مدرز ڈے Mother’s day کی حقیقت اور اس کا اسلامی تصور

0
1182

از : حافظ ثاقب حسین ندوی

ماں ہر انسان کا بڑا قیمتی سرمایہ و اثاثہ ہوتی ہے ، بچہ اسی کی شفقت بھری گود اور محبت بھری آغوش میں پروان چڑھ کر نیر تاباں بنتا ہے اور یہی وہ ہستی ہے جو دشنام طرازی کی مسموم ہواؤں سے بچہ کی گلشنِ حیات کو بچاتی ہے اور اعلی اخلاق کے جھولے میں پیار کی لوریاں دیتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوموں کی قسمت ماؤں کی آغوش میں پرورش پاتی ہے ، جس کے زیر سایہ ایسی بڑی عظیم اور نادر و نایاب ہستیاں جنم لیتی ہیں ، جو اپنی چمک دمک سے تاریکیوں کے بادلوں کو آنِ کی آن میں ہٹا دیتی ہیں اور اپنی ضیاء باریوں سے تاریخ کا روشن باب بن جاتی ہیں ،

لیکن آج اسی پاکیزہ ماں کو مغرب نے صرف ایک دن کی اہمیت والا ایک ایسا مجسمہ بنا دیا ہے کہ جس کا دیدار کیا جائے اور پھولوں کا ہار تھماکر گھر کی راہ اور اپنے کام کی طرف توجہ دی جائے ، آئیئے اسی مغرب سے رواج پانے والے ” مدرز ڈے mother’s day ” کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں .

ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں بڑی پابندی اور شان و شوکت کے ساتھ ماؤں کے دن” Mother’s Day ” کے نام پر جشن منایا جاتا ہے ، اگر دیکھا جائے تو عالمی طور پر اس کی کوئی ایک متفقہ تاریخ بھی نہیں ہے ، یہ دن مختلف ممالک میں مختلف تاریخوں کو منایا جاتا ہے ، اکثر و بیشتر ممالک میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے اور کئی ایسے ممالک بھی ہیں جن میں یہ جنوری ، مارچ ، نومبر یا اکتوبر میں منایا جاتا ہے اور اس دن ماؤں کی اہمیت اور اس کے مقام و مرتبہ کو فروغ دیا جاتا ہے اور اس کے لئے الگ الگ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں .

لہذا سب سے پہلے ہمیں اس دن کی حقیقت سے واقف ہونے کی ضرورت ہے ، راقم کو تحقیق سے اس دن سے متعلق چند باتیں حاصل ہوئیں ، جو آپ کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں .

امریکہ میں ماں کا عالمی دن بیسویں صدی کے اوائل میں منانے کا رواج شروع ہوا ، اس دن کا تعلق ان دنوں یا رسموں سے نہیں ہے جو دنیا کے بہت سارے خطوں میں ماں یا مامتا سے متعلق مختلف دنوں میں ہزاروں سالوں سے منایا جاتا ہے ، مثال کے طو ر پر یونانی لوگ سبلی CYBELE ( جو کہ ترکی کے ایشیاء والے علاقہ میں Anatolian خطہ کے وسط میں Phrygia نام کے علاقہ میں ایک حاملہ خاتون کے کرسی پر بیٹھے ہوئے ایک مجسمہ کی وجہ سے مشہور ہوا ) کے نام سے مناتے ہیں ، جس کا مطلب ہے ” پہاڑوں کی ماں “ ، رومن لوگ یونانی لوگوں سے متاثر ہو کر سبلی کو HILARIA ( ہلاریہ ) تہوار کے نام سے بھی مناتے ہیں ، جس کا مطلب ہے ” The Cheerful Ones “، روم میں سبلی کو ” Greater Mother “ تہوار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور سبلی ( جسے خداﺅں کی ماں بھی کہا جاتا ہے ) سے عقیدت کے اظہار کے طور پر ہر سال 25/ مارچ کو منایا جاتا ہے ، اسی طرح برطانیہ اور یورپ میں MOTHERING SUNDAY کے نام سے کچھ عیسائی ایسٹر سے ٹھیک تین دن پہلے اور کچھ چار دن پہلے مناتے ہیں ، سولہویں صدی میں لوگ اپنے مدر چرچ کی طرف لوٹنا شروع ہوئے ، جس کی مناسبت سے یہ دن منایا جاتا ہے ، بچوں اور جوان جو کہ سروس کرتے ہیں ان کو ایک دن چھٹی دی جاتی تھی تاکہ وہ بھی اپنے مدر چرچ کی طرف رجحان بڑھا سکیں .

ماڈرن دور میں ماں کا عالمی دن 1908 سے منایا جارہا ہے ، جب ایک امریکی لڑکی Anna Jarvis نے اپنی مرحوم ماں کے لئے گریفٹن ورجینیا کے Andrew Methodist چرچ میں ایک تقریب منعقد کروائی ، اسی چرچ میں آج کل عالمی سطح پر ماں کے عالمی دن کی تقریب منعقد کی جاتی ہے ، 1910 میں ورجینیا میں ہی باقاعدہ طور پر اس دن کی مناسبت سے سالانہ چھٹی کا آغاز ہوا ، 1914 میں امریکی صدر Woodrow Wilson نے ہر سال 2/مئی کو ماں کا عالمی دن منانے کے لئے ایک یاداشت پر دستخط کی ، 1920 سے ہال مارک کمپنی سمیت دیگر کمپنیوں نے 2/مئی کی مناسبت سے کارڈ چھاپنا اور بیچنا شروع کر دیئے ، لیکن Anna کا تصور تھا کہ لوگ ماں سے اظہار محبت کے لئے ہاتھ سے لکھے ہوئے کارڈز اپنی ماں کو پیش کریں ، اس وقت تک Carnation ( ایک پھول ) کو ماں کے عالمی دن کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی ، جس کو American War Mothers ( ایک تنظیم ) نے چندہ اکٹھا کرنے کے لئے خوب استعمال کیا ، اس عمل نے Anna Jarvis کو خوب طیش دلوا دیا ، Anna کو بعد میں امن عمل متاثر کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ، Anna کے چھٹی والے دن کو دیگر ممالک نے بھی اختیار کیا اور اب یہ دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے .

لیکن تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو قدیم رومن تہذیب میں ماں کے ادب و احترام اور محبت کے نام ، ایک ہی دِن مخصوص تھا ، جو ماہِ جون میں منایا جاتا تھا ، قدیمی یونان کی شہری ریاستوں میں بھی مارچ میں ماؤں کے خصوصی دِن مخصوص تھے ، جن میں اُن کو ملنا جلنا اُس وقت کے معاشرہ کا حصہ تھا ، لیکن موجودہ دور میں شمالی امریکہ ، یورپ ، افریقہ ، ایشیا وغیرہ میں اِس دِن کی کڑی برطانوی روایت سے جڑی ہے ، آج کے دور میں بھی مختلف ملکوں کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں اِس دِن کی مناسبت سے باقاعد تاریخی تسلسل موجود ہے ، جس کی تفصیل اوپر گذری .

اگر عالمی منظر نامہ پر اِس دِن کی مناسبت سے ایک جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا کہ ماؤں کے نام ایک دِن کو منانے کا عمل مذہبی اقدار کے ساتھ بھی منسلک ہے ، کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع ریاست نیپال میں اِس دِن کا رشتہ ” ماتا ترتھی انوشی ” سے جڑا ہے ، جس کو ماں کی زیارت کا پندرہواڑہ بھی کہا جا سکتا ہے ، اِن دِنوں میں مندروں میں خصوصی پوجا پاٹ کے علاوہ زندہ ماؤں کو تحفے اور وفات پانے والی ماؤں کو بڑی عقیدت اور محبت سے یاد کیا جاتا ہے ، اِس دِن کو ہندو دیوتا مہاراج کرشن کی والدہ دیواکی سے بھی منسلک کیا جاتا ہے ، اُن کے نام کی نذر و نیاز بھی دی جاتی ہے ، شاید اِسی تعلق کی بنا پر ہندومت میں ماں کو بھگوان کا ایک روپ قرار دیا جاتا ہے ، اِسی مذہبی تناظر میں ایران میں مدرز ڈے پیغمبر اسلام کی دختر مبارک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یوم ولادت کے دِن منایا جاتا ہے ، جو قمری اسلامی مہینہ جمادی الثانی میں آتی ہے ، یہ تبدیلی ایران میں رونما ہونے والی اسلامی انقلاب کے بعد لائی گئی تھی ، اِسی روایت میں کئی اور ملکوں کی شیعہ آبادی بشمول لبنان ، پاکستان اور خلیجی ریاست بحرین وغیرہ بھی اِس دِن کو اسی طور پر مناتی ہے .

مشرقِ بعید کے ملک جاپان میں ماں کا خصوصی یادگاری دِن شاہ اکیتو کی والدہ کے یوم پیدائش کے دِن پر منایا جاتا ہے ، جاپانی لوگ اِس دِن اپنی ماؤں کو خاص طور سے پھول دیتے ہیں اور خیال رکھا جاتا ہے کہ پھولوں کے گلدستہ میں گلاب کے پھول زیادہ اور نمایاں ہوں ، جاپان کے ساتھ چین میں اب یہ دِن مقبولیت پا رہا ہے شاید اِس کی وجہ سیٹلائٹ کہی جا سکتی ہے ، خاص طور سے سنہ 1997 سے غریب ماؤں کی مدد کا سلسلہ اِس دِن کے حوالہ سے شروع کیا گیا ، اب کمیونسٹ پارٹی کے کچھ اراکین بھی اِس دن کے احترام اور اہمیت کی وکالت کرتے پھرتے ہیں ، چین کی ایک قدیمی روایت کو اِس کے ساتھ نتھی کرنے کی کامیاب کوشش سامنے آئی ہے ، چینی سیاسی راہ نما مغربی دنیا میں تحفے تحائف دینے کی جگہ نرگس کے پھولوں کا تحفہ دینے کی تلقین کر رہے ہیں ، قدیمی چینی ثقافت میں جو جوان بچے کاروبار یا تلاشِ روزگار کے سلسلہ میں گھروں سے رخصت ہوتے تھے تو مائیں اُن کی یاد میں نرگس کے پھول کیاریوں میں اگایا کرتی تھیں ، مشرقّ بعید کے ایک اور ملک ویت نام میں وہاں کے قمری کیلینڈر کے ساتویں مہینہ کی پندرہ تاریخ ماؤں کے نام وقف ہے ، اُس دِن تمام احباب خاص طور سے اپنی اپنی ماؤں کے ساتھ وقت گذار کر اُس دِن کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں .

لیکن ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ مغربی دنیا میں لوگ اپنی ماؤں کو تحائف پیش کرکے ملاقات تو کرتے ہیں ، لیکن اس کے بعد بیچاری ماؤوں کو دوبارہ اس محبت کے حصول کے لئے سال بھر اسی دن کا انتظار کرنا پڑتا ہے ، امریکہ سمیت یورپ بھر میں بوڑھے والدین کو گھروں کے بجائے اولڈ ہومز میں رکھا جاتا ہے ، اس لئے لوگ اس دن اولڈ ہومز میں اپنی ماؤوں سے ملاقات کرتے اور ان کو سرخ پھولوں کے تحائف پیش کرتے ہیں ، جن لوگوں کی مائیں اس دنیا میں نہیں ہیں وہ سفید پھولوں کے ساتھ اپنی ماؤوں کی قبروں پر جاتے اور وہاں یہ گلدستے سجاتے ہیں ، ہر ملک میں مدرز ڈے کو منانے کے لئے مختلف دن مختص ہیں تاہم امریکہ ، ڈنمارک ، فن لیند ، ترکی ، اسٹریلیا اور بیلجیم میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو ہی منایا جاتا ہے .

مذکورہ بالا تحقیق سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا مغربی تہذیب و تمدن کو اپنانے اور اس کی تقلید کرنے کو باعثِ فخر سمجھتی ہے اور مغرب نے مختلف شخصیتوں اور مختلف چیزوں کے نام پر سال کے مختلف دنوں کو جشن کے طور پر منانے کا عالمی رواج بنا دیا ہے ، جس کی رَو میں مسلم ممالک بھی خس و خاشاک کی طرح بہتے جارہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فادرز ڈے اور مدرز ڈے بڑے زور و شور سے منائے جارہے ہیں اور ہمارے اسلامی ممالک میں بھی اولڈ ہومز بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں ، وہ ممالک جن کے باشندگان کی شریعت یہ کہتی ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت اور باپ کی رضا میں رب کی رضا ہوا کرتی ہے ، آج وہی ممالک اس جنت اور رضائے ربانی سے دامن بچاتے نظر آتے ہیں ، تقلید بری بات نہیں مگر اندھی تقلید دین میں ہو یا دنیا میں مہلک ہوا کرتی ہے ، مغرب کی اندھی تقلید نے ہمیں اس کھائی میں ڈھکیل دیا ہے جہاں سے دوبارہ نکلنا مشکل سا معلوم ہوتا ہے اور جس سے ہماری عائلی قدریں پامال اور معاشرہ کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کی چولیں ڈھیلی ہو رہی ہیں ، اس اکائی کی بنیاد اور جڑ یعنی والدین کو گھروں سے اکھاڑ کر اولڈ ہومز میں پھینکا جارہا ہے ، پھر سال کے بعد ان کا ایک دن منا کر حق ادا کر دیا جاتا ہے.

اب سوال یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک مدرز ڈے کا تصور کیا ہے ؟ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ اسلام میں تو ہر لمحہ اور ہر دن مدرز ڈے اور فادرز ڈے ہے ، اس تصور کو مزید سمجھنے کے لئے والدین کی عزت ، تکریم اور خدمت کے پس منظر میں ، قرآن پاک کی ایک آیت کریمہ اور چند احادیث پیش کی جا رہی ہیں .

اسلام معاشرہ کے عمر رسیدہ اَفراد کو بڑی اَہمیت دیتا ہے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور نرمی برتنے کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے ، خصوصاً بوڑھے والدین کے ساتھ نہایت شفقت کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیتا ہے اور اپنے کلام میں اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے . ” وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا O وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا “. ( بني إسرائيل ، 17/ 23 ، 24 ) اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو ، اگر تمھارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپہ کو پہنچ جائیں تو انھیں ’’ اُف ‘‘ بھی نہ کہنا اور انھیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرنا اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجز و اِنکساری کے بازو جھکائے رکھنا اور ( ﷲ کے حضور ) یہ عرض کرتے رہنا کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے ( رحمت و شفقت سے ) پالا تھا .

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبہ کا خیال رکھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” ليس منا من لم يرحم صغيرنا و لم يؤقر کبيرنا ’’ وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے “. ( ترمذي ، السنن ، کتاب البر والصلة ، باب ما جاء في رحمة الصبيان ، 321/4 ، 322 ، رقم/1919 ، 1921 )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا! یارسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ و سلم ) لوگوں میں حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا! تمھاری والدہ ، انھوں نے عرض کیا! پھر کون ہے؟ فرمایا! تمہاری والدہ ، انھوں نے عرض کیا! پھر کون ہے؟ فرمایا! تمھاری والدہ ، انھوں نے عرض کیا! پھر کون ہے؟ فرمایا! پھر تمھارا والد ہے ( صحييح بخاري ، کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة ، 2227/5 ، رقم الحدیث/562 ) .

اسلام میں والدین کے حقوق کا تصور بڑا واضح ہے ، دوسری طرف آج ہم مدرز اور فادرز ڈے منا کر جس مغربی روایات کو فروغ دے رہے ہیں دراصل وہ ثقافت ، بے جان اور بے روح ہے ، اس کی ظاہری چمک دمک سے انسان کو وقتی و عارضی فائدہ حاصل تو ہوتا ہے لیکن اس کا نتیجہ و انجام بدنامی و ناکامی ہوتا ہے ، جب کہ شریعتِ محمدیہ میں ماں باپ کو مرکزی مقام حاصل ہے ، وہ گھروں کے تاحیات سربراہ ہوا کرتے ہیں ، ان کی معزولی کا کوئی تصور موجود نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اس کا حساب اسی طرح دینا ہے ، جس طرح نماز ، روزہ اور زکوٰۃ و حج کا ہے ، اگر کوئی نماز ، روزہ اور دیگر ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو اور والدین کے بارے میں فادرز ڈے اور مدرز ڈے منانے والوں کا تصور اپنائے ، تو یہ اس کا اپنا اختراعی دین ہوگا نہ کہ اسلام ، والدین کی خدمت کے بغیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ادھورا ہے اور محمد کے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ اسے ادھورا دین منظور نہیں ، ارشاد باری ہے ” ادخلوا فی السلم کافة “، کاش ہم دین میں اس رخنہ سازی کو ترک کر دیں تو پھر دین اسلام کو اپنوں سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here