امسال 2020 ء شعبہِ عالمیت سے فارغ التحصیل ونلی کمٹہ کے اکیسویں صدی عیسوی کے چوتھے عالم دین کے الوداعی تأثرات

0
1661

نحمده ونصلي على رسوله الكريم . أما بعد :
قال الله تعالى أعوذ بالله من الشیطان الرجیم. بسم اللہ الرحمان الرحیم . إنما يخشى الله من عباده العلماء .
قال النبي صلى الله عليه وسلم! ” من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين “

حضرات! میں آج آپ کے سامنے بغیر کسی تمہید کے اپنے تاثرات بیان کرنے جا رہا ہوں . سب سے پہلے میں اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہتا ہوں کہ اسی کی توفیق و فضل سے آج میرا نام عالموں کی صف میں شامل کیا جارہا ہے . میرے والدین کی خواہش تھی کہ وہ اپنے پانچ بیٹوں میں سے کسی ایک کو عالم دین بنائیں ۔ اس پر میں ان کا نہایت ہی مشکور ہوں اور اُن کے حق میں رب العالمین کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ وہ انھیں اس کا اجر عظیم عطا فرمائے ۔ اسی خواہش کی تکمیل کے لئے میرے بڑے بھائی کے مشورہ سے میرا داخلہ مدرسہ میں کرایا گیا ۔

محترم حضرات! میری پیدائش کمٹہ کے ونلی نامی گاؤں میں ہوئی . ابتدائی تعلیم گاؤں ہی کے سرکاری اسکول میں تو ہائی اسکول کی سرکاری اردو ہائی اسکول مرزان میں ہوئی . پھر اعلی تعلیم کے لئے نیشنل کالج مرڈیشور میں داخلہ لیا لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر درمیانی سال ہی کالج ترک کردیا ۔ اور والدین کی خواہش کے مطابق بڑے بھائی حافظ زبیر صاحب کے مشورہ سے مدرسہ کا رخ کیا اور مدرسہ مظاہر القرآن پاوس ، رتناگیری میں داخلہ لیا اور نورانی قاعدہ پڑھا اور قرآن ناظرہ کیا پھر حفظ کے لئے مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی میں داخلہ لیا ۔اور صرف دو ہی پارے حفظ کرکے مدرسہ کو خیر باد کہا تو پھر بڑے بھائی کے مشورہ کے مطابق میرا داخلہ جامعہ ہذا میں کرایا گیا ۔

محترم حضرت! میں نے جامعہ ہذا میں اپنی عمر کے سات سال گزارے ہیں . دوران تعلیم ناساز گار حالات بھی پیش آئے لیکن میں نے صبر سے کام لیتے ہوئے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھا .

اے جامعہ تیری فضا کتنی خوشگوار و راحت بخش تھی جس سے آج ہم اشک بہا تے رخصت ہو رہے ہیں ہم اس وقت کو یقیناً بھلا نہیں سکتے جب ہم نے پہلی بار سرزمین کنڈلور میں اپنے داخلہ کے لئے قدم رکھا تو ہمارے دلوں میں امید و خوف کی ملی جلی کیفیات تھیں تو ہم نے یہاں کے علمی ماحول اور تربیتی فضا کو اپنے تصورات سے بڑھ کر خوشیوں میں بے پناہ اضافہ کرنے والا اور یہاں کے علمی و تدریسی ماحول کو کتاب و سنت کی تعلیمات سے لبریز پایا ۔

لیکن آج ایسے دینی و علمی اور روحانی و تربیتی ماحول کو الوداع کہتے ہوۓ زبان بند اور قلم خشک ہوا جاہتا ہے اور دلوں سے آہ نکل کر جسم پر لرزہ طاری ہوا جاہتا ہے ، تو ہم اسے الوداع کہیں تو کیسے کہیں ؟

میں ناظم جامعہ حضرت مولانا عبید اللہ ابو بکر ندوی دامت برکاتھم کا ممنون و مشکور ہوں کہ انھوں نے ہماری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ہر طرح کے میدان مہیا کئے اور ہر وقت صحیح رہنمائی و رہبری فرماتے رہے ۔ اور ساتھ ساتھ ان تمام حضرات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو میری تعلیم کے لئے ہر وقت فکر مند رہتے تھے خصوصاً میرے والد محترم کا ، جنھوں نے میرے علمی سفر میں میری ہر خواہش کو پورا کیا اور کسی چیز کی کمی کا احساس تک نہ ہونے دیا ، اسی طرح میں ممنون و مشکور ہوں میرے ان میرے ان اساتذہ کا جن سے میں نے حروف تہجی سیکھی ۔

اے جامعہ ضیاء العلوم ، میں تیرا بھی ممنون و مشکور ہوں کہ تونے مجھے زیور علم سے آراستہ کرکے زندگی کذارنے کا سلیقہ سیکھایا اور اے گلشن علمی کے شگفتہ پھولو ! اگر دوران تعلیم مجھ سے آپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف یا ایذا پہونچی ہو تو خدارا مجھے معاف فرمانا ، اسی طرح میں اپنے ان تعلیمی ہمسفروں سے فردا فردا معافی کا خواستگار ہوں جن کو دوران تعلیم مجھ سے کوئی تکلیف یا ایذا پہونچی ہو .

دوستو اب کب ملیں گی درس کی نورانیاں
یاد آئیں گی مجھے اب تم سب کی قربانیاں

چلتے چلتے بانی و ناظم جامعہ کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کا سایۂ عاطفت ہم پر تا دیر قائم رکھے اور اس مادر علمی کو ہمیشہ آباد رکھے . آمین . اب میں اس شعر کے ساتھ آپ سے رخصت ہو رہا ہوں .

الوداع کیسے کہوں کہنا کسے منظور ہے
پھر بھی کہنا پڑرہا ہے دل میرا مجبور ہے

وما علينا الا البلاغ

موصوف کے الوداعی تأثرات کا ویڈیو دیکھنے کے لئے کلک کریں

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here