از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد تینگن گنڈی ، بھٹکل ، أمام و خطیب جامع مسجد عشیر بن علی المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارت
اپنی بیٹی یا بہن ( یا کسی اور مولیہ جیسے بھتیجی یا بھانجی ) کی شادی کسی شخص سے مہر مقرر کئے بغیر اس شرط پر کرنا کہ وہ اسکی بیٹی یا بہن کا نکاح اس سے کرائے ، نکاح شغار کہلاتا ہے بخاری و مسلم وغیرہ کی احادیث میں ایسے نکاح سے روکا گیا ہے اور اسے باطل قرار دیا گیا ہے ۔
شغار کے لغوی معنی خالی ہونے کے ہیں ، اور یہ شَغَرَ الْبَلَدُ یعنی شہر خالی ہوا سے ماخوذ ہے اور اس کا اطلاق بادشاہ کے اپنی سلطنت سے خالی ہونے یعنی نکل جانے پر بھی ہوتا ہے لیکن یہاں پر نکاح کا مہر سے یا بعض شروط سے خالی ہونا مراد ہے ، یا ” شَغَرَ الْكَلْبُ رِجْلَهُ” سے لیا گیا ہے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب کتا پیشاب کرنے کے لئے اپنا پیر اٹھائے ، گویا دو نکاح کرنے والے ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ تم اس وقت تک میری بیٹی ( یا بہن وغیرہ ) کا پیر نہیں اٹھاؤگے جب تک کہ میں تمہاری بیٹی کا پیر نہ اٹھاؤں .
شغار کے اس معنی کی تفسیر یا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کئے جانے کا احتمال ہے یا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یا تابعی نافع کا ان سے روایت کرتے ہوئے .
نکاح شغار کے باطل ہونے کے لئے مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کیا گیا ہے
پہلی حدیث : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ ” اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَهَىٰ عَنِ الشِّغَارِ ، وَالشِّغَارُ : اَنْ يُّزَوِّجَ الرَّجُلُ اِبْنَتَهٗ عَلَى اَنْ يُّزَوِّجَهٗ الْآخَرُ اِبْنَتَهٗ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شغار سے روکا ہے ، شغار ( کا معنی ) یہ ہے کہ ایک مرد کا اپنی بیٹی کی شادی دوسرے ( شخص ) سے اس شرط پر کردینا کہ وہ بھی اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردے اور ان دونوں کے درمیان مہر ( کا کوئی ذکر ) نہ ہو ” ۔ ( بخاری مسلم )
مسلم کی ایک روایت میں” لَاْشِغَارَ فِیْ الْاِسْلَاْمِ ” یعنی اسلام میں کوئی شغار ( والی شادی ) نہیں ” کے الفاظ آئے ہیں ۔
دوسری حدیث : السید سابق ( فقہ السنہ میں ) لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ نے بھی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کو روایت کیا ہے ۔زوائد میں یہ کہا گیا ہے کہ اس حدیث کی اسناد اور اس کے رجال دونوں صحیح ہیں اور اس کے لئے دوسرے کافی صحیح شواہد موجود ہیں . اس حدیث کو امام ترمذی نے عمران بن حصین سے روایت کر کے حدیث حسن صحیح کہا ہے ۔
تیسری حدیث : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شغار سے روکا ہے اور شغار : ایک آدمی کا دوسرے آدمی سے اس طرح کہنا کہ تو اپنی بیٹی یا بہن کی شادی مجھ سے اس شرط پر کردے کہ میں تجھ سے میری بیٹی یا بہن کی شادی کردوں گا اور ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی صداق ( مہر کا تذکرہ ) نہ ہو ” ( ابن ماجہ )
امام نووی کہتے ہیں کہ علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ بیٹیوں کے علاوہ بہنیں بھتیجیاں وغیرھن سبھی اس میں بیٹیوں کی طرح ہیں ۔
جمہور علماء کرام نے مذکورہ احادیث کے ذریعہ اس بات پر استدلال کیا ہے کہ عقد شغار ( شغار والی شادی ) اصلا منعقد ہوتی ہی نہیں اور یہ کہ وہ باطل ہوتی ہے ۔ ( یہی ہمارے دو صحیح قولوں میں سے معتمد قول ہے )
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ شادی صحیح ہوگی اور دو لڑکیوں میں سے ہر ایک کی شادی پر مہر مثل واجب ہوگا ۔ ( اور یہ ہمارا یعنی شوافع کا بھی ایک قول ہے ) واللہ اعلم بالصواب ۔
کیا ادلیٰ بدلی شادی نکاحِ شغار میں داخل ہوگی؟
ادليٰ بدلی شادی نکاح شغار میں داخل نہیں ہوگی . ادليٰ بدلی شادی کا مطلب کسی شخص کا کسی لڑکی کے ولی سے اس شرط پر نکاح کرنا کہ تم میری بہن یا بھتیجی یا بھانجی سے نکاح کرو گے تو میں آپ آپکی بیٹی سے نکاح کروں گا اور ان دونوں شادیوں میں نکاح کے تمام شرائط ، مثلا ولی مہر وغیرہ پائے جا رہے ہوں تو یہ شادیاں نہ تو شغار کے معنے میں آئیں گی اور نہ ہی ایسی شادیوں میں کوئی قباحت ہو گی ، کیونکہ لڑکا بہن کے لئے رشتہ آنا مشکل یا آبھی گیا تو پسند کا نہیں ہوگا سمجھ رہا ہے تو اس طرح کی شادی اپنی بہن وغیرہ کی حفاظت اور عفت و پاکدامنی کی غرض سے کرنے میں بظاہر کوئی قباحت نظر نہیں آرہی ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔