رؤیت ہلال کے اعتبار کے لئے مسافت مطالع میں اختلافات کا ایک علمی جائزہ

0
1697

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد ، تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات . 

مطالع کے اعتبار سے احکام کا نفاذ : کسی جگہ میں پہلی رمضان کا چاند دکھائی دینے پر باتفاقِ علماء شوافع اس جگہ سے قریب رہنے والے تمام لوگوں پر روزہ رکھنا اور شوال کا چاند نظر آنے پر عید منانا ضروری ہے . البتہ مطالع کی مسافت میں قریب اور بعید شہر کے درمیانی فاصلہ کے بیان کرنے میں علماء عظام کے اختلافات کی تین صورتیں ہیں .

پہلی صورت : جو ان تینوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے اور اسی کو امام صیدلانی نے قطعی کہا ہے اور امام نووی نے اس کو روضہ اور شرح مہذب میں راجح قرار دیا ہے کہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی دوری کا اعتبار مطالع کے مختلف ہونے کے اعتبار سے الگ الگ ہوتا ہے ، مثلا حجاز عراق اور خراسان ، یا بنگلور پنجی اور چنیٔ کے ستاروں اور سورج کے الگ الگ ہونے کے ذریعہ .

ایک دوسرے سے قریبی گاوں یا شہر وہ ہیں جن کے مطالع ایک دوسرے سے مختلف نہ ہوں ، جیسے بغداد اور کوفہ ، بھٹکل اور کنداپور ، یا بھٹکل اور کمٹہ ، کیونکہ اِن کا مطلع اور اُن کا مطلع ایک ہے ، ایسے میں جب اہلیانِ بھٹکل نے چاند دیکھا ہو اور کنداپور یا کمٹہ والوں کو چاند نظر نہ آیا ہو تب بھی کنداپور اور کمٹہ والوں پر روزہ رکھنا واجب ہوگا ، ان لوگوں کو چاند نہ دکھائی دینے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ ان کو چاند نہ دکھائی دینا یا تو ان کے چاند کے سلسلہ میں غور و فکر نہ کرنے سے یا ان کی کسی کوتاہی کی وجہ سے ہوگا ، یا کسی چیز کے آڑے آنے کی وجہ سے . بہرحال جن شہروں یا صوبوں کے مطالع یعنی سورج اور ستاروں کے طلوع ( وغروب ) ہونے کی جگہیں ایک نہ ہوں ، بلکہ الگ الگ ہوں ، جیسے بنگلور اور پنجی کی ، تو وہاں کسی شہر یا صوبہ میں پہلی رمضان کا چاند دکھائی دینے پر دوسرے شہر یا صوبہ میں روزہ رکھنا لازم نہیں ہوگا .

دوسری صورت : جس کے قائل علامہ صمیری اور دوسرے علمائے کرام ہیں کہ قُرْب وبُعْد کا اعتبار صوبوں یعنی ریاستوں کے متحد ( ایک ) اور مختلف ( الگ ) ہونے کے اعتبار سے کیا جائے گا ، اگر دو صوبے ملکر ہوں ، تو دونوں ایک دوسرے سے قریب سمجھے جائیں گے ، مثلاً ریاست کرناٹکا اور گوا کا حکمران یا وزیر اعلی ایک ہی ہو ، تب بھٹکل یا بنگلور میں چاند دیکھنے پر گوا میں بھی روزہ رکھنا واجب ہوگا . اور اگر دو ریاستیں الگ الگ ہوں ، تو ان دونوں کو ایک دوسرے سے دور سمجھا جائے گا ، اور ایک کی رؤیت دوسرے کے لئے ناکافی قرار دی جائے گی ، یعنی ایک ریاست میں چاند کی رؤیت ثابت ہونے پر دوسری ریاست والے ان کی رؤیت کا اعتبار نہیں کریں گے اور نہ ہی روزہ رکھیں گے ۔

تیسری صورت : جس کو امام فورانی ، امام حرمین ، امام بغوی اور امام غزالی جیسے جید علمائے کرام نے کہا ، اور امام حرمین نے اس پر اتفاق کا بھی دعویٰ کیا کہ قریب وہ گاؤں ہے جو چاند دیکھی جانے والی جگہ سے مسافتِ قصر سے زیادہ دوری پر نہ ہو ، اور بعید وہ گاؤں ہے جو اس سے زیادہ فاصلہ پر ہو ، اور یہ اس وجہ سے کہ طلوع ہونے کی جگہوں کا اعتبار کرنا حساب لگانے والے اور ستارہ شناسوں ( منجمین ) کے حساب ( کرنے ) کا محتاج ہوتا ہے ، اور شرعی قواعد اس کا انکار کرتے ہیں ، لہذا مسافت قصر کا ہی اعتبار کرنا واجب ہوا کہ جس پر شریعت کے بہت سارے احکام کا تعلق ہے .

لیکن یہ وجہ ( پہلے قوی قول کی بنسبت ) ضعیف ہے ، اس لئے کہ روزوں کا اعتماد تو ستاروں کے طلوع ( وغروب ) ہونے پر ہی ہوتا ہے نہ کہ مسافت پر ، لہذا روزہ اور مسافت قصر ( کے مسئلہ ) کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا اس لئے کہ روزہ رکھنا چاند کے دکھائی دینے پر ہی واجب ہوتا ہے ، اور چاند دیکھنے کا مرجع بھی ستاروں اور سورج کے طلوع وغروب ہونے پر ہوتاہے ، نہ کہ مسافت قصر پر .

پہلے قول کے لئے حضرت کریب رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ، کہتے ہیں کہ میں شام میں آیا،میرے شام میں رہنے کی حالت میں میرے پاس ماہ رمضان کا شور مچ ا، میں نے شب جمعہ میں ( پہلی کا ) چاند دیکھا ، پھر لوگوں نے اس کو دیکھا،اور معاویہ نے روزہ رکھا ، پھر میں مہینہ کے آخر میں مدینہ میں آیا اور ابن عباس ( رضی اللہ عنھما ) کو اس کی خبر دی تو ابن عباس نے مجھ سے پوچھا اور چاند کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم نے چاند دیکھا ہے؟ تو میں نے کہا! :ہم نے اس کو شب جمعہ میں دیکھا ہے ، انھوں ( ابن عباس ) نے پوچھا! کیا تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ میں نے کہا؛! ہاں! اور لوگوں نے ( بھی ) اسے دیکھا ہے ، اور انھوں نے روزہ رکھا ، اور معاویہ نے ( بھی ) تب انھوں نے کہا! لیکن ہم نے تو اس کو سنیچر کی رات میں دیکھا ہے ، ہم اس وقت تک روزہ رکھتے رہیں گے حتی کہ تیس ( روزے ) مکمل نہیں ہوتے ، یا اس ( چاند ) کو دیکھ نہ لیتے ، تب میں نے کہا! کیا آپ کو معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) کا دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ؟ تو انھوں نے کہ! :نہیں ، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے . ( احمد ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی، نسائی ) امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن ، صحیح ، غریب کہا ہے ، کہتے ہیں کہ اہل علم کے پاس اس حدیث پر عمل ہے کہ ہر شہر کے لئے ان کا چاند دیکھنا ہے ، ” فتح العلام شرح بلوغ المرام ” میں ہے کہ اقرب یہی ہے کہ ہر شہر والوں کے لئے ان کا چاند دیکھنا اور ان کی جہت میں رہنے والے تمام لوگوں کے لئے اس پر عمل کرنا لازم ہے . ۔( فقہ السنہ ، ج/1 ، ص/324 )

ان اوجہ کے سیر حاصل بیان سے بات واضح ہوئی کہ ظاہر پہلا قول ہے . ( حاشیۂ تہذیب ، ج/3 ، ص/147—48 ) یہی ائمہ عکرمہ ، قاسم بن محمد ، سالم اور اسحاق کا مذہب ہے ، اور احناف کے پاس بھی یہی صحیح مذہب ہے ، ( لیکن احناف کے چند علماء کہتے ہیں کہ پورے بھارت کا مطلع ایک ہی ہے ، لیکن ان کا یہ قول ضعیف ہی لگتا ہے ، کیونکہ تقریبا ہر سال یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی جگہ چاند نظر آتا ہے اور کسی جگہ مطلع صاف رہنے کے باوجود بھی چاند نظر نہیں آتا اور لوگ الگ الگ دن روزے رکھتے اور عید مناتے ہیں ، جس طرح امسال ( 1439 ھ میں ) حتی کہ ایک ایک ریاست میں آج اور کل عیدیں منائی گئیں ، اس اہم مسئلہ پر علماء حضرات کو بیٹھ کر غور کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ اختلاف کم ہو اورصحیح حدیث پر عمل کیا جاسکے )

ناچیز کی نظر میں بھی پہلا قول ہی معتمد ہے ، اور یہی قول مذکورہ بالا حضرت کریب رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث کے موافق ہے ، ایسے میں ضروری ہوتا ہے کہ ہمارے کاروار ضلعہ میں ایک ہلال کی معتدبہ کوئی کمیٹی قائم ہو جس میں علماء کرام بھی موجود ہوں اور چاند کو دیکھے جانے کے بعد ہی رمضان کے روزے یا عید کی نماز ادا کی جائے ، اور لوگ قاضی پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈال سکیں .

علماء کی ایک بڑی تعداد اس بات پر گئی ہے کہ مطالع کا کچھ اعتبار نہیں ، جہاں کہیں بھی چاند دیکھا جائے تو اس کے دیکھنے سے ہی تمام ممالک پر روزہ رکھنا واجب ہے ، لیکن حضرت کریب رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ان علماء کے خلاف ہے جو ڈھکی چھپی بات نہیں ، جہاں شام میں چاند دیکھے جانے پر مدینہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما اور اہلیانِ مدینہ منورہ نے روزہ نہیں رکھا ، اور کہا تھا کہ اسی طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے . والله اعلم ، والیه المرجع والمآب ، وعلمه احاط کل الکائنات .

منہاج الطالبین کے شارح شیخ الاسلام علامہ شہاب الدین ابن حجر ہیتمی ” انوار ” میں لکھتے ہیں کہ مطالع کے مختلف ہونے سے مراد دو جگہوں کا ایک دوسرے سے اتنا دور ہونا ہے کہ جہاں ایک جگہ میں چاند دکھائی دینے سے غالبا دوسری جگہ نہ دکھائی دیتا ہو ، اور تاج تبریزی اور ان کے متبعین نے کہا کہ مطالع کا الگ الگ ہونا چوبیس فرسخ سے کم فاصلہ میں ممکن نہیں ، ( جس کا فاصلہ 197 کلو میٹر سے کچھ ہی کم ہوتا ہے ) اور ان کا اس پر اعتماد کرنا غالباً  استقراء میں سے ہے . ( ج/1 ، ص/508 )

شیخنا رملی قلمبند کرتے ہیں کہ زیادہ معتبر یہی ہے کہ یہ فاصلہ تحدیدی ہے ، ( یعنی 197 کلو میٹر سے کم فاصلہ میں مطالع کا مختلف ہونا ممکن نہیں ) جیسا کہ والد رحمہ اللہ نے فتوی دیا ، اور سبکی نے آگاہ کیا ، اور اسنوی وغیرہ نے ان کی پیروی کی کہ مطالع مختلف ہونے کی صورت میں چاند کا مشرقی شہر میں دیکھنے پر مغربی شہر میں دیکھا جانا لازم ہوتا ہے ، اس کے عکس کے علاوہ . ( ج/3 ، ص/326 )

قرب و بعد کے مطالع کا مرجع

اگر ایک جگہ میں سورج اور ستارے دوسری جگہ کے سورج اور ستاروں کے ساتھ طلوع وغروب ہوتے ہوں تو ان دو جگہوں کو متحد مطلع والی جگہ کہا جائے گا ، اور سورج اور ستارے اگر ان دونوں جگہوں میں سے کسی جگہ میں دوسری جگہ سے پہلے طلوع یا غروب ہوتے ہوں تو ان جگہوں کو مختلف ( بعید ) کہا جائے گا .
اس کا سبب عروضِ بلاد کا خطِ استوا سے اور طوالِ بلاد کا عربی سمندر کو گھیرے ہوئے ساحل سے دور ہونا ہے ، تو جہاں دو شہروں کا طول بلد ایک ہو ، تو ان دونوں میں سے کسی شہر میں چاند دیکھے جانے پر دوسرے شہر میں بھی چاند دیکھا جانا لازم آتاہے ، اگرچہ ان دونوں کا عرض بلد الگ ہو ، یا ان دونوں کے درمیان کئی شہروں کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو ، اور جب ان دونوں شہروں کا طول ایک دوسرے سے مختلف ہو تو چاند دیکھنے میں ان دونوں شہروں کا مساوی ( برابر ) ہونا منع ہے ، اور مشرقی شہر میں چاند دکھائی دینے پر مغربی شہر میں چاند کا دکھائی دینا لازم ہوگا ، عکس کے برخلاف ، تب مکہ مکرمہ میں چاند دیکھنے سے مصر میں چاند دیکھنا لازم ہوگا ، عکس کے برخلاف . ( تحفہ ، نہایہ ، محشیان تہذیب ، بجیرمی ، اعانہ اور فقہ السنہ کا خلاصہ ) .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here