شبِ برأت یعنی نصف شعبان کے فضائل

0
2836

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد ، تینگن گنڈی ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، أبوظبی ، متحدہ عرب امارات . 

ألحمد لله رب العالمین ، والصلوةوالسلام علی رسوله الکریم الامین ، وعلی آله وصحبه واتباعه اجمعین .

احادیث مبارکہ میں شبِ نصف شعبان ( بالفاظِ دیگر شب برات ) کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں ، جن کو امام احمد ، ابن ماجہ ، طبرانی ، بیہقی ، ابن حبان وغیرھم نے بیان کیا ہے ، جن میں صحیح ، حسن اور ضعیف احادیث بھی ہیں .

نصف شعبان کی رات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اپنی مخلوقات کی مغفرت کرنا

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” يَطَّلِعُ اللَّهُ اِلَيْ جَمِيْعِ خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيْعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ اَوْمُشَاحِنٍ”. اللہ ( سبحانہ وتعالی ) شعبان کی نصف شب میں اپنی تمام مخلوقات کی طرف نگاہ شوق سے دیکھتا ہے ، پس اپنی تمام مخلوقات کی مغفرت کرتا ہے ، سوائے مشرک یا ( اور ) بغض رکھنے والے کے . ( اس حدیث کو امام طبرانی نے اوسط میں ، ابن حبان نے اپنی صحیح میں ، اور بیہقی نے روایت کیا ہے ، ابن ماجہ نے اس حدیث کو ان ہی الفاظ سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے ، اور بیہقی اور بزار نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث ایسی سند سے روایت کی ہے جس میں کوئی حرج نہیں . محدثین کرام نے اس حدیث کے متعلق کافی ریسرچ کی ہے ، اور متاخرین علمائے عظام نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ، البانی نے اس حدیث کے متعلق کہا کہ صحیح ہے . ( واللہ اعلم )

حضرت مکحول نے کثیر بن مرہ سے انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” شعبان کی نصف شب ( شب برات ) میں اللہ عزوجل زمین والوں کو بخش دیتا ہے ، سوائے مشرک یا دشمنی رکھنے والے کے “. ( امام بیہقی نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا کہ جید مرسل ہے ) .

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اللہ عزوجل شعبان کی نصف شب میں اپنی مخلوقات کی طرف بنگاہِ شوق دیکھتا ہے ، پھر سوائے دو ( قسم کے لوگوں ) کے اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے ، عداوت رکھنے والے اور خودکشی کرنے والے کے “. ( امام احمد نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، تاہم اس کی اسناد لين ہے ) .

امیر المومنین فی الحدیث حافظ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ ( مشرک یا مشاحن کے علاوہ لوگوں کی اللہ مغفرت فرماتا ہے کے تعلق سے ) کہتے ہیں کہ اس حدیث کو طبرانی اور بیہقی نے مکحول سے ، انھوں نے ابوثعلبہ سے بھی ، اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اللہ شعبان کی نصف شب میں اپنے بندوں کی طرف دیکھتا ہے ، پس مؤمنین کی مغفرت کرتا ہے ، اور کافرین کو ( ایمان لانے اور توبہ کرنے کی ) مہلت دیتا ہے ، اور کینہ رکھنے والوں کو ان کے کینہ رکھنے کی وجہ سے اس وقت تک چھوڑے رکھتا ہے جب تک کہ وہ اس ( کینہ اور بغض ) کو نہ چھوڑ دیں “. ( امام بیہقی نے کہا کہ یہ حدیث بھی جید مرسل ہے ) .

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!” تین ( خصلتیں ) ایسی ہیں کہ کسی شخص میں اگر ان میں سے کوئی نہ ہو ، تو اللہ (جل مجدہ ) اس کے علاوہ جس کو چاہتا ہے مغفرت فرماتا ہے ، ( وہ تین خصلتیں یہ ہیں ) جو اس حالت میں مرجاتا ہو کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرایا ہو ، وہ کوئی ایسا جادوگر نہ ہو جو جادوگروں کے پیچھے جاتا ہو ، اور وہ اپنے بھائی کے خلاف بغض نہ رکھتا ہو “. ( طبرانی نے اس حدیث کو معجم کبیر اور اوسط میں لیث بن ابوسلیم کی روایت سے نقل کیا ہے ) اس کے علاوہ بھی شب قدر کی فضیلتیں ہیں ، اس مبارک شب میں پورے ایک سال کے معاملات کا فیصلہ کرنا ، تحویل قبلہ وغیرہ .

دوسری قسط

اس مضمون کی ابتداء میں صحیح یا حسن درجہ کی یہ حدیث گذر چکی کہ نصف شعبان میں اللہ عزوجل ، چند آدمیوں کے علاوہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ، اسی طرح اس مبارک رات میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عبادت کرنا ، آپ علیہ الصلوۃ والسلام کا قبرستان میں جاکر مؤمنین اور مؤمنات کے لئے دعائے مغفرت کرنا بھی ثابت ہے ، اس مبارک شب کو اس حیثیت سے بھی فضلیت حاصل ہے کہ اس رات میں دو قول میں سے ایک قول میں آنے والے ایک پورے سال کے امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، اور یہ شرف بھی حاصل ہے کہ تحویل قبلہ شب برات میں ہی ہوئی تھی ، اتنے فضائل رکھنے والی رات کو لیلۃِ برات ، یالیلۃِ غفران ، یا شب برات کہنا صحیح ہے ؟ اس سلسلہ کی چند احادیث درج میں بیان کی جا رہی ہیں .

نصف شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عبادت کرنا ، حضرت علاء بن حرث رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں آٹھ کر نماز پڑھنی شروع کی ، آپ نے نماز پڑھی ، اور ( خوب ) طویل سجدہ کیا ، حتی کہ میں نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے ، پس جب میں نے یہ دیکھا تو اٹھ کھڑی ہوئی حتی کہ آپ کے انگھوٹے کو ہلایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرکت کی اور لوٹا لیا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سرِ ( مبارک ) کو سجدہ سے اٹھا لیا اور اپنی نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا! ” عائشہ! یا یاحمیرہ ( دونوں میں کوئی ایک لفظ کہا تھا ) کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے خیانت کی ہے؟ “. میں نے کہا یارسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بخدا! یہ بات نہیں ، لیکن میں نے تو یہ گمان کیا تھا کہ آپ کے طول سجدہ کی وجہ سے کہیں آپ ( کی روح مبارک ) کو قبض تو نہیں کر لیا گیا ؟ فرمایا! ” کیا تم جانتی ہو کہ یہ کونسی شب ہے؟ ” میں نے کہا! اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر طریقہ سے جانتے ہیں ، فرمایا! ” یہ شعبان کی نصف شب ہے ، شعبان کی نصف شب میں اللہ عزوجل اپنے بندوں کو جھانک کر دیکھتا ہے ، اور مغفرت طلب کرنے والوں کو بخش دیتا ہے ، اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے ، اور عداوت رکھنے والوں کو جس حالت میں وہ ہوں ( ان کی مغفرت کو ) مؤخر رکھتا ہے”. ( امام بیہقی نے اس حدیث کو روایت کرکے کہا کہ یہ جید مرسل ہے ) ابن ماجہ کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شب میں عبادت کرنے اور اس کے دن کا روزہ رکھنے کے لئے فرمایا ہے ، فرمایا! ” جب شعبان کی نصف شب ہو تو تم اس کی رات میں کھڑے ہو جاؤ ،( نمازیں ادا کرو ) اور اس کے دن کا روزہ رکھو “. ( ابن ماجہ ) البتہ اس شب میں لوگوں نے جو نمازوں کی تعداد متعین کی ہیں اس کے لئے کوئی اصل نہیں ہے ، یہ بدعت ہے ، ایسی بدعات منکرہ سے دور رہنے کی شدید ضرورت ہے ، بلکہ مطلق نمازیں پڑھنی چاہئے ، اسی طرح ذکر اذکار ، اور خوب دعائیں کرنی چاہئے ، اللہ عزوجل ہمیں گھر بیٹھے بغیر مانگے تھوڑی ہی نا شوق کی نظر سے دیکھے گا ؟ .

تیسری قسط

اس مبارک شب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ” بقیع الغرقد ” قبرستان میں گئے تھے اور مؤمنین اور مؤمنات کے لئے دعائے مغفرت کی تھی ، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیث میں آتا ہے ، وہ کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور اپنے دو کپڑے اتار کر رکھا ، پھر مکمل طور پر آرام بھی نہیں فرمایا تھا کہ کھڑے ہوکر انہیں پہنا ، یہ گمان کرتے ہوئے مجھے سخت غیرت ( حمیت ) نے پکڑا کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میری بعض ساتھیوں ( سوکنوں ) کے پاس آئے ہوں گے ، ( سبحان اللہ!مؤمنین کی اماں ) میں آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پیچھے نکل پڑی ، پھر میں نے آپ کو بقیع ( بقیع غرقد ) میں مؤمنین ، مؤمنات اور شہداء کے لئے استغفار کرتے ہوئے پایا ، میں کہنے لگی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ، آپ تو اپنے رب کی حاجت میں ہیں اور میں ہوں کہ دنیا کی ضرورت ( کی سوچ ) میں ، میں پلٹ کر اپنے کمرے میں اس حال میں آئی کہ میری سانسیں پھول رہی تھیں ، ( مجھ پر ایک قسم کا اضراب اور بے چینی تھی کہ آپ کس کام کے لئے گئے تھے اور میں نے کیا سوچ کر آپ کا پیچھا کیا تھا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مل کر پوچھا! ” یا عائشہ یہ سانسیں کیوں پھول رہی ہیں؟ ” میں نے کہا! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں ، آپ میرے پاس تشریف لے آئے ، اپنے دونوں کپڑوں کو رکھا ، پھر ٹھیک طریقہ سے آرام بھی نہیں فرمایا تھا کہ کھڑے ہوکر انہیں پہنا ، مجھے شدید غیرت محسوس ہوئی یہ سوچ کر کہ آپ میری بعض ساتھیوں کی طرف آئے ہیں ، پھر میں نے آپ کو بقیع میں وہ کرتے دیکھا جو آپ کر رہے تھے ، فرمایا! ” اے عائشہ! کیا تم اس بات سے ڈر رہی تھیں کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا ؟ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہنے لگے یہ شعبان کی نصف شب ہے ، اس (شب ) میں کَلْب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر ( لوگ ) اللہ کے لئے جہنم سے آزاد ہونے والے ہیں ، ( بے انتہا لوگوں کے آگ سے نجات پانے سے کنایہ ہے ، کلب ایک قبیلہ کا نام ہے جس کے پاس دوسرے قبیلوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ بکریاں تھیں ) اللہ اس ( شب ) میں کسی مشرک کو دیکھتا ہے اور نہ کسی عداوت رکھنے والے کو ، کسی رشتہ داری توڑنے والے کو اور نہ کسی ( تکبر سے کپڑے یا پائجامہ وغیرہ کو ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والے کو ، نہ اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والے کو اور نہ ہی کسی شراب نوشی میں مست رہنے والے کو ، کہا! پھر آپ نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر رکھے اور مجھ سے فرمایا! عائشہ!کیا تم ” مجھے اس رات کے قیام ( نماز پڑھنے ) کی اجارت دوگی؟ ” میں نے کہا! میرے ماں باپ آپ پر قربان ، پھر آپ ( علیہ الصلوۃ والسلام ) نے قیام کیا اور لمبا سجدہ کیا حتی کہ میں یہ گمان کرنے لگی کی آپ کو اللہ نے وفات دی ، میں آپ کو ڈھونڈنے لگی اور اپنے ہاتھ کو آپ کے دونوں ( مبارک ) قدموں کے اندونی حصہ ( تلووں ) پر رکھ دیا ، آپ نے حرکت کی ، میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ، اور میں آپ کو اپنے سجدہ میں یہ کہتے ہوئے سننے لگی! ” اَعُوْذُ بِعَفْوِكَ مِنْ عِقَابِكَ ، وَاَعُوْذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخْطِكَ ، وَاَعُوْذُبِكَ مِنْكَ جَلَّ وَجْهَكَ ، لَااُحْصِيْ ثَنَاءًا عَلَيْكَ اَنْتَ كَمَا اَثْنَيْتَ عَلَي نَفْسِكَ ” پھر جب صبح ہوئی تو میں نے اس کا تذکرہ آپ سے کیا ، آپ نے فرمایا! ” اےعائشہ! کیا تم ان ( دعاؤوں )کو سیکھوگی ؟ ” میں نے کہا! ہاں! فرمایا! ،” تم انہیں سیکھوگی اور سکھاؤگی ، اس لئے کہ انھیں مجھے جبرئیل علیہ السلام نے سکھایا ہے ، اور مجھے حکم دیا ( کہا ) ہے کہ میں انھیں سجود میں لوٹاؤں “. ( بیہقی )

تحویل قبلہ کے تعلق سے بھی اس عظیم رات کی اپنی ایک فضیلت ہے ، تاریخ داں کہتے ہیں کہ بیت المقدس کے صخرہ ( وہاں کی مشہور مبارک چٹان ) کی طرف سولہ یا سترہ ماہ تک قبلہ بنا کر نماز پڑھنے کے بعد دوبارہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنا کر نماز پڑھنے کا حکم اسی شب میں دیا گیا .

اس بابرکت شب کی ایک اور فضیلت یہ ہے کہ دو قولوں میں سے ایک قول میں پورے سال کے امور أرزاق ، آجال ، خیر اور شر اور دوسرے آئندہ سال تک کے امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، چنانچہ ” فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ” کی تفسیر میں جلالین لکہتے ہیں کہ اس میں یعنی شب قدر یا شعبان کی نصف شب میں ، ( جلالین ، ص/496 ) ، رئیس المفسرین ، محدث ، فقیہ ، حضرت امام بغوی ( متوفی/516 ) اپنی معرکہ آرا تفسیر ” معالم التنزیل ” میں لکھتے ہیں کہ حسن مجاھد اور قتادہ نے کہا کہ ماہ رمضان کی شب قدر میں اجل عمل خلق رزق اور اس سال ہونے والی تمام چیزوں کو لکھا جاتا ہے ، عکرمہ کہتے ہیں کہ یہ شعبان کی نصف شب ہے ، اس میں ایک سال کے تمام امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، اس میں نہ تو کسی قسم کی کوئی بو آتی ہے،اور نہ زیادتی ( تفسیر بغوی ، ص/ 860 ) تو اس قدر بابرکت ، فضیلت سے بھری ہوئی شب کہ جس کی فضیلت میں صحیح حسن اور ضعیف احادیث اور جید مراسیل آئی ہوں کیسے اس کی فضیلت کا انکار کیا جاسکتا ہے ؟ بے پرواہی سے بعض لوگوں کا موضوع حدیث کہنا ، یا اس کی فضیلت کا انکار کرنا ، یا اس رات میں عبادت کرنے کو بدعت کہنا علم کی کمی اور علم کو چھپانے کے مترادف ہے ۔

اللہ عز وجل ہمیں اپنے اور اپنے رسول کے علوم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کما حقہ توفیق رفیق عطا فرمائے ۔ وما علینا الا البلاغ المبین ۔

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here