از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آباد ،تینگن گنڈی ، بھٹکل ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات
محرم الحرام کا دسواں ، نواں اور اسی طرح گیارہواں روزہ ( بھی ) رکھنا سنت ہے . سنت روزوں کا بڑا ثواب ہے ، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے اس کی وضاحت ہو رہی ہے .
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! ” جس شخص نے اللہ کے راستہ میں ایک دن روزہ رکھا ، تو اللہ اس کے چہرہ کو آگ سے ستر سال ( کی دوری کے برابر ) دور رکھے گا “. ( بخاری ، مسلم )
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” جس نے اللہ کے راستہ میں ایک روزہ رکھا تو اللہ اس کے اور جہنم کے درمیان اتنی دوری والا ایک خندق بنائے گا جتنی دوری آسمان اور زمین کے درمیان ہے “. ( ترمذی )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے معلوم کیا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے ؟فرمایا! ” رات کے درمیان نماز پڑھنا ” دریافت کیا گیا ، پھر رمضان کے بعد کونسا روزہ افضل ہے ؟ فرمایا! ” اللہ کے اس ماہ میں روزہ رکھنا جس کو تم محرم کہتے ہو”.( احمد ، مسلم ، ابوداؤد )
یوم عاشوراء اور تاسوعاء کی فضیلت
محرم کی دسویں کو عاشوراء اور نویں کو تاسوعاء کہتے ہیں . ( 55/4 ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی دن کے روزہ کو اس کے غیر پر فضیلت دیکر روزہ رکہتے ہوئے نہیں دیکھا مگر اس دن کو ” یوم عاشورہ کو ” اور اس ماہ کو ، یعنی رمضان کے ماہ کو “. ( بخاری ، مسلم )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہود کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا ” یہ کونسا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو ؟ ” تو انھوں نے کہا کہ یہ وہ عظیم دن ہے جس میں اللہ (سبحانہ و تعالیٰ ) نے موسی اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق آب کیا ، تو موسیٰ ( علیہ الصلوت والسلام ) نے شکر کے طور پر اس ( دن ) کا روزہ رکھا ، سو ہم ( بھی ) اس کا روزہ رکھتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” ہم تمہارے مقابلہ میں موسیٰ ( کا سا عمل کرنے ) میں زیادہ حقدار اور زیادہ بہتر ہیں “. سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا روزہ رکھا ، اور اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا . ( بخاری ، مسلم )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کے روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے کہا کہ یارسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ و سلم ) یہ وہ دن ہے جس کی یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں ، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” اگر میں آئندہ سال باقی رہوں گا تو ضرور نواں روزہ بھی رکھوں گا “. ( احمد ، مسلم ) ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں ” ان شاء اللہ اگر آئندہ سال ہوا تو ہم تاسوعا کا ( بھی ) روزہ رکھیں گے “. راوی ( ابن عباس ) کہتے ہیں کہ اگلا سال نہیں آیا حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وفات پا گئے . ( مسلم ، ابوداؤد )
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کیا کرتے تھے ، اور اس کو عید بنایا کرتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” تم اس کا روزہ رکھو “.
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ،انھوں نے کہا! ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یوم عاشورہ کے روزہ کا حکم دیا کرتے تھے ، اور ہمیں اس پر ابھارا کرتے تھے ، اور اپنے نزدیک ہم سے معاہدہ لیا کرتے تھے ، جب رمضان فرض کیا گیا ، تب ہمیں حکم نہیں دیا کرتے ، نہ اس سے روکتے ، اور نہ ہی اپنے پاس ہم سے معاہدہ لیا کرتے “. ( مسلم )
ام المؤْمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، وہ کہتی ہیں کہ ” چار چیزوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں چھوڑا ، عاشوراء کا روزہ ، اور ( ذوالحجہ کے اول ) عشر ، ( ہ – دھائی – کے روزے ) ہر ماہ کے تین روزے اور فجر سے پہلے والی دو رکعتیں “۔ ( نسائی ، احمد )
( اور علامہ شوکانی نے اُن لوگوں کے قول کو مسترد کردیا ہے جو اس عشر ( دھائی ) کے روزوں کو عائشہ کے اِس قول ” ما رَاَيْتُ رَسولَ الله صلی الله علیہ وسلم صائماً قطُّ في العشر : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشر میں کبھی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ” کے ذریعہ دلیل مان کر رد کر دیتے ہیں کہ بعض اوقات آپ کا اس عشرہ کے روزوں کو نہ رکھنا ، سفر یا بیماری یا ان دونوں جیسی کسی چیز کے عارض ( آڑے ) آنے کی وجہ سے ہوتا تھا ، اور اُن ( عائشہ ) کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( روزے رکھتے ہوئے ) نہ دیکھنا روزے نہ رکھنے کو مستلزم نہیں کرتا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے وہ چیز ثابت ہے جو اس کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے ) . ( نیل الأوطار للشوکانی ) .
عاشوراء کے روزہ کی فضیلت اور اس کا روزہ رکھنے والے کے لئے ایک سال کے گناہ کی معافی
60/9 : حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کردہ مسلم کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے محرم کا دسواں روزہ رکھنے والے کے پچھلے ایک سال کے گناہ کی معافی کا حکم سنایا ہے ، حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں ” یوم عرفہ کے روزہ کو میں سمجھتا ( امید کرتا ) ہوں کہ اللہ پر اس سے پہلے اور اس کے بعد والے سال ( کے گناہوں ) کا کفارہ ہے ، اور عاشوراء کے روزہ کو میں سمجھتا ( امید کرتا ) ہوں کہ اللہ پر اس کے پہلے والے سال ( کے گناہوں ) کو مٹانا ہے “. ( مسلم ) صوم عرفہ کے رکھنے پر اگلے اور پچھلے دوسال کی مغفرت کا وعدہ اور عاشورہ کا روزہ رکھنے پر ایک سال کے وعدہ کا پہلا سبب یہ ہے کہ پہلا یوم محمدی اور دوسرا یوم موسی ( علیھما الصلوة والسلام ) ہے . اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم تمام انبیاء کرام علیہم الصلوت والسلام سے افضل ہیں ، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دن کا روزہ رکھنے پر دو سال کے ( صغیرہ ) گناہوں پر قلم عفو پھیر دیا جائے گا .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی دن کے روزہ کو جستجو کر کے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس دن کے ، وہ اس سے عاشوراء کا روزہ مراد لیتے ہیں “. ( مسلم ، ابوداؤد ، بیہقی )
دسویں روزہ کے ساتھ نواں روزہ رکھنا بھی سنت ہے ، عربی میں اس کو تاسوعاء کہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول ” اگر میں آئندہ سال تک باقی رہا تو ضرور نواں روزہ رکھوں گا “. ( مسلم ) سے استدلال کرتے ہوئے ، تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پہلے دنیا کو خیرباد فرمایا . اور عاشوراء کے ساتھ تاسوعاء کا روزہ بھی رکھنے کی حکمت یہ ہے ، تاکہ یہود ( علیہم اللعنة ) کی مخالفت کی جائے . اس لئے کہ وہ صرف دسواں ہی روزہ رکھتے ہیں . لہذا ہمیں انکی مخالفت اور دسویں کے ساتھ نویں کا روزہ بھی رکھنے کا حکم دیا گیا ۔ اور اس میں دوسری ایک حکمت یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ماہ کی ابتدائی تاریخ میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے ، اس وجہ سے احتیاط کو اپنانا ہے . تاکہ کسی حال میں بھی دسواں روزہ چھوٹنے نہ پائے اور اسی حکمت کی وجہ سے اگر کسی نے تاسوعاء کا روزہ نہیں رکھا تو اس کو گیارہواں کا روزہ رکھنا سنت ہے ، بلکہ اگر تاسوعاء کا روزہ رکھا بھی ہو تب بھی ( گیارہواں کا روزہ رکھنا سنت ہے ، کیونکہ محرم کا گیارہواں روزہ رکھنے کے سلسلہ میں بھی حدیث آئی ہے . اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” یوم عاشوراء کا روزہ رکھو ، اور یہودیوں کی مخالفت کرو اور اس سے پہلے اور اس کے بعد والے دن کا روزہ رکھو “. ( اعانةالطالبين ، بحوالہ شرح روضہ ، ج/2 ، ص/266 ، آگے لکھتے ہیں اور انھوں نے اس میں یہ بھی لکہا ہے کہ امام شافعی نے ام اور املاء میں صراحتا تین روزوں کے مستحب ہونے کو کہا ہے ، اور ان ( امام شافعی سے ) اس بات کو شیخ ابوحامد اور ان کے غیر نے نقل کیا ہے ) .
عاشوراء کا روزہ فرض نہیں ، یہ نہیں کہا جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے امر کے صیغہ سے اس کے رکھنے کا حکم دیا ہے ، کیونکہ دوسری بخاری و مسلم سے روایت کردہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس روزہ کے رکھنے کے سلسلہ میں اختیار دیا ہے ، اور کسی فرض چیز کی ادائیگی میں مکلف کو کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہیں رہتا ، عاشوراء کا روزہ واجب نہ ہونے کے لئے مندرجہ ذیل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ صحیحین کی حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے ہوئے سنا! ” یہ عاشوراء کا دن ہے تم پر اس کے روزہ کو فرض نہیں کیا گیا ، حالانکہ میں روزہ سے ہوں ، سو جو چاہے وہ روزہ رکھے ، اور جو نہ چاہے تو وہ افطار کرے ” ( روزہ نہ رکھے ) . ( بخاری ، مسلم ) ایسے میں روزے رکھنے کے تعلق سے جو صحیح احادیث آئی ہیں ان کو سنت موکدہ پر محمول کیا جائے گا . اور دوسری مسلم کی حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں آیا ہے کہ رمضان کے فرض کئے جانے کے بعد نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں ( روزہ ) رکھنے کا حکم دیتے تھے ، اور نہ ہی چھوڑنے کا ، اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے بخاری و مسلم کی روایت کردہ حدیث میں آپ علیہ الصلوت والسلام نے رمضان المبارک کے روزوں کے فرض ہونے کے بعد عاشوراء کا روزہ رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار دیا ہے . والله اعلم بالصواب .
الحاصل یہ کہ محرم میں عاشوراء وغیرہ کا روزہ رکھنے کے کل تین مراتب ہیں ، پہلا مرتبہ : تین دنوں کے روزے رکھنا ، نواں ، دسواں اور گیارہواں . ،دوسرا مرتبہ : نواں اور دسواں روزہ رکھنا اور تیسرا مرتبہ : صرف دسواں روزہ رکھنا ۔ ان تینوں مراتب میں سے پہلا مرتبہ سب سے زیادہ احتیاط والا ہے .
یوم عاشوراء میں اپنے اہل خانہ پر رزق کی زیادہ سے زیادہ وسعت کرنا
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” جس شخص نے خود پر اور اپنے اہل وعیال پریوم عاشوراء میں کشادگی کی تو اللہ اس پر اس کے تمام سال پر وسعت فرمائے گا “. ( بیہقی نے اس حدیث کو شعب میں روایت کیا ہے ، اور ابن عبدالبر نے ، اور حدیث کے لئے دوسرے کافی طرق ہیں ، جو تمام ضعیف ہیں ، لیکن جب ان کو ایک دوسرے سے جوڑا جائے تو ان کی قوت میں زیادتی ہوتی ہے ، جیسا کہ علامہ سخاوی نے کہا . فقہ السنہ کے حوالہ سے ، ج/1 ، ص/334 )
دوسری حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ” جس شخص نے اپنے عیال اور اہل ( خانہ ) پر ( کھانے خرچہ میں ) وسعت کی ، تو اللہ اس کے تمام سال پر وسعت فرمائے گا “. اس حدیث کو بیہقی وغیرہ نے کئی طریقوں ؛ اور صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے ، اور کہا! یہ اسانید گو کہ ضعیفہ ہیں تاہم یہ ایک دوسرے سے مل کر طاقتور ہوتی ہیں . واللہ اعلم . ( ماخوذ ،من الترغيب والترهيب ، ج2 ، ص/33 )