت فرمائے . آمین .

مؤرخہ 14/شوال المکرم 1441 ھ ، مطابق 7/جون 2020 ء

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here