از : مولانا عبدالقادر فیضان بن اسماعيل باقوی ، جامعہ آبادی ، بھٹکلی ، امام وخطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابوظبی ، متحدہ عرب امارات .
ألحمد لله رب العالمین ، والصلوة والسلام علی أفضل الانبیاء و المرسلین ، وعلی اٰله وصحبه أجمعين ، وعلی من تبعھم بإحسان إلی یوم الدین .
أضحیة کی لغوی تشریح و تحقیق
اَلْاضْحية : اَلضَّحْوَةُ سے مشتق ہے .
الاضحیة کی وجہِ تسمیہ : اضحیة ( قربانی کیے جانے والے مویشی ) کو یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ قربانی اضحیة کے پہلے پہلے وقت میں کی جاتی ہے . ( یعنی آفتاب طلوع ہوکر بلند ہونے کے بعد ) اور ” الضحوة ” ضُحَى کے معنی میں ہے .
الاضحية : اُن مویشیوں کو کہا جاتا ہے جو عید کے دن سے ایامِ تشریق کے آخری دن تک اللہ ( تعالی ) کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیے جاتے ہیں .
الاضحیة میں چار لُغات ہیں : ہمزہ کے پیش کے ساتھ ” اُضْحِیة ” ، ہمزہ کے زیر کے ساتھ ” اِضْحِیة ” ( دونوں طرح سے صحیح ہے ) ، اسی طرح اضحیة کی یاء کو تخفیف کے ساتھ ” اضحِيَة ” اور یاء کی تشدید کے ساتھ ” اضْحِيَّة ” بھی پڑھا جا سکتا ہے اور اس کی جمع اضاحی ہے .
ضَحية فَعِيْلة کے وزن پر ہے ، اور اس کی جمع ضحایا ہے ، اور اس ( اضحیة ) کو اضحاة بھی کہا جاتا ہے اور اس کی جمع اضحی آتی ہے ، اور اسی سے عید الاضحی کو ” یوم الاضحیٰ” کہا گیا ہے .
شرحِ روضة کی عبارت ہے ” اس کو ہمزہ کے فتح کے ساتھ ( اَضَحَاة ) اور اس کے کسر کے ساتھ ( اِضْحَاة ) بھی پڑھا جاتا ہے ، اور اس کی جمع ” اضحیٰ ” آتی ہے اَرطاة کی طرح ، اور اسی وجہ سے اس کو ” یوم الاضحیٰ ” کہا جاتا ہے . { نهاية المحتاج ، ج/8،ص/130 ، تحفة المحتاج ، ج/4 ، ص/252 ، الإقناع ، ج/5 ، ص/235 ، حاشیۂ تلخیص الحبیر ، ج/4 ، ص/339 ، کا خلاصہ }
قربانی کی فضیلت
قربانی کا بڑا عظیم ثواب ہے ، اور اس کے لئے بہت ساری فضیلتیں آئی ہیں .
سیدہ عائشہ رضی عنھا سے منقول ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” مَاعَمِلَ آدَمِيٌّ ( وفی روایة ، ابن آدم ) مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَى اللَّهِ مِنْ اِهْرَاقِ الدَّمِ ، وَاِنَّهُ لَتَاْتِيْ ( وفی روایة ، لَيُؤْتَى ) يَوْمَ الْقِيَامَ ( وفی روایة ، فِيْ فَرْشِهِ ) بِقُرُوْنِهَا وَاَشْعَارِهَا وَاَظْلَافِهَا ، وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ اَنْ يَقَعَ مِنَ الْاَرْضِ ، فَطِيْبُوْا بِهَا نَفْسًا “ کسی آدمی کا ( ایک روایت میں ابن آدم کا ) یومِ نحر میں کیا ہوا کوئی کام اللہ ( سبحانہ و تعالیٰ ) کے پاس خون کو بہانے سے زیادہ پسند نہیں ، ( یعنی قربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے اللہ تبارك و تعالیٰ کے پاس اس خون کے گرنے کی ایک جگہ ہے . یہ قربانی کے مقبول ہونے کی طرف اشارہ ہے ، جیسا کہ شیخنا نے کہا ،( حاشیة بجیرمی ، ج/5 ، ص/236 ) بیشک وہ ( یعنی خون کے بہانے کے ذریعہ جو قربانی ہوتی ہے وہ ) روز قیامت میں اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں کو لے کر آئے گی ، ( ایک روایت میں سینگھوں سے پہلے ” اس کے بستر میں ، ایسے میں ترجمہ وہ آدمی کے بستر پر اپنے سینگھوں بالوں الخ ہوگا ، اور ایک روایت میں” اس کو روز قیامت میں اپنے سینگھوں بالوں اور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا کے الفاظ آئے ہیں ) اور بلاشبہ اللہ ( تعالیٰ ) کی جانب سے اس کے زمین پر گرنے سے پہلے ایک ( خاص ) جگہ میں خون گرتا ہے ، سو تم اس سے روح کو خوش رکھو “. ( چاہئے کہ اس کے ذریعہ تمہارے دل خوش ہوائیں ، ( بجیرمی) یعنی تم اچھے دل سے قربانی کرو . ( ترمذی ، ابن ماجہ )
ترمذی ابن ماجہ اور حاکم وغیرھم نے عائذ اللہ سے انھوں نے ابو داؤد سے انھوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، کہتے ہیں کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا! یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ قربانیاں کیا ہیں؟ ( یعنی ان کی کیا فضیلت ہے؟ فرمایا! ” تمہارے باپ ابراہیم صلوات اللہ علیہ والسلام کی سنت ہے “. عرض کیا! اس میں ہمارے لئے کیا ہے یا رسول اللہ ؟ فرمایا! ” ہر اون کے ایک بال پر ایک نیکی ہے “. صحابہ نے عرض کیا! اون ؟ ( پر نیکی؟ ) فرمایا! ” ہر اون کے بال پر ایک نیکی ہے “. ( حاکم نے کہا کہ صحیح الاسناد ہے ) .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم اضحی میں فرمایا! ” اس دن میں آدمی کا کوئی عمل خون بہائے جانے سے زیادہ افضل نہیں ، مگر یہ کہ وہ ایسی رشتہ داری کا سبب بنتا ہے جس کو جوڑا جائے ” ( یعنی یہ قربانی کرنا صلہ رحمی کے جوڑنے کا ایک وسیلہ بنتی ہے ، اس طور سے کہ اس کا گوشت رشتہ دار اقارب اور خاندان میں تقسیم کیا جاتا ہے ، ترغیب وترییب) . ( حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے ، اس کی اسناد میں یحییٰ بن الحسن الخشنی ہیں ، ( حافظ زکی الدین منذری کہتے ہیں ) جس کا حال میں نہیں جانتا ) .
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ) فرمایا! ” اپنے قربانی ( کے جانور ) کے پاس کھڑی ہوجا ، بیشک پہلا جو اس کے خون کا قطرہ گرتا ہے ( اس سے ) تیرے اگلے گناہوں کی مغفرت کی جاتی ہے “. کہنے لگیں! یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا یہ ہم اہل بیت کے لئے ہی خاص ہے ؟ یا ہمارے لئے اور ( سارے ) مسلمانوں کے لئے ؟ فرمایا! ہمارے لئے اور مسلمانوں کے لئے “. ( حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے ، اور ابوالشیخ ابن حبان نے کتاب الضحایا میں ، اور ان کے غیر نے . اس حدیث میں عطیہ بن قیس کے ثقہ ہونے میں کلام ہے ) .
اس حدیث کو اصبہانی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اے فاطمہ! کھڑی ہوجا اور اپنی قربانی پر گواہ رہ ، اس لئے کہ اس کے خون کا جو پہلا قطرہ ٹپکے گا وہ تیرے تمام گناہوں کی مغفرت کرے گا ، سن! اس کو اس کے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا ( اور ) ستَّر گنّا تیرے ترازو میں رکھا جائے گا “. ( یعنی اس کے گوشت اور خون سے ستر گنا ثواب ملے گا ) ابو سعید نے کہا! یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا یہ آل محمد کے لئے خاص ہے؟ اس لئے کہ وہ ایسے ( فضیلت والے ) ہیں جن کو بھلائی کے ساتھ خاص کیا گیا ہے ، یا مسلمانوں کے لئے عام ہے ؟ فرمایا! ” آل محمد کے لئے خاص ہے ، اور مسلمانوں کے لئے عام ہے “. ( ہمارے بعض مشائخ نے علی کی اس حدیث کو حسن کہا ہے ، والله اعلم )
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” یاأیھا الناس ضحوا واحتسبوا بدمھا ، فان الدم وان وقع فی الارض ، فانه یقع فی حرز الله عزوجل “. لوگو! قربانی کرو ، اور اس کے خون ( یعنی ثواب ) کو اللہ عزوجل سے مانگو ، کیونکہ خون ، گو کہ وہ زمین پر گرتا ہے ( لیکن ) بیشک وہ اللہ عزوجل کی پناہ میں گرتا ہے “. ( طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے ) .
حسین بن علی رضی اللہ عنھما سے روایت کیا گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!” جس شخص نے اچھے دل کے ساتھ اپنی قربانی سے ثواب حاصل کرنے کی نیت کی ، تو وہ اس کے لئے جہنم سے ایک آڑ ہوگی “. ( طبرانی نے اس حدیث کو کبیر میں روایت کیا ہے ) .
قربانی واجب ہے یا مسنون ؟
قربانی ( شوافع اور جمہور کے نزدیک ) اہل خانہ کے زیادہ رہنے کی صورت میں تمام گھر والوں اور صاحب کفالت پر سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے ، ( یعنی گھر والوں میں سے کسی ایک شخص نے بھی اگر ( سنت ) قربانی کی تو تمام گھر والوں کی جانب سے کافی ہوگی ، گھر والوں میں سے ہر ایک کے لئے قربانی سنت ہونے کے باوجود سنت علی الکفایہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ کسی ایک کے قربانی کرنے سے گھر والوں کی جانب سے قربانی کی طلب نماز جنازہ کی طرح ساقط ہوگی ، نہ اس کا معنی یہ کہ قربانی نہ کرنے والوں کو بھی ثواب ملے گا ، ہاں اس صورت میں انھیں ثواب ملے گا جب قربانی کرنے والے نے اپنے علاوہ کو بھی ثواب میں شریک کرلیا ہو ، جو کہ جائز ہے ، اور یہی ہمارا مذہب ہے ، اس کو مصنف ( امام نووی ) نے شرح مسلم میں ذکر کیا . ( نھایةالمحتاج ، ج/8 ، ص/ 130 )
اہل خانہ میں سے کسی ایک کے قربانی کرنے پر تمام گھر والوں سے قربانی کے سقوطِ طلب کے لئے ترمذی وغیرہ کی ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ صحیح حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ، صحابئِ رسول کہتے ہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ( ایک ) شخص اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانب سے ( ایک ) قربانی کیا کرتا تھا ، پھر وہ اس ( قربانی کے گوشت کو ) کھاتے اور کھلایا کرتے تھے ، یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے پر ( قربانی کرنے میں ) فخر کرنے لگے ، تو وہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو “. ( ترمذی ، ابن ماجہ ، امام ترمذی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ) .
یعنی سنت ، ( یا واجب ، جیسا کہ احناف کے پاس ) قربانی کرنے میں اخلاص ضروری ہے ، لوگ اگر ایک دوسرے پر فخر کرتے ہوئے قربانی کرتے ہوں تو یہ اخلاص سے دور صرف شہرت ریاکاری اور دکھاوا ہوگا ، ایسے میں ایسی قربانی کا ثواب لوگوں کو نہ ملنا بعید از قیاس نہیں ہوگا ، اللہ جلت عظمتہ ہمیں حسنات کو چٹ کرجانے والی بیماری سے کوسوں دور رکھے .
اگر کسی شخص نے وسعت نہ رکھنے پر ، ( یا قربانی کی طاقت رکھنے کے باوجود ) ایک بکرے یادنبہ کی قربانی کی تو اہل خانہ کی جانب سے کافی ہوگی . حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین خود کی اور اپنے گھر والوں کی جانب سے ایک بکرے کی قربانی کیا کرتے تھے ۔
قربانی کرنے کی طاقت رکھنے والے کے لئے قربانی کو ترک کرنا مکروہ ہے ، اس کے سنت اور وجوب کے درمیان علماء کا اختلاف رہنے کی وجہ سے ۔
قربانی سنت ہے ، واجب نہیں .
قربانی کی مسنونیت پر مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کیا گیا ہے .
پہلی حدیث : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ اُمِرْتُ بِالنَّحْرِ وَھُوَ سُنَّةٌ لَّکُمْ ’ مجھے نحر یعنی قربانی کرنے حکم دیا گیا اور وہ تمھارے لئے سنت ہے . ( ترمذی ) .
دوسری حدیث : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘ كُتِبَ عَلَيَّ النَّحْرُ وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ عَلَیْکُمْ ’’ مجھ پر نحر کو فرض کیا گیا ہے ، حالانکہ یہ تم پر واجب نہیں “. ( بیہقی )
تیسری حدیث : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘ لَيْسَ فِی الْمَالِ حَقٌّ سِوَی الزَکوٰۃِ ’’ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ کسی قسم کا کوئی حق نہیں ۔
چوتھی حدیث : بیہقی وغیرہ نے اسناد حسن سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ ابوبکر وعمر ( رضی اللہ عنھما ) اس خوف سے ( بعض اوقات سنت ) قربانی نہیں کیا کرتے تھے کہ کہیں لوگ اسے واجب نہ سمجھ بیٹھیں . یہی بقیہ ائمہ میں سے دو امام ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمھما اللہ کا مسلک ہے . امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پاس ہر اس مقیم پر اپنی اور نفقہ لازم ہونے والے ہر اس شخص کی جانب سے قربانی واجب ہے جو دو نقد میں سے کسی ایک نقدی کا مالک ہو .
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے کسی ایک سے بھی قربانی واجب ہونے کے سلسلہ میں کوئی صحیح چیز یعنی حدیث نہیں آئی ہے .
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مسافروں کے علاوہ ہر اس وسعت والے مقیم پر قربانی کو واجب سمجھتے ہیں جو نصاب کے مالک ہوتے ہیں . اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہ ‘‘ مَنْ وَجَدَ سَعَۃً فَلَمْ یُضَحِّ فلاََ یَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا ’’ یعنی جس نے وسعت کے باوجود قربانی نہیں کی ، تو ہرگز وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے . ( احمد ، ابن ماجہ ، حاکم ، اور اِنھوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ، تاہم ائمہ احادیث کے نزدیک یہی راجح ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے ، ( یعنی یہ الفاظ کسی صحابی کے ہیں ، نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے .
قربانی کی نیت کا بیان اور اس کی تشریح
ہر عبادت کے لئے نیت ضروری ہے اور قربانی بھی ایک عبادت ہے ،اللہ عزوجل سورة البینة میں فرماتا ہے ، ” ومآ أمرو إلا لیعبدوالله مخلصین له الدین “. اور وہ حکم نہیں دئے گئے مگر یہ کہ وہ اللہ کی بندگی کریں اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” إنما الأعمال بالنيات “. اعمال کا دارومدار تو نیتوں پر ( منحصر ) ہے .
عیدالا ضحی یا ایام تشریق میں سنت قربانی کرتے وقت ( یا کم از کم جانور کو خریدتے وقت ) لازما سنت قربانی کی نیت کرنا شرط ہے ، صرف قربانی کرتا ہوں کہنا کافی نہیں ہوگا ، ایسے میں اس جانور پر سنت نہیں بلکہ فرض کے مسائل لاگو ہوں گے اور اس گوشت کے حقدار صرف مساکین ، فقراء اور غرباء ہوں گے .
مسئلہ : اگر کسی شخص نے کہا! مجھ پر ضروری ہے کہ میں اللہ تعالی کے لئے اس جانور کی قربانی کروں ،
یا یہ کہا کہ یہ قربانی کا جانور ہے ، یا میں نے اس جانور کو قربانی کا جانور بنایا ، یا یہ کہا کہ مجھ پر ضروری ہے کہ میں اس بکری ( یا گائے یا اونٹ ) کی قربانی کروں ، یا اگر میں نے اس بکری کو خریدا تو مجھ پر ضروری ہے کہ میں اس کو اللہ کے لئے قربانی کروں ، تو مذکورہ بالا جُملہ صورتوں میں وہ جانور فرض اور نذر کردہ یعنی منت مانا ہوا کہلائے گا ، ایسے میں جس دن منت مانی گئی ہو اسی دن اس جانور کو ذبح کرنا واجب ہوگا ، عید سے پہلے والے دن کی نذر کی ہو کہ عید کے بعد والے دنوں کی ، اور اس کا سارا گوشت مساکین اور فقراء پر تقسیم کرنا واجب ہوگا ، اور آپ پر حرام ، کیونکہ جن جملوں کا آپ نے استعمال کیا ہے ان تمام جملوں سے جانور واجب ہوجاتا ہے اور وہ سنت قربانی میں نہیں آتا ، لہذا سنت قربانی کے لئے جانے والے جانور میں ، سنت کے الفاظ سے مثلا ” میں اس بیل کو سنت قربانی کے لئے خرید رہا ہوں” کہنا اور ذبح کرتے وقت سنت قربانی کی نیت سے ذبح کرنا ضروری ہوگا ، ایسی صورت میں ہی آپ اس کا گوشت کھا سکیں گے ، ورنہ وہ آپ پر حلال نہیں ہوگا ،
آپ کا مطلق طور پر ” میں نے مثلا یہ بکرا اللہ کے لئے میری جانب سے قربانی کرنے کے لئے لیا ہے ” کہنا ، یا ” مجھ پر ضروری ہے کہ میں اس اونٹ کی قربانی کروں ” کہنا اس جانور کو واجب بناتا ہے ، ایسے میں اس کے حقدار صرف غرباء ہی ہوں گے . ( تحفةالمحتاج ، ج/4 ، ص/253 ، نہایةالمحتاج ، ج/8 ، ص/137 ، اور فتح المعین و إعانة الطالبین کا خلاصہ )
نوٹ : ہم نے اس مسئلہ کی آگاہی تقریبا بیس اکیس سال پہلے اپنی تالیف ” فیضان الفقہ ” پر کی ہے ، آپ کی نظر بھی اس پر پڑی ہوگی ، دیکھئے صفحہ نمبر 437 .
قربانی کا ارادہ کرنے والوں کا ذوالحجہ کا چاند دیکھے جانے کے بعد بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے کی مناہی
اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث سے استدلال کیا گیا ہے .
عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ! قَالَ رسول الله صلی الله علیه وسلم ” إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَاَرَادَ بَعْضُكُمْ اَنْ يُّضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئاً “. وفی روایة ، ” فَلَا يَاْخُذَنَّ شَعْرًا ، وَلَا يَقْلِمَنٌَ ظُفْرًا “. وفی روایة ” من رأی ھلال ذی الحجة وأراد أن یضحی ، فلا یأخذن من شعرہ ولا أظفارہ “. اماں ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے منقول ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جب ( ذوالحجہ کا ابتدائی عشرہ داخل ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور کھال میں سے کسی کو نہ چھوئے “.( بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے ) . ایک روایت میں ہے کہ ” وہ ہرگز کوئی بال نہ کاٹے اور نہ ہی کوئی ناخن کاٹے “. ایک اور روایت میں ہے کہ” جس نے ذوالحجہ کا پہلا چاند دیکھا اور قربانی کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ نہ کاٹے “. ( مسلم ، ماخوذ من المشکوة ، 1459 ) . مسلم کی اس حدیث کو علامہ حافظ ابن حجر نے ” تلخیص الحبیر میں ان الفاظ سے روایت کیا ہے کہ” إذا دخل العشر وأراد أحدکم ( بعضکم کی جگہ میں احدکم آیا ہے ) أن یضحی ، فلا یمس من شعرہ وبشرہ شیئا “. جب عشرہ داخل ہوجائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور کھال ( ناخن ) میں سے کچھ نہ نکالے . ( مسلم ) . ام سلمہ ہی سے ، آگے لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے لئے ان ( مسلم ) کے پاس کئی الفاظ ہیں ، ( یعنی یہ حدیث کئی الگ الگ الفاظ سے آئی ہے ،( مفہوم ایک ہی ہے ) . ترمذی نے اس حدیث کو روایت کرکے صحیح قرار دیا ہے .
مذکورہ حدیث کو امام مسلم نے (1565/3) کتاب الاضاحی ، باب من دخل علیه عشر ذی الحجة وھو مرید التضحیة ( 1977/39) . نسائي نے ( 211،212/7 ) کتاب الضحایا میں ، ابن ماجہ نے ( 1052/2 ) کتاب الاضاحی ، باب من أراد أن یضحی فلا یاخذ فی العشر من شعرہ واظفارہ ، والبیہقی ( 266/9 ) کتاب الضحایا ، باب سنة لمن أراد أن یضحی أن لایاخذ من شعرہ ، واحمد ( 289/9 ) من طریق سفیان بن عیینة عن عبدالرحمن بن حمید بن عبدالرحمن بن عوف عن سعید بن المسیب عن ام سلمة مرفوعا بلفظ ” اذادخلت العشر وأراد أحدکم أن یضحی ، فلا یمس من شعرہ وبشرہ شیئا ” ، قیل لسفیان ، فان بعضھم لایرفعه ، قال لکن أرفعه .
اسی طرح اس حدیث کو ایک دوسرے طریقہ سے مسلم ، نسائي ، ترمذی ، ابوداؤد ، طحاوی ، حاکم ، بیہقی اور احمد نے عمرو بن مسلم کے طریقہ سے ، انھوں نے سعید بن مسیب سے اور انھوں نے ام المؤمنین سلمہ رضی اللہ عنھا سے ان الفاظ سے روایت کیا ہے ” من کان له ذبح یذبحه ، فاذا اھل ھلال ذی الحجة فلا یاخذن من شعرہ ولا من أظفارہ شیئا حتی یضحی “. جس کے پاس کوئی ذبح کیا جانا والا جانور ہو ، سو جب ذوالحجہ کا پہلا چاند نظر آئے تو وہ ہرگز اپنے بال اور ناخن میں سے کچھ نہ کاٹے حتی کہ وہ ذبح کرے . ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ، حاکم نے کہا کہ یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے ، لیکن انھوں نے اس حدیث کو نہیں نکالا ہے ، اور ذہبی بھی ان کے موافق ہوئے ، ( لیکن محشئ تلخیص الحبیر لکھتے ہیں ) یہ ان دونوں کا وہم ہے ، جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں ، مسلم نے اس حدیث کو روایت کیا ہے .
بالوں اور ناخنوں کے نہ نکالنے کی حکمت ہے کہ ( سنت ) قربانی کرنے والوں کے تمام اجزاء باقی رہیں ، تاکہ یہ تمام چیزیں مغفرت اور آگ سے نجات حاصل کرنے میں شامل ہوں .
اگر کسی نے ایک سے زیادہ مویشیوں کی قربانی کرنے کا ارادہ کیا تو پہلی ( سنت ) قربانی کرنے تک ہی یہ کراہت باقی رہے گی ، پہلی قربانی کے بعد بالوں اور ناخنوں کو اتارنا مکروہ نہیں ہوگا ، جیسا کہ بعض علماء کرام نے جزم کے ساتھ کہا ، اور یہی معتمد ہے ، بالوں میں تمام قسم کے بال شامل ہوں گے ، سر، داڑھی ، بغل ، زیر ناف اور مونچھوں وغیرہ کے ، ” علامہ ابن حجر نے کہا کہ بال ناخن اور بدن کے تمام اجزاء کو ، اگر کسی نے اس کی مخالفت کی تو مکروہ ہوگا “. ( نہایة ، ج/5 ، ص/133 )
نوٹ : اگر کسی کو اس کا کوئی ناخن یا جلد تکلیف دے رہی ہو تو اس کا نکالنا مکروہ نہیں ہوگا .
قربانی کے لئے مویشی کا ہونا شرط ہے
علمائے کرام اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ قربانی کے لئے مویشی ہی کا ہونا ضروری ہے ، اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری اور بھینس کو مویشی ( بَهِيْمَة ) کہتے ہیں ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا! ” وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَارَزَقَهُمْ مِّنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ “. اور ہر امت ( جماعت ) کے لئے ہم نے ایک عید بنائی ، تاکہ وہ اس بنا پر ( نحر اور ذبح کرتے وقت ) اللہ کو یاد کریں کہ اس نے انھیں بطورِ رزق مویشی عطا فرمائے. ( سورة الحج/33 ) .
سنتِ ابراہیمی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ادا ہونے کے لئے کم از کم ایک بکرا ضروری ہے .
آدمی قربانی کے لئے جو مویشی چاہے اختیار کر سکتا ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم شریف ( منی ) میں بطور سنت سو اونٹوں کی قربانی کی تھی ، ( جن میں سے ترسٹھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے نحر کیا تھا ، ( اس میں آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی عمر شریف کی طرف اشارہ ہے ) اور بقیہ اونٹوں کے نحر کا حکم سیدنا علی کو دیا تھا ) لیکن ایک آدمی کی جانب سے کم از کم ایک بکری یا بکرے کا ہونا شرط ہے ، یا گائے کا ساتواں حصہ ، کیونکہ ہدی ( مکہ کی طرف لے جایا جانے والا جانور ) اور قربانی کے ایک اونٹ یا گائے میں سات آدمی تک شریک ہو سکتے ہیں ، درج ذیل مسلم وغیرہ کی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث سے دلیل اخذ کرتے ہوئے ، وہ کہتے ہیں کہ ” نَحَرْنَا مَعَ رَسولِ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ “. ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ کو سات کی جانب سے نحر کیا اور گائے کو سات ( لوگوں ) کی جانب سے . ( مالک ، احمد ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، بیہقی ) . ( تلخیص الحبیر،ج/4 ، ص/349 ) اس کے حاشیہ میں ” عام الحدیبیہ کے الفاظ کی زیادتی ہے ، الفاظ حدیث یہ ہیں” نحرنا مع رسول الله صلی الله علیه وسلم عام الحدیبیة البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة “. ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ” حدیبیہ کے سال ” اونٹ کو سات ( لوگوں ) کی جانب سے نحر کیا اور گائے کو سات کی جانب سے .
ایک اور حدیث میں آتا ہے ، صحابی ( جابر رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ ” امرنا رسول الله صلی الله علیه وسلم ان نشترك کل سبعة فی بدنة ، ونحن متمتعون “. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم ہر سات ( لوگوں ) کو ایک اونٹنی میں شریک ہونے کا حکم دیا اور ہم نے حج تمتع کا احرام کیا ہوا تھا .
ایک اور جابر سے مسلم کی روایت کردہ حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں ، کہتے ہیں کہ ” خرجنا مع رسول اللہ صلی الله علیه وسلم مھلین بالحج ، فامرنا ان نشترك فی الابل والبقر ، کل سبعة منا فی بدنة “. ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام کرتے ہوئے نکل گئے ، پس آپ نے ہمیں اونٹ اور گائے میں شریک ( حصہ دار ) ہونے کا حکم دیا ، ہم میں سے سات کو ایک اونٹنی میں . ( مسلم )
ایک اور روایت میں آپ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ” اشترکنا کل سبعة فی بدنة “. ہم ہر سات ( لوگ ) ایک اونٹنی میں حصہ دار بنے . ( اخرجه مسلم/5 ،/75 تا 76 ) کتاب الحج ، باب الاشتراک فی الھدی ، واجزاء البقرة والبدنة کل منھما عن سبعة ، حدیث/1318 ، ( 350 تا 355 )
اونٹ یا گائے میں شریک ہونے والے تمام لوگوں کا قربانی میں تقرب حاصل کرنے کا ارادہ کر ( کے اس میں قربانی کے لئے ہی شریک ہو ) نا شرط نہیں ، بلکہ بعضوں نے تقرب اور بعضوں نے صرف گوشت حاصل کرنے کا ارادہ کیا تب بھی کافی ہوگا ، برخلاف احناف کے ، کہ وہ جانور میں شریک ہونے والے تمام لوگوں کو ہی تقرب کی نیت سے شامل ہونے کو شرط قرار دیتے ہیں . ( ماخوذ من السید سابق/536 ) .
قربانی کئے جانے والے مویشی کے شرائط
مسنہ اور ثنیہ کی تشریح
قربانی مسنہ اور ثنیہ ہی میں ہوتی ہے ، قربانی کیا جانے والا جانور اگر اونٹ ہو تو اس کا مسنہ ہونا ضروری ہے ، یعنی اس پر مکمل پانچ سال پورے ہو کر اس کا چھٹے سال میں داخل ہونا ضروری ہے ، گائے ( بھینس اور بیل ) ہونے کی صورت میں مکمل دو سال ہو کر تیسرے سال میں داخل ہوئی ہو .
امام مالک کے پاس تین سال پورے ہو کر چوتھے سال میں داخل ہونا ضروری ہے ، اگر چہ کہ چوتھے سال کا ایک دن ہی گزرے ، جانور مینڈھا یعنی دنبہ ہونے کی صورت میں جذع کافی ہوگا ،
اصح میں جذع اس دنبہ کے بچہ کو کہتے ہیں جس پر ایک سال گزرا ہو ، یا چھ ماہ کا وہ بچہ جس کے سامنے والے دانت جھڑ گئے ہوں ، اور ( جانور ) بکرا یا بکری ہونے پر اس پر پورے دو سال گزرے ہوں .
امام ابوحنیفہ کے پاس بکری کی کسی بھی قسم میں ایک سال کا ہونا کفایت کرے گا ، خواہ وہ بھیڑ ( دنبہ) ہو کہ بکری ، ہاں! بھیڑ کے چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا فربہ اور موٹا تازہ ہو کہ اس کے اور ایک سال کے بچہ کے درمیان کچھ زیادہ فرق نہ معلوم ہوتا ہو تو یہ کافی ہوگا .
امام مالک کے پاس بھیڑ کے ایک سال کا وہ بچہ جو دوسرے سال میں داخل ہوا ہو ، کا ہونا ضروری ہے ، اگر چہ کہ ایک دن ہی کیوں نہ گذرا ہو ، اور بکرا اور بکری ہونے کی صورت میں ایک کامل سال پورا ہو کر دوسرے سال کا کم سے کم ایک ماہ یا اس سے زائد مدت گذری ہو .
امام احمد بن حنبل کے پاس بھیڑ کے چھ ماہ کا بچہ اور بکری کے ایک سال کا بچہ ، ( سنت ) قربانی کے لئے درج ذیل حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کافی ہوگا . ( والله أعلم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” لاتذبحوا الا ثنیة ، الا ان یعسر علیکم ، فاذبحوا الجذع من الضأن “. تم ثنیہ کے علاوہ ( جانور ) کو ذبح نہ کرو ، مگر اس وقت جب تم پر ( ثنیہ ذبح کرنا ) مشکل ہو ، پس تم بھیڑ کا جذع ذبح کرو . ( مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ، اور ابن ماجہ نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے) اور ان تمام نے کہا کہ ” لا تذبحوا إلا مسنة “. تم مسنہ کے علاوہ ( جانور ) کو ذبح نہ کرو . ( تلخیص الحبیر للحافظ علامہ احمد بن علی بن محمد ابن حجر الکنانی العسقلانی الشافع ، المتوفی 852 ) .
علامہ لکھتے ہیں کہ شاید مصنف ( امام رافعی ) نے اس حدیث کو معناً لایا ہے ،( امام ) نووی نے ” شرح مسلم ” میں علماء سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ مسنة ہر چیز ( جانور ) کے ثنیة ( دو کے معنی میں آتا ہے ) سے ہے ، اونٹ ، گائے ، بکری اور اس کے اوپر والے جانور .
منذری کہتے ہیں کہ ” المسنة ” وہ مویشی جس کو تین سال ہو اور چوتھے سال میں داخل ہوئی ہو ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مویشی جو تیسرے سال میں داخل ہوئی ہو . ( تفصیل گذر گئی )
تنبیہ : حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ بھیڑ کا جذع اسی وقت کافی ہوگا جب کوئی شخص مسنہ سے عاجز ہو ، اور اجماع اس کے خلاف ہے ، ( کیونکہ تمام ہی علماء کرام کے پاس جذع قربانی کے لئے کافی ہوتا ہے ) ایسے میں اس کی تاویل کرتے ہوئے حدیث میں آئے ہوئے الفاظ کو افضل پر محمول کیا جائے گا ، تقدیر اس طرح ہوگی ” المستحب ألا یذبحوا إلا مسنة “. مسنہ کے علاوہ مویشی کا ان کو ذبح کرنا مستحب نہیں . ( تلخیص الحبیر ، ج/4 ،ص/350 تا 351 ) .
قربانی کے جانوروں کا عیوب سے پاک رہنا
قربانی کئے جانے والے حیوانوں کاذبح کرتے وقت ان تمام عیوب سے پاک رہنا شرط ہے جن سے کھائے جانے والے گوشت ( اور اس جیسی چیز مثلا چربی وغیرہ ) میں کمی آتی ہو ، خواہ اسی وقت ہو ، مثلاً ران جیسے عضو سے ایک بڑے ٹکڑے کو کاٹنا ، یا آنے والے وقت میں ، جیسے ظاہری خارش ، ایسے میں درجِ ذیل عیوب والے جانور قربانی کے لئے کافی نہیں ہوں گے .
پہلا : کانا ، دوسرا : اندھا ، تیسرا : لنگڑا ، چوتھا : زخمی شدہ ، پانچواں : واضح بیمار ، چھٹا : دبلا پتلا غیر گودے والا ، ساتواں : حامل ، آٹھواں بعض تھن کٹا ہوا نواں : بعض سرین کٹا ہوا ، دسواں : بعض دم کٹا ہوا ، گیارہواں : بعض کان کٹا ہوا ، بارہواں : کان کا اگلا حصہ کٹا ہوا ، تیرہواں : کان کا کنارہ کٹا ہوا ، چودہواں : کان میں سوراخ شدہ ، پندرہواں : کان پھٹا ہوا ، سولہواں : بغیر کان کے پیدا شدہ ، سترہواں : خارش زدہ اور اٹھارہواں دیوانہ جانور قربانی کے لئے ناکافی ہوگا . مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہوئے ( جن میں مذکورہ عیوب میں سے اکثر کا تذکرہ آیا ہے اور بقیہ عیوب کی تشریح فقہائے کرام اور محدثین نے کی ہے ) .
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کیا گیا کہ قربانی میں کن کن ( عیوب والے ) جانوروں سے بچا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا کہ چار ( قسم کے جانوروں ) سے ، سیدنا براء بن عازب ( رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے وقت ) اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے اور کہتے تھے کہ میرا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( مبارک ) ہاتھ سے چھوٹا تھا ، ” اَلْعَرْجَآءُ الْبَيِّنُ ظَلَعُهَا ( وفی روایة ، عَرَجُهَا ) وَالْعَوْرَآءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا ، وَالْمَرِيْضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا ، وَالْعَجْفَآءُ الَّتِيْ لَاتُنْقِيْ ” وفی روایة ” وَالْكَسِيْرَةِ ” وہ لنگڑا ( جانور ) جس کا لنگڑاپن ( یا ٹیڑھا پن ) ظاہر ہو ، وہ کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو ، وہ بیمار جس کی بیماری واضح ہو اور وہ ٹوٹا ہوا ( کمزور ) جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو . ( مالک احمد ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن حبان ، حاکم ، بیہقی ، بغوی ، ابن خزیمہ ، طحاوی اور ابن جارود )
مشہور محدث ، مفسر اور فقیہ امام بغوی رحمہ اللہ ( متوفی/516 ) اپنی معرکہ آرا کتاب ” التھذیب ” میں قلمبند کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” ایسا لنگڑا جس کا لنگڑاپن ظاہر ہوتا ہو ” فرمایا ہے ، جیسا کہ “وہ بیمار جس کی بیماری واضح ہوتی ہو اور وہ کانا جس کا کانا پن ظاہر ہوتا ہو ” فرمایا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی جانور میں تھوڑا سا لنگڑاپن ، یا تھوڑی سی بینائی میں کمزوری ، یا تھوڑا سا دبلاپن ، یا تھوڑی سی بیماری ہو تو جانور قربانی کے لئے کافی ہوگا ، کان کٹا ہوا جائز نہیں ، اگر چہ کہ تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ اس سے گوشت میں کمی آتی ہے ، اور نہ ہی دم کٹا ہوا ( جانور قربانی کے لئے ) جائز ہے ، انتہی .
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ” أمَرَنَا رسول الله صلی الله علیه وسلم اَن نستشرف العین والاذن ، ولا نضحی بمقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ” قیل لأن فیه نقصان اللحم “.” ولا مقطوعة الذنب ، ولا الخرقاء “. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آنکھ اور کان دیکھنے کا حکم دیا اور ہمیں کان کا کنارا کٹا ہوا اور کان پھٹا ہوا جانور قربانی نہ کرنے کا حکم دیا . کہا گیا ، کیونکہ اس میں گوشت میں کمی آتی ہے ،” نہ دم کٹا ہوا ، اور نہ ہی کان میں سوراخ رکھنے والا ”
امام بغوی حدیث کے الفاظ ” نستشرف العین والاذن ” کی تفسیر میں لکھتے ہیں ، یعنی ( ہمیں اس بات کا حکم دیا کہ) ہم کشادہ آنکھوں اور لمبے کانوں والے جانوروں کی قربانی کریں . ( التھذیب ، ج/8 ، ص/41 ) .
امام ابوحنیفہ کے نزدیک ان عیوب والے جانوروں کی قربانی درست نہیں
پہلا : جس جانور کی آنکھ کی بینائی پوری طرح یا اکثر چلی گئی ہو تو اُس جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی .
دوسرا : پیدائشی طور پر جس جانور کے سینگ نہ ہوں یا سینگ نکلنے کی جگہ کو بچپن ہی میں آگ سے جلایا گیا ہو تاکہ سینگ نہ نکلیں تو یہ جانور قربانی کے لیے درست ہوگا .
تیسرا : لنگڑا جانور! یہ جانور اگر پوری طرح لنگڑا ہو یا اس قدر لنگڑا ہو زمین پر اپنے صرف تین پاؤں ہی زمین پر رکھتا ہو چوتھا پاؤں نہ رکھ سکتا ہو تو اس جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی ، اور اگر چوتھا پیر زمین پر ٹیک کر لنگڑا کر چل سکتا ہو تو اس کی قربانی درست ہوگی .
چوتھا : بکری کے دوتھنوں میں سے اگر ایک تھن خشک ہو جائے یا کاٹ دیا جائے تو اس کی قربانی صحیح نہیں ہوگی ، اور اگر بھینس ، گائے یا اونٹنی کے دو تھن خشک ہو جائیں یا کٹ جائیں تو ان جانوروں کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی ، لیکن اگر ان تینوں جانوروں کے چار تھنوں میں سے صرف ایک ہی تھن کٹ جائے تو قربانی کے لیے یہ جانور کافی ہوں گے .
پانچواں : اُس گابھن جانور کی قربانی مکروہ ہے جس کی ولادت کا وقت قریب ہو .
چھٹا : خنثی جانور ( کہ جس کے بارے میں پتہ نہ چل سکے کہ وہ نر ہے یا مادہ ) کی قربانی درست نہیں ہے .
ساتواں : کسی وحشی اور جنگلی جانور کی قربانی جائز نہیں ، جیسے ہرن یا نیل گائے کی .
آٹھواں : دُمْ! اگر جانور کی دم کا اکثر حصہ کٹا ہو تو یہ جانور قربانی کے لیے جائز نہیں ہوگا ، اگر تھوڑا سا حصہ ( ایک تہائی سے کم ) کٹ گیا ہو تو قربانی کے لیے یہ جانور کافی ہوگا . پیدائشی طور پر جس جانور کی دم نہ ہو تو یہ جانور قربانی کے لیے امام ابوحنیفہ رحمہ کے نزدیک درست ہے لیکن امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک درست نہیں . ( احتیاطًا ایسا جانور قربانی کے لیے نہ منتخب کرنا بہتر ہے )
نواں : اگر جانور کا کان تھوڑا بہت کٹا ہے تو اس کی قربانی درست ہے ، لیکن اگر اس کے کان کا اکثر حصہ کٹ گیا ہو یا پیدائشی طور پر اس کے کان نہ ہوں تو اس جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی .
دسواں : زبان! اگر جانور کی زبان اتنی زیادہ کٹی ہو کہ وہ ( ٹھیک سے ) چارہ نہ چر سکتی ہو تو اس جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی .
قربانی کے لئے نر اور مادہ دونوں قسم کے جانور کافی ہوں گے ، تاہم نر کو مادہ پر فوقیت دی جائے گی .
قربانی کرتے وقت نیت کرنا شرط ہے اور بسم اللہ کہنا سنت مؤکدہ ہے ، کم از کم نیت کے ساتھ بسم الله ، الله اکبر کہنا کافی ہوگا . ( منہاج الطالبین ، ان کی دوشرح ” تحفةالمحتاج ” ، ج/4 ، ص/255 تا 257 ، نھایة المحتاج ، ج/8 ، ص/ 134 تا 136 ، الاقناع فی حل الفاظ ابی شجاع ، مع محشیة بجیرمی ،ج/5 ، ص/243 تا 247 کا ملخص )
قربانی کے عیوب پر آئے ہوئے الفاظ پر ایک تبصراتی وتجزیاتی نظر
العوراء : یعنی کانا جانور قربانی کے لئے کافی نہیں ہوتا ہے ، اس لئے کہ کانا پن ایک عیب ہے اور اللہ کی بارگاہ میں عیب دار چیزوں کو پیش کیا جانا مستحسن امر نہیں .
کانا سے مراد وہ جانور ہے جو اپنی دو آنکھوں میں سے ایک سے نہ دیکھ سکے. ،اگر چہ کہ حَدَقَہ ( آنکھ کی درمیانی گول سیاہی ) باقی رہے ، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عور کو بَيِّن کی قید لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اس لئے کہ عوراء. ( جانور ) کے ( قربانی کے واسطہ ) کافی نہ ہونے کا دارومدار تو دو آنکھوں میں سے ایک آنکھ کی بینائی کا جانا ہے ، ( معلوم ہو کہ حدیث میں ” العوراء البین عورھا ” وہ کانا جانور جس کا کاناپن ظاہر ہو ” آیا ہے ، اشارہ اعتراض اسی کی طرف ہے ) جواب دیا جائے گا کہ شافعی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ العور کا اصل وہ سفیدی ہے جو نگاہ کو ڈھانپتی ہے اور جب ایسا ہو تو بعض اوقات وہ ( ڈھانپنا ) تھوڑا سا ہوتا ہے ، ایسے میں ( اس جانور کی قربانی میں ) کوئی ضرر نہیں . ایسے میں ضروری ہوتا ہے کہ اس ( کاناپن ) کو بین کی قید لگائی جائے ، جیسا کہ ترمذی کی آنے والی حدیث میں . ( الاقناع فی حل الفاظ ابی شجاع ،ج/5 ، ص/244
دوسرالفظ ” العَمْيَاء ” ( اندھا ) آیا ہے ، جب قربانی کے لئے کانا جانور ہی ناکافی ہوتا ہو تو اندھا جس کی دونوں آنکھوں کی روشنائی چلی گئی ہو بالاولی ناکافی ہوگا . ( تحفة المحتاج ، نهاية المحتاج ، الإقناع فی حل الفاظ ابی شجاع )
جانور کی نظر کا کمزور ہونا نقصان دہ نہیں ، نہ ہی رات کو دکھائی نہ دینے پر کچھ نقصان ہے . ( نھایة/8 ، ص/ 136 )
العشماء جانور بھی قربانی کے لئے کافی ہوگا ، وہ جانور جس کی نگاہ کچھ کمزور ہو اور غالبی طور پر اس کی آنکھوں سے سیلانِ اشک ہوتا ہو .
المکویة ( لوہے کے آلہ سے داغا ہوا ) جانور کافی ہوگا ، اس لئے کہ یہ گوشت میں کوئی ( برا ) اثر پیدا نہیں کرتا .
العشواء جانور بھی قربانی کے لئے کافی ہوگا ، وہ جانور جو رات کو نہیں دیکھ سکتا ، اس لئے کہ یہ چرنے کے وقت غالبا دیکھتا ہے . ( الإقناع )
اَلْعَرْجَآء ( لنگڑا ) جانور کی لنگڑاہٹ میں سختی ( یعنی زیادہ لنگڑاہٹ ) ہونے پر ہی وہ جانور قربانی کے لئے ناکافی ہوگا ، اس طرح کہ اس کے ساتھی جانور چراگاہ میں اس سے پہلے پہونچتے ہوں اور یہ ریوڑ سے پیچھے رہ جاتا ہو ، اگر اس کے پیر میں تھوڑی سی لنگڑاہٹ ہو ، اس طرح کہ وہ اپنے ساتھیوں سے پچھڑتی نہ ہو تو. ( قربانی میں) کوئی نقصان نہیں ، جیسا کہ روضہ میں ہے . ( الاقناع/ 244 ) اس طرح کہ اچھی چراگاہ میں اپنے ساتھی جانوروں سے پچھڑنا واجب ہوتا ہو ، اور جب یہ ( لنگڑاپن ) نقصان دہ ہے اگر چہ کہ جانور کو ذبح کرتے وقت اس کے بے چین ہونے کے وقت ہو ، تو عضو کے ٹوٹنے یا اس کے نہ ہونے پر بالاولی ناکافی ہوگا . ( تحفہ ، نھایہ ) عضو کے توڑنے میں یہ فعل بھی شامل ہے کہ اگر کسی نے بعض عرقوب ( کھر کا اوپری تھوڑا سا حصہ) کاٹا اس حیثیت سے کہ اگر اس کو کاٹا نہ جائے تو وہ ذابح کے ساتھ چراگاہ میں نہ جاسکتا ہو اور اس نے ارادہِ ذبح کے وقت جانور کے ساتھ ایسا کیا تاکہ ذبح کرنے کے وقت وہ اس پر قدرت حاصل کرسکے ، تو شارح کے آگے گزرے ہوئے قول ” اور نقص خواہ حال میں ہو ، جیسے کسی ٹکڑے کو کاٹنا الخ ” ، اور ان کے یہاں کے قول اور جب نقصان دہ ہو اگر چہ کہ اس ( جانور ) کے ذبح کرتے وقت اس کے پریشان کرنے کے وقت ہو ، تو عضو کو توڑنا اور اس کا موجود نہ ہونا بالأولىٰ ، ( ناکافی ہوگا ) سے متضاد نہ ہو گا . ( شبراملسی، ج/8 ، ص/ 135 تا 136 )
زخمی شدہ اور پھوڑے پھپھولے والا جانور بھی قربانی کے لئے ناکافی ہوگا ، اس کو خارش زدہ جانور سے الحاق کیا جائے گا ، جیسا کہ خارش زدہ جانور قربانی کے لئے ناکافی ہوتا ہے .
واضح طور پر بیمار اور نہایت دبلا پتلا جانور کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو قربانی کے لئے کافی نہیں ہوگا ، اگر تھوڑا سا بیمار ہو تو کوئی نقصان نہیں ، سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں چار عیوب والے ذکر کردہ جانوروں کے ساتھ ان کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں کہ ان کا لنگڑا پن ، کانا پن ، بیماری اور کمزوری اچھی طرح سے واضح ہو ، اگر ان میں یہ عیوب تھوڑے سے ہوں تو یہ تمام جانور قربانی کے لئے کافی ہوں گے . مریض جانور کا مرض اتنا ظاہر ہو کہ اس کی بیماری کی وجہ سے وہ کمزور ہوگیا ہو اور گوشت میں فساد آگیا ہو ، اگر ان میں سے کوئی علت اس کے اندر نہ ہو تو قربانی کے لئے وہ کافی ہوگا .
بیمار جانور میں ” الْهَيْمَآء ” بھی داخل ہوگا ، یہ بھی قربانی کے لئے کافی نہیں ہوگا ، اس لئے کہ علت ھیام علت مرض کی طرح ہے ، جانور چلنے لگتا ہے اور زمین پر گھومتے رہتا ہے چرتا نہیں ، جیسا اس کو زوائد میں کہا . ( الإقناع ) . ھیماء پر بجیرمی لکھتے ہیں کہ وہ جانور جو کسی مکان میں ٹہرتا نہیں ، اسی سے ” الھائم ” ہے ، وہ شخص جو نہ جانتا ہو کہ کدھر جاتا ہے ، بس اپنے پیٹ کی شہوت ( خواہش طعام ) کے پیچھے لگا رہتا ہے . ( 244 )
الحامل ( گاب جانور ) بھی قربانی کے لئے کافی نہیں ہوگا . صاحب تحفہ شیخ الاسلام شہاب الدین بن حجر ہیتمی لکھتے ہیں اور متن ( اور قربانی کی شرط ایسے عیب سے جانور کا سلامت رہنا ہے جو گوشت کو گھٹاتا ہو ) سے سمجھا گیا کہ ” حامل ” کی قربانی کافی نہیں ہوگی ، یہ وہی ہے جو مجموع میں ( امام نووی نے ) اصحاب سے نقل کیا ہے ، اس لئے کہ حمل اس کے گوشت کو کم کرتا ہے جیساکہ فقہاء نے ” عیب المبیع والصداق ” میں صراحتًاکہا ہے ، ابن رفعہ کی مخالفت کو انھوں نے یہ کہہ کر رد کیا کہ منقول پہلا ہی ہے ، اور ان ( ابن رفعہ ) کےاس قول کو بھی کہ گوشت کی کمی جنین کے ذریعہ بھرتی ہوتی ہے ” کو بھی انھوں نے اس جواب سے مسترد کیا کہ گوشت کی زیادتی کسی عیب کو جبر ( بھرتی ) نہیں کر سکتی ، جیسے موٹا لنگڑا یا خارش زدہ جانور ، اور بعض اوقات ( حمل ) بالکل بھی جبر نہیں کرتا ، جیسے علقہ ہونے پر ، جزایں نیست کہ فقہاء نے اس کو زکوٰۃ میں کامل شمار کیا ہے ، اس لئے کہ وہاں پر مقصد نسل کو بڑھانا ہے ، نہ کہ اچھا گوشت حاصل کرنا . ( 255 )
اسی طرح کے مفہوم والی عبارت شمس الدین رملی ( شافعی صغیر ) نے ” نھایةالمحتاج ” میں لکھی ہے . لکھتے ہیں کہ حامل قربانی کے لئے کافی نہیں ہے ، اس لئے کہ حمل جانور کو کمزور بناتا ہے ، اور یہی معتمد ہے ، اس کو مجموع میں زکوٰۃ الغنم کے آخر میں اصحاب سے نقل کیا ہے اور کفایہ میں جو واقع ہے کہ مشہور ( مذہب ) میں کافی ہونا ہے اس لئے کہ گوشت میں جو کمی آتی ہے اس کو جنین جبر ( بھرتی ) کرتا ہے غیر بھروسہ والا ہے . ( ج/8 ، ص/134 )
بجیرمی لکھتے ہیں کہ حامل قربانی کے لئے ناکافی ہے ، اور یہی معتمد ہے ، اس لئے کہ حمل اس کے گوشت کو کم کرتا ہے ، جزایں نیست کہ انھوں نے اس کو زکوۃ میں کامل شمار کیا ہے ، اس لئے کہ اس میں مقصد نسل ہے نہ کہ اچھا گوشت حاصل کرنا . (واللہ اعلم ) .
ذبح کے مسائل
ہر مسلمان عاقل کا ذبیحہ حلال ہے ، ذابح خواہ مرد ہو کہ عورت ، آزاد ہوکہ غلام .
اہلِ کتاب ( یہودی نصرانی اور صابی ) کا ذبیحہ حلال ہے ، اللہ جل مجدہ کے درجٍ ذیل قول سے دلیل اخذ کرتے ہوئے ” وَطَعَامُ الَّذِيْنً اُوْتُوُا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ “. اور ان لوگوں کا کھانا ( ذبیحہ ) جنھیں کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے ، اور تمھارا کھانا ( ذبیحہ ) ان کے لئے حلال ہے . ( سورة المائدہ/5 ) .
قرآن مجید کی آیت کریمہ سے اہل کتاب کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے ، لیکن چند شرائط کے ساتھ ہی ان کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہوگا ، ان میں سے ایک بڑی شرط یہ ہے کہ ان کے ساتھ ہمارے نکاح حلال ہونے کے شرائط پائے جاتے ہوں ، ( اہل کتاب کی عورتوں سے ہمارا نکاح کرنا حلال ہے ، مگر چند شرائط کے ساتھ ، ان شاءاللہ کچھ تفصیل اس قسط کے آخر میں پیش کی جائے گی ) .
مجوسی ( آتش پرست ) وَثَنِي ( ستارہ پرست ) اور مُرْتَد ( اسلام سے پلٹا ہوا شخص ، العیاذباللہ ) کا ذبیحہ حلال نہیں ، نہ ان لوگوں کا جو یہودی اور نصرانی کے دین میں ان کو منسوخ اور تبدیل کرنے کے بعد اس میں داخل ہوئے ہوں ، ( جیسے موجودہ دور میں یہودیت یا نصرانیت اختیار کرنے والے لوگ ، موجودہ دور میں کسی مرزائی کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہوگا ، اس لئے کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری رسول نہیں مانتے ، اور مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنا رسول مانتے ہیں ) دین اسلام آنے کے بعد اسلام کے علاوہ کسی اور دین میں داخل ہونا جائز نہیں ، اللہ جل مجدہ نے فرمایا ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منه ، وھو فی الآخرة من الخاسرين ” اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو طلب کرے تو اس سے وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا . سورة آل عمران/85 ) اور نہ ہی ان لوگوں کا بھی،( ذبیحہ حلال ہوگا ) جن کے تعلق سے ہمیں شک ہو کہ اَیا یہودیت یا نصرانیت میں وہ اس دین کے منسوخ ہونے کے بعد داخل ہوئے ہیں یا اس سے پہلے ؟ جیسے بنو تغلب کے نصاری۔
ذبح کے ارکان
ذبح کے چار ارکان ہیں ، پہلا : جانور کوذبح کرنا . دوسرا : ذبح کرنے والا . تیسرا : ذبیح ، یعنی ذبح کردہ جانور . چوتھا : ذبح کرنے کا آلہ .
شرعی حیثیت سے کھائے جانے والے خشکی کے حیوانوں کا ذبح بالإجماع ( ذبح کرنے کی ) قدرت پائے جانے والے جانور کوحَلْق ( گردن کے اوپری حصہ ) یا ” لَبَّهْ ” یعنی حلق کے نچلے والے حصہ میں ( جو عام طور پر اونٹ کے نحر میں ہوتا ہے ) ذبح کرنے سے حاصل ہوتا ہے ، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بُدَيل بن ورقاء الخزاعی ( رضی اللہ عنہ ) کو منی میں بھیجا کہ وہ منیٰ کے اطراف چلّا کر ( اونچی آواز میں ) کہیں ، ( جیسا کہ ابن تیمیہ کی ” منتقیٰ ” میں ہے ، ” أَلَا! وَاِنَّ الزَّكَوةَ فِيْ الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ ، وَلَاتَعْجَلُوْا الْاَنْفُسَ اَنْ تَذْهَبَ ، وَاَيَّامُ مِنیٰ اَيَّامُ اَكْلٍ وَّشُرْبٍ وَّبِعَالٍ “. سنو! بیشک ذبح حلق اور لبہ میں کرنا ہے ، اور روحوں ( سانسوں ، جانوں ) کے نکلنے میں جلدی نہ کرو ،( یعنی ذبح کرنے کے ساتھ ہی پوری طرح حیوان کی گردن کاٹ کر یا کسی اور طریقہ سے جانور کو بے حرکت نہیں بنایا جائے . جیساکہ بعض قصابوں سے دیکھا جاتا ہے ، بلکہ جانور خود بخود تھنڈا پڑنے کے بعد چمڑا وغیرہ نکال کر صاف کیا جائے ) اور منیٰ کے دن کھانے پینے اور شوہروں ( یا ایک دوسرے سے شادی کرنے ) کے ہیں “. ( دار قطنی )
امیر المؤمنین فی الحدیث علامہ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو ” الإصابة ” کی قسم اول میں ان حضرات سے روایت کیا ہے جنھیں صحبتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل رہا ہے ، اور محدثین نے مذکورہ حدیث کو دوسرے طریقوں سے روایت کیا ہے .
ذبح کئے جانے والے حیوانوں کی قسمیں
ذبح کئے جانے والے حیوانوں کی دو قسمیں ہیں ، پہلی قسم اس حیوان کی جس کو ذبح کرنے پر آدمی کو قدرت حاصل ہو ، اور حیوان کی دوسری قسم وہ ہے جس کو ذبح کرنے کی آدمی میں قدرت نہ ہو ، پہلی قسم کو مقدور علیہ اور دوسری کو غیر مقدور علیہ کہا جاتا ہے . مقدور علیہ حیوان کا ذبح حلقوم یعنی پورا گلا اور مَرِي کو پوری طرح کاٹنے پر ہی حاصل ہوگا ، ان کے ساتھ ” وَدْجَيْن ” ( شاہ رگوں ) کو بھی کاٹنا مستحب ہے ، کیونکہ ان رگوں کے کاٹنے سے روح کو نکلنے میں آسانی ہوتی ہے ، ان کے علاوہ کسی اور چیز کو کاٹنا مستحب نہیں ہے .
اگر کسی نے صرف حلقوم اور مري کو کاٹ کر حیوان کو چھوڑ دیا تو کافی ہوگا ، کیونکہ حلقوم سانس کے آنے جانے کی جگہ ہے ، اور مري کھانے پینے کی جگہ ، ان دونوں نلیوں کو کاٹے جانے کے بعد جان باقی نہیں رہتی ، ” وَدْجَان ” گردن کے دونوں بازووں کی وہ دو رگیں جو حلقوم کو گھیری ہوئی رہتی ہیں ، ان کو کاٹنا شرط نہیں ، کیونکہ اگر کسی حیوان سے ان دونوں رگوں کو نکالا جائے تو وہ زندہ رہ سکتا ہے .
اگر کسی نے مري یا حلقوم کو پوری طرح سے نہیں کاٹا تو ذبیحہ حلال نہیں ہوگا ، اس بات میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کہ حلقوم ، مری اور ودجین کے کاٹنے پر ذبح پوری طرح سے ہوجاتا ہے .
جانور کی کتنی رگیں کاٹی جائیں
اس سلسلہ میں علماء کی مختلف آراء ہیں .
پہلا : ہمارا منصوص ( امام شافعی رحمہ اللہ کا صراحت کے ساتھ کہا ہوا کلام ) مذہب یہی ہے کہ حلقوم اور مری کو پوری طرح کاٹنا شرط ہے ، ان کے ساتھ ودجین کو کاٹ کر حیوان کی روح کو نکلنے میں آسان بنانا مستحب ہے ، یہی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی دو روایتوں میں سے اصح روایت ہے .
دوسرا : امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ان چار میں تین کو کاٹنے پر ذبح حاصل ہوگا ، امام ابو یوسف نے کہا کہ حلقوم اور مری کے ساتھ ودجین میں سے کسی ایک کو کاٹنا شرط ہے ، اور امام محمد اس بات کی طرف گئے ہیں کہ ان چاروں میں سے ہر ایک کا بڑا حصہ کاٹنا شرط ہے .
تیسرا : امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ صرف حلقوم اور ودجین کو کاٹنا واجب ہے .
چوتھا : لیث ، ابوثور اور داؤود ظاہری ائمہ کرام رحمھم اللّٰه نے کہا کہ ان تمام کو کاٹنا شرط ہے ۔
( ” التھذیب ” فقیہ محدث ومفسر امام بغوی کی ، ” منھاج الطالبين ” امام نووی کی ، ” تحفةالمحتاج ” علامہ ابن حجر ہیتمی کی ، ” نھایةالمحتاج “علامہ شہاب الدین رملی کی ، اور فتح المعین کا خلاصہ ) .
کسی کتابی کا ذبح اور اس سے نکاح صحیح ہونے کے شرائط
ذبح کرنے والا مسلمان یا ایسا کتابی ہونا شرط ہے جس سے نکاحِ مسلماناں جائز ہو ، مثلا یہودی یا نصرانی ، بوجہِ اس کے کہ انھوں نے تورات اور انجیل پر ایمان لایا ہے ، اور حیوان غیر مقدور علیہ ہونے کی صورت میں بینا شخص ہو .
اہلِ کتاب سے مسلمانوں کا نکاح چند شرائط کے ساتھ صحیح ہوگا ۔
پہلی شرط : کسی اسرائیلیہ کے آباء واجداد نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد دینِ موسی قبول نہ کیا ہو ۔
دوسری شرط : اس کے اول اور اس کے بعد والے اجداد دینِ موسی میں بعثتِ عیسیٰ ( علیھما الصلوۃ والسلام ) سے پہلے ہی داخل ہو چکے ہوں .
تیسری شرط : عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اس کا اسرائیلی ہونا معلوم نہ ہو ، اگر اس کے پہلے دادا کا دینِ اسرائیل میں بعثتِ عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے قبل داخل ہونے میں شک ہو تو ان سے نکاحِ مسلماناں درست نہیں ہوگا ، جب نکاح ان سے جائز نہیں ہوگا تو ان شرائط میں سے کسی شرط کے فوت ہونے پر ان کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہوگا . ( لیکن احتیاطاً آج کل کے اہل کتاب سے نکاح نہ کرنا اور ان کا ذبیحہ نہ کھانا ہی بہت بہتر ہے ، کیونکہ آج کل اہل کتاب میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو اس قسم کے شکوک سے بالاتر ہوں ، اسی وجہ سے بعض علمائے کرام نے یہودِ یمن کے متعلق فتوی دیا ہے کہ ان میں شک ہونے کی وجہ سے ان کا ذبیحہ حرام ہے ، بلکہ ائمہ کرام سے منقول ہے کہ اہل یمن میں سے ہر ایک نے ایمان قبول کرلیا تھا ، پھر ان میں سے بعض مرتد ہوئے ، اور دور حاضر کے یمنی یہود وہی ہیں . ائمہ کرام کے منقول قول پر ان کا ذبیحہ حرام ہے ، اسی طرح کسی اسرائیلیہ سے بھی نکاح کرنا جائز نہیں ، یہ فقط اہلِ یمن کے یہودیوں کی ہی خصوصیت نہیں ہے ، بلکہ جس اسرائیلی میں بھی اس قسم کا شک ہو وہ پکا اسرائیلی ہی نہیں ہے .
بوقتِ ذبح ” بسم اللہ ” کہنا ائمہ کرام کی نظر میں
فقہائے کرام اس بات پر جمع ہوئے ہیں کہ ذبح کے وقت یا شکار پر پرندہ یا درندہ کو بھیجتے وقت بسم اللہ کہنا مشروع ہے ، لیکن انھوں نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ ذبح کردہ جانور کا کھانا حلال ہونے کے لئے بسم اللہ کہنا شرط ہے یا سنت ؟ اس میں کُل تین مشہور مذاہب ہیں .
پہلا مذہب امام شافعی اور آپ کے اصحاب کا ہے کہ ذبح یا کسی حیوان سے شکار کراتے وقت بسم اللہ کہنا شرط نہیں بلکہ سنت ہے ، ( اس کو ترک کرنا مکروہ ہے ، اگر کسی نے جان بوجھ کر یا بھول کر اس کو ترک کیا تو ذبیحہ اور شکار حلال ہوگا ) ، یہی امام احمد بن حنبل کی ایک روایت ہے ، جس کو انھوں نے امام شافعی سے روایت کیا ہے ، اور یہی امام مالک کی بھی ایک روایت ہے ، اور اس کو ابن عباس ، ابو ہریرہ ، عطاء ، سعید بن المسیب ، حسن ، جابر بن زید ، عکرمہ ، ابو عیاش ، ابو رافع ، طاؤس ، ابراہیم نخعی ، عبدالرحمن بن ابی لیلی ، اور قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے روایت کیا گیا ہے ، ان علماء عظام نے کتاب ، سنت اور قیاس سے استدلال کیا ہے ، کتاب اللہ کی اس آیت کریمہ کے ذریعہ ” حرمت عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل لغيرالله به والمنخنقة والموقوذة والمتردية والنطيحة وما أكل السبع إلا ما ذكيتم “. تم پر مردار ، اور خون اور سُور کا گوشت ، اور غیر اللہ پر ذبح کیاگیا ، گردن گھٹ کر مرا ہوا ، اور لکڑی ( ڈنڈے وغیرہ ) کے ذریعہ مار کر مراہوا ، اوپر سے نیچے ( یا کنویں میں ) گر کر مرا ہوا ، اور سینگ سے مارنے کے ذریعہ مرا ہوا ، اور درندوں کے ذریعہ کھایا ہوا ( حیوان ) حرام ٹہرایا گیا ہے ( سورة المائدة/3 ) اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نو حرام چیزوں کو گنایا ہے ، جن میں بہتا ہوا خون چھوڑ کر پورے کے پورے وہ جانور ہیں جن کا کھانا حرام ٹہرایا گیا ، اور ان جانوروں میں اس ذبیحہ کو شمار نہیں کیا گیا ہے جس کے ذبح کے وقت بسم اللہ چھوڑ دیا گیا ہو ، اگر اس کا کھانا حرام ہوتا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ مذکورہ بالا حرام جانوروں میں اس کو بھی شمار کرتا ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ان حرام جانوروں میں شمار نہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ کو ترک کیا ہوا حیوان حلال ہے ، دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ٹھہرایا ، اگر ذبائح پر بسم اللہ کہنا شرط ہوتا تو اللہ تعالٰی ان کا ذبیحہ حلال نہیں ٹہراتا ، کیونکہ اہل کتاب غالباً جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہتے ہی نہیں ، جیسا کہ دور حاضر میں ہم دیکھتے ہیں ، رہا سنت سے استدلال کرنا کہ بسم اللہ کے نہ پڑھنے سے ذبیحہ کے حرام نہ ہونے کی دلیل ابوداؤد کی روایت کردہ حدیث ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا! ” مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے ، خواہ وہ اللہ کا نام لے یا نہ لے ، بیشک یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ ذکر کرے گا تو اللہ کے نام کا ہی ذکر کرے گا ” ( ابوداؤد ) ، یہ حدیث مرسل ہے ، اس حدیث کو وہ حدیث تقویت پہونچاتی ہے جس کو دار قطنی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے ، کہ انھوں نے کہا کہ ” جب مسلمان ذبح کرے اور ( اس پر ) اللہ کا نام نہ لے ، تو چاہئے کہ وہ اس کو کھا لے ، کیونکہ مسلمان میں اللہ کے نام میں سے کوئی نام رہتا ہی ہے “. ( ابن کثیر ،ج/1 ، ص/492 ، بحوالہ دارقطنی )
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” اسم الله علي قلب كل مسلم ، سمي أو لم يسم “. اللہ کا نام ہر مسلمان کے دل میں ہوتا ہے ، خواہ وہ بسم اللہ پڑھے کہ نہیں . رہا جواب قرآن کریم میں آئی ہوئی آیت کریمہ کا ” ولا تا كلوا مما لم يذكر اسم الله عليه وإنه لفسق “. اور تم ان میں سے نہ کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ، بیشک وہ فسق ( اور شریعت سے خارج ) ہے ( سورة الأنعام ، 121 ) اس سے مراد وہ جانور ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیکر غیراللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ، کیونکہ کفار مکہ اپنے بتوں کے نام پر جانوروں کو ذبح کیا کرتے تھے ، تو مسلمانوں کو ان جانوروں کا گوشت کھانے سے روکا گیا ، یہ ہمارا ( شوافع کا ) مسلک ہے ، اور امام مالک واحمد کی بھی ایک روایت ہے .
دوسرا مسلک امام ابوحنیفہ ، امام مالک کا مشہور مسلک اور دیگر کافی علماء کا ہے ، وہ یہ کہ جانور کو ذبح کرتے وقت یاد رہنے پر بسم اللہ پڑھنا شرط ہے ، بھولنے پر مواخذہ نہیں ، اگر کسی نے عمداً بسم اللہ کو ترک کیا ، تو جانور مردار ہوگا ، اور یہی امام احمد کا ذبیحہ میں مشہور مذہب ہے ، ان علماء عظام نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ سے استدلال کیا ” اور تم اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کے نام کا ذکر نہ کیا جائے اور یہ کہ وہ فسق ہے ( سورة الأنعام/121 )
تیسرا مسلک اہل ظواہر کا ہے ، اگر کسی نے عمداً یا سہواً بسم اللہ کو ترک کیا تو ذبیحہ حلال نہیں ہوگا .
اور شکار کے سلسلہ میں یہی امام احمد بن حنبل کا صحیح مسلک ہے . اور یہ مسلک ابن سیرین ، عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر ، نافع ، عبداللہ بن یزید خطمی ، شعبی اور ابوثور ( رضی اللہ عنہم ) سے منقول ہے .
ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ” اور جس مسلک پر امام شافعی رحمہ نے دستک دی ( کہا ) ہے وہ قوی ہے “. واللہ اعلم بالصواب .
قربانی کی سنتیں
پہلی سنت : مرد کا اگر وہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو تو خود سے قربانی کے جانور کو ذبح کرنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ترسٹھ اونٹوں کو نحر فرمایا تھا اور سو میں سے باقی اونٹوں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نحر کرنے کا حکم دیا تھا . اگر کوئی شخص اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے سے مجبور ہو ، یا قوتِ بینائی سے بے نیاز ہو تو جانور کو ذبح کرنے کے لئے کسی مسلمان فقیہ کو نائب بنانا زیادہ بہتر ہے ، رہی عورت اور خواجہ سرا ( خنثی ) ، تو ان کا کسی شخص کو وکیل بنانا ہی سنت ہے ، حائض یا نفساء کو ذبح کرنے کے لئے کہنا کسی کتابی کو وکیل بنانے کے مقابلہ میں زیادہ بہتر ہے ، کسی کتابی کو کہنا بھی جائز ہے ، جانور کو ذبح کرنے کے لئے بچہ کو نائب بنانا مکروہ ہے .
( نوٹ : کسی کتابی کو وکیل بنانے کے سلسلہ میں چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ، جس کی تفصیل سابقہ ایک قسط میں گذر گئی ، اس کی تفصیل آپ کو ہماری تالیف ” فیضان الفقہ ” کے صفحہ نمبر 449 پر ملے گی ، زیادتئ معلومات کے لئے وہاں ملاحظہ ہوں ، ویسے اگر بالغ نظر اور انصاف سے دیکھا جائے تو موجودہ دور میں کسی کتابی سے ذبح نہ کروانا ہی بہتر ہے ، بوجہ اس کے کہ موجودہ دور کے بیشتر اہل کتاب ان کا دین منسوخ ہونے کے بعد نصرانیت یا یہودیت وغیرہ میں داخل ہوئے ہیں ، ایسے میں ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہوگا )
دوسری سنت : وکیل بنانے والے کا جانور کو ذبح کرتے وقت اس کے پاس حاضر رہنا .
تیسری سنت : قربانی کے جانور کو خوب موٹا تازہ اور چربدار بنانا ، اللہ تبارك و تعالیٰ کا ارشاد ہے” وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ”. اور جو اللہ کی علامات کی تعظیم کرے . ( الحج/32 )
چوتھی سنت : سینگ ٹوٹا ہوا نہ ہونا ، اور نہ ہی غیر سینگ والا ہونا .
پانچویں سنت : ذبیحہ کو نماز عید کے بعد ہی ذبح کرنا .
چھٹی سنت : ذبح کنندہ کا مسلمان رہنا ، کیونکہ ذابح مسلمان ہونے کی صورت میں ہر اس چیز کی نگہبانی کرے گا جو قربانی میں ضروری ہوتی ہے ، برخلاف کسی یہودی یانصرانی کے .
ساتویں سنت : ذبح دن میں کیا جانا .
آٹھویں سنت : ذبح کے لئے نرم جگہ کا انتخاب کیا جانا .
نویں سنت : ذبیحہ کو قبلہ کی طرف کرکے ذبح کرنا اور خود ذابح کا قبلہ کی طرف رخ کر کے ذبح کرنا . (اور اس نویں سنت کی تمام چیزیں سہولت حاصل ہونے کے وقت ہی مسنون ہوں گی ، بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ جانور کو قبلہ کی طرف بآسانی نہیں لایا جاسکتا ، لوگ اس کو زبردستی اور بڑی مشکل سے قبلہ کی طرف کرتے ہیں ، اس کوشش میں جانور بعض اوقات ادھ مرا ہوجاتا ہے ، ایسا بالکل بھی نہیں کیا جائے ، اگر تھوڑی سی کوشش سے جانور کو بآسانی قبلہ کی طرف کیا جاسکتا ہو تو اچھی بات ہے ، زبردستی اور مشکل سے ایسا کرنے سے گریز کیا جائے ، کیونکہ بوقت ذبح جانور کو قبلہ کی طرف کرنا سنت ہے اور جانور کو تکلیف پہونچانا حرام . اور جانور کو قبلہ کی طرف کرنا سے مراد ، صرف اس کی گردن ہے ، نہ کہ پورا جانور ، اس کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے . دوسری بات : جانور کو ذبح کرنے کے بعد تڑپنے کے لئے اس کو پوری طرح چھوڑا جائے حتی کہ اس کی حرکت پوری طرح بند ہوجائے ، کیونکہ جانور کے تڑپنے پر خراب خون نکل جاتا ہے اور بہت ہی بہترین اور ہر بیماری سے پاک وصاف گوشت آپ کو ملتا ہے . ذبح کرنے کے ساتھ جانور کو جلدی ٹھنڈا کرنے کے مقصد سے بعض لوگ اس کے نرخرے وغیرہ میں چھرا گھونپتے ہیں جو بالکل جائز نہیں ، اس قسم کے افعال سے کوسوں دور رہنا ضروری ہے . تیسری اور انتہائی اہم بات : جانور کو تیز چھرے سے ایک مرتبہ ذبح کرنے کے فعل سے ہی ذبح کیا جائے ، یعنی حلق اور مری کو پوری طرح کاٹا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ شاہ رگیں بھی کٹتی ہیں تو اور بھی اچھا ہے ، اگر جانور کے اس ( ذابح ) سے نبرد آزما ہونے کی وجہ سے اس کی دونوں نلیوں کو پوری طرح کاٹنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا اور پھر تھوڑی دیر کے بعدپوری طرح اس کو ذبح کیا تو وہ جانور حرام ہوگا ) .
دسویں سنت : ذبح کے وقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا نام لینا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنا اور یہ دعا پڑھنا : أَللّٰھُمَّ ھٰذَا مِنْكَ وَإِلَیْكَ فَتَقَبَّلْ مِنَّا . ترتیب اس طرح ہے بسم الله الرحمن الرحیم ،اللھم صل وسلم علی رسولك سیدنا محمد . اللھم ھذامنك والیك فتقبل منا . اے اللہ! یہ تیری جانب سے ہے اور تیرے لئے ہے ، سو تو اس کو ہماری طرف سے قبول فرما . ( منھاج الطالبين ، تحفة المحتاج ، نھایة المحتاج ، إعانة الطالبين ، ج/2، ص/334 ، اور تھذیب کا ملخص ) .
ہدي کی تعریف
ہدي قربانی میں کافی ہونے والے ان مویشیوں کو کہتے ہیں جو حرم کی طرف اللہ جلت عظمتہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ہدیہ کئے جاتے ہیں . ہدي سے مراد یہاں پر قربانی کیا جانے والا جانور ہے . اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے نام پر بطورِ قربانی کوئی جانور : اونٹ ، بیل ، بھینس ، یا بکری ذبح کرے تو اچھا سا فربہ تازہ اور خوبصورت جانور ذبح کیا جانا چاہئے ، کیونکہ وہ اُس ذاتِ عالی کی خوشنودی ، اس کی رضاجوئی اور اس کا قرب حاصل کرنے کے مقصد سے جانور ذبح کررہا ہے جو خود بھی جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے .
قربانی کے لئے سفید جانور محبوب ترین ہے
سفید رنگ کا جانور قربانی کے لئے تمام رنگوں سے افضل ہے ، حتی کہ ایک اچھے خاصے موٹے تازے سفید رنگ کے مثلاً بکرے کی قربانی کرنا دوسرے کسی بھی رنگ اور کالے دو بکروں کو قربانی کرنے کے مقابلہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس زیادہ پسندیدہ ہے .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” لَدَمٌ عَفْرَآءُ عِنْدَ اللَّهِ اَحَبُّ مِنْ دَمَيْنِ سَوْدَآءَيْنِ “. یقینا عفرآء خون اللہ ( تعالیٰ ) کے پاس دو کالے خون سے زیادہ محبوب ہے . ( احمد ، ابن ماجہ ) .
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عفراء سے مراد وہ خالص سفید جانور ہے جس پر کسی بھی قسم کا کوئی دوسرا دھبہ ( داغ ) نہ ہو .
قربانی کے لئے افضل جانور
قربانی کے لئے سب سے افضل جانور کونسا ہے ؟
علمائے کرام اس بات پر جمع ( متفق ) ہوئے کہ قربانی کے لئے افضل ترین جانور اونٹ ہے ، پھر گائے ، اس کے بعد بکری ، اسی ترتیب پر ، کیونکہ اونٹ فقراء کے لئے اس کے بڑے ہونے کی وجہ سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے ، اسی طرح گائے بکری کے مقابلہ میں زیادہ فائدہ مند ہے ۔ البتہ انھوں نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ ایک شخص کے لئے زیادہ افضل کونسا جانور ہے ؟ کیا وہ اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ قربانی کرے ، یا ایک بکری کو ذبح کرے ؟ ظاہر یہی ہے کہ فقیروں کو جس جانور سے زیادہ نفع پہونچتا ہو اسی جانور کا انتخاب کرکے قربانی کی جائے ۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب ، وعلمہ اتم ولازال .
قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کا وقت
قربانی کے جانوروں کے ذبح کرنے کا وقت بالاجماع یومِ نحر کا آفتاب طلوع ہو کر ایک نیزہ کے برابر بلند ہو کر دو رکعتیں اور دو خفیف خطبے پڑھنے کی مقدار ، وقت گذرنے کے بعد سے شروع ہو کر ایام تشریق کے غروبِ آفتاب سے پہلے تک رہتا ہے ، دن میں ہو کہ رات میں ( تاہم قربانی دن میں کرنا زیادہ بہتر ہے ، اور بلاحاجت ومصلحت رات میں کرنا مکروہ ) صحیح حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” عَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفْ ، وَاَيَّامُ مِنَى كُلِّهَا مَنْحَرْ “. پورا عرفہ ٹہرنے کی جگہ ہے اور منیٰ کے پورے دن نحر کرنے کے اوقات ہیں . ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ” فِيْ كُلِّ اَيَّامِ التَّشْرِيْقِ ذَبْحٌ “. ایامِ تشریق کے ہر دن ذبح ہے . ( تحفة المحتاج/257 )
جو شخص مقررہ وقت سے پہلے ذبح کرے گا تو اس کا وہ ذبح قربانی کے لئے کافی نہیں ہوگا ، بلکہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے گھر والوں کے لئے کوئی جانور ذبح کرتا ہے ۔
ایام تشریق ہمارے پاس عید کے بعد والے تین دن ہیں اور ائمہ ثلاثہ رحمھم اللہ جمیعا کے نزدیک دو دن .
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پاس دیہاتیوں اور ان جیسے لوگوں کو طلوع فجر کے بعد ذبح کرنا جائز ہے ، کیونکہ ان کے پاس اُن لوگوں کے لئے عیدین کی نماز مشروع نہیں . واللہ اعلم .
پھر قربانی کے جانور ذبح کئے جانے والے دنوں میں کئی اقوال ہیں ، پہلا قول : ذبح صرف یوم نحر ہی میں کیا جائے . دوسرا قول : تمام لوگوں کے لئے ذبح کرنے کا وقت یوم نحر اور اس کے بعد والا ایک دن ہے . ( تاہم یہ دونوں قول ضعیف ہیں ) . تیسرا قول : یوم نحر کے علاوہ اس کے بعد والے دو دن قربانی کرنے کے ہیں ، یہی ائمہ ثلاثہ کے معتمد اقوال ہیں. چوتھا قول : یوم نحر اور اس کے بعد والے تین دن ہیں ، یہی ہمارے امام امام شافعی کا قول ہے ، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” ایام التشریق کلھا ذبح ” ایام تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے ہیں . ( احمد ، ابن حبان ) ( تفسیر ابن کثیر ، جلد ثانی ، ص/435 )
قربانی کے جانور کا کتنا گوشت کھایا جائے ؟
سنت قربانی میں سے کم از کم تھوڑا ہی سہی؛فقراء کو گوشت دینا واجب ہے ، فقراء کو گوشت دینا سے مراد گوشت ہے ، صرف کلیجہ یا تِلِّی دینا کافی نہیں ہوگا ، بلکہ گوشت ہی دینا ضروری ہے ، ہاں! گوشت کے ساتھ تلی یا کلیجی وغیرہ دی جاسکتی ہے ، اس کے لئے مندجہ ذیل آیت کریمہ سے دلیل اخذ کی گئی ہے ، اللہ جل مجدہ نے فرمایا ” فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوْا القَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ” سو تم ان ( سنت قربانی کئے ہوئے اونٹوں ) میں سے کھاؤ اور سائل وغیرہ کو کھلاؤ . ( سورة الحج/36 )
ہاں! ذبیحہ کو تین حصوں میں باٹنا بھی مسنون ہے ۔ایک حصہ کھانے کے لئے رکھا جائے ، دوسرا صدقہ ، اور تیسرا ہدیہ میں دیا جائے .
چرمِ قربانی کو صدقہ کرنا ضروری ہے ، ان جانوروں کی کسی بھی چیز کو فروخت کرنا جائز نہیں ، ذبیحہ خواہ مسنون ہو کہ واجب . ذبح کنندہ کو مسنون ذبیحہ کا گوشت مالداروں کو کھلانا بھی جائز ہے ، لیکن ان کو گوشت کا مالک بنانا جائز نہیں ، مثلاً گوشت کو اس طرح دینا کہ میں نے تم کو اس کا مالک بنایا ، تمہیں اختیار ہے ، چاہے اس کو فروخت کرو یا خود کھاؤ .
قربانی کے گوشت کی ذخیرہ اندوزی کرنا
قربانی کے گوشت کو تین دنوں سے زیادہ دنوں تک فریج وغیرہ میں جمع کرکے رکھنا جائز ہے ، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اِنِّيْ كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ اِدِّخَارِ لُحُوْمِ الْاُضَاحِيْ فَوْقَ ثَلَاثٍ ، فَكُلُوا وَادَّخِرُوْا مَابَدَا لُكْمْ ” میں نے تمہیں قربانی کے گوشت کو تین دنوں سے زیادہ ذخیرہ اندوزی کرنے سے منع کیا تھا ، پس تم کھاؤ اور جو تمہیں ظاہر ہوتا ہے ( جتنے دنوں تک گوشت کھائے جانے کے لائق رہتا ہے ) جمع کرو . ایک روایت میں” سو تم کھاؤ ، ڈھیر کرو اور صدقہ کرو کے الفاظ آئے ہیں . ( ابن کثیر، ج/2 ، ص/435 )
علامہ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی امام شافعی وغیرہ کی توجیہ کو نقل کرتے ہوئے کہا! شافعی نے کہا! شاید علی ( رضی اللہ عنہ ) کے پاس اس حدیث کے منسوخ ہونے کی بات نہیں پہونچی ہے ، اُن کے غیر نے کہا! اس بات کا احتمال ہے کہ علی نے جس وقت یہ بات کہی ہو ، یہ وہ وقت ہو جس میں لوگ ( گوشت کے زیادہ ) محتاج ہوں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہوا تھا ، اور ابن حزم نے اسی پر جزم کیا ، کہتے ہیں! علی نے تو مدینہ میں اُس وقت خطبہ دیا تھا جس میں عثمان ( رضی اللہ عنہما ) کو محصور کیا گیا تھا اور اہلِ بوادی کو ( سخت ) تنگئ ( جوع ) کی وجہ سے مدینہ کی طرف آنے کی آزمائش نے دوچار کیا ، اسی وجہ سے علی نے ( اپنے خطبہ ) میں یہ کہا ، میں ( ابن حجر ) کہتا ہوں! بہرحال عثمان کے محصور ہونے کے وقت علی نے جو خطبہ دیا اُس حدیث کو طحاوی نے لیث کے طریقہ سے ، عقیل سے ، زہری سے روایت کیا ہے ، اُن کے الفاظ یہ ہیں ” صَلَّيْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْعِيْدَ وَعُثْمَان مَحْصُوْرٌ “. میں نے علی کے ساتھ عید کی نماز اس حالت ( وقت ) میں پڑھی جس وقت عثمان قید کرلئے گئے تھے . { طحاوی } . رہی بات ( خطبہ میں کہی ہوئی بات کو ) مذکور وجہ پر محمول کرنے والی ، وہ اس روایت سے ثابت ہے جس کو احمد اور طحاوی نے بھی مخارق بن سلیم کے طریقہ سے علی سے روایت کیا ہے جو مرفوع ہے ” اِنِّيْ كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ … ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْاَضَاحِيْ اَنْ تَحْبِسُوْهَا بَعْدَ ثَلَاثٍ ، فَاَحْبِسُوْا مَا بَدَا لَكُمْ ” میں نے تمہیں روک دیا تھا… ، اور میں نے تمہیں اضاحی کے گوشت کو تین ( دنوں کے ) بعد روکے رکھنے کو منع کیا تھا ، پس ( اب ) تم جو ظاہر ہو ( جتنے دن چاہو ) روک رکھو . { احمد ، طحاوی ، یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ، احمد نے اس کو اپنی مسند ” مسند العشرة المبشرين بالجنة ” میں مسند علی رضی اللہ عنہ میں روایت کیا ہے ، [ ٢ / ٢٩٧ ، رقم : ١٢٣٥ ] ارنوط نے اپنی مسند پر لکھی ہوئی ” تعلیق ” میں کہا! صحیح لغیرہ ہے } پھر طحاوی نے اس کو اسی طرح جمع کیا جو آگے گزرا.
شافعی ( رحمہ اللہ ) کہتے ہیں! اور اس بات کا احتمال ہے کہ لحوم اضاحی کو تین دنوں کے بعد روکے رکھنے کی نہی ہر حال میں منسوخ ہو . میں ( یعنی ابن حجر ) کہتا ہوں! اور اسی کو شافعیہ متأخرین نے اخذ کیا ہے ، رافعی نے کہا! ظاہر یہی ہے کہ یہ آج بھی کسی حال میں حرام نہیں .
اور ابن عبدالبر سے ان کے قول کو نقل کیا گیا ہے! فقہائے مسلمین کے درمیان لحوم اضاحی کو تین دنوں کے بعد کھانے کی اجازت دینے کے سلسلہ میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ، اور یہ کہ اس کے تعلق سے آئی ہوئی نہی منسوخ ہے . { التمھید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید ، ابن عبدالبر ، تحقیق : محمد الفلاح ، مطبعہ فضالہ ، المغرب }
قصاب کی اجرت قربانی کے جانور میں سے نہ دی جائے
اور قصائی کی مزدوری قربانی کئے ہوئے جانور سے دینا جائز نہیں ، البتہ قربانی کا گوشت انہیں صدقہ کے طور پر دیا جاسکتا ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ” مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ کی اونٹنی پر کھڑا رہوں ، اس کی کھال اور زین کو تقسیم کروں ، ( ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ قربانی کے جانور کی جِلد اور کوئی چیز فروخت نہ کی جائے ) اور مجھے حکم دیا کہ میں اس میں سے کچھ بھی قصائی کو ( مزدوری کے طور پر ) نہ دوں “. اور فرمایا! ” نحن نعطیه من عندنا ” ہم اس کو اپنی جانب سے دیں گے . ( بخاری مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی نسائی ، ابن ماجہ )
حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ کسی کو نائب بنا کر اپنی قربانی اس سے ذبح کروایا اور اس کے گوشت اور چمڑے کو بھی اسی سے تقسیم کروایا جاسکتا ہے اور اس بات کی بھی دلیل ہے کہ محنتانہ کے طور پر قصاب کو قربانی کردہ جانور میں سے کچھ بھی نہیں دیا جائے ، اس کے کام کی مزدوری مالک کو اپنی جانب سے دینا ضروری ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ” ہم اس کو ہماری جانب سے عطا کریں گے》سے استدلال کرتے ہوئے .
حضرت حسن سے منقول ہے ، انھوں نے کہا کہ ” قصائی کو چرمِ قربانی دینے میں کوئی حرج نہیں ” ( آپ رحمہ اللہ کے قول کو بطور صدقہ یا ہدیہ پر محمول کیا جائے گا ، والله اعلم بالصواب ، والیه المرجع والمآب ) .
نوٹ : جو شخص عید یا ایام تشریق میں سنت قربانی کرنا چاہتا ہے وہ ذو الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی تک بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے .
سنت قربانی کے چند ضروری مسائل
پہلا مسئلہ : سنت قربانی کے ایک بڑے جانور جیسے اونٹ ، بیل اور بھینس میں سات آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں ، اس سے زیادہ نہیں . سات لوگوں کا ہونا ضروری ہے اور نہ شرط . سات سے کم جتنے بھی افراد ہوں ان کی جانب سے ایک بڑ ے جانور کی قربانی کرنا جائز ہے .
(1) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، کہتے ہیں کہ ” نَحَرْنَا مَع رَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ “. ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ کو سات ( افراد ) کی جانب سے نحر کیا اور گائے کو سات کی جانب سے . ( مالک ، احمد ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، بیہقی وغیرہم ) . چونکہ حج وداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک جمِّ غفیر کے ساتھ حج ادا کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑے جانور میں سات حاجیوں کو شامل ہونے کا حکم دیا ، اگر ایک جانور میں اس سے زیادہ کی وسعت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیتے .
(2) ایک روایت میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ” اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنْ نَشْتَرِكَ کُلَّ سَبْعَةٍ فِیْ بَدَنَةٍ ، وَنَحْنُ مُتَمَتِّعُوْنَ “. ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم ہر سات ( حاجی ) ایک اونٹ میں شریک ہوں ، اور ہم نے حج تمتع کا احرام کیا ہوا تھا
(3) سیدنا جابر کی ایک اور حدیث میں آتا ہے ، کہتے ہیں کہ” خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّيْنَ بِالْحَجِّ ، فَاَمَرَنَا اَنْ نَشْتَرِكَ فِیْ الْاِبِلِ وَالْبَقَرِ ، كُلَّ سَبْعَةٍ مِنّا فِیْ بَدَنَةٍ “. ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام کئے ہوئے نکلے ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اونٹ اور گائے میں شریک ہونے کا حکم دیا ، ہم میں سے ہر سات کو ایک اونٹنی میں .
(4) ایک اور روایت میں آپ نے کہا!” اِشْتَرَكْنَا كُلَّ سَبْعَةٍ فِیْ بَدَنَةٍ ” ہم ہر سات ایک اونٹنی میں شریک ہوئے . ( حدیث کو مسلم نے کتاب الحج کے ” باب الاشتراک فی الھدی واجزاء البقرة والبدنة عن سبعة ” میں بیان کیا ہے ) . [ تلخیص الحبیر ، ج/4 ، ص/347 تا 348 ]
شیخ الاسلام شہاب الدین ابن حجر ہیتمی ” تحفة المحتاج ” اور شیخ شمس الدین محمد شہاب الدین رملی ” نھایة المحتاج ” میں اپنے ماتن امام نووی کی ” منھاج الطالبین ” کی عبارت کے ساتھ لکھتے ہیں ” اور اونٹ اور گائے سات گھروں ( یا سات اشخاص ) کی جانب سے کافی ہوگا ، اس میں نَصّ وارد ہونے کی وجہ سے . ( یعنی مسلم کی سیدنا جابر کی گذری ہوئی حدیث )
کافی ہوگا سے مراد ایک بڑے جانور میں سات لوگوں تک کی ہی وسعت ہے ، اس سے زیادہ کی نہیں ، اگر ایک اونٹ یا دو الگ الگ اونٹوں میں سات سے زیادہ افراد شریک ہوئے تو یہ قربانی کے لئے کافی نہیں ہوگا ، کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی ( کسی اونٹ سے مکمل ) ساتواں حصہ نہیں پایا ہے . [ حاشية بجيرمي علی الاقناع فی حل الفاظ ابی شجاع ، ج/5 ، ص/241 ]
مسئلہ : اگر آٹھ لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ سات ہی لوگ ہیں کسی بڑے جانور کی سنت قربانی کی تو اُن میں سے کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی . ( تحفہ ، نہایہ )
مسئلہ : آگر دو لوگوں نے دو الگ الگ بکریوں میں شریک ہو کر قربانی ( یا ہدی ) کی تو کافی نہیں ہوگا ۔ [ تحفہ ، نہایہ ، بجیرمی ، ج/4 ، ص/240 ] . ( کیونکہ دونوں میں سے ہرایک آدھی آدھی بکری کے مالک ہوئے ہیں )
سات سے کم ایک دو تین یا چار لوگ بھی ایک بڑے جانور کی قربانی کرسکتے ہیں ، ایسے میں ساتویں حصہ سے زیادہ گوشت سنت ہوگا .
مسئلہ : اگر کسی شخص ( یا کئی اشخاص ) نے ( بکری کے بدلہ میں ) [ اعانہ ، بجیرمی ] ایک اونٹ یا گائے کو ذبح کیا تو سُبُع ( ساتویں حصہ ) سے زائد والا گوشت تطوع ( سنت ) ہوگا ، اگر چاہے تو اس کو تطوع ( سنت صدقات ) صرف کرنے کی جگہ پر صرف کرے . { نھایہ ، اعانہ ، بجیرمی }
علامہ بجیرمی آگے لکھتے ہیں : اور اسی طرح اگر تین لوگ اپنے اُن غير لوگوں کے ساتھ جو ( سنت ) قربانی کا ارادہ نہ رکھتے ہوں ، ( کے ساتھ شریک ہونے پر ) سو ان تینوں میں سے ہر ایک پر اپنا ساتواں حصہ صدقہ کرنا واجب ہے ، تمام کی جانب سے ایک ہی شخص کا صدقہ کرنا کافی نہیں ہوگا. اور اسی طرح اگر کوئی شخص ( سات لوگوں کی جانب سے ) سات بکروں کی ( سنت ) قربانی کرتا ہے تو اس کا ہر ایک کی جانب سے صدقہ کرنا واجب ہے ، اس لئے کہ یہ سات قربانیوں کے مقام پر ہے . { بجیرمی ، ج/5 ، ص/241 }