حیات انسانی پر دعاؤں کے معجزانہ اثرات

0
2086

راقم سطور : محمد زبیر ندویؔ شیروری

اگر ہم قرآن کی تلاوت اس کے معنی و مفہوم کو سمجھتے ہوئے کریں گے تو ہم اس کے دنیوی واخروی بے شمار گنجینۂِ علوم سے روشناس ہوں گے۔منجملہ ان میں سے ایک دعا ہے۔ دعا مانگنا بہت بڑی سعادت ہے قرآن و احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ دعا مانگنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔دعا مومن کا ہتھیار اسکی طاقت اور دشمن سے مقابلہ کا ذریعہ اوردافعِ بلا یعنی مصیبت کو ٹالنے والی ہے۔ حدیث پاک کا ایک قطعہ ہے کہ ‘‘ اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ’’ یعنی دعاعبادت کا مغز ہے ۔عبادات میں دعا کا بہت بڑا مقا م ہے،عبادات میں دعا کی وہی حیثیت ہے جو کھانے میں نمک کی۔رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جومسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ اورقطع تعلق کی کوئی بات شامل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرور عطا فرماتاہے۔ (۱)یا تو اس کی دعا کا نتیجہ جلد ہی اس کی زندگی میں روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے۔ (٢)یا اللہ تعالیٰ کوئی مصیبت اس بندے سے دور فرما دیتا ہے (٣) یا اس کے لئے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے ۔ایک اور روایت میں ہے کہ بندہ جب آخرت میں اپنی دعاؤں کا ثواب دیکھے گا تو دنیا کی مستجاب دعاؤں(یعنی مقبول شدہ دعاؤں)پر افسوس کرکے یہ تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی ۔ اگر کوئی آدمی دعا کرتا ہے تو اس کی دعا رائگاں نہیں جاتی ۔اگر اس کا اثر دنیا میں ظاہر نہ ہوا تو آخرت میں اس کا اجر و ثواب مل ہی جائے گا۔ لہذا دعا سےغفلت برتنا یا سستی کرنا مناسب نہیں۔دعا کی قبولیت کے لئے ایک بات یہ بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ دعا کی قبولیت میں جلدی نہ کی جائےکیونکہ بندہ کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ بندہ جلدبازی نہ کرے ۔جلد بازی سے مراد یہ ہے کہ بندہ دعا کی قبولیت سے مایوس ہو کر دعا مانگنا چھوڑ دے۔ اگر اللہ پاک بندہ کی دعائیں قبول کر رہا ہے تو وہ اسے انعام سے نواز رہا ہے اوراگر اسکی دعاؤں کو کسی مصلحت سے قبول نہیں کر رہا ہے تو وہ اس کے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ لہذا بندہ کو پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ مومن کی دعا کبھی بھی ردنہیں ہوتی ہے بصورتِ دیگر اس کا اجر ضرور ملتاہے۔

دعا ہمیشہ عاجزی اور انکساری سے کرنی چاہئے کیونکہ عاجزی اور انکساری اللہ پاک کو پسند ہے۔ دعا ایک عظیم نعمت اور انمول تحفہ ہے ۔ اس دنیا میں کوئی بھی انسان کسی بھی حال میں دعا سے مستغنی نہیں ہوسکتا ۔ دعا اللہ کی عبادت اور اسکے متقی بندے اور انبیاءِکرام علیہم السلام کے اوصافِ حمیدہ میں سے ایک ممتاز وصف ہے۔ دعا اللہ تعالی کے دربارِ عالیہ میں پیش کی جانے والی ایک مکرم چیز ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ‘‘ لَیْسَ شَیْءٌ أکْرَمُ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجّلَّ مِنَ الدُّعاءِ ’’ یعنی دعا سے بڑھ کر اللہ تعالی کے یہاں کوئی چیز باعزت نہیں۔ دعا اللہ تعالی کے یہاں بہت پسندیدہ عمل ہے۔ ‘‘ سَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہ فَانَّہ یُحِبُّ أنْ یُسْأَلَ ’’ اللہ سے اس کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اپنے سے مانگنے کو پسند کرتاہے ۔ دعا شرحِ صدر کا سبب ہے ۔دعا اللہ تعالی کے غضب کو تھنڈا کرنے اور اس کی ذات پربھروسہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔دعا آفت و مصیبت کی روک تھام کا مضبوط وسیلہ ہے، بلاشبہ دعا اپنی اثر انگیزی اور تاثیر کے لحاظ سے مومن کا ہتھیار ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے ‘‘ وَإذَا سَألَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَإنِّي قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ ‘‘ یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں، تو میں قریب ہوں۔ دعا کرنے والاجب مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔

دعا کا حیاتِ انسانی سے گہرا تعلق اور ربِ کریم کے نادیدہ خزانوں سے عظیم ربط ہے اور اس کی اثر انگیزی ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔یاد رکھیں کہ دعا صرف ایک طریقہ ِٔ عبادت ہی نہیں بلکہ انسان کی روحِ عبودیت کی تجلی اور توانائی کا ایک ایسا قوی ترین وسیلہ ہے ۔جس سے ہر انسان فیض یاب ہوسکتا ہے۔ اگر آپ پرخلوص دعا کو اپنی عادت بنالیں تو آپ اپنی زندگی کو یقیناً تابناک اور کامیاب بناسکتے ہیں۔دعا کرہ ارض کی کشش کی طرح ایک حقیقی اور واقعاتی طاقت ہے۔دعا ایک ایسی طاقت ہے جو شخصیت کے پورے طور پر نشونما پانے کیلئے لازمی ہے ۔دعا کے ذریعہ سے انسان اپنی محدود توانائی کا رشتہ لامحدود توانائی کے مبداسے استوار کرلیتا ہے ۔جس وقت ہم دعا کرتے ہیں تو اس وقت ہم اس بے پایاں قدرت سے جڑے ہوتے ہیں جو کارخانہ ِٔ عالم کی روحِ رواں ہے ۔پھرجب ہم اس لامحدود طاقت سے ہماری دستگیری کی التجا کرتے ہیں تو وہ التجا ہماری بشری کمزوریوں کو دفع کرتی ہے اور ہمیں روحانی صحت و قوت عطا کرتی ہے۔ دعا کیلئے کسی خاص ہیئت وقت اور مقام کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ قبولیت کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے ۔لیکن ایسی دعا بالکل بے معنی ہے جس میں صاحب دعا صرف دعا کی حد تک عاجزی و انکساری ظاہر کرے اوراس کے بعد فسق و فجور میں مبتلا ہو جائے ۔مخلصانہ اور صادق دعا بجائے خود راہ عمل اور طریق ہدایت ہے۔پاک بازی کی زندگی خود ایک قسم کی دعا اور عین عبادت ہے۔دعا مغز عبادت اور ایمان کی آواز ہوتی ہے ۔دعا وہ التجا ہے جس کا رخ عرشِ معلیٰ کی طرف ہوتا ہے۔دعا سے تقدیر بھی بدلتی ہے ۔جو دعا نہیں کرتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے اور جو دعا کرتا ہے اللہ اس سے خوش ہوتا ہے اور دعا کے ہاتھوں کو خالی لوٹانے سےحیا کرتا ہےکیوں کہ دعا ایک ایسی دستک ہے جس کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اگر آدمی واقعی خلوصِ نیت سے اللہ پاک سے جائز دعا مانگے تو اللہ پاک اس کوضرورقبول کرتاہے ۔جب انسان کی ہمت جواب دے دیتی ہے تو اُس کا آخری سہارا اللہ کی وہ قادرمطلق ذات ہوتی ہےجس کے حضور دعا کر کے ہی وہ اپنے دکھ درد اوررنج وغم کو دور کرسکتا ہے۔

لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر فرض نماز اور دعا کے قبولیت کے اوقات میں خصوصی دعاؤں کااہتمام کریں اور بقیہ اوقات میں عمومی دعاؤں کا ۔ اللہ ہم سبھوں کو اپنے ساتھ دوسروں کے حق میں بھی دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔

--Advertisement--

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here