تینگن گنڈی کے ایک مشہور و معروف گورکن اللہ کو پیارے ہو گئے

0
1916

بقلم : مولانا ابراہیم فردوسی ندوی

اہلیان تینگن گنڈی کی سنہ 2021 ء تک چلتی آرہی ایک قدیم آبائی و امتیازی خصوصیت گورکنوں کا بلا معاوضہ للہ فی اللہ قبروں کی کھدائی کرنا رہی ہے .

اس کارِ خیر کو انجام دینے والا ایک گروہ ہمیشہ سے اس کام کو ہر وقت انجام دیتا آرہا ہے ، چاہے دن ہو یا رات ، سردی ہو یا گرمی ، جاڑا ہو یا برسات . چونکہ یہ حضرات ان ہی لوگوں کی اولاد ہیں جنھوں نے تینگن گنڈی کے سخت زمینی قبرستان کو تقریباً دس فٹ کی اونچائی تک صرف انسانی تدفین کی خاطر بڑی ہی محنت و مشقت سے مٹی سے بھر دیا تھا جس کی زمانۂِ قدیم کی بھاری بھرکم پتھروں والی دیواریں آج بھی اس کا بین پیش کرتی ہوئی اپنے اسلاف کی یادوں کو تازہ کرتی دکھائی دیتی ہیں .

یہی وجہ ہے کہ یہاں پر زمانہ دراز سے سنہ 2021 ء تک لحدی قبروں کی کھدائی کا سلسلہ لگاتار جاری ہے ، الا یہ کہ کوئی سخت مجبوری ہو یا بارش وغیرہ کے ایام میں بہت زیادہ نمی کی وجہ سے قبر کی مٹی کے دھنسنے کا اندیشہ ہو تو شقی قبر کو ترجیح دی جاتی ہے . اور یہ ایک اہم سنت کے مطابق بھی ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی لحدی قبر ہی میں آرام فرما رہے ہیں .

واضح رہے کہ تینگن گنڈی میں فی الحال ایسی لحدی قبروں کے کھودنے والے گروہ کے ایک بہت ہی اہم اور کلیدی رکن جناب حسین صاحب ڈانگی تھے جو دو تین دہائیوں سے اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھاتے آرہے تھے .

لیکن ہائے افسوس! مؤرخہ مؤرخہ 3/رجب المرجب 1442ھ مطابق 15/فروری 2021 ء بروز پیر کو طلوع فجر سے قبل وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور اپنے اہل خانہ سمیت گورکن گروہ کے جملہ ساتھیوں کو داغ مفارقت دے گئے .إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.

موصوف کی وفات کا سانحہ گورکن گروہ کے لئے اس مادی و مفاد پرستی کے دور میں ایک اہم سانحہ ہوگا کیونکہ موصوف اس گروہ کے ایک متفکر اور اس کام میں اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرنے والے ایک بہترین رکن تھے .

موصوف نے اپنی عمر کی ستر سے زیادہ بہاریں دیکھیں وہ مزاجاً دوٹوک تھے اور غلطی پر برملا ٹوکنا ان کی عادت تھی لیکن نماز روزہ کی پابندی کے ساتھ دینی حمیت کے بھی حامل تھے ، فرائض کے ساتھ پڑھی جانے والی سنت نمازوں کو بڑی اہمیت دیتے ، جب جب بھی لوگ بڑی تعداد میں بغیر سنت پڑھے مسجد سے باہر نکلتے تو ٹوکے بغیر نہیں رہتے ، علماء کا حد درجہ اکرام کرتے ، تینگن گنڈی میں عرصہ دراز سے مولانا محمد اسحاق ڈانگی کے والد مرحوم کی وفات کے بعد سے لیکر اپنی آخری زندگی تک قبر کھودنے کی ذمہ داری کو بہت خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے اور گورکنوں کی خوب رہنمائی کرتے رہے . مدارس کے طلباء کو ان کی غلطیوں کا احساس دلانے کے لئے اپنے مخصوص انداز میں کہتے کہ حِلم یعنی سنجیدگی و بردباری کے بغیر علم کچھ فائدہ نہیں دیتا .

موصوف مؤرخہ 14/فروری بروز اتوار کو اپنے چچا زاد بھائی کے فرزند کی شادی میں شریک تھے اور ہمیشہ وقت پر کام نہ ہونے کو لےکر ڈانٹ ڈپٹ کرنے والے آج زیادہ تیز گفتگو سے کتراتے نظر آرہے تھے اور مزاج میں نرمی غالب تھی ، نکاح خوانی کی محفل میں جانے سے قبل ایک مرتبہ جلدی کرو جلدی کرو کی آواز ضرور سنائی دی . نکاح کے بعد اپنے خاندان کے بچوں کے ساتھ آخری کھانا کھایا اور دیر رات خاموشی سے گھر کا رخ کیا اور آرام کرنے سے قبل پانی پینے کی غرض سے کچن چلے گئے تو وہیں کسی وجہ سے گرگئے اور اسی چھوٹے سے حادثہ کے بہانہ اللہ کو پیارے ہو گئے .

انسان کی زندگی بھی عجیب ہے ، کل تک جو دوسروں کو قبر کی آغوش میں لٹاتے تھے آج وہ خود کل نفس ذائقۃ الموت کی اٹل حقیقت کے تحت خود اس کی آغوش میں مدفون ہیں .

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے ، ان کی خدمات قبول فرما کر ان کے درجات بلند فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق دے . آمین

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here