اعتکاف کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس سلسلہ میں ائمہ اربعہ کی آراء

0
1846

از : مولانا عبدالقادر فیضان بن اسماعيل باقوی ، جامعہ آباد ، تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد عشیر بن علی المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارت . 

الحمد لله ولى المتقين ، والصلاة والسلام على سيدنا وحبيبنا محمد خير الخلق أجمعين ، وعلى اٰله وصحبه والتابعين ، ومن تبعهم بإحسان الي يوم الدين ، اما بعد :

لغت میں اعتکاف کے معنی کسی چیز پر پابند ( قائم ) رہنے کے آتے ہیں اگر چہ کہ کسی بری چیز پر ہو ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ! ” فَأَتَوْا عَلَيٰ قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَهُمْ ” پس وہ اس قوم کے پاس آئے جو اپنے بتوں ( کی عبادت ) پر قائم رہتی آرہی تھی ( سورة الأعراف ، 138) . اور شریعت میں ، اللہ عزوجل کا تقرب حاصل کرنے کے لئے نیتِ اعتکاف سے ایک مخصوص شخص کا مسجد میں ٹہرنا .

احناف کے پاس اعتکاف کی تعریف یہ ہے کہ نیت اور روزہ وغیرہ کے ذریعہ مخصوص اوصاف کے ساتھ کسی مخصوص مقام (جو مسجد ہے ) میں ٹہر نا .

مالکیہ کے پاس ایک باشعور مسلمان کا کسی مباح ( حلال ) مسجد میں روزہ کے ساتھ جماع اور اس کے مقدمات سے رکتے ہوئے ایک دن اور رات یا اس سے زیادہ عبادت کی نیت سے مسجد کو لازم پکڑے رکھنا .

حنابلہ کے پاس کسی عاقل مسلمان کا اگرچہ کہ وہ کوئی باشعور لڑکا ہو ، غسل کو واجب کرنے والی چیزوں سے پاک رہ کر ایک مخصوص صفت پر اللہ تعالٰی کے واسطہ مسجد کو لازم کرلینا . ( حاشیہ تہذیب ، ج/3 ، ص/203 )

اعتکاف کے لئے مسجد میں ٹہرنا ، بالإجماع ہر وقت سنت مؤکدہ ہے ، خواہ رمضان میں ہو کہ غیر رمضان میں ، تاہم رمضان میں اعتکاف کر نا دیگر مہینوں کے مقابلہ میں بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان کے تینوں عشروں ، پہلے ، دوسرے اور تیسرے میں اعتکاف کیا ہے ، اور رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا دوسرے دنوں کی بہ نسبت زیادہ افضل ہے ، اس لئے کہ اس عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعتکاف کی خاص پابندی کی ہے اور آخر تک اس پر مداومت فرمائی ہے ، حتی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وفات دی .

اعتکاف کے لئے جماعت سے نماز پڑھی جانے والی اور عام مسجد کے سلسلہ میں علماء کرام کی آراء

جمہور علمائے کرام کے نزدیک مسجد کی علاوہ جگہ میں اعتکاف صحیح نہیں ہوتا ہے ، معتکف مرد ہو کہ عورت ، اللہ عزوجل نے فرمایا! ” وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عَاكِفُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ “. اور تم مسجدوں میں اعتکاف کرنے کی حالت میں ان سے مباشرت نہ کرو . { البقرۃ/187 } جہاں رب سبحانہ وتعالیٰ نے اعتکاف کرنے کے لیے بیوت اللہ یعنی مساجد کی شرط لگائی ہے ،
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہماری ماؤں نے مساجد ہی میں اعتکاف کیا ہے حالانکہ ان کے گھر ستر وغیرہ کے تعلق سے زیادہ محفوظ تھے .

احناف کے نزدیک بھی اعتکاف کے لیے مسجد شرط ہے اور مسجد بھی ایسی ہو جس میں جماعت قائم کی جاتی ہو ، یعنی جس میں امام اور مؤذن ہو ، خواہ اس میں پہلے سے ہی پانچوں اوقات کی نمازیں پڑھی جاتی ہوں کہ نہیں .

البتہ بعض علماء کے نزدیک جن میں ساداتِ احناف بھی ہیں ، عورت کے لیے اپنے گھر کی اس مسجد ( یا کمرہ ) میں اعتکاف کے لیے بیٹھنا جائز ہے جو نماز کے لیے ہی تیار کیا گیا ہو .

رہی بات بچوں کے ماں کے ساتھ سونے کی ، عورت اگر اس سلسلہ میں مجبور ہو ، مثلاً بچے چھوٹے ہوں تو اس کی رخصت ہو سکتی ہے . واللہ تعالی اعلم .

قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ بن العربی ( مالکی متوفی/543 ھ ) ” المسالک فی شرح مؤطا مالک ” میں لکھتے ہیں کہ کتاب الاعتکاف میں انیس مسئلے ہیں ، پانچویں مسئلے میں لکھتے ہیں کہ پانچواں مسئلہ جگہ کا ہونا ہے ، اور یہ مسجد ہے ، اللہ تعالیٰ کے قول ” وانتم عاکفون فی المساجد ” سے استدلال کرتے ہوئے .

ہمارے ( مالکی ) علماء نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ کیا اعتکاف مسجد ہی میں ہونا چاہیے ، اور کیا کسی خاص مسجد میں ہونا چاہیے ؟

مالک کے مشہور مذہب میں ہر مسجد میں اعتکاف کرنا صحیح ہے ، اور یہ کہ جس شخص پر جمعہ لازم نہیں ہے یا کسی ایسی جگہ پر رہنے والے کے لیے جہاں سے اس کو جمعہ کے لیے آنا لازم نہیں ، کسی ایسی مسجد میں اعتکاف کرنے میں کوئی حرج نہیں جس میں جمعہ نہ پڑھا جاتا ہو . پھر کچھ سطروں کے بعد لکھتے ہیں! اور مالک کے نزدیک مرد اور عورت اس ( اعتکاف کے لیے شرطِ مسجد ) میں برابر ہے ، ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے برخلاف ، کہ ان کے نزدیک وہ اپنے گھر کی مسجد ہی میں اعتکاف کرے گی . اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ” لا تُسَافِرُ المراَةُ مسيرةَ يومٍ وليلةٍ الا مع ذي محرمٍ “. عورت ایک دن اور ایک رات کا سفر کسی ذو محرم کے ہی ساتھ کرے گی . { 255/4 }

مشہور مصری مصنف السید سابق اپنی کتاب ” فقہ السنہ ” کے ایک عنوان ” جس مسجد میں اعتکاف کیا جائے اس مسجد کے سلسلہ میں فقہاء کی آراء ” کے تحت لکھتے ہیں کہ جس مسجد میں اعتکاف صحیح ہوتا ہے اس مسجد کے سلسلہ میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے ، ابوحنیفہ ، احمد ، إسحاق اور ابوثور ( رحمہم اللہ ) اس بات پر گیے ہیں کہ اعتکاف ہر اس مسجد میں صحیح ہوتا ہے جس میں پانچ نمازیں پڑھی جائیں اور جماعت قائم کی جائے . انھوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” كلُّ مسجدٍ له مؤذن وامامٌ فالاعتكافُ فيه يَصْلُحُ “. ہر وہ مسجد جس کے لیے مؤذن اور امام ہو اس میں اعتکاف کرنا درست ہے . { دارقطنی } لیکن یہ حدیث مُرْسَل ضعیف ہے ، اس سے دلیل نہیں اخذ کی جاسکتی .

مالک شافعی اور داؤود ( رحمہم اللہ ) اس بات کی طرف گیے ہیں کہ ہر مسجد میں اعتکاف کرنا صحیح ہے ، اس لیے کہ بعض مساجد کو تخصیص کرنے کے تعلق سے صراحتًا کوئی صحیح چیز ( حدیث ) نہیں آئی ہے .

شافعیہ کہتے ہیں کہ مسجد جامع میں اعتکاف کرنا افضل ہے ، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد جامع میں ہی اعتکاف کیا ہے ، اور یہ کہ اس میں دوسری مساجد کے مقابلہ میں جماعت کے لیے لوگ زیادہ آتے ہیں .

اور جمہور علماء اس بات پر گیے ہیں کہ ” عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا صحیح نہیں ہوتا ہے ” اس لیے کہ گھر کی مسجد پر مسجد کا نام نہیں بولا جاتا ، ( بلکہ کمرہ ، یا عبادت کا کمرہ کہا جاتا ہے ) اور یہ کہ اس کو فروخت کرنے کے تعلق سے کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں ، ( جب کہ مسجد کو فروخت کرنا جائز نہیں ) اور یہ بات صحیح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مسجد نبوی میں اعتکاف کیا کرتی تھیں . { فقہ السنہ ، ص/351 }

حنفیہ کے پاس رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے اور اس کے علاوہ عشروں میں مستحب .

مالکیہ کے مشہور مذہب کے مطابق رمضان و غیر رمضان میں اعتکاف مستحب ہے اور رمضان میں مطلقاً مستحبِ مؤکدہ ہے اور اس کے آخری عشرہ میں اور زیادہ مؤکدہ ، ان کے پاس اعتکاف کی دو قسمیں ہیں ، ایک واجب اعتکاف ، جو کہ نذر وغیرہ کا ہوتا ہے اور دوسرا مستحب اعتکاف اور یہ اس کے علاوہ ہے ۔

حنابلہ کے پاس ماہ رمضان میں اعتکاف سنت مؤکدہ ہے اور اس کے آخری عشرہ میں اور زیادہ مؤکدہ ۔

اعتکاف کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں ، اگر کوئی رکھتا ہے تو اچھا ہے اور اگر نہیں رکھتا تو اس پر کچھ واجب نہیں ، امام بخاری نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و سلم ” میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں رات میں اعتکاف کرنے کی نیت کی ہے ، فرمایا ! اپنی نذر کو پورا کرو ” ( بخاری ) . رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نذر پورا کرنے کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اعتکاف صحیح ہونے کے لئے روزہ شرط نہیں ، اس لئے کہ رات میں روزہ رکھنا صحیح نہیں ۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے شوال کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کرنا ثابت ہے ، اور شوال کے پہلے عشرہ کا پہلا دن عید کا ہوتا ہے ، اور عید میں روزہ رکھنا حرام ہے ۔ اسی طرح یعلی بن امیہ کا ایک گھنٹہ کے لئے مسجد میں ٹہرنا ثابت ہے ، یہی مسلک امام احمد اور امام ابوحنیفہ کا ہے اور امام مالک کے پاس روزہ اعتکاف کے لئے شرط ہے ( لیکن امام ابوحنیفہ کے پاس صرف فرض روزہ ہی میں ہے ) .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here