میت کی طرف سے قربانی کا حکم

0
2005

از : عبدالقادر فیضان بن اسماعیل باقوی ، جامعہ آباد ، بھٹکل
امام وخطیب جامع مسجد سلیمان بن عشیر علی المزروعی ، ابوظبی ، متحدہ عرب امارات

الحمدللہ؛والصلوةوالسلام علی رسول اللہ ومن والاہ ۔

میت کی جانب سے اسکی وصیت کے بغیر قربانی کرنے کے سلسلہ میں علماء عظام نے اختلاف کیا ہے،
ہمارے یعنی شوافع کے پاس میت کی وصیت کے بغیر اسکی جانب سے قربانی کرنا جائز نہیں ، کیونکہ قربانی ایک عبادت ہے اور ہرعبادت کے لئے نیت ضروری ہے؛اور موتیٰ نیت کے اہل نہیں ہوتے ۔

امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمھما اللہ کے پاس میت کی جانب سے قربانی کرنا جائز ہے ، اسی طرح کراہت کے ساتھ امام مالک رحمہ اللہ کے پاس بھی جائز ہے اگر چہ کہ موتی نے اسکی وصیت نہ کی ہوامام مسلم کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیث پر قیاس کرتے ہوئے کہ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قربانی کے لئے ایک دنبہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو پہلو کے بَل لٹا کر ذبح کرتے ہوئے فرمایا “باسم اللہ،اللھم تقبل من محمد،وآل محمد،ومن امةمحمد ، پھر ذبح فرمایا ’’ ان ائمہ کا اس حدیث کے ذریعہ یوں قیاس کرنا ہے کہ”امتِ محمدی”میں زندوں کے ساتھ موتی بھی شامل ہوتے ہیں لہذا جب زندوں کی طرف سے قربانی صحیح ہوئی تو موتی کی جانب سے بھی قربانی صحیح ہوگی ۔ [ بدائع الصنائع کا ملخص ]

مخالف قول والوں کے لئے شوافع حضرات کا جواب یہ ہے کہ اولاً یہ صرف آپکا قیاس ہے ۔ صراحتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے موتی کے نام پر قربانی کرنے کے لئے کوئی حدیث نہیں آئی ہے ۔ ثانیاً اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ” من امةمحمد ” (محمد کی امت کی جانب سے) میں موتی بھی شامل ہوتے ہوں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت میں سے ہونا کوئی بعید بات نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری ایسی خصوصیات ہیں جو دوسروں کے لئے نہیں ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

بہرکیف شوافع کے پاس موتی کی جانب سے قربانی کرنا جائز نہیں ، کیونکہ قربانی ایک عبادت ہے اور ہرعبادت کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے اور موتی نیت نہیں کرسکتے ، لیکن اگر کسی نے انتقال کر جانے سے پہلے اپنی جانب سے قربانی کرنے کی وصیت کی تھی تو وصیت کرنا ہی اسکی نیت ہوگی ، البتہ موتیٰ کی قربانی کا سارا گوشت وصیت کرنے کے باوجود بھی غریبوں میں ہی تقسیم کرنا واجب ہوگا ۔

احناف کے پاس موتیٰ کی جانب سے کی ہوئی قربانی کے گوشت میں وہ سب کچھ جائز ہے جو ایک آدمی اپنی جانب سے کئے ہوئے قربانی کے گوشت میں کرتا ہے ۔ [ حاشیہ ابن عابدین(326/6)کا خلاصہ ]

حنابلہ کے پاس میت کی جانب سے قربانی کرنا زندہ کی جانب سے قربانی کرنے سے افضل ہے ، کیونکہ مرنے کے بعد وہ عاجز اور ثواب کا زیادہ محتاج ہوتا ہےالبتہ انکے پاس بھی اس گوشت کو کھانا ، صدقہ کرنا اور ہدیہ کرنا سب جائز ہے ۔ { مطالب اولی النھی،472/2،سے ملخص }

مالکیہ کے پاس موتیٰ کی جانب سے قربانی کراہت کے ساتھ جائز ہے ، جیسا کہ خرشی کی ” شرح مختصر الخلیل ” (42/2) کی عبارت میں ہے کہ کسی کو میت کی جانب سے ریا کاری اور ایک دوسرے پر فخر کرنے کے خوف اور حدیث میں اس کی صراحت وارد نہ ہونے کی وجہ سے میت کی جانب سے قربانی کرنا مکروہ ہے ، البتہ اگر میت سے کہا گیا ہو کہ ہم تمہاری جانب سے قربانی کرینگے تو اس کے وارث کا اسکو پورا کرنا سنت ہے ۔

شوافع کے معتمد اور صحیح قول کے مطابق میت کی جانب سے اسکی وصیت کے بغیر قربانی کرنا جائز نہیں ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ‘‘ رہی میت کی جانب سے قربانی کرنے کی بات تو ابو الحسن عبادی نے اسکو مطلق طور پر جائزکہا ہے ، کیونکہ یہ بھی صدقہ کی ہی ایک قسم ہے،اور میت کی جانب سے صدقہ کرناصحیح ہے اور صدقہ سے بالاجماع میت کو فائدہ پونچتا ہے ۔(یہ قول ضعیف ہے۔)
صاحب عدہ اور امام بغوی رحمھما اللہ کہتے ہیں کہ میت کی جانب سے قربانی کرنا صحیح نہیں،مگراس وقت جب اس نے اسکی وصیت کی ہو، اور اسی قول کو امام رافعی رحمہ اللہ نے قطعیت کے ساتھ اختیار کیا ہے ۔ { المجموع،380/8 } واللہ اعلم بالصواب ۔

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here