تعلیم کے ساتھ ساتھ تجرباتی علم سے استفادہ کی ضرورت و اہمیت

0
1921

راقم سطور : محمد زبیر ندوی شیروری کرناٹکی

تعلیم انسان کے لئے ریڈھ کی ہڈی کے مانند ہے . جس طرح انسان ریڈھ کی ہڈی کے بغیر کھڑا نہیں ہو سکتا بالکل اسی طرح وہ بغیر علم کے کسی کام کو کما حقہ انجام نہیں دے سکتا . اور نہ ہی کسی کام میں کامیابی اور فوز و فلاح پا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی شخصیت کو سنوار کر قوم و ملت کے لئے اپنے روشن خیالات کو پیش کر سکتا ہے.اور نہ ہی قوم کے لئے صحیح رہنمائی کا کام کر سکتا ہے . اس لئے کہ علم انسان کے لئے ہدایت کا ذریعہ بن کر اس کو قعر مذلت سے نکالتا ہے اور سربلندی عطا کرتا ہے اور تنزلی کا شکار ہونے نہیں دیتا ہے . اس لئے اولاد کی تعلیم و تربیت والدین کی ایک اہم ذمہ داری ہے .

اسی طرح انسانی زندگی کے نشیب و فراز اور عروج و زوال میں روز افزوں حاصل کئے گئے تجربات اور مشاہدات سے اپنی اولاد کو بھی روشناس کرانا ضروری ہے . اس لئے کہ انسان کو علم کے ساتھ ساتھ ، عمل عمدہ تجربات ، روشن خیالات اور بہترین صحبت کی ضرورت ہوتی ہے . لہذا والدین پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے تجرباتی علم سے بھی آگاہ کرتے رہیں .

اسی زاویہ سے اگر ہم آج کے اس جدید ٹکنالوجی دور پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں جدید تعلیم پر توجہ دینے والے بیشمار ماں باپ ملیں گے لیکن تجرباتی علم سے انھیں آراستہ کرنے سے محروم رکھیں ہوں گے .

والدین اپنی اولاد کے لئے بہت سارے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں جنھیں شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے وہ کوشاں رہتے ہیں . منجملہ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ انھیں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے ممکنہ حد تک راحت اور چین و سکون کے مواقع فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اپنی اولاد کو سخت کوشی پسند نہیں کرتے جو انسان کی زندگی کے لئے لازم و ملزوم شئی ہے . لہذا وہ اپنی پوری زندگی اسی فکر میں کھپاتے ہیں اور تاحیات یکے بعد دیگرے مشقتوں اور مصائب و آلام کی چکی میں پیستے رہتے ہیں . کامیابی کی تلاش میں اپنے راحت و آرام کو پس پشت ڈالتے ہیں حتی کہ پوری زندگی اسی کدو کاوش میں گذر جاتی ہے . لیکن جب زندگی کا ایک بڑا حصہ گزر جاتا ہے اور ان کے اعضاء جواب دینے لگتے ہیں یا کسی مرض کے باعث علالت کی زندگی گذار رہے ہوتے ہیں اور قوت میں ضعف آنے لگتا ہے اور ان حالات میں اولاد اپنی جوانی کی زندگی میں مگن ہو کر والدین کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی برتنے لگتی ہے تو ان حالات میں سوچنے والے کا دھیان سب سے پہلے ان کے والدین کی طرف جاتا ہے کہ کیوں انھوں نے اپنی اولاد کی توجہات اس طرف مرکوز نہیں کرائی اور انھیں کیوں نہیں سخت کوشی کی زندگی گذارنی سکھائی ؟ اور کیوں نہیں انھیں اپنی زندگی کے تجرباتی علم سے آگاہ کرایا ؟

اس سوال پر غور و فکر کرنے والے کے دماغ میں بالآخر یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ والدین نے اپنی اولاد کو زندگی کے مختلف مراحل میں پیش آمدہ تجربات سے  روشناس نہیں کرایا اور صرف ان کے ہاتھوں میں تعلیم کی ڈگریاں تھمادیں لیکن تجرباتی زندگی سے ناآشنا رکھا اور صرف تعلیم کو ہی کامیابی کا زینہ سمجھا اور انھیں اپنے تجرباتی علم سے محروم رکھا جس کے نتیجہ میں اولاد والدین کو بوجھ سمجھنے لگی اور انھیں یہ کہ کر کوسنے لگی کہ ان کے خیالات پرانے اور عقل کمزور ہے اور زمانہ جدید ٹکنالجی کا ہے . حالانکہ یہ وہی والدین ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی تکالیف مصائب و آلام میں گزاری.جن کے پاس زندگی کے بے شمار تجربات کا علم تھا لیکن اولاد والدین کی غفلت سے اس سے صحیح استفادہ نہیں کر سکی حالانکہ وہ اولاد کیلئے ایک روشن و سنہرہ باب تھے .اور ان کے تجربات و مشاہدات گردش زمانہ اور تاریک رات میں اک روشن چراغ تھے اور معاشرہ کے اندر ہونے والی تمام برائیوں کے تدارک کیلئے بہترین اسوہ تھے .

لہٰذا اولاد کے لئے اپنے والدین بزرگوں اور صلحاء و علماء کی صحبت اختیار کرنا اور ان کے تجربات و مشوروں سے مستفید ہونا بھی ضروری ہے .

مگر افسوس کہ آج اولاد مغربی تہذیب پر نازاں ہے حالانکہ انکے سامنے مشفق والدین کے تجرباتی علم کی باتیں بھری پڑی ہیں جن سے استفادہ نہ کرنے کی صورت میں وہ اپنے والدین کی توقعات کے مطابق نہیں اتر پاتی.

لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اولاد کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تجربات سے بھی روشناس کرائیں تاکہ وہ مستقبل میں اس سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے ایک کامیاب زندگی گذار سکے .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here