تینگن گنڈی میں منعقدہ ایک بہترین ثقافتی پروگرام کی خصوصی رپورٹ

0
1897

مؤرخہ 29/جمادی الثانی 1440ھ مطابق 7/مارچ 2019 ء بروز جمعرات بعد نماز عشاء ٹھیک سوا نو ( 9:15 ) بجے مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن گنڈی کے سالانہ ثقافتی پروگرام بمقام احاطہ مدرسہ ہذا ، محمد سالک بن محمد صادق کی تلاوت کلام پاک اور محمد شہباز کی نعت پاک سے مولانا عتیق بن عبدالقادر ڈانگی کی نظامت میں ہوا .

بعد ازاں محمد حنیف کمٹہ نے علم دین کی اہمیت پر ایک بہترین تقریر پیش کی . اس کے

معاً بعد مہمانانِ خصوصی کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا اور مدرسہ ہذا کے نائب مہتمم مولانا اسحاق بن علی ڈانگی نے مہمانوں کا مختصراً تعارف پیش کیا

مولانا کے استقبالیہ و تعارفی کلمات پیش کرنے کے بعد منتصر متعلم دوم عربی نے توحید کے عنوان پر ایک تقریر پیش کی . انکی تقریر کے بعد چھوٹے اور ننھے منے بچوں کا دلچسپ ثقافتی پروگرام پیش کیا گیا جس میں کھانے کے آداب پر سوم مکتب کی طالبات کا ایک دلچسپ مکالمہ اسی طرح اطفال دوم کے بچوں کا جھوٹ مت بولنا پر ایک بہترین ایکشن سونگ اور ننھے منے بچوں کی اجتماعی قرأت شامل تھی . اس کے بعد محمد صادق نے کنڑا زبان میں ، احمد ابن اسحاق ڈونا نے انگریزی زبان میں اور شہباز نے اردو زبان میں اپنی تقاریر پیش کیں . اس کے بعد اجتماعی قرآت کا ایک نمونہ پیش کیا گیا

بعد ازاں مہمان خصوصی مولانا مفتی فیاض احمد برمارے نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد دعوت و تبلیغ کے ساتھ ثقافتی طور پر بھی محنت کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات کو پوری انسانیت کے لئے بہترین اسوہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لہٰذا ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی زندگی کے مختلف شعبے ہیں ان میں سے ایک ثقافتی شعبہ بھی ہے

دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں انکی ثقافت و روایات کا ایک الگ انداز رہا ہے لیکن اسلامی ثقافت کا انداز ہمیں آپ کی ذات سے براہ راست ملا ہے اس لئے اسلام ثقافتی میدان میں بھی تمام مذاہب و ادیان کی ثقافت پر سبقت لے گیا اور ممتاز بن گیا

پھر ثقافت کی تعریف کے سلسلہ میں علماء اہل ثقافت کے اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجموعی طور پر ثقافت کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ثقافت ، لوگوں کے عقائد ، افکار ، نظریات اور خیالات کو اسلامی طرز پر ڈھالنے کا نام ہے

اس کے بعد بچوں کے پروگرام کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام یہاں کے اساتذہ و معلمات کی محنت و کوششوں اور یہاں کی ثقافت کا پتہ دیتا ہے

اخیر میں مدرسہ اور گاؤں کے ذمہ داروں اور یہاں کے اساتذہ کو مبارکباد پیش کی اور اس جلسہ میں انھیں مدعو کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور دعائیہ کلمات پر اپنی بات ختم کی . موصوف کے تاثرات کے بعد صفیحہ بنت شفیع بڈو نے تقریر اور چھوٹے بچوں نے پیارے بچو نیک بنو تم نظم پیش کی . اس کے بعد مہتمم مدرسہ نے اختصار کے ساتھ مدرسہ کا تعارف اور جلسہ کی مناسبت سے ایک مختصر رپورٹ پیش کی . مہتمم مدرسہ کی رپورٹ کے بعد گیم اور اس کے اثرات پر مکالمہ کا پہلا منظر پیش کیا گیا

اس کے بعد جلسہ کے مہمان خصوصی مولانا عبیداللہ ندوی ناظم و بانی مدرسہ ضیاء العلوم کنڈلور کا پر اثر خطاب ہوا ، موصوف نے کہا کہ ناخدا برادری کے لوگ اکثر جمعرات کے دن رات میں ہر قسم کے پروگرامات منعقد کرتے ہیں اور بڑی ریر تک سنتے رہتے ہیں برخلاف بعض دوسرے مقامات کے جو بہت دیر تک سننا پسند نہیں کرتے

اس کے بعد مزید تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج سے تقریباً چالیس پینتالیس سال قبل اسی گاؤں کے کچھ بزرگوں نے یہ سوچ کر کہ ہماری قوم میں دینی شعور کی کمی ہے اگر مدرسہ کا قیام عمل میں نہ آیا تو وہ دن دور نہیں کہ یہ بے دینی اور لاشعوری کا سلسلہ بڑھتا چلا جائے اور برادری کی دین بیزاری کا سبب بنے لہٰذا انھوں نے اسی سوچ و فکر کے نتیجہ میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی لہٰذا ہمیں اس کی حفاظت کی فکر کرنی چاہئے اور یہ نہ سوچنا چاہئے کہ مدرسہ کے ہوتے ہوئے ہم میں بے دینی پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ دشمنانِ اسلام کی سازشوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کے شر سے اپنے آپ کو اور معاشرہ کو بچانے کے لئے ان مدارس کی حفاظت کی فکر کرنی چاہیے اور اسی پس منظر میں مدرسہ چلانے کے کام کی مشکلات اور اس کے اخراجات کے لئے ذاتی قربانیاں پیش کرنے اور اپنے بچوں کو نوکریوں کی فکر میں دینی تعلیم سے محروم رکھنے سے پرہیز کرنے اور دینی تعلیم کے حصول کو اور دینی طلباء کے اکرام کو لازمی سمجھنے سے متعلق مختلف علاقوں کے واقعات کی روشنی میں بالتفصیل گفتگو کی

اس کے بعد اب تک اس مدرسہ کو چلانے والے حضرات کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ واقعتاً یہ حضرات قابل تعریف ہیں .

اخیر میں ان حضرات کے انھیں اس جلسہ میں مدعو کرنے پر شکریہ ادا کیا اور دعائیہ کلمات پر اپنی بات ختم کی .

مولانا عبیداللہ کی تقریر کے بعد ایک ایکشن سونگ اور ایک ترانہ پیش کیا گیا

اخیر میں مولانا الیاس کی بوجہ سفر جلسہ میں تھوڑی دیر شرکت کے بعد روانگی کی وجہ سے مدرسہ کے صدر جناب محمد میراں قاسم خورسے نے صدارتی کلمات پیش کئے اور کلمات تشکر مدرسہ ہذا کے استاد مولانا خالد صاحب نے پیش کئے اور ناظم مدرسہ حافظ عبدالقادر صاحب ڈانگی کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا .

واضح رہے کہ اس پروگرام کے دوران چند لکی ٹوکنوں کا ڈرا بھی کیا جاتا رہا اور جیتنے والوں کو انعامات سے نوازا جاتا رہا .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here