یاد بے ساختہ اے ماں جو تری آتی ہے
دل تڑپ اٹھتا ہے آنکھوں میں نمی آتی ہے
اے خدا ماں پہ مری ہو تری جاری رحمت
کیا کہوں کتنی ہے اعلیٰ مری ماں کی عظمت
تیری شفقت تھی رضاعت کی مری عمر تلک
کتنی تکلیف سے پالا ہے یہ شاہد ہے فلک
یاد ہر پل تری آتی ہے مری پیاری ماں
دیدہِ تر لئے میں جاؤں تو اب جاؤں کہاں
تو نے ہر موڑ پہ کی میری سدا راہبری
زندگی میری بنائی ہے زمانہ میں کھری
اَشک یادوں کے نکل آتے ہیں جب آنکھوں سے
میں دعا کے لئے کہتا ہوں تری یادوں سے
درگذر کردے خطاؤں کو ، کہ نادان ہوں میں
ہوں خطا کار کہ نادان ہوں ، انسان ہوں میں
بخش دے اِس کو ، خطا کار ہے شہورؔ یا رب
تیری رحمت کا طلب گار ہے شہور یا رب