از : مولانا عبدالقادر فیضان بن إسماعيل باقوی ، جامعہ آبادی ، بھٹکلی ، امام و خطیب جامع البر والتقویٰ ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات .
6/جمادى الآخرہ 1443ھ بہ موافق 8/جنوری 2022 ء
پہلی قسط
کتا اور سور نجس العین ہیں نجاست کی تین قسمیں ہیں : نجاستِ مُغَلَّظَہ ، نجاست مخففہ اور نجاست مُتَوَسّطہ .
نجس العین کا معنی کتے اور سور کا پورا وجود ہی نجس ( ناپاک ) ہے ، خواہ اس کی کھال ہو ، رال ہو کہ بال ، یہ کسی طرح بھی پاک نہیں ہوتا .
یہی وجہ ہے کہ جس چیز سے بھی کتا ( اسی طرح سُوَّرْ ) یا اس کی کوئی چیز مثلاً فضلہ ( گُو ، گوبر ) رال وغیرہ لگ جائے تو اس چیز کو سات مرتبہ دھوئے بغیر وہ چیز پاک نہیں ہوگی ، ان سات میں ایک مرتبہ دھول والی پاک مٹی ملا کر بھی دھونا واجب ہے .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” طُهُوْرُ اِنَآءِ اَحَدِكُمْ اِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ اَنْ يَّغْسِلَهُ سَبْعَ مَرِّاتٍ ، اُو لَاهُنَّ بِالتُّرَابِ “. تم میں سے کسی کے برتن میں اگر کتا منہ ڈوبائے تو اس کا پاک ہونا اس طرح ہے کہ وہ اس کو سات مرتبہ دھوئے ، ان میں سے پہلے مٹی کے ذریعہ . ( احمد ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، بیہقی )
اور سات مرتبہ دھونے کا اعتبار نجاست عینیہ کے دور ہونے کے بعد کیا جائے گا ، مٹی پہلی مرتبہ دھونے کے وقت بھی ملائی جاسکتی ہے ، آخر میں بھی ، اور درمیان میں بھی ، جیسا کہ ایک روایت میں ” اُخْرَاهُنَّ ” اُن میں سے آخر میں آیا ہے ،
ایک دوسری روایت میں ” اِحْدَاهُنَّ ” اُن میں سے ایک مرتبہ آیا ہے ، ایک اور روایت میں راوی کےشک کےساتھ ” اُوْلَاهُنَّ اَوْ اُخْرَاهُنَّ بِالتُّرَابِ ” اُن میں سے پہلے یا آخر میں مٹی کے ساتھ آیا ہے . اور ایک روایت میں ” وَعَفِّرُوْهُ الثَّامِنَةَ بِالتُّرَابِ ” اور آٹھویں بار اس کو مٹی کے ساتھ دھوؤ . یعنی ساتویں مرتبہ مٹی ملاؤ ، تو یہ آٹھویں مرتبہ کے مقام پر ہوگا . ( بجیرمی بحوالۂ قلیوبی ، ج/1 ، 149 ، تحفة المحتاج ، ج/1 ، ص/108 ، نھاية المحتاج ، ج/1، 251-252 )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اِذَ شَرِبَ الْكَلْبُ فِيْ اِنَآءِ اَحَدِكُمْ ، فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ “. جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا پیے تو چاہیے کہ وہ اس ( برتن ) کو سات مرتبہ دھوئے . ( بخاری ، مسلم )
چونکہ کتا اور سور اور ان دونوں یا ان دونوں میں سے کسی ایک ( مثلا کتے اور بھیڑے ، یا خنزیر اور بکری ) سے مل کر پیدا شدہ بچے نجس العین ( نجاستِ مغلظہ ) ہیں ، کسی طرح وہ پاک نہیں ہوسکتے ، دھونے کے ذریعہ ہو یا ان کے مرنے کے بعد دباغت دینے کے ذریعہ ، لہذا ان سے دور رہنا اور پوری طرح احتیاط کرنا ضروری ہے . ( امام ابوحنیفہ کے نزدیک کتے کی کھال دباغت دینے سے پاک ہوتی ہے . اوزاعی ، ابن مبارک اور ابوثور کہتےہیں! دباغت سے انہی جانوروں کی کھال پاک ہوتی ہےجو ماکول اللحم ہیں ، ( ایسے میں شیر، چیتے ، ریچھ وغیرہ کےچمڑے ان کے نزدیک پاک نہیں ہوں گے ) اور اس کوعمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے . [ التھذیب ، ص/174 ] )
کتے کو مسجد یا گھر کے پاس بلا کر لے جانا یا کتے کے بالوں پر ہاتھ پھیرنا یہ کہتے ہوئے کہ اس کے بال بھیگے نہیں ہیں کہ نجاست ہاتھ سے لگ جائے ، ارے اس عین نجس کے نزدیک جانے اور حد سے بڑھ کر اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرنے کی جسارت ہی کیوں کی جائے ؟ بعض اوقات کسی کا ہاتھ بھیگا رہ سکتا ہے یا ہاتھوں پر پسینہ آسکتا ہے ، یا کتے کے بال بھیگے رہ سکتے ہیں یا اس کی رال یا اس کا بھیگا کُھر آپ کی لاعلمی میں آپ کو لگ سکتا ہے ایسے میں کیا آپ کا جسم گندہ نہیں ہوسکتا ؟
تو پھر آدمی کا سوکھا فضلہ ( گو ) ہی ہاتھ میں رکھ لو اور کہو کہ ہاتھ تو نجس اسی وقت ہوگا جب اس میں تری ہو ، چونکہ یہ تَرْ نہیں بلکہ خشک ہے اس لیے میں اس کو اپنے ہاتھ پر رکھتا ہوں ، کیا کوئی سلیم الطبع آدمی انسانی فضلہ کو ہاتھ میں لینا پسند کرے گا ؟ خواہ وہ خشک ہی کیوں نہ ہو ؟
یاد رہے کہ جس کے گھر میں کتا ہو تو اس کے گھر کے اندر فرشتے داخل نہیں ہوسکتے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ علیہ الصلوة والسلام ان صحابی کے گھر میں نہیں داخل ہوتے تھے جن کے گھر میں کتا تھا ، آپ سے عرض کیا گیا! یارسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ فلان کے گھر میں تو تشریف لے جاتے ہیں لیکن فلان صحابی کے گھر میں کیوں نہیں جاتے ؟ فرمایا! اس لیے کہ اس کے گھر میں کتا ہے . حدیث ملاحظہ کیجیے .
نووی نے اپنی شرح میں عیسی بن مسیب کی حدیث سے ، انھوں نے ابوزرعہ سے ، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار لوگوں کے کسی گھر میں تشریف لاتے تھے ، اور ان کے گھر کے پاس ایک گھر تھا وہاں آپ تشریف نہیں لے جاتے تھے ، یہ بات صحابہ کو بہت سخت لگی ، انھوں نے عرض کیا! یارسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ فلاں کے گھر میں تو تشریف لاتے ہیں اور ہمارے گھر میں آپ کی تشریف آوری نہیں ہوتی ، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اِنَّ فِيْ دَارِكُمْ ، كَلْبًا “. تمہارے گھر میں کتا ہے ، صحابہ نے عرض کیا! اُن کے گھر میں بھی تو بلی ہے ، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اَلسِّنَّوْرُ سَبَعٌ “. بلی ایک درندہ ہے . ( احمد ، دارقطنی ، حاکم ، بیہقی )
حاصلِ مسئلہ
ائمہ ثلاثہ ، شافعی ابوحنیفہ اور احمد ( رحمہم اللہ ) کے نزدیک کتے کا جھوٹا نجس ہے ، جس برتن میں اس نے منہ ڈوبایا ہے اس کو دھویا جائے گا اور اس کو دھونا برتن کے نجس ہونے کی وجہ سے ہے ، اور پاکیزگی کی تاکید کے لیے سات مرتبہ اور ان میں ایک مرتبہ مٹی ملا کر بھی دھویا جائے گا . جبکہ امام مالک رحمہ اللہ اس دھونے کو تَعَبُّدی کہتے ہیں ، اس کو نجاست کی وجہ سے نہیں دھویا جاتا ہے ، بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے اور اس حکم پر عمل کرنا ایک عبادت ہے ، وہ کہتے ہیں! کتے کا جھوٹا پاک ہے ، اور کتے کا کسی برتن میں منہ ڈوبانے پر اس کا دھونا تعبدی ہے .
دوسری قسط
نجاست کی بہت ساری قسمیں ہیں (1) ہر نشہ آور سَيَّال ، جیسے ہر قسم کی شراب ، ( نشہ آور چیز اگر سیال نہ ہو تو وہ نجس نہیں ہے ، جیسے حشيش ،[ گانجہ ] بھنگ اور افیم وغیرہ ، گو کہ یہ تمام چیزیں نشہ آور ہیں اور ان کا استعمال حرام ہے ، لیکن خشک رہنے کی وجہ سے یہ چیزیں پاک ہیں ، جیسا کہ دقائق میں اس کی صراحت کی . ( نھایة المحتاج ، ص/234 ) ، (2) کتا سور اور ان دونوں کے بچے ، یا ان کے کسی اور جانور سے پیدا شدہ بچے ، (3) آدمی مچھلی اور ٹڈی کے علاوہ ہر قسم کا مُردار ، (4) خون ، (5) پیپ ، (6) قئ ، ( الٹی ) (7) رَوْث ، ( ہر حیوان کا فضلہ ، خواہ انسان کا ہو یا درند چرند کی لید یا پرندوں کی بیٹ ) ، (8) پیشاب ، اگر چہ کہ پرندوں مچھلیوں اور ٹڈیوں کا ہو ، یا ایسے حیوانوں کا ہو جس کے بہتا ہوا خون نہ ہو ) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات پاک ہیں ، صاحب تحفہ کہتے ہیں کہ متقدمین اور متاخرین کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کو پاکیزہ قرار دیا ہے اور اس میں لمبی چوڑی گفتگو کی ہے . (101 )
صاحب نھایہ لکھتے ہیں کہ بغوی وغیرہ نے انھیں پاک قرار دیا ہے ، اور قاضی وغیرہ نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے ، اور عمرانی نے اس کو خراسانیین سے نقل کیا ہے ، اور سبکی بارزی اور زرکشی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے . ابن رفعہ نے کہا! اور اسی کا میں اعتقاد رکھتا ہوں ، اور بلقینی نے کہا کہ اسی پر فتوی ہے ، اور قایانی نے اس کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہی حق ہے . حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس پر کثرت سے ادلہ آئی ہیں ، اور ائمہ نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں شمار کیا ہے ، سو اس کے خلاف اقوال کی طرف توجہ نہیں دی جائیگی ، اگر چہ کہ شافعیہ کی کثیر کتابوں میں یہ واقع ہوا ہے ، لیکن ان کے ائمہ سے یہی امر ثابت ہوچکا ہے کہ یہ پاک ہیں . انتھی( رحمھم اللہ جمیعا ) اور اسی کا ( صاحب نھایہ کے ) والد رحمہ اللہ نے فتوی دیا ہے ، اور یہی معتمد ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں ( فضلات کا ) پاک کرنے کا حکم دینا مستحب ہونے اور مزید پاکیزگی پر محمول کیا جائے گا .
زرکشی کہتے ہیں! اور سزاوار ہوتا ہے کہ سارے انبیاء کے فضلات کے پاکیزہ ہونے کا حکم لگایا جائے . ( یہی معتمد ہے ، شبراملسی ) گو کہ جوجری نے اس پر اختلاف کیا ہے . ( نھایة المحتاج ، ص/242 )
تیسری قسط
جن جانوروں کو کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب اور لید امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک پاک ہے . { فقہ السنہ ، 19 }
(9) مَذْي ، ایک چکنا پتلا سا پانی ہے جو غالباً پیلا ہوتا ہے ، اور غالباً جِماع کے سوچتے وقت یا فورانِ شہوت کے وقت نکلتا ہے ، تعلیقِ ابن صلاح میں ہے کہ موسم سرما میں مذی سفید گاڑھی نکلتی ہے اور موسم گرما میں پیلی پتلی ، بعض اوقات اس کے نکلنے کا احساس تک نہیں ہوتا ، یہ مردوں کی بہ نسبت عورتوں میں زیادہ نکلتی ہے ، خصوصاً ان کے ہیجان کے وقت ۔ { نھایة ، تحفة }
(10) وَدْيُ ، ایک سفید گدلا سا گاڑھا پانی جو غالباً یا تو پیشاب کے پیچھے نکلتا ہے یا وزنی بوجھ اٹھاتے وقت ۔ ( حنابلہ کے نزدیک مأکول اللحم حیوانوں کی مذی اور ودی پاک ہے . )
(11) کتے سور اور ان میں سے ہر ایک کے بچوں کی منی ( آدمی کی منی پاک ہے اور اسی طرح اصح میں سارے حیوانوں کی ، اسی طرح حنابلہ کے نزدیک بھی انسان کی منی پاک ہے جب کہ وہ معتاد طریقہ سے لڑکے سے دس سال پورے ہونے کے بعد اور لڑکی سے نو سال پورے ہونے کے بعد لذت کے ساتھ اچھل اچھل کر آئے . { الفقه علی المذاہب الاربعة ،24 } . )
(12) آدمی کے دودھ کو چھوڑ کر سارے غیر مأکول اللحم کا دودھ . ( احناف کے نزدیک تمام حیوانوں کا دودھ پاک ہے ، حیوان خواہ زندہ ہوں کہ مردہ ، مأکول ہوکہ غیر مأکول ، سوائے خنزیر کے دودھ کے ، کہ یہ اس کی زندگی میں اور اس کے مرنے کے بعد بھی نجس ہے ، { الفقہ علی المذاہب الاربعہ }) ۔
(13) اور زندہ حیوان سے جدا شدہ حصہ اس کی طہارت اور نجاست میں اس حیوان کے مردہ کی طرح ہے ، ( سوائے کھائے جانے والے جانوروں کے بالوں کے ، کہ وہ اجماعاً پاک ہیں ، اسی طرح اون ، اونٹ اور خرگوش کے بال ، پَر ، خواہ وہ جھڑ گئے ہوں یا کاٹے گئے ہوں یا پرندوں کے بازو جھاڑنے پر بال گر گیے ہوں ، اور مأکول بالوں سے ماکول کے جدا شدہ حصہ کے بال نکل گیے ، کہ اس پر رہنے والے بال نجس ہیں ، ) سو آدمی کا ہاتھ ( جسم سے جدا ہونے کے بعد بھی ) پاک ہے ، اگر چہ کہ چوری کے بدلہ میں اس کا ہاتھ کاٹا گیا ہو ، یا کٹا ہوا حصہ مچھلی یا ٹڈے کا ہو ، اور بکری کا جدہ شدہ حصہ نجس ہے ، حسن یا صحیح ( صاحب تحفہ کے الفاظ ہیں ، ) حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹوں کے کوہانوں سے کٹے ہوئے ٹکڑوں اور بکریوں کے جدا شدہ کولہوں کے تعلق سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا! ” مَاقُطِعَ مِنْ حَيٍّ فَهُوَ مَيِّتٌ “. زندہ سے جو کاٹ دیا گیا ہے وہ مردہ ہے . { حاکم اور بزَّار نے مسور بن صلت سے ، انہوں نے زید بن اسلم سے ، انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے ابوسعید سے مرفوعاً اس حدیث کو روایت کیا ہے ، حاکم نے کہا! یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے ، اور ذہبی ان کے موافق ہوئے } دار قطنی نے اس حدیث کو اپنی علت میں بیان کیا ہے ، پھر کہا! اور مرسل ہی اصح ہے .
دارمی ، احمد ، ترمذی ، ابوداؤد اور حاکم نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار کی حدیث سے ، انہوں نے زید بن اسلم سے ، انہوں نے واقد اللیثی سے حدیث روایت کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لے آئے ، وہاں لوگ بکریوں کے کولہے أور اونٹوں کے کوہانوں سے الگ شدہ حصے لیتے تھے ، تو فرمایا! ” مَاقُطِعَ مِنَ الْبَهِيْمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهُوَ مَيِّتٌ “. کسی چوپائے سے اس کے زندہ رہنے کی حالت میں جو حصہ جدا ہوتا ہے وہ مردار ہے . الفاظِ حدیث احمد کے ہیں ، اور ابوداؤد کے الفاظ بھی انہیں کے جیسے ہیں ، لیکن انہوں نے قصہ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ [ تلخیص الحبیر ، 164 ، 165 ] . { حدیث کو احمد ، دارمی ، ابوداؤد ترمذی ابن جارود ، دارقطنی ، حاکم بیہقی ، طحاوی ، طبرانی ، اور ابن نجار نے روایت کیا ہے ، ان تمام محدثین نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار سے روایت کیا ہے ۔ ترمذی نے کہا! حدیث حسن غریب ہے ، ہم اس کو زید بن اسلم کی حدیث ہی سے جانتے ہیں . حاکم نے کہا! بخاری کی شرط پر صحیح ہے ، اور ذہبی ان کے موافق ہوئے ۔ } [ حاشیہ تلخیص الحبیر ]
عَلَقَہ : یہ منی سے حلّ ہوکر گاڑھا شدہ خون ہے ، اس کو علقہ کا نام اس لیے دیا گیا کہ یہ جس کو بھی لگتا ہے اس سے لٹک ( چپک ) جاتا ہے .
مُضْغَہ : یہ علقہ سے استحال ہوکر چبائے جانے کے مقدار گوشت کا ایک چھوٹا سا لوتھڑا ہے .
اور فرج ( عورت کے سامنے کی شرمگاہ ) کی رطوبت نجس نہیں ہے . جو مذی اور پسینے کے درمیان ایک متردد سفید پانی ہے جو فرج کے اتنے اندرونی حصہ سے نکلتا ہے جس کا دھونا واجب نہیں . [ برخلاف اس حصہ سے نکلنے والے پانی کے کہ جس کا دھونا واجب ہے ، ] کہ وہ قطعی طور پر پاک ہے ، اور ( برخلاف اُس پانی کے جو ) فرج کے اندر والے حصہ کے پیچھے سے آنے والے پانی کے ، کہ وہ قطعاً نجس ہے ، جیسا کہ اندر سے آنے والا سارا پانی ، جیسے وہ پانی جو بچہ کے ساتھ یا اس سے کچھ پہلے نکلتا ہے کہ یہ تمام نجس ہے ، اس کو امام نے ذکر کیا . { تحفہ ، 103 }
چوتھی قسط
*نجس العین کسی طور سے بھی پاک نہیں ہوتی مگر دوچیزوں کے*
جو چیز عین نجس ہے وہ کسی طرح بھی دھونے یا کسی چیز کے اندر کھپ جانے سے پاک نہیں ہوتی ، جیسے کوئی مردار نمک کے کھان میں گرگیا اور اس میں کھپ گیا ، یا جلا دیا گیا اور راکھ ہوگیا ، مگر دو چیزوں کے ، ایک وہ شراب جو کسی چیز کے ڈالے بغیر خود سے سرکہ ہوگئی ہو یا دھوپ سے سایے میں یا سایے سے دھوپ میں منتقل کی گئی ہو ، اگر کسی چیز ( مثلا پیاز یا نمک وغیرہ ) کے ڈالنے سے یا ہوا کے ذریعہ کسی چیز کے اس میں گرنے کی وجہ سے وہ سرکہ ہوگئی ہو تو پاک نہیں ہوگی . اور دوسری چیز مرنے کی وجہ سے نجس شدہ جلد ، خواہ وہ مأکول اللحم حیوان ہو کہ غیر مأکول اللحم ، ( کتے اور سور کے علاوہ ) سو اس کو ظاہری اور اندرونی حصہ میں دباغت دینے کے بعد یہ پاک ہوگی . اس میں اخبار صحیحہ آنے کی وجہ سے . جیسے درج ذیل حدیث :
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اِذَ دُبِغَ الْاِهَابُ فَقَدْ طَهُرَ “. جب چمڑے کو دباغت دی جائے تو وہ پاک ہوتا ہے . مسلم نے ابوبکر بن ابی شیبہ اور عمرو الناقد سے ، سفیان سے اس حدیث کو روایت کیا ہے . { تلخیص الحبیر /199 } اس حدیث کو اور بھی ائمۂِ حدیث نے روایت کیا ہے ، مالک ، شافعی ، احمد ، دارمی ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن جارود ، طحاوی ، طبرانی ، دارقطنی ، بیہقی ، ابن شاہین اور بغوی نے بھی ، محشئ تلخیص الحبیر . }
ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” أَيُّمَا اِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ “. جب بھی کوئی کھال دباغت دی جائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے . { حدیث کو شافعی نے ابن عیینہ سے ، زید بن اسلم سے ، ابن وعلہ سے ، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو کہتے ہوئے سنا ، اسی طرح ترمذی نے اپنی ” جامع ” میں قتیبہ سے ، سفیان سے روایت کر کے کہا کہ حدیث حسن صحیح ہے .
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” طُهُوْرُ كُلِّ اَدِيْمٍ دَبَاغُهُ “. ہر کھال کا پاک ہونا اس کا دباغت دینا ہے . { دار قطنی }
ایک اور بخاری وغیرہ کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ حدیث میں آتا ہے کہ ” اَنَّهُ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّ بِشَاةٍ مَّيْتَةٍ لِمَيْمُوْنَةَ فَقَالَ! هَلَّا اَخَذْتُمْ اِهَابَهَا فَدَبَغْتُمُوْهُ فَانْتَفَعْتُمْ بِهِ ، فَقِيْلَ إِنَّهَا مَيْتَةٌ ، فقال! أَيُّمَا اِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ “. کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر میمونہ کی ایک مری ہوئی بکری پر سے ہوا تو فرمایا! ( پوچھا ) کیوں نہیں تم نے اس کے چمڑے کو لیا کہ اس کو دباغت دیتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ؟ عرض کیا گیا کہ وہ تو مردہ ہے ، فرمایا! جب بھی کوئی چمڑا دباغت دیا جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے . { بخاری وغیرہ }
چمڑے کو دباغت دینے کے بعد اس کا ظاہری اور باطنی حصہ بھی پاک ہوتا ہے . صاحبِ تحفہ لکھتے ہیں ” اور یہ دعوَى کرنا کہ دباغت اس کے اندرونی حصہ میں نہیں پہونچتی ہے ممنوع ہے ، بلکہ رطوبت کے واسطے سے وہ اس کو بھی درست ( مرمت ، پاک ) کرتی ہے ، ایسے میں اس کو فروخت کرنا اس پر نماز پڑھنا اور بھیگی ہوئی چیزوں میں اس کو استعمال کرنا جائز ہے ، ہاں اس کو کپڑے کی طباعت میں منتقل کرنے کے بعد ( دباغت دینے کے باجود ) مأکول جانور کے چمڑے کو کھانا حرام ہے ، کیونکہ دباغت دینے پر اس کے بال پاک نہیں ہوتے ، کیونکہ دباغت دینا ان پر کوئی اثر نہیں کرتا ، لیکن عُرْفًا تھوڑے سے بال معاف ہیں ، حقیقی طور پر طبعًا وہ پاک ہوتے ہیں ، جیسے شراب کا مٹکا .
بیشتر علماء نے پورے چمڑے کے ہی پاک ہونے کو اختیار کیا ہے ، اس لیے کہ صحابہ کھالیں تقسیم کیا کرتے تھے حالانکہ یہ مجوسیوں کے ذبح کردہ جانوروں اور ان کی دباغت دی ہوئی ہوتی تھیں اور کسی نے اس کا انکار نہیں کیا تھا ، بلکہ ایک جماعت نے یہ نقل کیا ہے کہ شافعی مردار کے بالوں اور ان کے اون کے نجس قرار دینے کے قول سے رجوع ہوئے ہیں ، جواب دیا جائے گا کہ رجوع ہوئے ہیں کہنا صحیح نہیں ہے ، اور اختیار واضح نہیں ہے ، اس لیے کہ وہ ایک فعلی حالی واقعہ ہے اس بات کا احتمال رکھتا ہے کہ مجوس کا ذبح کرنا من حیث الجنس رہا ہو اور یہ کوئی اثر نہیں رکھتا مگر اُس وقت جب اس کو کسی چیز میں اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے ، سو دعویٰ کرنے والے پر ضروری ہے کہ وہ اس کو ثابت کرے . { 106، 107 } . ( چونکہ ہمارے قارئین میں احناف حضرات بھی ہیں لہذا ائمۂِ ثلاثہ کے بعض مسائل پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے ، خصوصاً بعض اوقات مسائل احناف پر خصوصی توجہ رہتی ہے . )
مردار اعضاء دیگر ائمہ کرام کے نزدیک
مردار کے وہ اجزاء کہ جن پر زندگی کا رہنا منحصر ہوتا ہے وہ اجزاء نجس ہیں .
احناف کہتے ہیں : میتہ کے وہ اجزاء جس پر اس کی زندگی کا دارو مدار ہوتا ہے اس کا گوشت اور اس کی جلد ، سو یہ دونوں چیزیں نجس ہیں ، برخلاف اس کی ہڈیوں ، ناخنوں ، چونچوں ، پنجوں ، کھروں ، سینگوں اور بالوں کے ، کہ یہ پاک ہیں ، اسی طرح خنزیر کے بال بھی ان کے نزدیک پاک ہیں ، اس لیے کہ ان کا رہنا اس کی زندگی پر منحصر نہیں ، یہ کہتے ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنھا کی بکری کے متعلق فرمایا کہ ” انما حرم اکلھا “. اس کو تو کھانا حرام ہے . ایک روایت میں ” لحمھا “. اس کا گوشت کھانا . (حرام ہے . ) آیا ہے . یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گوشت کے علاوہ چیز حرام نہیں ، تو اس میں مذکورہ اجزاء شامل ہوگیے جب کہ ان ( اجزاء ) میں دسومت ( چکناہٹ ) نہ ہو ، ایسے میں چکناہٹ کی وجہ سے وہ حرام ہوں گے .
اعصاب( پٹھوں ) کے تعلق سے دو مشہور روایتیں ہیں ، مشہور قول میں وہ پاک ہیں ، بعضوں نے کہا! اصح یہی ہے کہ وہ نجس ہیں . ( جب کہ ہمارے نزدیک مردار کی یہ ساری چیزیں حرام ہیں ، کیونکہ ان ساری چیزوں کا دار ومدارزندگی سے ہے . )
مالکیہ کے نزدیک : مردار کے جن اجزاء پر اس کی زندگی کا دارومدار موقوف ہے وہ گوشت ، جِلد ، ہڈی اور پٹھے وغیرہ ہیں ، یہ چیزیں نجس ہیں ، جبکہ بال اون ، اونٹ ، خرگوش وغیرہ کے بال ، بازو کے چھوٹے بال وغیرہ ان کے پاس نجس نہیں ہیں .
حنابلہ کے نزدیک : اون ، بال اور اونٹ خرگوش وغیرہ کے بالوں کے علاوہ مردار کے وہ تمام اجزاء جس سے اس کی زندگی رہتی ہے نجس ہیں . ( الفقہ علی المذاہب الاربعہ )
پھر یہ جاننا خالی از فائدہ نہیں ہوگا کہ ہمارے ( شوافعی کے ) اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک کتا اور خنزیر اور ان دونوں سے پیدا شدہ بچے نجس العین ہیں ، پاک ہی نہیں ہوسکتے ، جب کہ اس کے بالکل الٹ امام مالک کے نزدیک ہر زندہ حیوان طاھر العین ہے ، خواہ وہ کتا اور خنزیر ہی کیوں نہ ہو ، کسی چیز کو اگر یہ لگ جائیں تو اس کا دھونا فرض نہیں ، بلکہ تعبدی کے طور پر سنت ہے .
امام ابوحنیفہ کے نزدیک خنزیر تو نجس العین ہے لیکن زندہ کتا ان کے پاس راجح قول پر طھارة العین ہے ، البتہ حالت زندگی میں اس کے منہ سے بہنے والی رال اس کے مرنے کے بعد اس کا گوشت نجس ہونے کی وجہ سے نجس ہے ، اگر وہ کسی کنویں میں گرجائے اور اس کا منہ پانی میں نہ پہونچے تو پانی ناپاک نہیں ہوگا ، اسی طرح اگر اس نے اپنا جسم جھاڑا اور اس کے چھینٹے کسی چیز پر اڑے تو وہ چیز ناپاک نہیں ہوگی . لیکن ان کے ایک مشہور قول پر کتا نجس ہے ، اس کا جسم اور رال وغیرہ کسی چیز کو لگنے پر دوسری نجس چیزوں کی طرح اس کو بھی تین دفعہ دھویا جائے گا ، سات مرتبہ دھونا سنت یا مستحب ہے ،( شوافعی اور حنابلہ کی طرح ) فرض نہیں ، اور غالباً یہی ان کے پاس مفتی بہ قول ہے . ہم نے اپنےاساتذۂِ کرام سے ایسا ہی سنا ہے . واللہ اعلم .
دباغت کا طریقہ
تیز وتند چیزوں سے مثلاً دھار دار چیزوں یا شَتّْ یا قرظ ( ایک قسم کی گھاس ) یا پرندوں کی بیٹوں سے ، حسن حدیث میں آیا ہے کہ ان کے ذریعہ اس کو پاک کیا جاسکتا ہے ،( موجودہ دور میں دباغت دینے کی مشینیں ہی آئی ہیں ) سے اس کے فضول ( چمڑے پر رہنے والی زاید چیزوں ) خون گوشت اور چربی وغیرہ کو اس طرح صاف کرنا کہ اگر اس چمڑے کو پانی میں ڈالا جائے تو بدبو نہ آئے . صرف دھوپ یا مٹی یا نمک پر سکھانے سے اس کو دباغت نہیں کہا جائے گا اگر چہ کہ اس سے کھال سوکھ جائے اور اس سے اچھی بو آئے ، کیونکہ اس کی عفونت ( تعفن ، بو ) تو بہرحال باقی ہی رہے گی ، اس دلیل کو اخذ کرتے ہوئے کہ اگر اس کو پانی میں ڈالا جائے تو اس کی بدبو لوٹے گی . دباغت کے دوران پانی ڈالنا واجب نہیں ، اس بنا پر کہ دباغت چمڑے سے وابستہ کرنا ہے نہ کہ اس کو دور کرنا ، اور مقصود رطب اور اس کے غیر سے بھی حاصل ہوتا ہے .
دباغت دینے کے بعد چمڑا متنجس کپڑے کی طرح ہوجائے گا
جب چمڑے کو دباغت دی جائے تو صرف دباغت سے ہی چمڑا پاک نہیں ہوگا بلکہ اس کپڑے کی طرح ہوگا جس کو نجاست ( گندگی ) لگی ہو ، کیونکہ اس کے عین طاھر ہونے سے پہلے دباغت دینے کے وقت وہ نجس اور متنجس دواؤں سے ملتا ہے ایسے میں ظاہری جِلد پر پانی ڈال کر اس کو دھوئے بغیر وہ پاک نہیں ہوگا ، خواہ اس کو کسی پاک چیز سے دباغت دی گئی ہو کہ کسی نجس چیز سے ، پھر اس میں نماز پڑھی جاسکتی ہے ، کسی سیال میں استعمال کیا جا سکتا ہے ، لیکن اس کا کھانا حرام ہوگا اگر چہ کہ وہ کھال کسی ایسے حیوان کی ہو جس کو کھانا حلال ہو ، اس کی موت کی وجہ سے اس کے مأکول حیوان سے خارج ہونے کی وجہ سے . { نھایہ ، تحفہ اور تلخیص الحبیر کا خلاصہ }
پانچویں قسط
نجاست تین قسم پر منقسم ہوتی ہے ، مغلظہ ، مخففہ اور متوسطہ ، جیسا کہ پہلی قسط میں گذرا ، پھر نجاستِ مغلظہ کی تفصیل بھی گزری ،
نجاست کی دوسری قسم نجاستٍ مخففہ ہے ،
اور جس بچہ نے دو سال گذرنے سے پہلے تک غذا کے طور پر دودھ کے سوا کچھ اور نہ کھایا ہو تو اُس کے پیشاب سے نجس شدہ چیز پر اچھی طرح پانی چھڑکنے سے وہ چیز پاک ہوگی ، ( دھونے کی ضرورت نہیں ہے ، ) اگر دو سال کے بعد بھی بچہ دودھ پیتا ہو تو وہ کھانے کے مقام میں ہوگا ،( اور اس کے پیشاب سے نجس شدہ چیز کو بچی اور بڑوں کے پیشاب کی طرح دھویا جائے گا ، ) . اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ جب بڑا ہوجاتا ہے تو اس کا معدہ سخت ہوجاتا ہے اور چیزوں کو کھپانے کی اس میں طاقت آجاتی ہے ، اسی وجہ سے اُن دیہاتیوں کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے جو دودھ کے علاوہ کچھ اور نہیں کھاتے ہیں ، { نھایہ/ 257 }
صاحب تحفہ شیخ الاسلام شہاب الدین ابن حجر ہیتمی لکھتے ہیں : بہرحال اگر بچہ نے غذا کے لیے دودھ کے علاوہ کچھ اور کھایا جیسے گھی ، یا بچہ کو دو سال سے زیادہ ہوئے تو ( اس کے پیشاب کو ) دھونا متعین ہوا ، چکھانے یا اصلاح کے لیے کسی چیز کو کھلانے میں کوئی نقصان نہیں ، اور نہ ہی آدمی یا غیر آدمی کے دودھ کو پلانے میں کوئی نقصان ہے ، اگر چہ کہ اوجہ ( معتبر قول ) پر وہ ( دودھ ) نجس ہو . { 108 }
صاحب نہایہ لکھتے ہیں : اور اصلاح ( درستگی ) کے لیے اس کو سفوف اور اس جیسی چیز کو کھلانے میں کوئی ضرر نہیں ۔ اور اس سے یہ مسئلہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اگر بچہ نے دوسال سے پہلے غذا کے لیے کوئی چیز کھائی پھر اس کو چھوڑ کر صرف دودھ پینے لگ گیا تو اس کے پیشاب کو دھویا جائے گا اس پر پانی چھڑکنا کافی نہیں ہوگا ، اور یہی اوجہ ( معتبر وجہ ) ہے ، اور اس ( چھڑکاؤ ) سے لڑکی اور خنثی ( خواجہ سرا ) نکل گیے ، ان دونوں کے پیشاب کو دھونا ضروری ہے . ( بچہ پینے والے ) دودھ میں اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ وہ پاک ہو کہ نجس ، اگر چہ کہ مغلظہ کا ہو ، آدمی یا غیر آدمی کا۔ بچہ اور غیر بچہ کے درمیان فرق یہ ہے کہ اس سے مانوس ہونے کے لیے اس کا اٹھانا زیادہ ہوتا ہے ، تو اس کے پیشاب میں نرمی کی گئی اُس صحیح قاعدہ کی وجہ سے کہ ” مَشقَّت آسانی کی طرف لے جاتی ہے اور کوئی معاملہ جب تنگ ہوجاتا ہے تو اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے . اور اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ” شرع کا اصل ایسی چیزوں میں تنگی کو دور کرنا ہے جس سے بچنا سخت مشکل ہو ” اور بچہ کا پیشاب بچی کے پیشاب سے پتلا ہوتا ہے تو اس کا پیشاب کسی جگہ میں اس طرح نہیں چپکتا ( لگتا ) جس طرح لڑکی کا پیشاب چپکتا ہے ، اور اس پر جو اعتراض کیا گیا ہے اس کے جواب کا ذکر میں نے” شرحِ عباب میں کیا ہے . ( اس مسئلہ پر امام طحاوی نے ” شرح معانی الاثار ” میں ایک مزے کا نظر لکھا ہے ، علماء اس کو ضرور پڑھیں ، انہوں نے لڑکے اور لڑکی کے پیشاب پر نظر کرکے اپنے مسلک ( حنفی ) کے لیے دلائل پیش کیے ہیں . ) گزرے ہوئے مسئلہ سے یہ معلوم ہوا کہ بچہ کا غذا کے طور پر ماسوا لبن لینا اس کے پیشاب کو پانی چھڑکنے کو منع کرتا ہے اور اس کو دھونا واجب کرتا ہے ، خواہ اس کے کھانے سے پھر اس کو دودھ پینے کی ضرورت پڑے یا نہیں .
اور پیشاب لگی ہوئی چیز پر اتنا پانی چھڑکا جائے کہ پانی اس جگہ پر غالب آئے ، کپڑے جیسی چیز پر اتنا زیادہ پانی چھڑکنا شرط نہیں کہ پانی بہہ جائے ، دھونے کے برخلاف کہ اس میں پانی کا بہنا ضروری ہے . { نہایہ/ 257 }
مفسر محدث وفقیہ امام ابو محمد حسین بن مسعود بن محمد بن فرَّاء بغوی ( متوفی/ 516 ) اپنی کتاب ” التھذیب ” میں لکھتے ہیں
” اور ( دونوں کے پیشاب کے درمیان ) فرق یہ ہے کہ لڑکی کی طبیعت زیادہ گرم ہوتی ہے سو اس کا پیشاب جگہ میں اچھی طرح سے چپکتا ہے “. نَخَعِي ، ثوری اور ابوحنیفہ نے کہا ” اس کے پیشاب کو بھی دوسروں کی طرح دھونا واجب ہے “. اور خواجہ سرا مشکل کا پیشاب لڑکی کے پیشاب کی طرح ہے ، جس آلہ سے بھی نکلے . اور ہر نجاست دھونے کے ذریعہ پاک ہوتی ہے پانی کے علاوہ کوئی اور چیز اس کو پاک نہیں کر سکتی . اور یہی مذہب ہے . { 207 }
امام شافعی کا بچہ اور بچی کے پیشاب کے فرق کے تعلق سے ایک علم سے پُر جواب
فائدہ : حسن بن قطان ( 175/1 ، ابن ماجہ ) کتاب الطھارت میں کہتے ہیں : باب ماجاء فی بول الصبی الذی لم یطعم : ( اس بچہ کے پیشاب کے تعلق سے آئی ہوئی حدیث کا بیان جس نے کچھ کھایا نہ ہو . ) . حدیث ( 552 ) ہمیں احمد بن موسی بن معقل نے حدیث بیان کی ہے ، انہوں نے کہا! ہمیں ابو الیمان مصری نے حدیث بیان کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے شافعی رضی اللہ عنہ سے نبی کی اس حدیث کے تعلق سے دریافت کیا! ” یُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ ، وَيُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِيَةِ ، وَالْماءَانِ جَمِيْعًا وَاحِدٌ ، قال! لان بول الغلام من الماء والطین ، وبول الجاریة من اللحم والدم ، ثم قال لی! فھمتَ ؟ او قال لی لقنتَ ؟ قلت لا ! قال! اِن الله تعالی لَمَّا خلق آدم خُلقت حواء من ضلعه القصیر ، فصار بول الغلام من الماء والطین وصار بول الجاریة من اللحم والدم ، قال لی فھِمْتَ ؟ قلت! نعم ، قال لی ، نفعك الله به “. کہ لڑکے کے پیشاب پر چھڑکا جائے گا اور لڑکی کے پیشاب کو دھویا جائے گا حالانکہ دونوں پانیاں ایک ہی ہیں ، کہا! اس لیے کہ لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے ( بنا ) ہے ، اور لڑکی کا گوشت اور خون سے ، پھر مجھ سے پوچھا! سمجھے؟ یا یہ کہا! یقین ہوا ؟ میں نے کہا! نہیں ! کہا! جب اللہ تعالٰی نے آدم کو پیدا فرمایا تو حواء ان کی قصیر ( کوتاہ ، چھوٹی ) سی پسلی سے پیدا کی گئی ، سو لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے ہوا اور لڑکی کا ( پیشاب ) گوشت اور خون سے ، پھر مجھ سے پوچھا! سمجھ گیے ؟ میں نے کہا! ہاں ، مجھے کہا! اللہ آپ کو اس سے نفع پہنچائے .
یہ ایک جلیل معنی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے امام شافعی رضی اللہ عنہ پر اپنا دروازہ کھول دیا اس وقت جب ان کے شاگرد نے کہا کہ مجھے لڑکے اور لڑکی کے پیشاب کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے . { محشئ تہذیب ، 207 }
چھٹی قسط
بچہ کے پیشاب پر پانی چھڑکنے اور بچی کے پیشاب کو دھونے کے لیے درج ذیل احادیث سے استدلال کیا گیا ہے :
1 : سیدتنا ام قیس بنت مِحْصَن رضی اللہ عنہا سے روایت کی گئی ہے کہ ” اَنَّهَا اَتَتْ بِاِبْنٍ لَّهَا صَغِيْرٍ لََّمْ يَاْكُلِ الطَّعَامَ اِلَى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فَاَجْلَسَهُ رسول الله صلى الله عليه وسلم فِيْ حِجْرِهِ ، فَبَالَ عَلَى ثَوْبِهِ ، فَدَعَا بِمَآءٍ فَنَضَحَهُ وَلَمْ يَغْسِلْهُ “. کہ وہ اپنے ایک چھوٹے سے بچہ کو جو کھانا نہیں کھاتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی گود میں بٹھایا ، پس اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کیا ، آپ نے پانی منگوایا اور اس پر چھڑک دیا . { احمد ، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، حمیدی ، ابن جارود ، طحاوی ، ابوعوانہ ، ابوداؤد الطیالسی ، ابن خزیمہ ، بیہقی ، بغوی ، زہری کے طریقہ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن مسعود سے انہوں نے ام قیس بنت محصن سے اس حدیث کو روایت کیا ہے }
لیکن کئی کتابوں میں کچھ الفاظ کی تبدیلی اور کمی بیشی کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا گیا ہے . جہاں تلخیص الحبیر اور مشکاۃ میں ” انھا أتت ” کے الفاظ سے روایت کیا ہے وہیں صاحب نھایہ نے ” جائت ” کے الفاظ لائے ہیں . علامہ حافظ ابن حجر نے ” انھا اتت بابن لھا ” کے بعد پہلے ” لم یبلغ ان یاکل الطعام ” جو کھانے کی عمر کو نہیں پہونچا تھا کے بعد وفی روایة کہہ کر باقی حدیث لائی ہے . اِنہوں نے ” فاجلسه رسول الله صلی الله علیہ وسلم فی حجرہ ” کے الفاظ نہیں لائے ہیں ، جبکہ مشکاة اور نھایة میں یہ الفاظ ہیں اور ہم نے اسی الفاظ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے . پھر بچہ کے پیشاب کرنے کی جگہ اور الفاظ میں بھی قدرے فرق ہے . علامہ حافظ ابن حجر جہاں ” فبال فی حجرہ ” پس اس نے آپ کی گود میں پیشاب کیا ، کے الفاظ لے آئے ہیں ، وہاں صاحب مشکاۃ نے ” فبال علی ثوبه ” پس اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کیا ، کے الفاظ لکھے ہیں ، اور صاحب نھایہ نے ” فبال علیه ” تو اس نے آپ پر پیشاب کیا ، کے . پھر صاحب نھایہ نے ” ونضحه ” پر اپنی حدیث ختم کی ہے تو صاحب مشکاۃ نے ” فنضحه ولم یغسله ” پس آپ نے اس پر پانی چھڑکا اور دھویا نہیں . اور حافظ ابن حجر نے آخر میں سب سے زیادہ الفاظ استعمال کیے ہیں ” فنضحه علی بوله ، ولم یغلسه غسلا ” پس آپ نے اس کے پیشاب پر ( پانی ) چھڑکا اور اچھی طرح نہیں دھویا . آگے لکھتے ہیں اور مسلم کی روایت میں ” فَدَعَا بِمَآءٍ فَرَشَّهُ ” پس آپ نے پانی منگوایا اور اس پر چھڑکا . کے الفاظ آئے ہیں .
تنبیہ : سہیلی کہتے ہیں کہ ام قیس کا نام آمنہ ہے ،( دیکھیے ” بدرالمنیر ” [ 2 /317 ] ) اور کہا گیا کہ جذامہ ہے ، اور ان کے بیٹے کے نام کا ذکر نہیں آیا ہے .
فائدہ : اصیلی نے دعوَى کیا کہ حدیث میں آیا ہوا قول ” ولم یغسله ” ابن شہاب کے قول سے درج کیا گیا ہے .
2 : سیدہ لبابہ بنت حارث سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں تھے تو انہوں نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کیا ، میں نے کہا! ایک دوسرا کپڑا پہنیے ، اور مجھے آپ کی ازار ( سروال ، تہبند یا پائجامہ ) دیجیے حتی کہ میں اس کو دھو ڈالوں ، فرمایا! ” إِنَّمَا يُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْاُنْثَى ، وَيُنْضَحُ مِنْ بَوْلِ الذَّ كَرِ “. لڑکی کے پیشاب کو تو دھویا جائیگا اور لڑکے کے پیشاب پر چھڑکا جائے گا . { احمد ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ، ذہبی ان کے موافق ہوئے }
3 : ترمذی وغیرہ کی حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” یُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِيَةِ ، وَيُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ “. لڑکی کے پیشاب سے دھویا جائے گا اور لڑکے کے پیشاب سے چھڑکا جائے گا . { اسی طرح ابوداؤد اور نسائی نے اس حدیث کو ابو السمح سے روایت کیا ہے }
4 : اس باب میں عروہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیث بھی آئی ہے ، کہتی ہیں ” کَانَ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ فَيَدْعُوْ لَهُمْ ، فَاُتِيَ بِصَبِيٍّ فَبَالَ عَلَى ثَوْبِهِ فَدَعَا بِمَآءٍ فَاَتْبَعَهُ إِيَّاهُ “. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچوں کو لایا جاتا ، پس آپ ان کے لیے دعا فرماتے ، پس ایک بچہ کو لایا گیا تو اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کیا ، آپ نے پانی منگوایا اور اس کو اس پر چھڑکا . { متفق علیہ }
مسلم نے یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں” وَلَمْ يَغْسِلْهُ “. { احمد ، بخاری ، مسلم ، ابن ماجہ ، تلخیص الحبیر ، نھایہ ، تحفہ اور مشکاۃ سے ماخوذ }
ساتویں قسط
نجاستِ مُغَلَّظَہ اور مخففہ کے بعد نجاست کی تیسری قسم ” نجاستِ متوسطہ ” ہے ، اس کی دوقسمیں ہیں عینیہ اور حکمیہ ، ( جیسا کہ اس کے ماقبل کی بھی دوقسمیں ہیں ، [ نھایہ ] ) اور ان دونوں یعنی کتے اور بچہ کے پیشاب ( یعنی مغلظ اور مخفف ، تحفہ ) کے غیر سے جو چیز نجس ہوتی ہے اگر وہ عین نہیں ہو ( یعنی اگر اس میں عین نجاست نہیں پائی جاتی ہو ، تحفہ ، ) اس طرح کہ وہ حکمی نجاست ہو ، ( اس کی فقہاء نے ایک دوسرے سے قدرے مختلف تعریف کی ہے ، گوکہ مفہوم ایک ہی ہے ، صاحب نہایہ کہتے ہیں ) یہ وہ نجاست ہے جس کا نہ کسی عین ( جِزم ، جسم ) کا ادراک کیا جاتا ہو اور نہ وصف کا ، اس کا ادراک میں نہ آنا خواہ سوکھنے کی وجہ سے اس کا اثر خفیف ( ماند ) پڑنے کی وجہ سے ہو جیسے خشک پیشاب جس کا عین ( جسم ) چلا گیا ہو اور اس کا نہ تو کوئی اثر باقی ہو اور نہ ہی بو ، اس کی صفت چلی گئی ہو کہ نہیں ، جگہ کا ایسا صقیل ( صاف ، چمکدار ) ہونے کی وجہ سے کہ جس پر نجاست ٹہر نہ سکتی ہو ، ( شارح کا کلام اس بات کی صراحت کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ نجاستِ صقیل حکمیہ ہے اگر چہ کہ سوکھنے سے پہلے ہو ، ایسا نہیں ہے ، بلکہ ایسے میں اس پر لگی ہوئی نجاست عینی ہوگی ، فقہاء نے ان الفاظ سے اپنے مخالف پر ردّ کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے جو کہتا ہے کہ ایسی چیز پر صرف ( پانی کا ) ہاتھ پھیرنا کافی ہے ۔ روضہ کی عبارت یہ ہے ” میں کہتا ہوں کہ اگر نجاست کسی صقیل چیز پر لگ جائے ، جیسے تلوار ، چھری اور آئینے پر تو ہمارے نزدیک ( صرف ) مسح کرنا ( ہاتھ پھیرنا ) کافی نہیں ہوگا ، بلکہ اس کو دھونا ضروری ہوگا . { علی شبراملسی ، 258 }) جیسے آئینہ اور تلوار ۔
صاحبِ تحفہ رقم طراز ہیں ” یہ وہ نجاست ہے جس کو نہ آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے نہ سونگھنے سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی چکھنے ( ذائقہ ) کے ذریعہ ، اور ( نجاست ِ) عینیہ اس کی نقیض( مخالف ، اپوزٹ ) ہے . { 108 }
شیخ محمد بن احمد شربینی قاہری کہتے ہیں ” یہ وہ نجاست ہے جس کے وجود کا تو یقین ہو لیکن اس کو کسی مزہ ، رنگ اور بو کے ذریعہ محسوس نہیں کیا جاتا ہو “. شیخ سلیمان بن محمد بن عمر بجیرمی حاشیہ میں لکھتے ہیں” یہ عبارت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ یہ تفصیل نجاست متوسطہ کے ساتھ ہی خاص ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ تمام قسموں میں جاری ہوتی ہے “. { الاقناع/159 } تو اس جگہ پر خود سے یا غیر سے [ جیسے بارش لگنے سے ] ( اس طرح ) ایک مرتبہ پانی بہانا کافی ہوگا ( کہ پانی اس پر سے چھڑکنے سے زیادہ بہے ، اقناع ) اس لیے کہ اس چیز پر ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں کہ جس کو دور کیا جائے ، اور اسی وجہ سے نجس پی ہوئی تلوار ، اور پیشاب میں بھیگا ہوا دانہ اور کسی نجس چیز پر پکا ہوا گوشت بھی اس ( ان چیزوں کے ) کے ظاہر ( اوپر ) پر پانی ڈالنے سے اس کا اندرونی حصہ بھی پاک ہوگا . اور اگر نجاست عین ہو ، خواہ اس کا پاک ہونا کسی عدد پر موقوف ہو یا نہیں ، ” یہ وہ نجاست ہے جو کسی چیز کو لگنے پر مزہ یا رنگ یا بو کے ذریعہ نجس ہو تی ہو ” جیسا کہ اس کی گزری ہوئی نقیض تعریف ( یعنی حکمیہ کی تعریف میں وہ نجاست جس کو آنکھیں نہ دیکھ سکتی ہوں اور نہ اس کو کسی صفت کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہو ، علی شبراملسی ) سے اخذ کیا جاتا ہے . تو اس کی عین گندگی کو دور کرنے کے بعد اس کے مزہ کے اوصاف کو زائل کرنا واجب ہے ، اگر چہ کہ اس کو زائل کرنا مشکل ہو اس لیے کہ اس کا باقی رہنا عین ( نجاست ) کے باقی رہنے کی دلیل ہے ، اور اوجہ میں جگہ کو چکھ کر دیکھنا جائز ہے اگر اس کے گمان غالب پر اس کے مزہ کا دور ہونا غالب ہو ، ضرورت کی بنا پر . اور حقیقت میں جگہ کے پاک ہونے کے حکم میں اس رنگ یا بو کے باقی رہنے پر کچھ نقصان نہیں جس کو اس جگہ کو سونگھنے یا ہوا کے ذریعہ محسوس کیا جاتا ہو ، جیسے خون کا رنگ یا شراب کی بو جس کا نکل جانا اس طرح مشکل ہو کہ اس کے نکالنے کے سلسلہ میں دھونے میں مبالغہ کرنے کے باوجود وہ نہ جاتی ہو ، جیسے انگلیوں کے پوروں سے کھرچنے کے باوجود اس کا رنگ یا بو نہ جاتی ہو ، اس صورت کے برخلاف ، کہ اگر یہ چیزیں بآسانی جاتی ہوں تو مزہ کے ساتھ رنگ اور بو کا بھی دور کرنا ضروری ہے . اگر یہ دونوں چیزیں کسی ایک جگہ پر ایک ساتھ رہیں اگر چہ کہ ان دونوں ہی کو دور کرنا مشکل ہو تو نقصان ہے ، اس لیے کہ ان دونوں کا رہنا عین نجاست کے باقی رہنے کی قوت پر دلالت کرتا ہے ، اور ان دونوں سے عاجز رہنا نادر ہونے کی وجہ سے . { تحفہ ، نہایہ اور الإقناع کا خلاصہ } .
آٹھویں قسط
“دھبے بو اور رنگ دور ہوئی متنجس چیز پر قلتین سے کم پانی رہنے کی صورت میں اس پر پانی بہانا شرط ہے اور غُسَالَہ پاک ہے “.
کسی متنجس چیز ( کپڑا ، برتن یا کسی اور چیز ) کی ساری نجس صفات دور ہونے پر اس جگہ میں پانی ڈالنا شرط ہے ، نچوڑنا شرط نہیں ، یعنی پانی اگر قلتین سے زیادہ ہو ، مثلاً پاک شدہ چیز کو کسی ندی نالے تالاب یا کنویں میں ڈالا جارہا ہو تو ان میں ڈالنے سے وہ چیز پاک ہوگی ، لیکن اگر پانی کم ہو ، مثلا گھڑے یا کسی برتن میں ہو تو اس سے پانی ڈالا یا بہایا جائے نہ کہ اس میں ڈبویا جائے ، ورنہ وہ پانی ناپاک ہوگا، کیونکہ قلتین سے کم پانی تھوڑی سی بھی نجاست گرنے سے ناپاک ہوتا ہے ، اصح قول میں نچوڑنا شرط نہیں ، لیکن اُن علماء کے اقوال سے نکلنے کے لیے نچوڑنا مستحب ( سنت ) ضرور ہے جو اس کو واجب قرار دیتے ہیں . { نھایہ } اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ چیز ( کپڑا ہونے کی صورت میں ) ایسی ہو جس کو پلَّہ ہو جیسے مخملی چادر ، یا نہیں ، جیسا کہ فقہاء کا کلام تقاضہ کرتا ہے ۔ اور مکان ( مزہ رنگ اور بو سے ) پاک ہونے کے بعد اس پر بہایا ہوا پانی اگر بغیر کسی تغیر ( تبدیلی ) کے نکلا ہو تو وہ پانی پاک ہے جب کہ اس کا وزن نہ بڑھا ہو ، ( مثلاً اس کی کسی صفت کے تغیر ہونے پر ، یا نجاست کی جگہ پوری طرح پاک نہ ہونے پر ، ) تب اس کا یہ معنی ہوگا کہ جدا شدہ بعض حصہ پر اب بھی تری باقی ہے ، ایسے میں اس کو ایک مرتبہ پاک کرنے پر دوسری مرتبہ بھی پاک کرنا اور اس کی نجاست سے نجاست نکالنا لازم ہوگا ، ورنہ اس ( کی نجاست ) کا تَحَكُّم ( مطلق العنانی ، خودسری ) باقی رہیگا ، اس سے معلوم ہوا کہ اگر پانی جدا ہونے سے پہلے نجاست کی جگہ تغیر نہیں ہوئی ہے تو وہ جگہ قطعی پاک ہوگی اور یہ کہ دھونے کے بعد اس ( نجاست والی جگہ ) کا حکم پاک جگہ کا ہوگا . اگر نجاست مغلظہ کو( سات مرتبہ دھونے کے ) پہلی ہی مرتبہ دھونے کے وقت مٹی کو ملانے سے پہلے ہوا وغیرہ نے اس پر رہی ہوئی نجاست کو اڑا دیا، تو اس چیزکوچھ بار دھونا کافی ہے ، یا ساتویں مرتبہ دھوتے وقت ، تب کچھ واجب نہیں ہوگا . اور مندوب غُسالہ ( نجاست پاک ہونے کے بعد بہایا ہوا پانی ) متوسطہ ، مغلظہ اور ظاہر میں مخففہ ، بعض فقہاء کے خلاف ، جیسے جگہ کے پاک ہونے کے بعد دوسری یا تیسری مرتبہ دھونا ، اور اس میں ( دوسری یا تیسری مرتبہ ) دھونے کے وجوب کو ساقط کرنا ، اس ( نجاست ) میں تثلیث کے مندوب ہونے کو ساقط نہیں کرتا ہے .
نویں قسط
سَيَّال کے متنجس ہونے پر اس کو پاک کرنا دشوار ہے
پانی کے علاوہ اگر کوئی سیال ( اس کا ضد جامد ہے ، ) نجس ہوا اگر چہ کہ تیل ہو تو اس کا پاک ہونا دشوار ہے ، اس لیے کہ اس کی طبیعت میں یہ چیز ہے کہ وہ پانی پہونچنے کو منع کرتا ہے ، ( اُس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی وجہ سے ، سو پانی اس کے اجزاء کو عام نہیں کرتا ، ( اجزاء میں پوری طرح داخل نہیں ہوتا ، ) اسی وجہ سے زِئْبَقْ ( پارہ ) اسی کی طرح ہے اگر چہ کہ وہ صورتًا جامد ( ٹھوس ) رہتا ہے .
صاحب نہایہ شہاب الدین رملی لکھتے ہیں ” اگر زِئْبَقْ نجس ہوا تو دھونے سے اس کا اوپری حصہ پاک ہوگا بشرطیکہ اس کے نجس ہونے اور دھونے کے درمیان وہ ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوا ہو ، اگر ان کے درمیان وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تو ( پاک ) نہیں . ( ہوگا ) اور ان ہی دو حالتوں میں ان کے کلام کو محمول کیا جائے گا جو کہتے ہیں کہ اس کا پاک ہونا ممکن نہیں ، اور ان کا جو اس کے پاک ہونے کو ممکن قرار دیتے ہیں . { 262 } صاحب تحفہ شیخ الاسلام شہاب الدین ابو العباس نے بھی اپنی قدرے دوسری عبارت سے اس کے مفہوم کو بیان کیا ہے . { 111 } اسی طرح صاحب اقناع خطیب شربینی نے بھی اس مفہوم کو بیان کیا ہے .{ دیکھیے صفحہ/163 } . ایک قول میں تیل کو دھونے کے ذریعہ پاک کیا جاسکتا ہے اگر وہ تیل کے علاوہ چیز سے نجس ہوا ہو . { تحفہ }
صاحب نہایہ نے ماتن کے الفاظ کے ساتھ اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ، لکھتے ہیں ” اور ایک قول میں نجس کپڑے کی طرح تیل کو بھی پاک کیا جاسکتا ہے ، اس کی صورت یہ ہے کہ اُس ( تیل ) پر خوب پانی ڈالا جائے پھر اس کو ایک تختے یا اس جیسی چیز سے اتنا ہلایا جائے کہ اس کے گمانِ غالب میں اس تمام تیل کے اندر پانی پہنچ جائے ، پھر اس کو ( تھوڑی دیر کے لیے ) چھوڑا جائے ، پھر اس ( تیل کے برتن ) کے نیچے ایک سوراخ کیا جائے، پھر جب پانی نکل جائے تو سوراخ کو بند کیا جائے ، اور محلِّ خلاف اس وقت ہے جیسا کہ کفایہ میں کہا! جب وہ ( تیل ) ایسی چیز سے نجس ہوجائے جس میں دُھْنِيَّت ( تیل جیسی چکناہٹ ) نہ ہو ، جیسے پیشاب ، ورنہ بلاخلاف وہ پاک نہیں ہوگا . { 263
سَيَّال جامد ہونے پر پاک ہوتا ہے ورنہ نہیں ، اس کے لیے درجِ ذیل زہری سے ، عبداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے ابن عباس سے ام المؤمنین سیدہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ، کہتی ہیں کہ ایک چوہا گھی میں گر کر مرگیا تب اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ” اَلْقُوْهَا وَمَا حَوْلَهَا وَكُلُوْهُ “. اس کو نکال کر اس کے اطراف والا ( گھی ) نکالو اور کھاؤ . { بخاری ، مالک ، احمد ، طیالیسی ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، حمیدی ، دارمی ، ابویعلی ، طبرانی ، بیہقی ، یہ حدیث امام بغوی کی تہذیب سے لی گئی ہے . }
تحفہ اور نھایہ میں مذکورہ حدیث کے الفاظ کے ساتھ ” وَاِنْ كَانَ مَائِعًا فَلَا تَقْرَبُوْهُ “. اور اگر وہ سیال ہے تو تم اس کے قریب ( بھی ) نہ جاؤ ، کے الفاظ زیادہ آئے ہیں ، یہ معمر کی زہری سے سعید بن مسیب سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ حدیث ہے ، اس کے تعلق سے تہذیب کے محقق ” شیخ عادل عبدالموجود ” اور ” شیخ علی محمد مُعَوَّض ” حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے ، یہ خطا ہے ، اس میں معمر نے خطا کیا ہے ، اور صحیح حدیث وہی ہے جو زہری نے عبیداللہ سے ، ابن عباس سے ، میمونہ سے روایت کیا ہے . { 202 }
صاحب تحفہ ونھایہ کہتے ہیں کہ خطابی کی روایت میں ” فَاَرِيْقُوْهُ “. پس تم اس کو بہاؤ ، آیا ہے ، کیونکہ شرعاً اگر اس کو پاک کرنا ممکن ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بہانے کا حکم نہ دیتے ، کیونکہ اس میں اِضَاعتِ مال ہے . اور اس کو بہانا واجب ہونے کا محل اسی وقت ہے جب وہ ایندھن یا چوپائے کو پلانے یا اس کو صابون جیسی چیز کے کام میں نہ لایا جاسکتا ہو ، اور قریب ہی عید سے تھوڑے پہلے مسجد وغیرہ میں روشنی کرنے اور متنجس شہد کو پاک کرنے میں اس کو کھجور کے درخت کو سینچنے کے بہانے کے متعلق حکم آئے گا .
جامد کی تعریف : جامد وہ چیز ہے کہ اگر اس میں سے کوئی ٹکڑا نکالا جائے تو باقی چیز قریب ( جلدی ) ہی اس گھڑے کو نہ بھرتی ہو ، اور مائع ( سیال ) اس کے برخلاف ہے ، جیسا کہ مجموع میں کہا . { نھایہ/263 ، تحفہ/111 }
” ہر نجاست کو دھونے کے ذریعہ ہی سے پاک کیا جاتا ہے “. مفسر ، محدث اور فقیہ امام بغوی ” التھذیب ” میں لکھتے ہیں ” اور ہر نجاست دھونے سے ہی پاک ہوتی ہے ، پانی کے علاوہ کوئی اور چیز اس کو پاک نہیں کر سکتی ، یہی ( صحیح ) مذہب ہے . ” اِملاء ” میں ( امام شافعی ) نے رضیع ( دودھ پیتے بچہ ) کے تعلق سے کہا! ” جب اس پر سورج طلوع ہوجائے ( یعنی دھوپ لگے ) تو اس سے نجاست کا اثر مٹ جاتا ہے ” اس سے استنجاء کرنا جائز ہوتا ہے ، ایسے میں اس کے ظاہر اور باطن کی پاکیزگی کا حکم لگایا جائے گا . اور قدیم میں کہا! ” جب زمین کو پیشاب لگا ہو ، پس وہ دھوپ کے ذریعہ سوکھ گئی تو اس پر نماز پڑھنا جائز ہے . اُس سے تیمم کرنا جائز نہیں “. اور یہ ( قول ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دھوپ کے ذریعہ اس ( زمین کے پیشاب ) کا ظاہری ( اوپری ) حصہ ہی پاک ہوتا ہے باطنی ( اندرونی ) نہیں . اور اس سے یہ ( مسئلہ ) نکل گیا کہ جدید میں پانی کے علاوہ وہ ( جگہ جس پر پیشاب ہو ) پاک نہیں ہوتی ، جو کہ ( معتمد ) مذھب ہے . { 208 } .