زبــان و قلم حـقـیــقـت کے آئینہ مـیـں

0
1256

رشحات قلم : محمد زبیر ندوی شیروری

الــذی عـــلّــــم بــالـــقـــــلــــم : جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا

دنیا میں انسانی مافی الضمیر کے عموماً دو ہی طریقے زیادہ تر رائج ہیں ایک زبان اور دوسرا قلم . یہی وہ زبان ہے جس کے ذریعہ انسان اپنی ما فی ضمیر ادا کرتا ہے اور اس سے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں خود کو اور دوسروں کو بھی مستفید کرتا رہتا ہے . اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ کے رسول نے اس کو اپنی تاثیر میں مانند سحر یعنی جادو قرار دیا ہے ، حالانکہ اس کا دائرہ زیادہ تر انسانی زندگی تک محدود رہتا ہے اور قلم کا موت کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے . لہذا انسانی زندگی میں قلم اپنی تأثیر کے اعتبار سے ایک ناقابل انکار حقیقت ہے .

قلم کے ذریعہ سے اقوام عالم کے تفکرات و تخیلات کو ایک خاص ڈھانچہ میں ڈھال کر ایک نیا انقلاب رونما کیا جاسکتا ہے . تاریخ نے کئی ایسی شخصیات کی تصانیف اور ان کے رشحاتِ قلم کو محفوظ کرلیا ہے جن کا انسانی زندگی کے انقلاب میں ایک اہم رول رہا ہے اور انشاء اللہ ان کا یہ فیض تا قیامت جاری رہے گا .

یہ ایک ایسا آلہِ کار ہے جس کو انسان اپنے مختلف اغراض و مقاصد میں استعمال کر کے کامیاب و کامرانی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے . اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی قسم کھائی ہے .

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے حق تعالیٰ نے قلم پیدا فرمایا اور اس کو حکم دیا کہ لکھ ۔ قلم نے عرض کیا ! کیا لکھوں ؟ تو حکم دیا گیا کہ تقدیرِ الٰہی لکھ تو پھر قلم نے ( حکم کے مطابق ) ابد تک ہونے والے تمام واقعات و حالات کو لکھ دیا ۔ ( ترمذی شریف )

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیر کو آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل ہی لکھ دیا تھا ۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قلم اللہ تعالیٰ کی اس کے بندوں کو عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے . اور بعضوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو قلم پیدا فرمائے ، ایک سے تمام کائنات و مخلوق کی تقدیریں لکھ دیں جس کو قلم تقدیر کہا جاتا ہے پھر اس کے بعد دوسرا قلم پیدا فرمایا جس سے زمین پر بسنے والے لکھتے ہیں اور لکھیں گے اور اسی کا ذکر سورۃالعلق میں ” الذی علم بالقلم ” سے کیا گیا ہے یعنی جس نے علم سکھایا قلم سے . ( سورۃ العلق/4 )

علمائے کرام نے قلم کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں . ایک سب سے پہلا وہ قلم جسے حق تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اسے کائنات کی تقدیر لکھنے کا حکم دیا . دوسرا فرشتوں کا وہ قلم جس سے وہ کائنات میں وقوع ہونے والے تمام واقعات ، انسانوں کے اعمال اور ان کے مقادیر لکھتے ہیں . تیسرا عام انسانوں کا وہ قلم جس سے وہ اپنا کلام لکھ کر اپنے مقاصد کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں .

قلم دیکھنے میں تو ایک کم قیمت معمولی چیز نظر آتا ہے . لیکن اس کے اندر بہت بڑی طاقت ہوتی ہے ، وہ صاحب علم کی سرفرازی و سربلندی کا ایک اہم ذریعہ ہوتا ہے . اگر جنگجو کا ہتھیار تلوار ہے تو عالم فاضل اور صاحب علم کا ہتھیار قلم ہے . جس نے قلم کو مضبوطی سے تھام لیا ، اس نے گویا ترقی ، عزت اور دولت کے زینہ پر اپنا قدم رکھ دیا . تاریخ میں جن نامور حکماء و فلاسفاء ، حکماء و دانشوران ، علماء و فضلاء ، مصورین و مصنفین ، شعراء و ادباء اور سائنسدانوں و ڈاکٹروں کا تذکرہ ملتا ہے وہ سب اسی قلم ہی کی بدولت ہے . اگر وہ سب اپنا قلم نہ تھامتے تو علم سے محروم ہوجاتے اور جب وہ علم سے محروم ہوجاتے تو کچھ بھی نہ بن پاتے .

یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ صاحب قلم دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں . فلاسفر اپنے اصول ، افکار و خیالات کے ذریعہ ۔حکماء و اطباء اپنے قول اور اصول و علاج کے ذریعہ . علماء ، فضلاء اور دانشوران اپنے علمی ورثہ کے ذریعہ ۔ سائنسدان اپنی ایجادات و تحقیقات کے ذریعہ ۔ شاعر. مصنف اور ادیب اپنے شعری کلام و تصانیف کے ذریعہ اور انجینئرس اپنے تجربات کے ذریعہ .

یہ وہ مراتب ہیں جن کے حصول کے لئے صاحب قلم بچپن ہی سے تکالیف و مصائب کا سامنا کرتا ہے ، لیکن جب وہ کسی عہدہ پر فائز ہو جاتا ہے تو اسے دنیا سلام کرتی ہے اور اس کی قدر و منزلت میں چار چاند لگا دیتی ہے . یہ سب اس کی قلمی کاوشوں کا کمال ہے جو اس کو اس مقام پر لا کھڑا کر دیتا ہے .

قلم جنگی ہتھیاروں سے بھی زیادہ طاقتور ہے ، کیونکہ موجودہ دور میں اس کا استعمال زیادہ تر نسل انسانی کی تخریب کاری میں ہو رہا ہے . یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تہذیبوں کے درمیان ہتھیاروں کی جنگ تو ختم ہو گئی لیکن قلمی جنگیں ابھی بھی جاری ہیں اور ان میں فتح پانے کے لئے علمِ وافر کی اشد ضرورت ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تہذیبوں میں علمی رجحان بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں انسانی افکار اور خیالات و تفکرات میں جدت پیدا ہوتی جا رہی ہے .

بہت سارے صاحبِ قلم مختلف معاشروں میں اپنا نقطہ نظر واضح کرنے اور ان کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے تحریر کا سہارا لیتے ہیں یہ سب قلم ہی کا فیض ہے . قلم اور تلوار بظاہر دو مختلف استعمالات کے الگ الگ آلات ہیں ، لیکن بعض مقاصد کے حصول کے لئے دونوں کا استعمال یکساں کارگر اور مفید ہوتا ہے .

تلوار ہتھیار کی نمائندہ ہے تو قلم ادب و صحافت کا ، یہی وجہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے نشیب و فراز میں دونوں کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے . جنگ میں تلوار کی تندی و تیزی اپنا اثر دکھاتی ہے تو قلم کردار سازی اور ذہن سازی میں اپنا اہم رول ادا کرتا ہے . تلوار کی کاٹ فوری اور مہلک ہوتی ہے تو قلم کی نوک بھی انقلابی ہوتی ہے جس سے ایک طرف خونی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف عدل و انصاف بھی . جس طرح تلوار مجرمین کو انجام تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے جس سے باغی مطیع اور سرکش سرنگوں ہوتا ہے اسی طرح قلم کی نوک سے انسانی قلوب و اذہان متأثر ہوتے ہیں گرچہ اس کا اثر قدرے نرم اور سست ہوتا ہے لیکن انسانی افکار و خیالات کو متاثر ضرور کرتا ہے .

قلم ثقافتی اقدار کا محافظ ، معاشرتی عدل و انصاف کا ضامن اور نصیحت و عبرت کا علمبردار ہوتا ہے اس کے مناسب اور بر وقت استعمال سے معاشرہ پر مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں . انسانیت تباہی سے بچ جاتی ہے دشمن دوست بن جاتے ہیں ، یہ خاموش اور پرامن انقلاب کا ذریعہ ہے . تلوار اور قلم رنگ و ڈھنگ سے مختلف تو ضرور ہوتے ہیں لیکن دونوں نتیجتاً یکساں ہوتے ہیں ۔ تلوار کی وار مہلک ، حتمی ، ظاہری اور جسمانی ہوتی ہے ، لہٰذا معافی کے امکانات بھی بہت کم ہوتے ہیں . اس کے برعکس قلم کا وار انسانی دل و دماغ اور اذہان و قلوب پر ہوتا ہے ، لہٰذا اس سے خون خرابہ اور جانی نقصانات کے امکانات بھی ایک حد تک کم ہو جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ معافی و تلافی کا موقعہ بھی ہاتھ آجاتا ہے .

قلم کا کردار مختلف ناحیوں سے مختلف مواقع پر نمایاں ہوتا رہتا ہے ، کبھی نصیحت تو کبھی تربیت ، کبھی امن تو کبھی جنگ ، کبھی پروپیگنڈہ تو کبھی معاشرتی تعمیر و استحکام میں . مجموعی طور پر قلم کی کارکردگی نہایت ہی مضبوط اور متوازن ہوتی ہے لہذا تلوار پر قلم کی کارکردگی تسلیم کرنی ہی پڑے گی .

گویا قلم اپنے زبان حال سے یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میرا کام لکھنا ، آواز کی صورت گری اور فکر و خیال کی مجسمہ سازی کرنا ، الفاظ کو لباس کا جامہ پہنانا اور نطق و بیان کو تحریر میں ڈھالنا ہوتا ہے حالانکہ میں قوت سماعت و بصارت ، اپنے ذاتی فکر و خیال اور ارادہ سے عاری و خالی ہوتا ہوں اور میری کوئی ذاتی حرکت نہیں ہوتی لیکن ہر کوئی مجھے اپنے ارادہ کے مطابق حرکت دیتا ہے ، میں اپنی کمزوری و خوبی سے بےخبر ہوتا ہوں لیکن میں لوگوں کے ارادوں اور نیتوں کے مطابق ہر وقت چلنے کے لئے تیار رہتا ہوں یہ الگ بات ہے کہ نیک لوگ مجھے بھلے اور اچھے کاموں کے لئے اور بُرے لوگ برے کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں . کبھی میں ایمان کی باتیں لکھتا ہوں تو کبھی کفر کی . مجھ سے کوئی محبت و مودت کی تحریریں لکھتا ہے تو کوئی نفرت و عداوت کی لکیریں کھینچتا ہے . کوئی نوک قلم سے دو جدا دلوں کو محبت کے ٹانکوں سے جوڑتا ہے تو کوئی اسی سے زہریلے سانپ کی طرح ڈس کر دو دلوں کو مسموم کرتا ہے . کبھی میں متقی و خدا ترس کے ہاتھ میں ہوتا ہوں تو کبھی فاسق و فاجر کے ، لیکن متقی و خداترس لکھنے سے قبل سوچتا ہے ، لکھتے ہوئے خدائی استحضار رکھتا ہے اور لکھنے کے بعد لکھی ہوئی عبارت کا بے لاگ جائزہ اور محاسبہ کرتا ہے . میرا کام زبان کی مانند ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ زبان کے الفاظ سننے کے بعد فضاؤں میں تحلیل ہو جاتے ہیں جبکہ میرے دیکھنے کے بعد منقش پتھر کی طرح محفوظ ہوجاتے ہیں . اسی طرح بولی کا زمانہ مختصر اور میرا طویل ہوتا ہے .

بولی کو وہ مقام حاصل نہیں جو لکھائی کو حاصل ہے لیکن دونوں اپنے اصول و آداب میں یکساں ہوتے ہیں جس طرح زبان سے بولنا اور پڑھنا رب کے نام سے ہوتا ہے ، اسی طرح قلم سے لکھنا بھی رب ہی کے نام سے ہوتا ہے . جس طرح زبان کے بول میں خیر و شر کا لحاظ ضروری ہوتا ہے بالکل اسی طرح قلم کی لکھائی میں بھی . جس طرح زبان سے کہی بات کی تحقیق ضروری ہے اسی طرح تحریرِ قلم کی تحقیق بھی ضروری ہے . زبان کا ایک بول رحمت خداوندی کا سبب بن سکتا ہےتو قلم کا ایک جملہ بھی غضبِ الہی کا سبب بن سکتا ہے جس طرح زبان کا ہر بول کراماً کاتبین کی گرفت میں ہوتا ہے اسی طرح تحریر کا ہر جملہ بھی کاتب کے قبضہ میں ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کی نرمی کلام کی خوبصورتی اور اس کی سختی اس کی بدصورتی کو جنم دیتی ہے .

مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ قلمی افادیت و ضرورت کے سلسلہ میں یوں رقم طراز ہیں کہ مادیت ، الحاد ، قوم پرستی ، نبوت محمدی سے آنکھیں ملانے کے لئے تیار ہے . آج کاذبین نئے نئے روپ میں آرہے ہیں اور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کو چیلنج کررہے ہیں . آج سرکٹانے اور کاٹنے کی ضرورت نہیں ، آج باطل سے آنکھیں ملانے کی ضرورت ہے . آج نبوت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم پر تلواروں کا حملہ نہیں دلیل ، مادیت اور قوم پرستی کا حملہ ہے . قلم اور تلوار کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے ، فرق یہ ہے کہ تلوار کی ضرورت وقتی و عارضی اور قلم کی دائمی ہوتی ہے اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہے . ( ماخوذ )

آج حالات اس قدر نازک ہیں کہ ہر طرف اسلام ، ایمان دین اور اخلاق سوز فتنے ابھر رہے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کو جلا کر خاکستر کردینے اور اسلامی تاریخ کو مسخ کر کے اسے فرسودہ و بوسیدہ کردینے پر تلے ہوئے ہیں . ان حالات میں اسلام پر اٹھنے والے باطل اشکالات اور قانون الہی پر لگائے گئے ظالمانہ اعتراضات کا مثبت ، مدلل ، ٹھوس اور حکیمانہ جواب دینے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا ہر دور و زمانہ کے لئے قابل عمل اور باعث راحت و خیر ہونے کی مدبرانہ و فقیہانہ استدلال و تشریح کی اشد ضرورت ہے .

آج باطل اور دشمنان اسلام کے تحریف کردہ اسلامی حقائق کو صداقت کے معیاری ترازو سے تول کر حقیقت کو واشگاف اور واضح کرنے کا وقت ہے جس کے لئے ایسے شستہ و شگفتہ قلم ، دلکش پیرایہ اور بہترین اسلوب کی ضرورت ہے جسے نہ صرف زمانہ سنے بلکہ اس کو قبول کرکے اپنے سینہ سے لگائے . دور حاضر عدالت و صداقت ، حیا و پاکدامنی اور خیر خواہی و درد انسانیت میں مثالی انقلاب کا منتظر ہے اور اس انقلاب کے لئے قلم اپنے صحیح استعمالات کے ساتھ ایک بہترین آلہ ہے .

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اقلام کو خیر کے وجود کا ذریعہ بنائے اور ہمیں اس کا کما حقہ حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے . آمین یا رب العالمین .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here