از : مولانا عبدالقادر فیضان بن اسماعيل باقوی ، جامعہ آبادی ، بھٹکلی ، امام و خطیب جامع مسجد محمد عشیر علی سلیمان المزروعی ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات .
غیر حاجی کے لئے یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا سنتِ مؤکدہ ہے . نویں ذوالحجہ کو عرفہ کہتے ہیں ، اس کی فضلیت پر صحیح احادیث آئی ہیں .
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ اَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ اَنْ يُّكَفِِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِيْ بَعْدَهُ ، وصيام يوم عاشوراء احتسب على الله ان يكفر السنة التي قبله “. یوم عرفہ کا روزہ رکھنا میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ماقبل کے سال ( کے گناہوں ) اور اپنے مابعد کے گناہوں کا کفارہ ہے . ( یعنی روزہ دار کے اگلے ایک سال کے اور پچھلے ایک سال کے گناہ بخش دیے جائیں گے ) اور عاشوراء کے روزہ کے تعلق سے میں سمجھتا ( امید کرتا ) ہوں کہ اللہ پر اس کے اگلے سال کا کفارہ ہے . ( احمد ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی )
اسی طرح ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کے کسی دن میں ایک روزہ رکھنے پر سال بھر روزہ رکھنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کی رات میں عبادت کرنے پر شبِ قدر میں عبادت کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ” اللہ تعالی کے پاس ذوالحجہ کے عشرہ سے زیادہ کوئی اور دن محبوب نہیں ہوتا کہ ان میں اس کی عبادت کی جائے ، ان ( دنوں ) میں سے ہر دن کے روزہ کا ثواب ایک سال کے برابر روزے رکھنے اور ان میں سے ہر رات کا قیام شبِ قدر کے قیام کے برابر ہوتا ہے . ( ترمذی ، ابن ماجہ ، بیہقی )
عرفہ کے روزہ سے متعلق ایک شبہ کا ازالہ
ساری دنیا میں عرفہ مقام کے اعتبار سے ایک ہو سکتا ہے ، لیکن زمانہ کے اعتبار سے الگ الگ ہو سکتا ہے ، مثلا حج کا رکن ادا ہونے کے لئے میدان عرفات ہی میں بالاجماع ٹہرنا ضروری ہوگا ، ورنہ آپ کا حج ادا نہیں ہوگا ، خواہ وہاں ٹہرنے والوں کا تعلق پوری دنیا میں سے کسی بھی ملک سے ہو ، رہی بات زمانہ اور وقت کے اعتبار کی ، تو عرفہ اور عید کے سلسلہ میں چاند کا اعتبار کیا جائےگا ، اگر سعودی میں چاند نظر ائے ہوئے دن ہی میں دوسرے تمام ممالک میں چاند نظر آگیا تو ( فَبِھَا وَ نِعْمَتْ ) تمام لوگوں کا عرفہ کا روزہ رکھنا اور عید منانا ایک ساتھ ہوگا ، ورنہ اپنے ملک کے اعتبار سے روزہ رکھنا ضروری ہوگا ، کیونکہ شرعی احکامات چاند کے اعتبار سے جاری ہوتے ہیں ، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی درج ذیل ایت کریمہ اس پر دلالت کرتی ہے ” يَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ، قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لَلنَّاسِ “. اے محمد! ( صلی اللہ علیہ و الہ وصحبہ وسلم ) وہ تجھ سے چاند کے متعلق پوچھتے ہیں ، ( کہ کیوں وہ باریک سا ہوکر ظاہر ہوتا ہے ، پھر رفتہ رفتہ بڑھتے ہوئے نور سے بھر جاتا ہے ، پھر اسی طرح ہو کر لوٹتا ہے جیسے ابتداء میں تھا ، سورج کی طرح ایک ہی حالت میں نہیں رہتا ) ، [ تفسیر جلالین ، ص/29 ] تو ( ان سے ) کہہ کہ یہ لوگوں کے اوقات اور حج ( کو معلوم کرنے ) کا ذریعہ ہے . ( سورۃ البقرہ/189 ) یعنی ہم نے اس کو اس واسطہ کیا تاکہ حج ، عمرہ ، روزہ رکھنے ، اس کے افطار کرنے ، قرض کی مدتوں کو معلوم کرنے اور عورتوں کی عدتیں وغیرہ کو لوگوں کے معلوم کرنے کے اوقات بنائیں ، اور یہ ترتیب چاند اور سورج کے درمیان الگ الگ اس طرح ہے کہ سورج ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہتا ہے ، جبکہ چاند اس سے بالکل مختلف ہے . ( تفسیر معالم التنزيل ، المشہور ” تفسیر بغوی ” ص/70 ) ، تو محترم قارئین! اپ کو آپ کے ملک میں چاند دکھائی جانے کے اعتبار سے عرفہ کا روزہ رکھنا ہے ، کیونکہ سورج اور ستاروں کے مطلع ایک ملک سے دوسرے ملک میں عموماً الگ الگ ہوا کرتے ہیں ، اور روزہ رکھنا عید منانا وغیرہ کا اعتبار ان ہی مطالع پر ہے ، بالفاظ دیگر چاند دیکھنے کے اعتبار سے اگر سعودیہ میں مثلا کل رات کو چاند نظر آیا ، اور آپ کے ملک میں چاند نظر نہیں آیا تو وہاں آج ذوالحجہ کی ایک تاریخ ہوگی اور آپ کے ملک میں ذوالقعدہ کی تیس ، ایسے میں سعودی میں عرفہ بدھ میں ہوگا ، اور اپ کے ملک میں جمعرات کو ( واضح کرتے چلیں کہ زمانہ کے اعتبار سے ، نہ کہ مقام کے اعتبار سے ) ایسے میں اپ کا عرفہ کا روزہ جمعرات کو ہوگا ، ( ویسے سعودی اور متحدہ عرب امارات میں کل چاند نظر نہیں ایا ہے ) ویسے احتیاطاً اپ بدھ اور جمعرات دونوں دنوں میں روزے رکھ سکتے ہیں ، جو زیادہ اچھا ہے ، تاکہ بعض علماء کے اس اختلاف سے نکلا جائے جو ہر حال میں سعودی کی موافقت کو ضروری قرار دیتے ہیں ، لیکن کریب رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ان کے موقف کی تائید نہیں کرتی ، کہ جہاں شام میں ایک دن پہلے رمضان المبارک کا چاند نظر انے پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے روزہ رکھا ، اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نہیں ، اور کہا! کہ ہمیں چاند نظر نہیں آیا تھا ، حدیث کے اخری الفاظ ہیں ” اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا ہے “
پوری حدیث یہ ہے ، حضرت کریب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” میں شام میں آیا تو میرے شام میں رہنے کی حالت میں میرے پاس ماہ رمضان کا شور مچا ، میں نے شب جمعہ میں چاند دیکھا ، پھر لوگوں نے اس کو دیکھا اور معاویہ نے روزہ رکھا ، پھر مہینے کے آخر میں ، میں مدینہ آیا اور ابن عباس کو اس کی خبر دی ، تو ابن عباس نے مجھ سے پوچھا اور چاند کا ذکر کرتے ہوئے کہا! تم نے چاند دیکھا تھا ؟ تو میں نے کہا! ہم نے اس کو شب جمعہ کو دیکھا ہے ، انھوں نے پوچھا! کیا تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ میں نے کہا ، ہاں! اور لوگوں نے بھی اس کو دیکھا ہے ، اور انھوں نے روزہ رکھا ، اور معاویہ نے ( بھی ) تب انھوں ( ابن عباس ) نے کہا! لیکن ہم نے تو اس کو سنیچر کی رات میں دیکھا ہے ، ہم اس وقت تک روزہ رکھتے رہیں گے حتی کہ تیس ( روزے ) مکمل نہیں کرتے ، یا اس ( چاند ) کو دیکھ نہیں لیتے ، تب میں نے کہا ، کیا اپ کو معاویہ کا دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ؟ تو انھوں نے کہا! نہیں ، اسی طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا ہے “. ( احمد ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی )
رافع کی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ حدیث میں اتا ہے ، کہتے ہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا! ” تم اس وقت تک روزہ نہ رکھو حتی کہ پہلے ( رمضان ) کا چاند نہ دیکھو ، اور اس وقت تک روزہ رکھنے سے رک نہ جاؤ جب تک کہ اس ( شوال کے چاند ) کو نہ دیکھو ، پس اگر تم پر ابر چھایا ہوا ہو تو تم اس ( روزہ ) کے لئے ( شعبان کے مکمل ہونے کا ) اندازہ لگاؤ ” ( بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابن ماجہ ، مالک ، احمد،)
دوسری ایک اور متفق علیہ کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں اتا ہے ، کہتے ہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! اس ( چاند ) کو دیکھنے کی وجہ سے روزہ رکھو ، اور اس کو دیکھنے کی وجہ سے روزہ رکھنے سے رک جاؤ ، اگر تم پر بادل چھایا ہوا ہو ، تو تم شعبان کے تیس دنوں کی مدت پوری کرو ” ( بخاری ، مسلم ) تو کیا اگر سعودی میں مثلاً شوال کا چاند نظر آیا اور آپ کے ملک میں نہیں ، تو کیا آپ اہلیان سعودی کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ملک میں عیدالفطر مناؤ گے ؟ یا صحیح ، صریح احادیث کی اتباع کرتے ہوئے چاند کو دیکھنے ، یا تیس روزے مکمل ہونے کے بعد عید مناؤ گے ؟؟ بعض لوگ استہزائی طور پر چبھتے ہوئے سوال داغ دیتے ہیں ، اور کہتے ہیں ، سعودی میں آج عید ہے ، یا آج عرفہ ہے ، اور ہمارے ملک میں سعودی کے خلاف کل اس کو منا رہے ہیں ، ان کے لئے مذکورہ احادیث ہی کافی ہیں ، اور دوسری ایک عقلی دلیل یہ ہے کہ جہاں آپ رہتے ہیں ، مثلاً مشرقی ایشیاء میں ، جب وہاں مثلاً سورج غروب ہوتا ہے تو برطانیہ میں ساڑھے تین چار گھنٹہ کا وقت ہوتا ہے ، ایسے میں کیا نہیں دیکھتے کہ افتاب کتنا اوپر رہتا ہے ، گویا وہاں ابھی عصر کا بھی وقت نہیں ہوا ، اور ہم نے نماز مغرب بھی ادا کی ، اور امریکا میں تو ابھی ظہر کا وقت بھی نہیں ہوا ہے ، تو ایک دوسرے ممالک کا مطلع اگر اتنا مختلف ہو ، تو کیا چاند ایک دن میں ایک ملک میں نظر آئے اور دوسرے ملک میں نہیں ، ایسا ہونے سے اپ انکار کر سکتے ہیں ؟؟ واللہ اعلم بالصواب .
مؤرخہ 9/ذوالحجہ 1442 ھ مطابق 19/جولائی 2021 ء