خبرِ فاسق کی قبولیت کا حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں

    0
    1399

    از : عبدالقادر فیضان بن اسماعیل باقوی ، جامعہ آبادی ( بھٹکلی )

    مؤرخہ 2/جولائی 2021 ء مطابق 21/ذوالقعدہ 1442 ھ

    پہلی قسط

    سورۂ حجرات کی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلَیٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ “. اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی فاسق ( کوئی ایسا شخص جس کی سچائی اور عدالت کا کچھ پتہ نہ ہو ) کوئی خبر لیکر آئے تو تم ( اس خبر کی ) تحقیق کر لیا کرو ( خوب جانچو پرکھو ) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم ( گروہ ) کو نادانستہ نقصان پہونچا بیٹھو ، پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ . ( سورۃ الحجرات/6 )

    یعنی جب کوئی ( فاسق یا مستورۃ العدل ) شخص کوئی ایسی بات کہتا ہو یا کوئی ایسی خبر دیتا ہو ( جس کے صحیح ہونے کے تعلق سے پختہ یقین نہ ہو ) جس سے کسی دوسرے کا نقصان ہوتا ہو اور بعد میں وہ خبر غلط ثابت ہوتی ہو تو ایسی باتوں کو دوسروں تک پہونچانا یا اس کی خبر سن کر بغیر تحقیق وتفحیص اور غور وفکر کے جلد بازی میں کوئی کام کر گذرنے کے سلسلہ میں نہایت احتیاط سے کام لینا ضروری ہے ، مبادا کسی کا نقصان ہو اور بعد میں پچھتانا کچھ کام نہ آسکے . مذکورہ آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق کے ( اسلام لانے کے ) واقعہ کے بعد اس کی تصدیق کرنے کے لئے ( صدقات لینے کے لئے ، جیسا کہ قرطبی میں ہے ) ولید بن عقبہ بن ابومعیط کو بھیجا ، ان ( ولید بن عقبہ) اور اُن ( بنو مصطلق ) کے درمیان زمانہ جاہلیت میں دشمنی رہی تھی ، جب قوم ( لوگوں ) نے اس کو سنا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعظیم کرتے ہوئے ( ہدیہ لے کر ، جیسا کہ قرطبی میں ہے ) ان کی ملاقات کے لئے نکل پڑے ، تبھی شیطان نے انھیں ( ولید ) یہ بات بتائی کہ وہ ( بنو مصطلق ) انھیں قتل کرنے کے ارادہ سے آرہے ہیں تب وہ خوف کھا کر راستہ ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہا کہ بنو مصطلق نے انھیں اپنی زکوٰۃ دینے سے منع کر دیا ہے اور میرے قتل کرنے کا ارادہ کیا ، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( سخت ، جیسا کہ ایک دوسری روایت میں آیا ہے ) غصہ میں آئے اوران سے غزوہ کرنے کا ارادہ کیا “.

    پھر خالد بن ولید کو لشکر میں خفیہ طریقہ سے بھیجا اور حکم دیا کہ اُن کی آمد کی خبر ان میں چھپی رہے ، اور ان سے فرمایا! دیکھو ( نگرانی کرو ) اگر تم ان کے اندر ایسی بات ( صفات ) دیکھو جو ان کے ایمان پر دلالت کرتی ہے تو اُن کے اموال کی زکوٰۃ لو ، اور اگر ان میں ایسی کوئی چیز نہ دیکھو تو ان میں ایسی چیزوں کو استعمال کرو جو کفار میں استعمال ہوتی ہیں ، سو خالد ( رضی اللہ عنہ) نے ایسا ہی کیا اور ان میں تمام چیزوں کو پورا کرتے ہوئے پایا ، پس انھوں نے ان سے مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لئے کہی ہوئی اذان سنی اور ان سے ان ( کے اموال ) کے صدقات ( زکوٰۃ ) لئے اور ان میں اطاعت اور خیر کے سوا کچھ نہیں دیکھا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹ آئے اور آپ کو یہ خبر سنائی “۔ ( طبری ، امام احمد اور عبدالرزاق نے اپنی تفسیر میں اس حدیث کو روایت کیا ہے ) . تبھی اللہ تعالی نے” یا ایھا الذین آمنوا ان جآءکم فاسق ” ( یعنی الولید بن عقبہ ) نازل فرمائی . [ معالم التنزیل/888 ]

    دوسری قسط

    بغوی کی تفسیر ” معالم التنزیل ” کے علاوہ مختلف تفاسیر میں اسی مفہوم کی کافی طویل وقصیر احادیث آئی ہیں .

    امامِ جلیل حافظ عمادالدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر دمشقی( متوفی/774 ھ ) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی فاسق کی خبر کے سلسلہ میں تثبیت ( استقلال ، غور فکر کرنے اور ٹہراؤ ) کا حکم دیتا ہے ، تاکہ اُس سے احتیاط برتا جائے ، اللہ عزوجل نے مفسدین کے راستہ کی اتباع کرنے سے روکا ہے . اور یہیں ( اللہ تعالیٰ کا فساد پھیلانے والوں کی راہ کی پیروی کرنے سے روکنے کی وجہ ) سے علماء کی ایک جماعت نے مجہول الحال ( شخص ) کی روایت کو اس کے نفس الأمر ( فی ذاتہ ) میں فاسق ہونے کے احتمال کی وجہ سے قبول کرنے سے انکار کیا ہے ، وہیں دوسرے علماء نے اس کو قبول کیا ہے . ( صادق کی خبر مقبول ہے ، کاذب کی خبر مردود ، اور فاسق کی خبر پر احتیاطًا فیصلہ موقوف رکھا جائے تاآنکہ اس کے سچ اور جھوٹ کو پہچانا جاسکے )

    بہت سے مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے سلسلہ میں نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بنو مصطلق کے صدقات ( زکوٰۃ ) کو جمع کرنے کے لیے بھیجا . اس حدیث کو کئی طریقوں سے روایت کیا گیا ہے ،

    امام احمد کہتے ہیں کہ انھیں حارث بن ابی ضرار الخزاعي رضی اللہ عنہ سے حدیث ملی ہے ، انھوں نے کہا! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آیا ، آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی ، میں اس میں داخل ہوا اور اس کا اقرار کیا ، آپ نے مجھے زکوٰۃ کی دعوت دی ، میں نے اُس کا ( بھی ) اقرار کیا ، اور عرض کیا! یارسول اللہ میں ان کی طرف لوٹوں گا اور انھیں اسلام اور زکوٰۃ دینے کی طرف بلاؤں گا ، جو سو شخص میری بات مان لےگا میں اس کی زکوٰۃ کو جمع کروں گا ، پھر جب حارث نے ان کی بات ماننے والوں کے پاس سے زکَوة جمع کرلی اور وہ فلان ( مقرر کردہ ) وقت آ پہونچا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن ( حارث ) کی طرف کسی ( رسول ) کو بھیجنے کا ارادہ فرمایا تھا ، ( قاصد کو ) روکے رکھا اور وہ ( قاصد ) ان کے پاس نہیں گیا ، اور حارث نے یہ گمان کیا کہ اُن ( حارث ) کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جانب سے کوئی ناراضگی پیدا ہوگئی ہے ، تب انھوں نے اپنی قوم کے شرفاء کو بلایا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے ایک وقت متعین کیا تھا جس میں آپ میرے پاس اپنے کسی قاصد کو بھیجتے تاکہ وہ میری جمع کردہ زکوٰۃ کو وصول کرے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ خلافی کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ، میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے اپنے قاصد کو کسی ناراضگی کی وجہ ہی سے روکے رکھا ہے ، سو چلیں! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں جاتے ہیں . یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو حارث کی طرف بھیجا تاکہ وہ حارث کی جمع کردہ زکوٰۃ لے آئیں ، پھر جب ولید نے سفر شروع کیا حتی کہ ایک راستہ پر پہونچے تو ان کے اندر ایک خوف پیدا ہوا ،( خوف پیدا ہونے کی وجہ آگے گزری ) سو وہ راستہ ہی سے واپس ہوگئے ، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہونچے اور کہا! یارسول اللہ! حارث نے مجھے زکوٰۃ دینے سے منع کیا اور میرے قتل کرنے کا ارادہ کیا ، ( یہ خبر سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضب میں آئے اور حارث رضی اللہ عنہ کی طرف ایک جماعت ( لشکر ) کو بھیجا ، اور یہاں حارث بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکل پڑے ، حتی کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانہ کردہ ) جماعت مدینہ سے نکل کر ان ( حارث ) کی طرف چل پڑی تو حارث سے ان کی ملاقات ہوئی ، اُنھوں( حارث کے ساتھیوں ) نے کہا! یہ حارث ہیں ، پھر جب انھوں نے ان کو گھیر لیا تو انھوں نے پوچھا! کس کی طرف آپ لوگوں کو بھیجا گیا ہے؟ کہنے لگے! آپ کی طرف ، انھوں نے پوچھا! اور یہ کس وجہ سے ؟ کہنے لگے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی طرف ولید بن عقبہ کو بھیجا تھا ، انھوں نے کہا کہ آپ نے زکوٰۃ دینے سے منع کیا اور ان کے قتل کرنے کے درپے ہوئے ، آپ رضی اللہ عنہ نے کہا! ( کبھی ) نہیں ، قسم ہے اُس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ، میں نے تو قطعًا انھیں نہیں دیکھا ، اور نہ ہی وہ میرے پاس آئے ہیں ، پھر جب حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آئے تو آپ نے فرمایا! تم نے زکوٰۃ دینے سے منع کیا اور میرے رسول ( قاصد ) کو قتل کرنے کا ارادہ کیا؟ تب انھوں نے کہا! نہیں ، ( ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ ) اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ، نہ میں نے ان کو دیکھا ہے اور نہ ہی وہ میرے پاس آئے ہیں ، اور میں تو اسی وقت نکل پڑا تھا جب ( وقت معینہ پر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول محبوس ( رکا رہا ) ہوا اس خوف سے کہ کہیں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی مجھے جھیلنی نہ پڑے . کہتے ہیں ، ( تب ) الحجرات ” یا ایھا الذین آمنوا اذا جآءکم فاسق بنبأ ” سے اللہ تعالی کے قول ” حکیم ” تک آیات نازل ہوئیں . ( امام احمد ، ابن ابی حاتم ، طبرانی )

    تیسری قسط

    غزوء بنو مصطلق یا غزوء مُرَيْسِيْعْ کی وجہ تسمیہ

    غزوء مریسیع کو غزوۂ مصطلق بھی کہا جاتا ہے جب اس کو قبیلہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ، یہ خزاعہ کا ایک قبیلہ بنو مصطلق ہے ، ان کے رئیس ( یا سربراہ ) الحارث بن ضرار الخزاعي ہیں جو ام المؤمنين سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر ہیں .

    اور جب اس غزوہ کو مکان ( جگہ ) کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو ” غزوۂ مُرَيْسِيْع ” کا نام دیا جاتا ہے . مریسیع سے مراد ( اونچے پہاڑی چشموں کے درمیان واقع ) وہ چند کنویں ہیں جن سے ان کے مواشی سیراب ہوتے تھے ، اور بنو مصطلق ان کے اطراف بستے تھے ، مریسیع وادئ سحیق کی ایک پست جگہ میں واقع ہے جس کو اب وادئ ستارہ کہتے ہیں اور اب یہ اسی نام سے مشہور ہے ، اور یہ بطنِ وادی کی ایک نچلی جگہ میں واقع مشرق اور جنوبِ شرقی کے ایک دوسرے سے ملے ہوئے اونچے اونچے پہاڑوں کے سلسلہ اور بعض مغربی پہاڑوں کو محیط کئے ہوئے ہے ، اور بنو مصطلق کے مکانات اس وادی کے درمیان اَكْمَہ سے قریب ایک چھوٹے سے پہاڑ کے اطراف واقع ہیں .

    اکثر علماءِ روایات ، مؤرخین اور اہلِ مغازی کے نزدیک جن میں موسیٰ بن عقبہ ، ابن سعد ، ابن قتیبہ ، ابن قیم ، ابن حجر اور ابن کثیر شامل ہیں یہ غزوہ شعبان سنہ ہجری پانچ میں واقع ہوا ، اور ابن اسحاق کے قول پر سنہ ہجری چھ میں .

    غزوء مریسیع کے واقع ہونے کا سبب

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہونچی کہ بنو مصطلق کا رئیس ( سردار ) ” الحارث بن ابی ضِرَار ” اپنی قوم اور عرب کے دوسرے قبیلوں کو ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنا چاہتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کی تحقیق کرنے کے لئے ” بَُرَيْدَه بن الحصيب الاَسلمي ” کو بھیجا ، انھوں نے حارث بن ابی ضرار سے ملاقات کرکے ان کا ارادہ معلوم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی ،( یہ ایک نہایت جنگجوؤں کا بہادر قبیلہ تھا ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ارادہ کی سچائی معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام سے مشورہ کرکے رات میں جاکر ان پر یلغار کی ، اس اچانک حملہ سے وہ سنبھل نہ سکے اور انھوں نے ہتھیار ڈال دیئے ، اس غزوہ میں مسلمانوں کے لئے فتح ناگزیر تھی ، کیونکہ بنو مصطلق کا قبیلہ مکہ کی طرف جانے والی عام شاہراہ پر تھا اور یہ مسلمانوں کو مکہ میں پہنچنے اور اسلام کو پھیلنے سے روکتے آئے تھے .

    اس غزوہ میں بہت سارا مال مسلمانوں کے ہاتھ لگا جن میں مویشی بھی ہزاروں کی تعداد میں تھے ، ان کے جنگجوؤں کو قتل اور قید کرلیا گیا جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں ، ان قیدیوں کی ضمن میں جویریہ بنت حارث بھی تھیں جن کا شوہر اس جنگ میں مارا گیا تھا اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موافقت کے بعد ان سے شادی فرمائی ، جب وہ آپ کے پاس کتابت کرکے خود کو آزاد کرنے کی مدد طلب کرنے کے لئے آئیں ، جیسا کہ سیدہ عائشہ کے قصہ کے ضمن میں آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جویریہ بنت الحارث سے فرمایا! کیا تمہیں اس سے بہتر چیز کی ضرورت ہے ؟ آنھوں نے عرض کیا! وہ کیا ہے یا رسول اللہ ؟ فرمایا! تم نے آزادی کے لئے جو کچھ کتابت کی ہے وہ میں ادا کروں اور تم سے شادی کرلوں ؟ کہا! یارسول اللہ! ضرور ، ( ہاں ) میں نے ایسا کیا ، ( اس کو قبول کیا ) کہتی ہیں ( عائشہ) اور یہ خبر پھیل گئی کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جویریہ بنت حارث سے شادی فرمائی ہے ، لوگ کہنے لگے! اصہارِ ( سسرالی ) رسول اللہ! ( کو ہم قیدی بناکر رکھیں ؟ ) سو انھوں نے اپنے ہاتھوں میں رہنے والوں کو چھوڑ دیا ، یعنی کسی مقابل ( معاوضہ ) کے بغیر ہی . یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا جویریہ سے شادی کرنا ان کی قوم کے لئے برکت بن کر آیا . ( اور یہ بات کافروں ، مشرکوں ذلیلوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کی اب تک سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ کا بیواؤں اور مطلقہ عورتوں سے شادی کرنا کسی نہ کسی حکمت کے تحت ہوا کرتا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے سیدہ عائشہ کے کسی اور باکرہ سے شادی نہیں فرمائی )

    چوتھی قسط

    سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی گئی ہے ، کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقیعہ ( اس حادثہ ) کے بعد بنو مصطلق کے صدقات جمع کرنے کے لئے ایک شخص کو بھیجا ، قوم ( لوگوں ) نے یہ سنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعظیم کرتے ہوئے اس کے استقبال کی تیاری کرنے لگے ، کہتی ہیں! تب شیطان نے اُس کو یہ خبر دی کہ وہ ان کو قتل کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں ، سو وہ ( وہیں سے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ گیا اور کہا! بنو مصطلق نے مجھے اپنے صدقات دینے سے منع کیا ہے ، ( یہ بات سن کر ) رسول اللہ علیہ وسلم اور مسلمان غضب میں آئے ، کہتی ہیں! لوگوں کو اس کے لوٹنے کی خبر ہوگئی تو وہ رسول اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ظہر ( کی نماز ) کے بعد ( اپنی صفائی دینے اور ) آپ ( کی تعظیم ) کے لئے منتظم ہوکر صف بنائی اور کہنے لگے! ہم اللہ کی ناراضگی اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ سے پناہ مانگتے ہیں ، آپ نے ہمارے پاس تصدیق کرنے کے لئے ایک شخص کو بھیجا اس سے ہم خوش ہوئے ، اور اس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ، پھر وہ ( درمیان ہی میں ) راستہ سے واپس لوٹا ، ہم اس بات سے ڈر گئے کہ کہیں یہ ( لوٹنا ) ہمارے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب نہ بن جائے ، وہ آپ سے گفتگو کرتے ہی رہے حتی کہ بلال آئے اور نماز عصر کے لئے اذان دی . کہتی ہیں! تب ( یہ ) آیت ” یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ ” نازل ہوئی . ( ابن کثیر بحوالۂ ابن جریر )

    مجاہد وقتادہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو ( قبیلۂ ) بنو مصطلق کے پاس صدقات لینے کے لئے بھیجا ، اُن لوگوں نے صدقہ (زکوٰۃ ) کے ساتھ اُن ( ولید بن عقبہ ) سے ملاقات کی ، انھوں نے لوٹ کر کہا! بنو مصطلق آپ سے لڑائی کے لئے جمع ہوئے ہیں ، قتادہ نے یہ زیادتی کی ہے اور یہ کہ وہ اسلام سے مرتد ہوگئے ہیں ، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ وہ ( وہاں ) ٹہریں اور جلدی نہ کریں ، سو وہ وہاں سے چل نکلے حتی کہ ان کے پاس رات میں آئے ، انھوں نے اپنے جاسوس بھیجے ، پھر لوٹ آنے کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو خبر دی کہ وہ اسلام کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ، اور یہ کہ انھوں نے اذان اور نماز ( پڑھتے ہوئے ) سنی ہے ، پھر خالد رضی اللہ عنہ ان کے پاس صبح میں گئے اور وہاں انھوں نے ایسی ( اسلام کی ) چیزیں دیکھیں جنھیں دیکھ کر وہ خوش ہوئے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ آئے اور خبر بیان کی . تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی . اسی طرح ایک سے زیادہ سَلَف نے اس کو بیان کیا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی . ( ابنِ کثیر )

    امام طبری اس آیت کریمہ کے شان نزول میں لکھتے ہیں! ذکر کیا گیا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے سلسلہ میں نازل ہوئی .

    جس وجہ سے یہ ( آیت ) نازل ہوئی ہے کہا جاتا ہے کہ وہ ( سبب ) یہ ہے ، [ حدیث نمبر/24538 ] ہمیں ابو کریب نے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا! ہمیں جعفر بن عون نے ، موسی بن عبیدہ سے ، ام سلمہ کے غلام ثابت سے ، ام سلمہ سے ،( حدیث بیان کی ہے ) کہتی ہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقعہ ( واقعہ ، احوال یا جنگ ) کے بعد ایک شخص کو بنو مصطلق کے صدقات جمع کرنے کے لئے روانہ کیا ، قوم ( لوگوں ) نے یہ خبر سنی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعظیم کرتے ہوئے اس ( شخص ) سے ملاقات کی ، کہتے ہیں! شیطان نے وہاں رونما ہوکر اس کو یہ بات بتائی کہ وہ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں ، کہتی ہیں! وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ آیا اور کہنے لگا کہ بنو مصطلق نے اپنے صدقات دینے سے منع کیا ہے ، یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان غصہ میں آئے ، کہتے ہیں! قوم کو اس کا لوٹ جانا معلوم ہوا ، کہتے ہیں! ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی تعظیم )کے لئے صف بنا کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے! ( نعوذ بالله من سَخَطِ الله وسخَطِ رسوله) ہم اللہ سے اللہ کی ناراضگی اور اس کے رسول کی ناراضگی سے پناہ مانگتے ہیں ، آپ نے ہماری طرف ایک رسول ( قاصد ) کو تصدیق کرنے کے لئے ارسال فرمایا ، ہم اس سے ( بہت ) خوش ہوئے اور اس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ، پھر وہ ( ہمارے پاس پہونچنے سے پہلے ہی ) کسی راستہ سے واپس لوٹے ، ہم اس بات سے ڈر گئے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کی وجہ سے ہے ، وہ آپ سے یہ کہتے ہی رہے ، یہاں تک کہ بلال آئے اور نماز عصر کے لئے اذان دی . کہتے ہیں! تب یہ آیت نازل ہوئی .

    امام طبری نے ایک دوسرے طریقہ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل کی ہے ، کہتے ہیں!
    [ 24539 ] مجھے محمد بن سعد نے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا! مجھے میرے باپ نے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا! مجھے میرے چچا نے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا! مجھے میرے باپ نے ، اپنے باپ سے ، انہوں نے ابن عباس سے اللہ کے قول ” یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ ” کی تفسیر میں حدیث بیان کی ہے ، کہتے ہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ بن ابو معیط ، پھر بنو عمرو بن اُمَيَّہ میں سے ایک کو ، پھر بنو ابو معیط میں سے ایک کو بنو مصطلق کی طرف صدقات لینے کے لئے روانہ فرمایا ، اور جب انھیں اس بات کی خبر ملی تو وہ خوش ہوگئے اور نکل پڑے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ( قاصد ) سے ملاقات کریں ، اور یہ کہ جب یہ بات ولید کو معلوم ہوئی کہ وہ اس سے ملنے کے لیے نکل پڑے ہیں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ گئے اور کہا! یارسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بنو مصطلق نے صدقہ دینے سے منع کیا ہے ، سو ( یہ سنتے ہی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت غصہ آیا ، اسی اثناء جب آپ خود سے یہ کہہ رہے تھے کہ ان سے غزوہ کرنا ہے ، تبھی آپ کے پاس وفد ( وافد کی جمع ، لوگوں کی جماعت ) آیا اور کہنے لگا! یارسول اللہ! ہمیں بتایا گیا ہے کہ آپ کا رسول آدھی راہ سے ہی لوٹا ہے ، اور ہم اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ اس نے آپ کو وہ خط لوٹایا ہے جو آپ کی جانب سے غضب سے ہم پر لکھا تھا ، اور ہم اللہ سے اس کے غضب سے اور اس کے رسول کے غضب سے ڈرتے ہیں . تب اللہ نے اُن کے عذر کو کتاب ( قرآن ) میں نازل کرتے ہوئے فرمایا! ” یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ “.

    پانچویں قسط

    امام طبری نے ایک اور طریقہ سے قتادہ سے حدیث روایت کی ہے ، کہتے ہیں! [ 24541 ] ہمیں بشر نے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا! ہمیں یزید نے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا! ہمیں سعید نے قتادہ سے اللہ کے قول ” یَا اَیُّھَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍٍ … ” کے قول کے سلسلہ میں حدیث بیان کی ہے ، حتی کہ آپ ” بِجَهَالَةٍ ” تک پہونچ گئے ( اور کہا ) اور وہ ابن ابی معیط الولید بن عقبہ ہیں ، جنھیں نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق کرنے کے لئے بنو مصطلق کی طرف بھیجا ، پھر جب انھوں ( قوم ) نے ان کو دیکھا تو وہ ان کی طرف آنے لگے ، وہ ان سے ڈر گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ گئے اور کہا کہ وہ اسلام سے مرتد ہو ( پلٹ ) گئے ہیں ، پھر نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ٹہرے رہیں ، ( توقف اختیار کریں ) اور جلدی نہ کریں ، تب وہ وہاں سے روانہ ہوئے حتی کہ ان کے پاس رات میں آئے اور اپنے جاسوسوں کو بھیجا ، پھر جب وہ ( وہاں سے لوٹ ) آئے تو انھوں نے خالد کو خبر دی ( بتایا ) کہ وہ اسلام کو اچھی طرح سے تھامے ہوئے ہیں اور انھوں نے ان کی اذان اور نماز سنی ہے ، پھر صبح میں خالد ان کے پاس آئے تو وہاں انھوں نے ایسی چیزیں دیکھیں جو انھیں پسند آئیں ، پھر وہ وہاں سے لوٹ کر نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو بتایا ، پس اللہ عزوجل نے وہ اتارا جو تم سن رہے ہو ، نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ” اَلتَّبَيُّنُ مِنَ اللهِ ، وَالْعُجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ “. تثبت ( ٹہراؤ ، انتظار ، توقف ) اللہ کی جانب سے ہے ، اور جلدبازی شیطان کی جانب سے . ایک اور طریقہ سے امام طبری حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں [ 24543 ] ہمیں سَلَمَہ نے حدیث بیان کی ہے ، انھوں نے کہا! ہمیں محمد بن اسحاق نے یزید بن رُوْمان سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق کی طرف ان کے اسلام لانے کے بعد ولید بن ابومعیط کو بھیجا ، پس جب انھوں نے یہ بات سنی تو وہ سوار ہوکر ان کے پاس آنے لگے ، پھر جب اِنھوں ( وليد بن ابو معیط ) نے اس کو سنا ( کہ وہ ان کی طرف آرہے ہیں ) تو ان سے خوف کھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس پلٹ آئے اور خبر دی کہ قوم نے ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اپنی جانب سے اپنے صدقات کو دینے سے منع کیا ، تو اکثر مسلمانوں نے ان سے غزوہ کرنے کا مشورہ دیا حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان سے غزوہ کرنے کا ارادہ فرمایا ، سو وہ اسی ( حالت ) میں تھے کہ اُن کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا ، یارسول اللہ! ہم نے آپ کے رسول ( قاصد ) کو جب آپ نے اس کو ہماری طرف روانہ فرمایا سنا تھا اور ہم اس کی طرف اس کا اکرام کرنے اور ہماری جانب سے جو صدقہ بنتا ہے اس کو ادا کرنے کی غرض سے نکل پڑے تو وہ بدستور لوٹتے ہی رہا ، ہمیں یہ بات پہونچی ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا ہے کہ ہم آپ کی طرف جنگ کرنے کے لیے نکل پڑے ہیں ، خدا کی قسم ہم اس کے لئے نہیں نکلے ہیں ، تب اللہ نے ولید بن عقبہ اور اُن ( بنو مصطلق ) کی شان میں آیت ” یَا اَیُّھَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍٍ … ” نازل فرمائی . کہتے ہیں ( ضمیر غالبا سلمہ کی طرف لوٹتی ہے) [ 24544 ] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کو قوم کی طرف ان کی تصدیق کرنے کے لئے بھیجا ، وہ شخص اُن کے پاس پہونچا ، اُس کے اور ان کے درمیان ( زمانۂ) جاہلیت میں عداوت تھی ، جب وہ ان کے پاس پہونچا تو انھوں نے اس کا خیر مقدم کیا ، اور زکوٰۃ دینے کا اقرار کیا اور جو اُن پر حق بنتا تھا اس کو ادا کردیا ، وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ آیا اور کہنے لگا ، یارسول اللہ بنو فلان نے صدقہ دینے سے انکار کیا ہے اور اسلام سے پلٹ گیے ہیں ، ( یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آئے اور ان کو بلانے کے لئے ( کسی کو ) بھیجا ، جب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا! کیا تم نے زکوٰۃ دینے سے منع کیا اور میرے رسول کو دھتکار دیا ؟ ( باہر نکالا ؟ ) انھوں نے عرض کیا ، بخدا! ہم نے ایسا نہیں کیا ، اور ہم جانتے ( یقین رکھتے ) ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں ، اور ہمارے لئے یہ ضروری ہے ، ہم نے اپنے اموال میں اللہ کا حق دینے سے انکار نہیں کیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات کی تصدیق نہیں کی ، تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معذرت فرمائی . ( تفسیر طبری )

    آگے لکھتے ہیں اور اللہ کا قول ” اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ ” کہ کہیں تم کسی قوم ( گروہ ) کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو . فرماتا ہے اس کا ذکر بلند رہے . فَتَبَيَّنُوا تم تحقیق کرلیا کرو تاکہ تمہاری جانب سے تم کسی ( گناہ یا جرم سے ) برئ الذمہ گروہ کو جس پر گناہ ( خطا ) کی تہمت لگائی گئی ہے جہالت سے ( نادانستگی میں ) ایذا نہ دے بیٹھو . فرماتا ہے پھر تم اپنی اس غلطی کی وجہ سے کہ جس کے نتیجہ میں تم نے انھیں نقصان پہنچایا تھا پشیمان ہوجاؤ . ( تفسیر طبری )

    چھٹی اور آخری قسط

    امام قرطبی اپنی تفسیر میں قلم بند کرتے ہیں کہ اِس میں سات مسائل ہیں .

    اللہ تعالی کے قول ” یا ایھا الذین اٰمنوا اِن جآءکم فاسق بنبا فتبینوا ” کے سلسلہ میں کہا گیا کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے سلسلہ میں نازل ہوئی . اور اس کا سبب وہ حدیث ہے جس کو سعید نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو بنی مصطلق کی طرف تصدیق کرنے کے لئے روانہ فرمایا الخ . پھر اِنھوں نے وہی حدیث بیان کی ہے جس کو ابن کثیر نے بیان کیا ہے ، جو مروی عن مجاھد وقتادہ ہے ، لیکن اِنھوں نے ( مجاہد کا نام لئے بغیر ) صرف قتادہ کا نام لیا ہے ، اور فنزلت ھذہ الآیة کے بعد اِنھوں نے ان الفاظ کی زیادتی کی ہے ” فَکَانَ یَقُوْلُ نَبِیُّ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، اَلتَّاَنَّى مِنَ اللهِ ، وَالْعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ “. توقف ( آہستگی اختیار ) کرنا اللہ کی طرف سے ہے ، اور جلد بازی شیطان کی جانب سے . پھر نیچے ” وفی رواية ” کے ذریعہ اُس حدیث کو بیان کیا ہے جو طبری نے سلمہ سے ، محمد بن اسحق سے ، یزید بن رومان سے روایت کیا ہے . ( جیسا کہ 24543 والی حدیث گزری ) اختتامِ حدیث کے بعد لکھتے ہیں اور ولید کو فاسق یعنی کاذب کا نام دیا گیا .

    ابن زید، مقاتل اور اور سھل بن عبداللہ کہتے ہیں ” الفاسق الکذاب ” ہے . ابوالحسن وراق کہتے ہیں کہ یہ اعلانیہ گناہ کرنے والا ہے . ابن طاھر کہتے ہیں کہ وہ شخص جو اللہ ( تعالیٰ ) سے حیاء نہیں کرتا . ( وہ فاسق ہے ) . حمزہ اور کسائی نے ” فَتَثَبَّتُوْا ” پڑھا ہے ، التَّثَبُّت سے ہے . اور باقی قراء نے ” فَتَبَيَّنُوْا ” سے ، اَلتَّبْيِيْنُ سے .

    دوسرا : (مسئلہ) اس آیت میں خبرِ واحد کے قبول کرنے پر دلیل ہے اگر وہ عادل ہو ، اس لئے کہ آیت میں خبر فاسق کے نقل کرنے کے وقت تثبت ( ترکِ عجلت ، توقف ) کا حکم دیا ہے ، اور جس ( شخص ) کا فاسق ہونا ثابت ہوا اخبار ( کسی قسم کی خبر دینے ) میں اجماعًا اُس کا قول باطل ہوتا ہے ، کیونکہ خبر ایک امانت ہے اور فسق ایک ایسا قرینہ ہے جو اس کو باطل کردیتا ہے . اور اِجماع نے من جملہ اس میں سے ان چیزوں کو مستثنَى کیا ہے جو دعویٰ ، جحود اور غیر پر کسی مقصود حق کے ثابت کرنے سے تعلق رکھتی ہیں ، مثلًا کسی کا کہنا یہ میرا غلام ہے ، ایسے میں اُس کے قول کو قبول کیا جائے گا . اور جب کسی نے یہ کہا کہ فلان نے یہ حکم جاری کیا ہے کہ یہ ( چیز ) تمہارے لئے ہدیہ ہے ، تو اُس کے قول کو قبول کیا جائے گا . اور اسی طرح ان جیسی چیزوں میں کافر کی خبر کو بھی قبول کیا جائے گا . اور اسی طرح جب کوئی اس بات کا اقرار کرتا ہو کہ مجھ پر فلاں کا حق ہے تو یہ اقرار بھی اجماعا باطل نہیں ہوگا .

    رہا مسئلہ کسی غیر پر انشاء ( کوئی چیز قائم کرنے ) والا ، تو شافعی وغیرہ نے کہا کہ وہ نکاح میں ولی نہیں ہوسکتا . اور ابوحنیفہ اور مالک نے کہا کہ وہ ولی ہوسکتا ہے ، اس لئے کہ وہ اس ( اپنی مولیہ ) کے مال کا جب ولی ہوتا ہے تو بضع کا بھی مالک ہوگا . جیسے عدل ، اگر چہ کہ اپنے دین میں وہ فاسق ہو اِلَّا یہ کہ غَیْرَت اُس کی بھرپور ہوتی ہے اور اسی سے وہ بیوی کی حفاظت کرتا ہے ، اور بعض اوقات مال خرچ کرکے حرمت کو بچاتا ہے ، اور جب وہ مال کا ولی ہوتا ہے تو نکاح کا بالأولىٰ ولی ہوگا .

    تیسرا : ابن عربی کہتے ہیں کہ اور یہ عجیب بات ہے کہ شافعی اور ان کے نُظَرَآ ( جیسوں ) نے فاسق کی امامت کو جائز قرار دیا ہے . اور جو شخص حَبَّتِ ( ایک ذرا ) مال پر قابل بھروسہ نہیں کیسے وہ دین کے ایک قنطار ( ایک ڈھیر ) پر قابلِ اعتماد ہوسکتا ہے ؟ اور دراصل اس کا اصل ( راز ) یہ ہے کہ جب اُن وُلاة ( امر ) کے ادیان فاسد ہو ( بگڑ ) گئے جو لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو ترک کرنا ممکن نہ ہوا اور نہ ہی ان کو ( امامت سے ) ہٹانا تو لوگ ان کے پیچھے نماز پڑھنے پر مجبور ہوئے ،( جیسے فی زماننا ، اگر چہ کہ حکماء و ولاة لوگوں کی امامت نہیں کرتے ، لیکن جو ائمہ حکومت کے تابع ہوا کرتے ہیں ، خصوصاً اسلامی ممالک کے ، تو وہ ان کے زر خرید غلام ہوتے ہیں ، اور یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو لاگو کرنا چاہتے بھی ہوں تو لاگو نہیں کرسکتے اور اس طرح حب مال میں ان کے غلام ہوکر رہ جاتے ہیں ، الا ماشاءاللہ ، اگر اللہ والے ان حکماء کی بات ماننے سے انکار کرتے ہیں تو ظالم حکمران انھیں جان ہی سے مار ڈالتے ہیں یا جیلوں میں ٹھونستے ہیں . اللہ عزوجل علمائے حق کی حفاظت فرمائے ) جیسا کہ عثمان نے کہا کہ عمدہ نماز وہ ہے جو ( حکماء وغیرہ کے علاوہ عام ) لوگ پڑھتے ہیں ، پھر جب وہ عمدہ طریقہ سے نماز پڑھتے ہیں تو وہ ( غالباً ضمیر ولی امر یا امام کی طرف لوٹتی ہے ) بھی اچھی طرح سے نماز پڑھتا ہے ، اور جب وہ برا کرتے ہیں تو اس کو ان کی برائی سے بچنا چاہئے . پھر لوگوں میں سے بعض وہ ( متقی ) ہوتے ہیں کہ جب وہ خوف کی وجہ سے ان کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں تو وہ اللہ کے لئے اپنی نمازوں کو لوٹاتے ہیں ، اور ان میں سے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اسی کو اپنی نماز بناتے ہیں . ( لوٹاتے نہیں ) اور وجوبِ اعادہ کے تعلق سے میں کہتا ہوں ، کسی کے لئے یہ سزاوار نہیں کہ وہ اپنے من مرضی کے ائمہ نہ رہنے کی صورت میں ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو ترک کرے ، ہاں! اپنے نفس میں وہ اس کو لوٹائے ، اور اس سے اُس پر اس کے غیر کے پاس کوئی اثر نہیں پڑے گا . ( ابن عربی کی بات کو صد فی صد مان لینا زیادتی ہوگی کہ لوگ خوف کی وجہ سے ہی فاسق کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ابن عمر جیسے جلیل القدر صحابی نے حجاج کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور ان جیسے صحابی جابر وظالم بادشاہ کے پاس حق بات کہنے سے ڈرنے والے نہیں تھے )

    چوتھا : اور بہرحال اگر ہم اس ( فاسق ) کے احکام کی بات کریں ، اگر وہ والی ہو تو وہ وہی احکام جاری کرے جو مبنی برحق ہوں ، اور مخالف احکام کو مسترد کرے ، اور اس کا جاری کردہ حکم کسی حال میں بھی نہیں ٹوٹےگا اور تم کسی اثر انداز ہونے والی روایت یا حکایت کرنے والے قول کے ذریعہ ( کی وجہ سے ) اس قول کے علاوہ قول کی طرف نہیں پلٹوگے ، اس لئے کہ کلام کثیر ہے اور حق ظاہر ہے .

    پانچواں : اس بات میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کہ اُس کا اپنے غیر سے کسی پہونچانے والے قول ، یا کسی پہونچنے والی چیز ، یا کسی جاننے والی اجازت سے رسول ( قاصد ) ہونا صحیح ہو جب وہ مرسل اور مبلغ کے حق سے نکلتا نہ ہو ، پس اگر اس کا تعلق اُن دونوں کے غیر حق سے ہو تو اس کے قول کو قبول نہیں کیا جائے گا . اور یہ اس کی طرف دعوت دینے والی ضرورت کے تحت جائز ہے ، اس لئے کہ اگر وہ ان معانی میں سوائے عدول کے مخلوقات کے درمیان تصرف نہیں کرتا ہے تو اس کو ان ( معانی ) میں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، اس میں ان کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے . واللہ اعلم .

    چھٹا : اور آیت میں اُس شخص کے قول کے فاسد ہونے پر دلیل ہے جو یہ کہتا ہے کہ ” تمام مسلمان عادل ہیں ” حتی کہ جرح ثابت ہوجائے ، اس لئے کہ اللہ تعالی نے ( کسی خبر کو ) قبول کرنے سے پہلے تثبت ( وتانَّى ) کا حکم دیا ہے ، اور حکم کو نافذ کرنے کے بعد تثبت کا کوئی معنی نہیں ، پس اگر حاکم نے تَثَبُّت سے پہلے کوئی حکم لگایا ہو تو یہ حکم محکوم علیہ پر بجہالت لگایا گیا حکم ہوگا .

    ساتواں : پس اگر اس نے ظن پر غالب آنے والا حکم جاری کیا تو وہ جہالت سے عمل کرنے والا حکم نہیں ہوگا ، جیسے دو عادلوں کی گواہی کا فیصلہ کرنا ، اور مجتہد عالم کے قول کو قبول کرنا ، جہالت پر عمل کرنا تو اس وقت ہوگا جب اس شخص کے قول کو قبول کیا جائے کہ جس کو قبول کرنے میں غلبۂ ظن حاصل نہ ہو . اس مسئلہ کو قشیری نے ذکر کیا ، اور اس سے قبل والے ( مسائل ) کو مھدوی نے . ( تفسیر قرطبی )

    اظہارخیال کریں

    Please enter your comment!
    Please enter your name here