آمین بالجہر کے دلائل حدیث کی روشنی میں

0
2125

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات .

امام شافعی ، مالکی اور حنبلی کے نزدیک جہری نمازوں ( فجر ، مغرب ، عشاء ، جمعہ اور عیدین وغیرھما ) میں آمین زور سے ہی کہنا سنت ہے .

حضرت نُعَيْمِ الْمُجَمَّرْ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) کے پیچھے نماز پڑھی ، آپ نے پڑھا ” بسم الله الرحمان الرحیم ، پھر ام قرآن ( فاتحہ ) پڑھا ، حتی کہ جب ” ولا الضالین ” پر پہونچے تو آمین فرمایا اور لوگوں نے آمین کہا ، پھر نماز کے بعد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ ( قبضہ قدرت ) میں میری جان ہے ، یقینا میں نے آپ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھائی ہے . ( امام بخاری نے اس حدیث کو تعلیقا روایت کیا ہے ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن حبان ، ابن سراج ) .

بخاری میں ہے کہ ابن شہاب نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ” آمین کہا کرتے تھے “. عطاء کہتے ہیں کہ آمین ایک دعا ہے ، ابن زبیر ( صحابی ہیں ) نے آمین کہی ، اور ان کے پیچھے رہنے والوں ( مقتدیوں ) نے بھی آمین کہا ، حتی کہ مسجد گونج اٹھی .

حضرت نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر ( رضی اللہ عنہما ) اس کو ( زور سے آمین کہنے کو ) کبھی نہیں چھوڑتے تھے ، اور صحابہ کو اس پر ابھارتے تھے ، ( اس طرح نہیں جس طرح آج کل سنی کہنے والے وغیرہ حدیثوں کا مذاق اڑاتے اور جھٹلاتے ہیں ) اور میں نے ان ( ابن عمر ) سے اس سلسلہ میں حدیث سنی ہے .

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ” غیر المغضوب علیھم ولاالضالین ” کہتے تو آمین فرماتے ، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہنے والے پہلی صف کے لوگ اس کو سنتے . ( ابوداؤد ، ابن ماجہ ) اور کہا حتی کہ صفِ اول والے لوگ اس کو سنتے ، کہ جس سے مسجد گونج اٹھتی ، اس حدیث کو حاکم نے روایت کرکے بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے ، اور بیہقی نے ، اور کہا کہ حدیث حسن صحیح ہے ، اسی طرح دارقطنی نے بھی ، اور کہا کہ اس کی سند حسن ہے .

حضرت وائل بن حجر سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ” غیر المغضوب علیھم ولا الضالین ” پڑھ کر ، آمین کہتے ہوئے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنی آواز کو کھینچتے تھے ” ( احمد ، ابوداؤد ) ابوداود کے یہ الفاظ ہیں ” اس کے ادا کرنے میں اپنی آواز بلند فرماتے تھے ” اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن قرار دیتے ہوئے کہا اور اسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے صحابہ اور ان کے بعد تابعین کہتے ہیں ، وہ یہ مانتے ہیں کہ آدمی آمین زور سے کہے ، نہ کہ آہستہ سے ، امیر المؤمنین فی الاحادیث والفقہ علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے . حضرت عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ائمہ ( بڑے بڑے صحابہ ) سے ( آمین کو زور سے کہتے ہوئے ) سنتا تھا .

ابن زبیر اور ان کے بعد والے ذکر کرتے ہیں کہ صحابہ آمین کہتے تھے ، اور ان کے پیچھے والے آمین کہا کرتے تھے ، حتی کہ مسجد گونج جاتی “. ( عبدالرزاق ) . ( تہذیب ، ج/2 ، ص/97 )

امام عطا کہتے ہیں کہ میں نے اس مسجد میں دو سو سے زیادہ صحابہ کو پایا ہے ، جب امام ” ولاالضالین ” کہتا تو وہ آمین کہتے ، اور ان سے آمین کی گونج ( باز گشت ) سنائی دیتی “.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” یہود تم سے کسی چیز پر حسد نہیں کرتے ، مگر اس چیز پر جو تم آج کرتے ہو ، سلام اور امام کے پیچھے آمین کہنے پر “. ( احمد ، ابن ماجہ ) .

ان لوگوں کو احتیاط کرنے کی ضرورت ہے جو زور سے آمین کہنے والوں پر طنز کستے ہیں تاکہ ان کا یہ عمل کسی حدیث سے ٹکرا نہ جائے .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here