آہ! مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی کے ہر دل عزیز ایک قدیم سابق استاد مولانا شاہد صاحب ندوی اس دار فانی سے کوچ کر گئے

0
1402

از : حافظ بشیر احمد بن ابوبکر بنگالی ، نائب ناظم مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی

مرحوم مولانا شاہد صاحب ندوی مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی کے وہ پہلے استاد ہیں جن کو دارالعلوم ندوۃ العلماء سے مولانا علی میاں علیہ الرحمہ کے ایماء پر سنہ 1992 ء میں مبعوث کیا گیا تھا .

آپ جماعت المسلمین تینگن گنڈی کے مسجد والے حجرہ میں قیام فرماتے اور کھانے کا انتظام ہر دن اہلیان تینگن گنڈی کے ہر گھر سے ہوا کرتا تھا جس کو اہل خانہ ان کے کمرہ پر پہونچاتے تھے اور موقعہ موقعہ سے اپنے گھر بھی کھانے کے لئے مدعو بھی کرتے رہتے تھے . اس دوران موصوف نے کسی سے بھی کھانے کے تعلق سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں کی . کیونکہ وہ اخلاق حسنہ کے پیکر تھے .

موصوف اہلیان تینگن گنڈی کے ہر دل عزیز استاد تھے بچے ہوں کہ جوان ، عورتیں ہوں کہ مرد ، اساتذہ ہوں کہ منتظمین ان کی بے پناہ محبتوں نے سبھوں کے دلوں کو جیت لیا تھا . ان کو اہلیان تینگن گنڈی کی ہمہ وقت دینی و اخلاقی اور اوہام و خرافات کی اصلاح کی بے پناہ فکر دامنگییر رہتی تھی .

آپ نیک طینت ، نرم مزاج ، نرم گفتگو ، ہمدرد و غمگسار اور خدمت خلق کے پیکر تھے ، آپ نے محتاط اندازہ کے مطابق مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی میں تقریباً سات یا آٹھ سال تدریسی خدمات انجام دی ہیں ، آپ کے جماعت المسلمین تینگن گنڈی اور مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی کے عہدیداران واراکین سے گہرے روابط تھے. آپ ناظم مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن جناب حافظ عبدالقادر صاحب اور نائب ناظم جناب اسماعیل ڈانگی صاحب ( عرف لمبا کاکا ) کا بہت ہی ادب و احترام فرماتے اور اسی طرح باہر سے آنے والے مہمانوں کا بھی بہت اکرام فرماتے اور اپنی ملنساری سے ان کو مرعوب کر کے ان کا دل جیت لیتے ، یہی وجہ تھی کہ آپ جب یہاں سے مولانا علی میاں علیہ الرحمہ کے وطن رائے بریلی میں منتقل ہونے تو اس وقت جب جب بھی مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی کا وفد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ جاتا تو آپ وہاں پر بھی مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے اور ان کا پورا خیال رکھتے اور وہاں کے ذمہ داروں سے ملاقات کرانے میں اپنا بھرپور تعاون پیش کرتے .

آپ عصر بعد اہلیان تینگن گنڈی کی بسم اللہ ٹیم کے کے ساتھ والی بال بڑے شوق سے کھیلتے تھے آپ ایک بہترین لفٹر تھے کھیل میں بھی آپ دینی احکام کا بڑا پاس و لحاظ رکھتے تھے مغرب کی اذان سے قبل کھیل کو ختم کر کے لوگوں کو مسجد لے جاتے . سنہ 2010 ء تک بسم اللہ ٹیم کی ایک امتیازی شان یہ تھی کہ ان کے کھلاڑی کھیل کے دوران بھی اپنا پائجامَہ گھٹنوں سے نیچے پہنتے تھے یہ موصوف ہی کی دین تھی آپ وقتاً فوقتاً لوگوں کو بعد نماز جمعہ وعظ و نصیحت بھی کرتے رہتے .

آپ صوم و صلوۃ اور ذکر و اذکار کے پابند تھے بچوں سے بہت پیار کرتے اور ان کی تعلیم کی بڑی فکر فرمائے اور ان کے والدین کی طرح ان سے نرمی کا پرتاؤ فرمائے تعلیم کے اوقات میں تعلیم پر توجہ دیتے اور غیر درسی اوقات میں ان کے ساتھ پیار و محبت اور ملنساری کا معاملہ فرماتے .

یہی وجہ تھی ک آپ یہاں سے لکھنؤ منتقل ہونے کے بعد بھی وقتاً فوقتاً اہلیان تینگن گنڈی سے ملنے کے لئے آتے رہتے تھے ابھی تین چار سال قبل وہ اپنی اہلیہ اور دختر کے ساتھ تشریف لائے تھے اور اپنے خاص دوست حافط بشیر بن ابوبکر بنگالی ، سابق استاد مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی کے گھر قیام فرمایا تھا . آپ نے جن جن بچوں اور بچیوں کو پڑھایا تھا وہ سب شادی کے بعد بھی آپ کو اپنے گھر دعوت دے کر باری باری بلاتی تھیں . یہاں تک کہ موصوف کو وقت کی تنگ دامانی سے بہت سی دعوتیں معذرت کے ساتھ ترک کرنی پڑیں . ان کے شاگردوں ، شاگردنیوں ، مدرسہ کے قدیم اساتذہ اور ان کے دیگر محبین نے ان کو خوب دعوتیں کیں اور انھیں تحفے وتحائف سے نواز کر ان کا اکرام فرمایا لیکن انھیی کیا پتہ کہ قدرت کا فیصلہ پھر انھیں دوبارہ آنے کا موقعہ نہیں دے گا . ” کل نفس ذائقۃ الموت “. ہر نفس کو موت کا مزہ چکنا ہے . الحمد للہ موصوف اپنے اس آخری سفر سے روانہ ہوتے وقت بہت خوش تھے اور ان کا یہ سفر ان کے خصوصی محبین کی دعوت پر تھا . جن میں سرفہرست حافظ بشیر احمد بنگالی. اقبال بن أحمد بنگالی اور مدرسہ کے بعض پرانے اساتذہ بھی شامل ہیں .

آپ کی نمایاں خصوصیات میں سے چند یہ ہیں کہ آپ جس طرح اپنے محبین سے اپنی محبت کا اظہار کرتے اسی طرح ان کے گھر والوں سے بھی محبت فرماتے اور ان کے گھر بلا تکلف تشریف لاتے رہتے . آپ ناچیز حافظ بشیر احمد بنگالی سے خصوصی تعلق کی وجہ سے ان کے بھائیوں کے گھر بھی آتے جاتے رہتے اور میری والدہ سے بھی بڑی محبت و الفت کا اظہار فرماتے . آپ ہر میت کی نماز جنازہ اور تدفین میں ضرور شرکت فرماتے اور آخر وقت تک میت کے لئے مغفرت کی دعا فرماتے رہتے . جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بیسویں صدی عیسوی کے اواخر تک قوم ناخدا کی بچیوں اور لڑکیوں میں لنگا پہننے کا عام رواج تھا. اس رواج کو موصوف ہی نے اپنی کوششوں سے بدلا تھا اور اس کے بدلہ شلوار قمیض اور ازار کو رواج دیا تھا . آپ تبلیغی جماعت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور پابندی ہر ہفتہ گشت میں شرکت فرماتے .

موصوف کے خاص شاگردوں میں اقبال بن احمد بنگالی ، اقبال بن یوسف پوتکار ، حسین بن موسی بھنڈی ساکن ونلی کمٹہ ، عبیداللہ بن عبدالرحمن فراش ، مولانا ابراہیم بن ابوبکر بنگالی ، مولوی حسن بن عبدالرحمان اسپو ، مولوی شہباز بن حافظ عباس دمکار ، عبد الحميد بن إسماعيل نئے باغ ، الطاف ابو، صلاح الدین علی ابو ، صبغۃ اللہ بن اسماعیل ڈانگی ، مشتاق ڈانگی اور حفظ الرحمان ڈانگی وغیرہ قابل ذکر ہیں .

بیرون شہروں سے تدرسی خدمات انجام دینے کی غرض سے تشریف لانے والے اساتذہ میں آپ کو اپنی ملنساری اور دینی و اصلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی وجہ سے ایک نمایاں مقام حاصل ہوا تھا .

آپ غیر درسی اوقات میں اپنا وقت حافظ اسحاق ڈانگی حافظ عباس اور حافظ بشیر احمد بنگالی اور دیگر خاص شاگردوں و محبین کے ساتھ گذارتے تھے .

موصوف اپنی حیات کے آخری ایام تک رائے بریلی کی مولانا علی میاں علیہ الرحمہ کے محلہ کی ایک مشہور دینی درسگاہ میں اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تو ان کو ہارٹ کا پروبلم شروع ہو گیا لہذا وہ ایک ماہ قبل اپنے علاج کے لئے ممبی بھی گئے تھے ، لیکن اس کے بعد طبیعت ناساز ہی ہوتی چلی گئی اور بالآخر آپ مؤرخہ 30/مئی 2020 ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے انا للہ وانا الیہ راجعون .

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کی جملہ دینی خدمات و مساعی جمیلہ کو قبول فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے . آمین یا رب العالمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here