رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری
ہر قوم کی ترقی ، فوز و فلاح ، سربلندی و بہبودی اور اس کو بام عروج تک پہونچا نے کا اولین زینہ تعلیم و تربیت ہے . عبادت ہو یا تجارت ، سیاست ہو یا ریاست ، ہر ایک کی ترقی اور فوز و فلاح کے لئے پہلا سبب علم ہے ، علم کے بغیر انسان نہ اچھی تربیت پا سکتا ہے اور نہ ہی کاروبار کو آگے بڑھا سکتا ہے اور نہ ہی زندگی کے مختلف شعبوں کو روشن و تابناک بنا سکتا ہے اور نہ ہی عقلی سربلندی حاصل کر سکتا ہے ، کیونکہ علم انسانی عقل کو بڑھا کر تازگی عطا کرتا ہے ، جگرو قلب کو جلا بخشتا ہے ، دل کی تشنگی کو سیراب کرتا ہے اور انسانی سیرت میں حسن و جمال پیدا کرتا ہے اور اس کو تخت مملکت پر جلوہ افروز کرتا ہے .
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام علوم و فنون میں افضلیت و فوقیت صرف دینی علوم کو ہی حاصل ہے کیونکہ اس میں وہ تمام علوم و فنون شامل ہیں جن سے صالح افکار ، صحت مند اقدار کی آبیاری ، بنی نوع انسانی کا احیاء و ارتقاء اور تہذیب وثقافت میں حسن وجمال کی صلاحیت موجود ہے جس کی بدولت بنی آدم میں روئے ارض پر خلافت و نیابت کا استحقاق پیدا ہوتا ہے . قرآن میں تخلیق ارض وسماں اور اختلاف لیل و نہار میں تفکر و تدبر کی تعلیم دے کر علم و تدبر کے فروغ و اِرتقاء کا دروازہ کھول دیا گیا ہے ، قرآن معلومات کا مخزن و گنجینہ ہے ، بلکہ یوں کہئے کہ حیات و کائنات اور زمان و مکان کے لا تعداد حقائق و معارف کا بحر بیکراں ہے ، ایسے میں ہرانسان مرد و عورت پر یہ لازم ہے کہ وہ اس کے اندر پنہاں جوہر و استعداد کا عرفان و ادراک کرے اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں سے کام لے ، اپنے آپ کو ناکام و ناکارہ نہ جانے اور احساس کمتری و کہتری کا شکار نہ ہو ، کیونکہ وہ خلیفۃ اللہ اور نائب یزداں ہے ، ارض و سماں ماہ و نجوم اور پوری کائنات اسی کے لئے مسخر کی گئی ہے ، لیکن وہ ان حقائق و کوائف سے ناآشنا ہے ، لہذا افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج مردوں میں تعلیم مفقود تو نہیں ، مگر کم ضرور ہے ، جس کے نتیجہ میں ان کی اپنی بچیاں علم سے کوسوں دور ہیں ، جس کا وبال یہ ہیکہ آج اکثر و بیشتر گھروں میں عورتیں جہالت کی دلدل میں پھنستی جا رہی ہیں ، ظلمت و تاریکی نے انھیں گمراہ کر کے ان کو ان کی زندگی کے مقصد سے کوسوں دور ڈھکیل دیا ہے اور جہالت کے بڑھتے ہوئے سیلاب اور امنڈتے ہوئے سیاہ بادل نے ان کی عقلوں کو ڈھانپ لیا ہے اور دنیا کی جہالت سے ماحول نے خدا سے دور کر کے انھیں عبادت وبھلائی سے غافل کر دیا ہے ، جس کے نتیجہ میں آج خواتین ناچ گانوں اور سنیما کی محفلوں میں خوب مست ہیں اور دیگر لغویات میں اپنی قیمتی نوجوانی کے اوقات کو ضائع کر رہی ہیں ، جس کا ایک اہم سبب معرفت الہی کے علم کی کمی اور ناسازگار ماحول اور اپنے دین و مذہب سے ناواقفیت و نا آشنائی ہے ، اگر یہ تعلیم سے آراستہ نہیں ہوئیں اور ان کی دینی تعلیم پر توجہ نہ دی گئی تو قوم کا تربیتی پہلو بگڑ جائے گا جس کے نتیجہ میں بتدریج پوری قوم جہالت کے سمندر میں غرق ہو جائے گی اور ان سے ان کا اصل تخلیقی مقصد ناپید ہو کر رہ جائے گا کیونکہ مرد کی کامیابی میں عورت کا دلی ساتھ ہونا بے حد ضروری ہے جس کے بغیر یکسوئی ممکن نہیں ، لہٰذا عورت کا دینی تعلیم سے آراستہ ہونا ہے حد ضروری ہے .
تعلیم فوز و فلاح کا سبب ہے لہذا ماں باپ پر فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کے تعلق سے کوشاں و سرگرداں رہیں کیونکہ اس کا پورا دارومدار انہی پر ہے اور بچہ صحیح طور پر تبھی نیک بن سکتا ہے جب ماں باپ حسن سیرت اور اخلاق پر اپنی توجہات مبذول کرائیں ، خواہ وہ معاشی اعتبار سے غریب ہوں یا درمیانی و اوسط درجہ کے ، اسی کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہونا اور اپنی سیرت کو اخلاق حسنہ سے مزین کرنا بھی لازمی ہے تاکہ اولاد کا والدین کے رنگ میں رنگنا آسان اور سہل ہو جائے . اگر ماں اثاثہِ علم سے آراستہ ہوگی تو وہ اپنی اولاد کو بھی علم کے زیور سے آراستہ کرے گی اور ان کو مثالی مسلمان ، حافظ قرآن ، خادم اسلام ، بہادر ، مجاہد اور دین اسلام کا صحیح معنیٰ میں حامل بنا سکے گی ، اس کے برعکس اگر وہ جاہل ہوگی تو بچہ چلتا پھرتا شیطان ، باغی ، غدار اور اسلامی تعلیمات سے ناآشنا ہوگا ، آپ کے تجربات و مشاہدات میں یہ بات آتی رہی ہوگی کہ اگر ماں کے دل میں علم کی عظمت ہوتی ہے تو اولاد بھی اسی رنگ میں ملون ہوتی ہے اور اس جیسی فطرت سلیم اختیار کرتے ہوئے اس کو اپنا مشعل راہ سمجھتی ہے ، چنانچہ اللہ تعالٰی نے عورتوں کے اندر بے شمار کمالات رکھے ہیں ، شرط یہ ہے کہ اس سے کما حقہ استفادہ کرنے اور انھیں بروکار لانے کی سعئِ کامل کی جائے .
اگر عورت کو دینی تعلیم سے آراستہ نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ ہماری اولاد بھی جدید زمانہ کی طرز زندگی گذارنے پر مجبور ہو گی . کیونکہ زمانہ کا مشاہدہ ہے اکثر و بیشتر عالم کی اولاد عالم ، ماسٹر کی ماسٹر ، کسان کی کسان ، درزی کی درزی اور سبزی فروش کی سبزی فروش ہی بنتی ہے یعنی زیادہ تر اولاد اپنے ماں باپ کے نقش قدم پر ہی ہوتی ہے اور خال خال اس کے برعکس بھی . چنانچہ حدیث میں آتا ہے کی ہر بچہ فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یا تو یھودی بناتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی .
محترم قارئین : دنیا کے اندر جتنے بھی بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے ہیں ان کے ان کمالات کا ایک اہم سبب ان کی ماؤوں کا زیور علم سے آراستہ ہونا بھی ہے ، چاہے وہ امام غزالی ہوں کہ امام بخاری ، امام مالک ہوں کہ امام احمد بن حنبل . امام شافعی ہوں کہ امام ابو حنیفہ ، امام طحاوی ہوں کہ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، غرض یہ کہ ہر ایک کے پیچھے ان کی ماؤوں کا ایک اہم علمی رول کار فرما رہا ہے .
مگر افسوس کہ مردوں نے عورتوں کے قلب میں یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ ترقی و کمالات اور علم و فن کے میدان میں عورت کا کوئی خاص دخل نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے گھریلو کام کاج میں مصروف ہوتی ہے . یہ ایک غلط فہمی ہے جس کا تدارک و ازالہ بے حد ضروری ہے ،
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کے مقام و مرتبہ کو صحیح معنیٰ میں سمجھا جائے اور اس کو صحیح علم سے آراستہ کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کا کما حقہ حق ادا کر سکے اور امت کے لئے مصلحين ، مجتہدین اور محققین پیدا کر سکے .
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عورتوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے کی طرف خصوصی توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے . آمین .