رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری
” وَ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ” ( سورةالاعراف/34 )دنیا میں ایسی بہت سی قومیں گذری ہیں جو اپنے الگ تھلگ عقائد کے مطابق مختلف ادیان باطلہ پر قائم تھیں . جن میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی تو بعض کو کفر پر ہی قائم رکھا اور بعض عذاب الہی کا شکار ہو گئیں . آج انھیں کے وارثین اپنے باپ داداؤں کی تعلیم ، عقائد اور نقش قدم پر قائم ہیں اور اپنے سلف سے ملی ہوئی تعلیمات اور عقائد کو برحق سمجھ رہے ہیں .
تاریخ کی ورق گردانی اور قرآن و حدیث کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنی بھی اقوام وقوع پذر ہوئی ہیں ان میں سے ہر ایک کے عروج و زوال کا وقت اس کی منشا کے مطابق متعین رہا ہے . لہذا اللہ تعالیٰ ہر امت میں ان کی ہدایت کے لئے وقتاً فوقتاً انبیاء کا نزول فرماتا رہا . جب جب بھی امت میں بگاڑ آیا . ان کی ہدایت کے لئے انبیاء کا نزول ہوتا رہا . اور انبیاء انسانوں کی فلاح و صلاح کے لئے اپنی اپنی قوم میں دین و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اللہ کے دئے گئے مشن پر معمور رہے . لیکن ہر نبی کو اپنی اپنی قوم کی طرف سے اذیت و تکلیف دی گئی اور وہ ان تکالیف و مصائب اور آلام پر ثابت قدمی دکھاتے رہے اور موت تک صبر و استقامت کے ساتھ اپنے مشن پر ڈتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا ، لیکن اقوام عالم میں انہی لوگوں کو ہدایت ملی جن کو اللہ نے دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی . اور وہ لوگ ہدایت سے محروم رہے جنهوں نے تکبر سے کام لیا اور رو گردانی اختیار کی جس کے نتیجہ میں ان کا انجام بد سے بد تر ہوا . چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے . ” وَكَم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءَهَا بَأْسُنَا بَيَاتًا أَوْ هُمْ قَائِلُونَ (4) فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا إِلَّا أَن قَالُوا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ “.
اللہ نے ہر قوم کے ہر ایک فرد بشر کے لئے اس کی زندگی کی ایک مدت متعین کر رکهی ہے . فرق صرف کمی زیادتی کا رہا ہے . کسی کو ہزار سال تو کسی کو سو سال زندگی ، مگر موت ہر ذی روح کے لئے اٹل حقیقت رہی ہے . دنیا میں مختلف اقوام اپنے باطل ادیان پر عمل پیرا ہیں جن میں بہتوں نے جنت ، جہنم ، یوم آخرت ، حساب کی پیشی ، کلام اللہ اور انبیاء وغیرہ کا انکار کیا . غرض یہ کہ بعد الممات کے تعلق سے مختلف عقائد لوگوں میں پائے جاتے رہے . مثلاً موت کے بعد سزا و عتاب وغیرہ کچھ نہ ہوگا اور دنیا میں ملنے والی چھوٹی موٹی سزائیں دنیا کے گناہوں کا کفارہ بنیں گی . بعضوں نے کہا کہ موت کے بعد سب کچه ختم ہو جائے گا اور بعضوں نے کہا کہ صرف اچهے کام کا بدلہ ہوگا اور برے کاموں پر کچھ سزا نہ ہوگی یہ اور ان جیسے دیگر اور خیالات و رجحانات ان میں پائے جاتے ہیں . گرچہ کہ یہ سب من گهڑت باتیں ہیں . مگر موت سے کسی کو انکار نہیں . جس پر ہمارا اور آپ کا کُلِّی ایمان و یقین ہے .
قرآن کا فرمان ہے کہ ” کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَان ” ہر ایک کو موت کا مزہ جکھنا ہے . اور موت سے کسی کو مفر نہیں . موت ایک اٹل حقیقت ہے جب اس کا وقت آجائے تو چاہے بادشاہ ہو یا غلام وزیر ہو یا عام آدمی ، سفیر ہو یا مشیر کسی کو مہلت نہیں ملتی ، چاہے وہ زمین کی سات تہوں میں چھپ جائے یا آسمان کی وسعتوں میں محفوظ ہوجائے لیکن موت ہر حالت میں آکر رہتی ہے اور اس کے اسباب خود پیدا کرلیتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ موت خود زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہوتی ہے کیونکہ جب تک موت نہیں آتی زندگی محفوظ نہیں رہتی ہے لیکن انسان بڑا نادان ہے اپنی حفاظت کے لئے مختلف تدابیر اختیار کرتا ہے اور اس بات کو بھول جاتا ہے کہ یہ تدابیر اسی وقت کام آتی ہیں جب اس کی زندگی کا وقت باقی ہوتا ہے اگر وہ ختم ہو جائے تو سب انتظامات دھرے رہ جاتے ہیں اور ساری عقلیں و تدبیریں ناکام ہوتی نظر آتی ہیں . اور صرف ایک لمحہ میں سب کچھ ختم ہوجاتا ہے ۔ اگر حاکمیت ، بلٹ پروف جیکٹیں ، بلٹ پروف گاڑیاں یا حفاظتی دستے موت سے بچاسکتے تو حکمرانوں اور پیسے والوں کو کبھی موت نہیں آتی لیکن اللہ کا قانون سب کے لئے یکساں ہے ہر نفس کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور سب کو اپنے دنیا کے کرتوتوں کا حساب دینا ہے . لیکن بنی نوع انسان سب سے زیادہ غفلت بھی موت ہی سے برتتا ہے . مرنے والوں کے جنازوں کو خود کاندھا بھی دیتا ہے اور منوں مٹی کے نیچے اپنے ہاتھوں سے دفن بھی کرتا ہے.لیکن اس کے ذہن سے کبھی یہ خیال نہیں گذرتا کہ ایک دن مجھے بھی لوگ یونہی کاندھوں پہ رکھ کر اس شہر خموشاں میں منوں مٹی کے نیچے دفنا کر چلے جائیں گے .
موت کی اٹل حقیقت سے انسان کی آنکھ زیادہ تر اوجھل ہی رہتی ہے وہ گھڑی جس سے ایک دن سب کو جا ملنا ہے انسان اس کے متعلق سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا . کتنے ایسے بڑے بڑے لوگ آئے جن کے ناموں سے دن کانپ جایا کرتا تھا ، اور کتنے ایسے آئے جو زمین پر خدا بننے کی تمنا میں لوگوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ اسے سجدہ کریں . کتنے ایسے بڑے بڑے صدور اور وزراء اعظم آئے جن کی حفاظت کے لئے سینکڑوں لوگ معمور تھے . اور ان کی آمد پر شہروں میں ٹریفک معطل کردی جاتی تھی ، لیکن وقت کے ان خداؤں پر جب وقت موعود آیا تو ان کی حالت عبرت انگیز تھی . کتنے ہی ایسے نام ہیں جو گنوائے جا سکتے ہیں لیکن ان کا اظہار بیکار ہے . ہوا کو رک جانے اور سورج کو طلوع نہ ہونے کا حکم دینے والے تکبر اور گھمنڈ کے ان پیکروں پرجب موت سایۂ فگن ہوئی تو یہ عبرت کی ایسی تصویر بنے جنھیں دیکھ کر لوگوں نے اللہ کی پناہ مانگی . جب اللہ رب العزت دنیا میں کسی کو اقتدار عطا فرماتا ہے تو یہ بھول جاتے ہیں کہ موت بھی آنی ہے اور اللہ تعالیٰ کو منہ بھی دکھانا ہے ، قصر صدارت اور وزیر اعظم ہاؤس کی پُر تعیش بالکونیاں وزیروں اور مشیروں کا جھرمٹ انھیں اللہ اور رعایا کے حقوق سے سے بے نیاز کر دیتا ہے حالانکہ یہ بات یاد رکھئے کی ہے ک جب حاکم اور رعایا کے درمیاں فاصلے پیدا ہوجائیں تو انصاف کا قلع قمع کر دیا جاتا ہے اور پھر ضرورت پڑتی ہے آرمرڈ اور بلٹ پروف گاڑیوں کی، اور حفاظتی دستوں کی ، لیکن ان سب کے باوجود بھی موت آکر رہتی ہے . جیسا کہ امریکی صدر کینیڈی کی تو عینکیں تک بلٹ پروف تھیں لیکن کیا ہوا موت آئی تو کچھ کام نہ آیا ۔ اقتدار کے نشہ میں سرشار یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ایک ذات ایسی ہے جسے ہر حرکت اور ہر آہٹ کی خبر رہتی ہے اور جب اس کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آتی ہے تو وقت گزرچکا ہوتا ہے .
موت انسانی زندگی کی فنائیت کا نام ہے . جتنے بھی متکبر و ظالم اس دنیا سے گذرے ان کی موت کے سامنے کچھ نہ چلی . ان کے ہاتهوں نے آخرت کے لئے کچھ نہ چهوڑا . فرعون کو موت سے چهٹکارے کے لئے اس کی بادشاہت ، ابو جہل کو اس کی سرداری ، شداد کو اس کی جنت ، نمرود و قارون کو اس کی دولت و شہرت اور بادشاہت کام نہیں آسکی . کیونکہ موت اللہ تعالیٰ کا وقت موعود ہے . جب وہ آتا ہے تو کسی صورت میں بھی نہیں ٹلتا اور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت اسے ٹال سکتی ہے . چنانچہ قرآن کا فرمان ہے
” حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100) “
جب اللہ کا وقت موعود آجاتا ہے تو کسی کو مہلت نہیں دیتا اور نہ ہی ملک الموت کے ذریعہ سے اس کی اطلاع دی جاتی ہے بلکہ وہ حتمی طور پر اچانک آجاتا ہے .
موت کی تیاری کے لئے حدودِ الہی اور فرائض کی حفاظت کرنی چاہئے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے ” وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ” اور حدودِ الہی کی حفاظت کرنے والے اور مومنوں کو خوش خبری دو ۔ ( التوبہ/ 112) .
موت کی تیاری کے لئے کبیرہ گناہوں سے باز رہنا چاہئے ، فرمانِ باری تعالی ہے ” إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا ” اگر تم منع کردہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو تو ہم تمہارے گناہ مٹا دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ داخل کریں گے ۔ ( النساء: 31 )
موت کی تیاری کے لئے حقوقِ العباد کا پاس و لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اللہ نے حقوق اللہ سے متعلق شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی کا دروازہ توبہ کرنے والوں کے لئے کھلا رکھا ہے لیکن حقوق العباد کی پامالی میں کوئی معافی نہیں ہوگی بلکہ ظالم سے مظلوم کا حق لوٹایا جائے گا ۔ لہٰذا موت سے پہلے وصیت لکھنا اور ناحق وصیت سے پرہیز کرنا بہت ضروری ہے .
موت کی تیاری اس انداز سے ہونی چاہئے کہ انسان ہر وقت موت کے لئے تیار رہے ، چنانچہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ” فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ” جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہدایت کا ارادہ فرما لے تو اسلام کے لئے اس کے سینہ کو کھول دیتا ہے ( الأنعام/ 125 ) تو نبی ﷺ نے فرمایا ! یعنی اللہ اس کے دل میں نور ڈال دیتا ہے . اس پر صحابہ کرام نے پوچھا ! ” اے اللہ کے رسول ! اس کی علامت کیا ہوگی؟ ” تو آپ ﷺ نے فرمایا ! آخرت کی تیاری ، دنیا سے بیزاری اور موت آنے سے پہلے موت کی تیاری .
حقیقی سعادت مندی یہ ہے کہ انسان کا خاتمہ بالخیر ہو ، حدیث میں ہے کہ اعمال کے نتائج ان کے خاتمے کے مطابق ہوتے ہیں .
لہذا ہمیں من چاہی زندگی کو چهوڑ کر رب چاہی زندگی گذارنا ہوگا . چس کی طرف اس حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے . ” عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال ! قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم.الکیس من دان نفسه و عمل لما بعد الموت . والعاجز من اتبع ھواهه و یتمنی علی اللہ فی الأمان . ( متفق علیہ )
اس حدیث میں بعد الممات کی تیاریوں میں لگے رہنے کو اصل عقلمندی قرار دیا گیا ہے ، کیونکہ موت کا کوئی بهروسہ نہیں . کیا پتہ کہ ہماری کونسی نماز و عمل آخری ہو . یا پھر ہم کوئی گناہ کر بیٹھیں اور ہمیں توبہ کی توفیق نہ ملے . اس لئے ہمیں ہمیشہ استغفار کرتے رہنا چاہئے اور دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو ترجیح دینی چاہئے .
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بعد الممات ک تعلق سے فکر مند رہنے اور اس سلسلہ میں جو تعلیمات ہمیں ملی ہیں اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے . آمین .