زبان اپنی تاثیر میں مانند شھد ہے یا زہر ؟ 

0
2509

رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری

شھد ایک ایسی مرغوب شئ ہے جسے ہر انسان پسند کرتا ہے کیونکہ وہ صحت اور علاج و معالجہ کے لئے بہت مفید ہے . لہذا حکماء و اطباء بھی اسے کارآمد و مفید مانتے ہیں . اور کیوں نہ ہو قرآن نے بھی اس میں شفا کی شہادت دی ہے اور انسانوں کے لئے ایک کارآمد چیز قرار دیا ہے . چنانچہ ارشاد ربانی ہے ” و أوحي ربك الی النحل أن اتخدی من الجبال بیوتا و من الشجر و مما یعرشون ہ ثم کلي من کل الثمرات فاسلکي سبل ربك ذللا يخرج من بطونھا شراب مختلف ألوانه فیه شفاء للناس إن في ذلك لاية لقوم يتفكرون ہ

اور تمھارے پروردگار نے شہد کے مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑ وں میں اور درختوں میں اور لوگ جو چھتریاں اٹھاتے ہیں ان میں اپنا گھر بنا . پھر ہر قسم کے پھلوں سے اپنی خوراک حاصل کر . پھر ان راستوں پر چل جو تیرے رب نے تیرے لئے آسان بنا دئے ہیں . اس مکھی کے پیٹ سے ان مختلف رنگوں والا مشروب نکلتا ہے جس میں لوگوں کیلئے شفا ہے . یقیناً ان سب باتوں میں ان سب لوگوں کے لئے نشانی ہے جو سوچتے سمجھتے ہوں اور زہر ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان خوف کھاتا ہے اور دور بھاگتا ہے اور اس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے ، کیونکہ وہ انسانی جان کے لئے ہلاکت کا سبب بنتا ہے .

یہی مثال زبان کی بھی ہے کہ اگر انسان اس کا صحیح استعمال کرے تو وہ اس کے لئے مانند شہد ہے اور اگر اس کا غلط استعمال کرے تو وہ اس کے لئے مانند زہر ہے . کیونکہ اگر انسان کی زبان ، انداز سخن اور لہجہ اچھا ہو . باتوں میں ایسی لطافت و شیرینی ہو.جس سے انسان کا دل شاداں اور فرحاں ہوتا ہو اور قلب میں محبت پیدا ہوتی ہو تو اس سے خیر وجود میں آتا ہے اور لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور اجنبیت کو انسیت میں بدل دیتے ہیں جس سے ایک صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے اور ان میں آپسی محبت کی مثال ایک جسم کے مانند ہوتی ہے کہ اگر اس کے کسی حصہ میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کو محسوس کرتا ہے .

اِسکے برعکس زبان شدت ، سَب و شتم ، چرب زبانی ، غلط بیانی ، جھوٹ اور فریبی باتوں کی عادی ہو تو اس سے معاشرہ بدامنی اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے اور چین و سکون کی زندگی سے محروم ہو جاتا ہے . لہذا زبان کے تعلق سے ان تمام باتوں سے اجتناب ضروری ہے جو زبان کے آفات کے دائرہ میں شامل ہوتی ہوں .

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جتنی بھی نعمتیں عطا کی ہیں ان کے صحیح استعمال سے اچھے اور غلط استعمال سے برے اثرات رونما ہوتے ہیں منجملہ ان میں سے ایک زبان بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ہڈی کے بنایا ہے . تاکہ انسان کے لئے اس کا استعمال آسان ہو اور وہ اس سے بے شمار فوائد حاصل کر سکے . لہذا انسان پر ضروری ہے کہ وہ اس کے استعمال میں احتیاط سے کام لے اور اسے اللہ کی دی ہوئی ایک نعمت سمجھے . جس طرح انسان اپنے دیگر اعضاء کا محاسبہ کرتا ہے بالکل اسی طرح زبان کا محاسبہ بھی ضروری ہے . اللہ نے دنیا میں کوئی بھی شئ بےکار اور بے فائدہ نہیں بنائی ہے بلکہ ہر چیز اپنے اندر کچھ فوائد رکھتی ہے لیکن کچھ فوائد انسان کے احاطہ علم سے باہر ہوتے ہیں . انسان کا ہر عضو ایک خاص اہمیت و افادیت کا حامل ہے . انہی میں سے ایک عضو زبان بھی ہے جسے وہ کثرت سے استعمال کرتا ہے خواہ وہ تعلیم و تعلم ، گفتگو ، معاملات کے اعتبار سے ہو . یا سفر و حضر ، گھر بار ، دوست و احباب اور رشتہ داروں کے مابین امور سے متعلق ہو .

لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ انسان زبان کے استعمال میں بے باک ہوتا ہے اور اسے بآسانی اپنی منشا کے مطابق استعمال کرتا ہے اور اس کا احساس بھی دل میں نہیں ہوتا کہ اس کی زبان سے کتنے قلوب مجروح ہو رہے ہیں .

قرآن میں جن منھیات کا تذکرہ ملتا ہے انہی میں سے ایک زبان کی بے احتیاطی بھی ہے جس کے غلط استعمال سے انسانی زندگی پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ انسان کبھی اپنی زبان سے ایسے الفاظ نکالتا ہے جو دیکھنے میں معمولی سے ہوا کرتے ہیں . مگر اپنی بری تاثیر سے اس کے حق میں قعر مذلت کا سبب بنتے ہیں اسی طرح معاشرہ کے بگاڑ و فساد میں بھی زبان کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے بسا اوقات اس کا وار تلوار و تیر سے زیادہ سخت ہوتا ہے جس کی طرف کسی عربی شاعر نے اپنے اس شعر میں اشارہ کیا ہے .

جراحات السنان لھا التیام

ولا یلتام ما جرح اللسان

یعنی تیروں اور نیزوں کے زخم بھرے جا سکتے ہیں لیکن زبان سے لگا ہوا زخم بھرا نہیں جا سکتا

ہمیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ انسان زبان کے غلط استعمال سے اپنے اوپر خود مصیبت مول لیتا ہے اور اپنی شخصیت کو بھی مجروح کرکے لوگوں کی نظروں میں گر جاتا یے . کیونکہ زبان کی بے احتیاطی ساری برائیوں کی جڑ ہوا کرتی ہے . لہذا قرآن نے اس کے صحیح استعمال کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ

” یا ایھاالذین آمنوا اتقوا الله و قولوا قولا سدیدا یصلح لکم اعمالکم ویغفرلکم ذنوبکم

اے ایمان والو اللہ کا تقوی اختیار کرو اور جچی تلی بات کہو . وہ تمھارے کاموں کو بنا دے گا اور گناہوں کو معاف کر دے گا

ایک حدیث میں آیا ہے کہ تم دو چیزوں کی ضمانت لے لو میں تمہارے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں الفم و الفرج یعنی منھ اور شرمگاہ

ایک اور جگہ ” و ھل یکب الناس علی وجوھھم الا حصائد السنتھم ” کے الفاظ آئے ہیں . یعنی لوگوں کو جھنم میں منھ کے بل ان کی زبان کے کرتوت ہی لے جائیں گے .

زبان ہزاروں خرابیوں کی جڑ ہے . آدمی کچھ نہیں تو اپنی مدح سے ہی ابتداء کر لیتا ہے جس سے اس کے اندر تعلی کا احساس ابھرنے لگتا ہے جو اس کے لئے نقصان کا سبب بنتا ہے .

معلوم ہوا کہ زبان کا استعمال اگر اپنے حدود میں رہ کر پورے تحفظ کے ساتھ ہوگا تو دنیا و آخرت میں خیر کا سبب بنے گا ورنہ باعث شر و فساد .

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری بد کلامی اور زبان کے شرور و آفات سے حفاظت فرمائے اور اس کے صحیح استعمال کی توفیق عطا فرمائے . آمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here