از : مولانا عبدالقادر بن اسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات .
ألحمد لله رب العالمین ، والصلوة والسلام علی رسوله الکریم ، وعلی اٰله وصحبه أجمعین . امابعد .
ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں اعمالِ صالحہ کرنے کی فضیلت میں بہت ساری آیات کریمہ اور احادیث شریفہ وارد ہوئی ہیں ، سورہ حج کی اٹھائیسویں آیت کریمہ میں اللہ عزوجل فرماتا ہے . ” وَيَذْكُروْا اسْمَ الَّلهِ فِيْ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ “. اور وہ چند معلوم دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں. ( سورة الحج/ 18 ) اکثر مفسرین کے پاس ان سے مراد ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے ، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا بھی یہی قول ہے .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اللہ عزوجل کے پاس کسی ( بھی ) دن میں عمل کرنا اِن دنوں میں عملِ صالح کرنے سے زیادہ محبوب نہیں ” ( یعنی عشرہ کے دنوں میں ) صحابہ کرام نے عرض کیا! یارسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا ؟فرمایا! ” نہ ہی فی سبیل اللہ جہاد کرنا ، مگر وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ نکل پڑے پھر اس میں سے کسی چیز کے ساتھ نہ لوٹے “. ( مسلم اور نسائي کے علاوہ جماعت نے اس حدیث کو روایت کیا ہے )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس ان دس دنوں میں عمل کرنے سے سب سے زیادہ بڑا اور سب سے پسندیدہ دن اور کوئی نہیں ، سو تم ان میں تہلیل ، تحمید اور تکبیر کی کثرت کیا کرو “. ( احمد ، طبرانی )
ان دنوں میں ایک روزہ رکھنے پرایک سال کا ثواب اور اس کی ایک رات میں عبادت کرنے پر شبِ قدر کے برابر ثواب ملتے ہیں ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اللہ تعالیٰ کے پاس ذوالحجہ کے عشرہ سے زیادہ کوئی اور دن محبوب نہیں ہوتا کہ ان میں اس کی عبادت کی جائے ، ان ( دنوں ) میں سے ہر دن کے روزہ کا ثواب ایک سال کے برابر روزوں اور ان میں سے ہر رات کا قیام شبِ قدر کے قیام کے برابر ہوتا ہے “. ( ترمذی ، ابن ماجہ ، بیہقی ) ۔۔۔تو ضروری ہوتا ہے کہ صرف عرفہ کے روزہ کو مخصوص نہ کر کے اس کے ساتھ جتنے بھی ہوں ، دو تین چار یا پانچ دنوں کے روزے رکھے جائیں ، پہلی ذوالحجہ سے نویں ذوالحجہ تک آپ روزے رکھ سکتے ہیں .
جب عشرہ کے دن داخل ہوتے تو حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ عبادت میں انتہائی شدید قسم کی محنت کیا کرتے تھے ، حتی کہ کوئی ان کے پاس پہونچنے کی قدرت نہیں رکھتا تھا .
امام اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے پاس حدیث پہونچی ہے کہ اَيَّامِ عشر کے کسی دن میں عمل کرنا اس فی سبیل اللہ غزوہ کرنے کے برابر ہے جس کے دن میں روزہ رکھا جائے اور رات میں پہرہ داری ، سوائے اس شخص ( کی جہاد ) کے جو جامِ شہادت کے ساتھ مخصوص ہوجائے ، کہتے ہیں ” مجھے ( یہ حدیث ) بنی مخزوم کے ایک شخص نے بیان کی ہے ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے “.
اللہ عزوجل سورة الفجر کے آغاز میں قسم کھا کرکہتا ہے ” وَالْفَجْرِ ، وَلَيَالٍ عَشْرٍ “. قسم ہے فجر کی ، اور ( ذوالحجہ کی ) دس راتوں کی . اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ یہ ذوالحجہ کی دس راتیں ہیں ۔
مذکورہ آیات اور تمام احادیث سے ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں عبادت کرنے کی فضیلت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے .
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان دنوں اور راتوں میں اللہ جل ذکرہ کی خوب اطاعت وعبادت کرتے اور روزے رکھتے ہیں ، خصوصاً حجاجِ کرام جو برِّصغیر سے عام طور پر ذوالحجہ سے پہلے ہی حجِّ بیت اللہ کے نیک ارادہ سے نکل جاتے ہیں ، اِن دنوں میں انھیں خوب عبادت کرنے اور اللہ عزوجل کا ذکر وشکر ادا کرنے کاخوبصورت موقعہ فراہم ہوتا ہے ، ان مبارک دس دنوں کی قدر کرنا ہر شخص کی خوش نصیبی ہے .
لوگ عام طور پر رمضان المبارک میں تو روزے رکھنے اور دوسری عبادات کو زیادہ سے زیادہ کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کافی کوشش کرتے ہیں ، لیکن ذوالحجہ میں حاجیوں کے علاوہ کم ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس مبارک عشرہ میں اللہ جل مجدہ کی اطاعت کر کے اس کے مقرب بندوں کی صف میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہوں ، اس مبارک عشرہ میں خوب عبادات کرنا ہر شخص کی سعادت کا باعث ہے ، کیونکہ ان دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صیام وقیام کے ساتھ تہلیل ، تکبیر اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حمد کرنے کا حکم دیا ہے ، یہ تمام اعمال اللہ جل قدسہ کو بے حد پسند ہیں ، خصوصاً ان دنوں میں عرفہ کا ایک ہی روزہ رکھنے پر اکتفا نہ کرکے جتنے روزے چار پانچ چھ ہوسکیں رکھے جائیں تو بہتر ہی بہتر ہے ، کیونکہ ان میں سے ہر دن کا روزہ ایک سال کے برابر اور ایک رات میں نمازیں پڑھنا شبِ قدر کے برابر ثواب کی فضیلت رکھتے ہیں . ( فیضان الحج ، ص/343 تا 344)