از : محمد زبیر ندوی شیروری
مدرسہ کی بنیاد سب سے پہلے صُفّہِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے شروع ہوتی ہے ، جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم أجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں رہ کر بہت سے علوم و فنون کو سیکھا . اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درس لیتے رہے . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کے صحابہ نے اِس تسلسل کو باقی رکھا پھر ان کے بعد تابعین نے پھر تبع تابعین اور بعد کے علماء ربانیین نے اِس کار خیر کا خاص اہتمام و التزام کیا . خصوصا ان حالات میں جب اس کے تضییع کا خدشہ تھا . رفتہ رفتہ انسانی افکار کو روشنی ملتی گئی اور علمی ارتقاء و سربلندی ملتی رہی . جابجا علم کے حلقہ لگنے لگے اور دور دراز سے لوگ علم کی طلب میں جوق درد جوق آنے لگے اور حصول علم سے مستفید ہونے لگے . کہیں مساجد میں . کہیں خیموں میں کہیں چھپروں میں کہیں جھونپڑیوں میں تو کہیں سایہ دار درخت کے نیچے تعلیم ہونے لگی . پھر لوگوں نے دینی تعلیم کی نشر و اشاعت کے کام کو اپنا مشن بنایا اور مختلف علاقوں میں چھوٹے موٹے مدارس تعمیر کرنے لگے جس میں علوم کو پورے نظام کے ساتھ عام کیا جانے لگا . مخیر حضرات نے مالی و جسمانی بھرپور ساتھ دیا . عمارتوں پر عمارتیں بنتی گئیں اور جگہ جگہ سے طلباء آکر دین کی تعلیم حاصل کرنے لگے جس میں عمر کی بھی کوئی قید نہ تھی . پھر جیسے جیسے ضرورت محسوس ہوتی گئی مکاتب ، مدارس میں اور مدارس ، جامعات میں منتقل ہوتے چلے گئے جن کو اب ہم بڑی بڑی شاندار عمارتوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں .
اسی صفہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثمرہ ہے کہ آج پوری دنیا میں علماء کی ایک بہت بڑی تعداد پائی جارہی ہے . اللہ تعالیٰ جس طرح نظام کائنات اور وما فیھا کی جملہ باگ ڈور کو سنبھالے ہوئے ہے اسی طرح اس نے اپنے آخری دین اور قرآن کی حفاظت کے لئے مختلف ذرائع پیدا کر رکھے ہیں منجملہ ان میں سے ایک علماء و حفاظ بھی ہیں تاکہ وہ شریعت کا ادراک و عرفان حاصل کر کے امت کو اس سے روشناس کرا سکیں . یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں علماء اس عظیم الشان ذمہ داری کو اپنی اپنی ممکنہ حیثیت کے مطابق انجام دیتے رہے ہیں اور اس کے لئے مدارس اسلامیہ کا نطام قائم کرتے رہے ہیں .
مدارس در اصل اسلام کے قلعہ ہیں جہاں دینی علوم کی حفاظت کی جاتی ہے اور قوم و ملت کے تشخص کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے . مدارس ملت اسلامیہ کے دھڑکتے دل ہیں جس میں اخلاق سنورتے ہیں ، روحانیت کے سر چشمے پھوٹتے ہیں جہاں مردہ دلوں کو زندگی اور علم کے پیاسوں کو سیرابی ملتی ہے . طلباء وطالبات کے قلب و جگر میں الفت مودت ہمدردی و غمگساری کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور انسان کے افکار و تخیلات کو صحیح رہنمائی وفکر دی جاتی ہے اور عقیدہ کی درستگی اور فکر آخرت کی فکر کی جاتی ہے . اسلاف کی قربانیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے ، اللہ ورسول کی باتیں سکھائی جاتی ہیں . قرآن و حدیث کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں . انسانی حقوق و حقوق اللہ کی ادائیگی کی تعلیم دی جاتی ہے . اللہ کی ذات پر توکل پیدا کرایا جاتا ہے . اور عبادات کے آداب سکھائے جاتے ہیں جس سے عوام کی سطح علمی سے اہل علم کی سطح علمی بڑھتی ہے . علم میں مہارت پیدا ہوتی ہے . جس طرح اطباء انسان کے جسمانی و اندرونی امراض کاعلاج معالجہ کرتے ہیں بالکل اسی طرح مدارس بھی روحانی امراض کے سد باب کا کام کرتے ہیں . جس طرح اسکول کالج اور کارخانے و مصانع میں چیزوں کو تیار کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح مدارس بھی عربی علوم وفنون ، فقہ و دینیات ، قرآن و حدیث اور ان کی تفصیلات سکھانے کا مرکز ہیں .
دنیا میں بہت سارے اسکول و کالج ہیں جو اپنی اپنی خدمات میں کوشاں و سرگرم عمل ہیں لیکن ہر ایک کا اپنا ایک دائرہ و مقام ہے جو ایک کو دوسرے سے ممتاز کرتا ہے . مدارس دینیہ کا اپنا ایک خاص مقام و مرتبہ ہے جو ان کو دینی نسبت کی وجہ سے نبوی سرگرمیوں سے ملاتا ہے . یہ وہی مدارس ہیں جن سے عالم کو نبوی روشنی ملتی رہی ہے . اور امت کو مفکر اسلام ملتے رہے ہیں جو اسلام کے سپاہی کہلاتے ہیں . مدارس دینی علوم کے تحفظ کا ذریعہ ، نئی نسل کو دین پر باقی رکھنے کا علمی محور ، علوم اسلامیہ کا مخزن ، انسانی ہدایت کا سامان اور ایمان کی روشنی کا مینار ہیں . جہاں یہ مینار قائم نہ ہوں وہاں ماحول کی درستگی کی امید نہیں لگائی جا سکتی . اور جہاں یہ مینار ہوں گے وہاں پر دین کی فضاء عام ہوگی . شہروں اور علاقوں کا ماحول سازگار ہوگا کیونکہ مدارس معاشرہ کے لئے اصلاح کا کام کرتے ہیں . اگر آپ کو خوشگوار زندگی ، نیک بیوی یا بیٹا بیٹی ، اسی طرح سازگار ماحول ، صالح رشتہ دار یا پڑوسی اور مسجد کے لئے مناسب امام ملا ہے تو یہ سب کسی نہ کسی مدرسہ کا ہی فیض ہوگا . اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو ہمارے معاشرہ میں ہر طرف بے دینی کا ماحول ملتا .
جب سے یہ مدارس قائم ہیں تب سے دینی ماحول کی فضائیں عام ہیں اور مسلمانوں کا ذاتی تشخص برقرار ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی انسانیت و اخلاق ، حق و باطل اور حلال وحرام کے مابین تمیز میں زوال آیا ہے اس وقت مدارس نے ایسے اہل علم حضرات پیدا کئے ہیں جنھوں نے معاشرہ سے برائیوں کا قلع قمع کیا اور ایک صالح معاشرہ کی بنیاد رکھی .
مگر افسوس کہ آج انہی مدارس پر کم علمی ، مدارس کی صحیح حقیقت سے ناآشنائی اور دینی تعلیم نہ ہونے کے باعث کچھ لوگ مدارس پر انگلی اٹھانے ، اہل مدارس سے عداوت و دشمنی اور حسد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور اس کے نتیجہ میں خود اپنی ہی دنیا و آخرت برباد کرتے ہیں .
لہذا اپنی فکر کو اور وسعت دیں . اور مدرسہ کی حقیقت کو اپنی علمی و عقلی نظر سے دیکھیں اور حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں . اہل علم حضرات سے اپنا ناطہ جوڑیں اور مدارس کو اپنے لئے اللہ کی طرف سے اک عطیہ اور احسان سمجھیں .
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مدارس کے خیر سے مستفید فرمائے اور زیادہ سے زیادہ ان کے تعاون کی توفیق عطا فرمائے . آمین .