از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد ، تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات .
ألحمدلله ، والصلوة والسلام علی رسول الله ، ومن والاہ .
پہلی قسط
تمام علماءِ عظام کے پاس تکبیر تحریمہ نماز کا ایک حصہ ہے ، اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوگی . نماز میں نیت کے بعد سب سے پہلے کہی جانے والی تکبیر ( اللہ اکبر ) کو تکبیرِ تحریمہ کہتے ہیں . جمہور علماءِ کرام کے پاس تکبیرِ تحریمہ فرض ہے ، جن میں ائمۂِ ثلاثہ بھی شامل ہیں ، احناف کے معتمد قول میں یہ شرط ہے ، ( جس کا معنی یہی ہوا کہ نماز اس کے بغیر صحیح نہیں ہوگی ، نماز کی ہیئت میں شامل نہ ہوگی ، بلکہ نماز کے خارج والی ایک ضروری چیز ہوگی )
تکبیرِ تحریمہ کی فرضیت کے لئے درج ذیل حضرت علی رضی اللہ سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ اَلطَّهُوْرُ ، وَتَحْرِيْمُهَا التَّكْبِيْرُ ، وَتَحْلِيْلُهَا اَلتَّسْلِيْمُ “. ( وفی روایة ،مفتاح الصلاة الوضوء ) نماز کی کنجی پاکیزگی ہے ، اس کا حرام ( حرمتِ نماز میں داخل ) ہونا تکبیر ( کہنا ) ہے ، اور اس کا حلال ہونا ، سلام کہنا ہے . { شافعی ، احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، دارمی ، بیہقی ، طحاوی ، وغیرہم } عبداللہ بن محمد بن عقیل سے ، انھوں نے محمد بن حنفیہ سے ، انھوں نے حضرت علی سے ، اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کی روایت کی ہے ، امام ترمذی نے اس حدیث کے متعلق کہا کہ اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور سب سے احسن ہے . اس باب میں حضرت ابوسعید ، ابن عباس ، عبداللہ بن زید ، انس اور عائشہ رضی اللہ عنھم سے بھی احادیث آئی ہیں ، اور عبداللہ بن مسعود سے موقوف ، یعنی ان کی احادیث سابق حدیث کے لئے شاہد ہیں . دوسری ایک متفق علیہ حدیث میں آتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اذا قمت الی الصلوۃ فکبر “. جب تم نماز کیلئے کھڑے ہوجاؤ تو اللہ اکبر کہو . { بخاری ، مسلم )
پہلی تکبیر کو تکبیر تحریمہ کہنے کی وجہ تسمیہ : نماز میں کہی جانے والی پہلی تکبیر کو تکبیر تحریمہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس تکبیر کے بعد نماز کے علاوہ تمام دوسری چیزیں ، مثلاً کھانا پینا ، باتیں کرنا وغیرہ مصلی پر حرام ہوتی ہیں ، اس تکبیر کو نماز کو کھولنے والی تکبیر بھی کہتے ہیں ، تاکہ مصلی کے ذہن میں اس تکبیر کا وہ اصل معنی حاضر رہے جسکی خدمت ( عبادت ) کیلئے وہ تیار ہوگیا ہے ، اور اس سے مصلی کے ذہن پر اس ذات کی ہیبیت قائم ہوکر وہ اپنی نماز کو انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کر سکے ، کیونکہ نماز کی روح ہی خشوع وخضوع اور ہیبت الہی ہے ، ان چیزوں کے نہ رہتے ہوئے نماز میں کوئی کمالیت ہی نہیں ہے .
دوسری قسط
یہ بات متعین ہے کہ تنہا نماز پڑھنے کے مقابلہ میں جماعت سے نماز پڑھنا بدرجہا افضل ہے ، ایک نماز کا ثواب ستائیس نمازوں کے برابر ملتا ہے ، جیسا کہ درج ذیل حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے واضح ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِيْنَ دَرَجَةً “. جماعت سے نماز ادا کرنا تنہا نماز پڑھنے کے مقابلہ میں ستائیس درجہ فضیلت رکہتی ہے . یہ حدیث حضرت ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، ابن عمر کی حدیث میں ستائیس درجہ فضیلت آئی ہے ، جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں پچیس درجہ کی ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو { مالک ، احمد ، بخاری ، مسلم ، ابوعوانہ ، بیہقی ، دارمی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے } حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بھی بہت ائمۂِ حدیث نے روایت کیا ہے ، جن میں مالک ، احمد ، بخاری اور مسلم وغیرہ شامل ہیں ، اور اس حدیث کے لئے صحابہ کی ایک جماعت بھی شاہد ہے ۔ تو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ ثواب ملتے ہیں اور اگر کوئی امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ میں شامل ہوتا ہے ، تو اسکے ثواب اور دوچند ہوجاتے ہیں ، کیونکہ اس کی ایک الگ فضیلت ہے ، اس لئے کہ اس کو حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، کیونکہ وہ نماز کا صفوہ ( نچوڑ ) ہے ، جیسا کہ حدیث بزار میں ہے ، اور اس وجہ سے بھی کہ اس کو مسلسل چالیس دنوں تک پڑھنے والے کیلئے دو برائتیں لکھی جاتی ہیں ، ایک آگ سے چھٹکارا ، اور دوسری براءت نفاق کی ، یعنی نفاق سے چھٹکارا . حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” جو شخص چالیس دن باجماعت تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ نماز پڑھے گا تو اس کے لیے دو نجاتیں لکھی جائینگی ، ایک نجات ( جہنم کی ) آگ کی ، اور ایک چھٹکارا نفاق کا “. { ترمذی ، اور انھوں نے اس حدیث کے موقوف ہونے کو ترجیح دی ہے } .
تکبیر تحریمہ کی فضیلت اسی وقت حاصل ہوگی جب امام کی تکبیر تحریمہ کے فوراً بعد ماموم بھی تکبیر کہہ کر نماز میں داخل ہوجائے ، دیر نہ کرے ، تکبیر تحریمہ کی فضیلت حاصل کرنے کیلئے صف اول میں ہی حاضر رہنے کی کوشش کرے ، تاکہ مقتدی کو اس کے ساتھ صف اول کی بھی فضیلت حاصل ہو ، جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کی فضیلت آئی ہے ، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اللہ اور اس کے فرشتے صف اول ( والوں ) پر رحمتیں بھیجتے ( استغفار طلب کرتے ) ہیں “. { ابوداؤد ، نسائی } اللہ سبحانہ وتعالی ہم تمام لوگوں کو صف اول میں رہکر امام کی تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے .
تیسری قسط
اس سے پہلی والی قسط میں صفِ اول میں رہنے کی فضیلت بیان کی گئی ، دوسری ایک اور متفق علیہ کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کردہ حدیث میں آتا ہے ، کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَافَيْ النِّدَاءِ والصَّفِّ الْاوَّلِ ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوْا اِلَّا اَنْ يَسْتَهِمُوُا عَلَيْهِ ،لَاسْتَهَمُوْا “. اگر لوگ اس فضیلت کو جانتے جو اذان کہنے اور صف اول کی ہے ، پھر وہ ( اس میں داخل ہونے کیلئے ) قرعہ اندازی کے علاوہ کچھ اور ( کوئی اور چارہ ) نہ پاتے تو یقیناً وہ ( اس کے لئے ) قرعہ اندازی کرتے. { بخاری ، مسلم } یعنی صف اول کی فضیلت پانے کیلئے اگر لوگوں کو قرعہ اندازی میں حصہ لینا پڑتا تو وہ یہ بھی کر لیتے ) لیکن آج کل اس کی فضیلت حاصل کرنے کی تڑپ رکھنے والوں کو خال خال ہی دیکھا جاتا ہے . آگے ترمذی کی حدیث گذری کہ چالیس دنوں تک امام کے ساتھ لگاتار تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز ادا کرنے پر دو برائتیں حاصل ہوتی ہیں ، لہذا ضروری ہوتا ہے کہ اس کا خاص خیال رکھا جائے کہ تکبیر تحریمہ اس کو امام کے ساتھ حاصل ہو ، حتی کہ اگر اس کو یہ خوف ہو کہ سنت نماز پڑھنے سے اس کی امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ فوت ہو سکتی ہے تو سنت کا آغاز نہ کرے ، بلکہ جماعت کا انٹظار کرے ، تمام علماء کے پاس اقامت شروع ہونے کے بعد سنت نماز کا آغاز کرنا مکروہ ہے ، ( سوائے امام ابوحنیفہ کے پاس کہ ان کے پاس جماعت کے فوت نہ ہونے کی صورت میں فجر کی دوسنت نماز پڑھنا جائز ہے ، کیونکہ ان کے پاس سنتوں کی قضا نہیں ہے ، اور سنت فجر ان کے پاس واجب کے قریب ہے ) بوقت اقامت سنت نماز میں مشغول نہ ہونے کیلئے مسلم وغیرہ کی حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اِذَا اُقِيْمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ اِلَّا الْمَكْتُوْبَة “. جب جماعت کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں . { مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ } اگر کسی کو فجر کی سنت نماز ادا کرنے کا موقعہ نہیں ملا تو وہ فرض نماز کو ادا کرنے کے بعد اسکو ادا کرے . یہاں پر امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق اس کو سنت ادا کر لینا چاہیے اگر چہ کہ اس کی ایک رکعت ہی چھوٹ کیوں نہ جائے ، تب اگر کسی نے امام کے ساتھ پورے ایک ماہ تک تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز ادا کی ہو ، اور آج کسی وجہ سے اس کی سنت نماز اور تکبیر تحریمہ کے درمیان یہ بات پیدا ہوئی ہو کہ اگر وہ سنت پڑھے گا تو اس کو امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ نہیں ملے گی ، تو کیا اس کا سنت کو چھوڑ کر جماعت میں داخل ہونا افضل نہیں ہوگا ؟خصوصاً اس وقت جب اس نے ایک ماہ تک امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز پڑھی ہو ، تاکہ اس کے چالیس دنوں تک کے تکبیر تحریمہ کا تسلسل نہ ٹوٹے ؟( تأمل کا مسئلہ ہے ) .