رپورٹر : مولانا محمد زبیر ندوی
مؤرخہ 30/جون 2024 ء بروز اتوار بعد نماز عصر متصلاً بمقام مدرسہ مفتاح العلوم شیرور کے بالائی ہال میں ” ناخدا جماعت دمام کمیٹی شیرور ” کی جانب سے ایک نہایت ہی اہم نششت منعقد کی گئی ، جس میں شیرور کی ناخدا چھ جماعتوں سے منسلک انتظامیہ کمیٹیوں کے اہم اراکین ، ناخدا قضاۃ و ائمۂ شیرور ، ذمہ داران اصلاحی تنظیم شیرور اور ناخدا جماعت دمام کمیٹی شیرور سے منسلک کئی قدیم و جدید اراکین اور معمر شخصیات نے شرکت کی .
اس محفل میں عہدہ داروں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی کے تاریخی و بنیادی اہم حقائق اور ممبران کی قربانیوں ، کاوشوں اور ان کی مساعئ جمیلہ کو مختلف پیرایہ میں پیش کیا جسے اہل مجلس نے بہت پسند کیا .
محفل کی مناسبت سے عہدیداران کے تاثرات کا نچوڑ
” ناخدا جماعت دمام کمیٹی شیرور ” کی داغ بیل سنہ 2006 ء میں ڈالی گئی تھی ، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دمام ، ریاض اور ان سے قریبی علاقوں میں کسب معاش کے لئے مقیم ناخدا افراد کو متحد رکھتے ہوئے ان کی ناخدائی شناخت کو برقرار رکھا جا سکے ، تاکہ ہماری ناخدا برادری کی مختلف جماعتوں کے افراد بھی اپنے قرب وجوار کے مسلم سماجوں کی طرح اپنی بھی ایک الگ پہچان کے ساتھ قومی وسماجی خدمات انجام دے سکیں .
کمیٹی کی بنیاد کا تصور اس طرح پیدا ہوا کہ جس طرح اتحاد و اتفاق کی جڑوں کو مضبوط بنانے کے لئے شیرور سے متصل و منفصل علاقوں کے افراد نے بیرون ملک اپنی الگ الگ کمیٹیاں بنائی ہیں اسی طرح تمام اہلیان شیرور کی سعودیہ عربیہ کے شہر دمام میں بھی ناخدا برادری شیرور کی ایک کمیٹی قائم کی جائے اور اس کے ذریعہ ملی وسماجی خدمات انجام دیکر اتحاد و اتفاق کی بنیادوں کو مستحکم ومضبوط بنایا جا سکے . انہی خیالات کے پیش نظر بالآخر ” ناخدا جماعت دمام کمیٹی شیرور ” کے نام سے سنہ 2006 ء میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے ہر ممبر پر ماہانہ پچیس (25) ریال چندہ عائد کیا گیا .
اسی طرح جمعیت جُہد مسلسل کے ساتھ اپنی خدمات میں مصروف عمل رہی ، ابتداءًا میٹنگوں کے انعقاد میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ، کیوں کہ اراکین کی اکثریت اہل نوائط بھٹکل ، منکی اور مرڈیشور وغیرہ کے کمروں میں مقیم تھی ، لہٰذا ماہانہ بمشکل ایک ہی نشست کا انعقاد ہو پاتا اور اس وجہ سے بھی کہ اراکین کی ملازمت کے اوقات بھی مختلف ہوا کرتے تھے ، لہٰذا موقعوں کی مناسبت سے بدرجۂ مجبوری دوسروں کی قیام گاہوں میں ہی میٹنگوں کا انعقاد ہوتا رہا ، لہذا یہ سلسلہ دیرپا قائم نہ رہ سکا اور دور دراز علاقوں سے شرکت کرنے والے احباب بھی معذرت پیش کرنے لگے تو نتیجتاً جمعیت کی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں اور بالآخر کچھ ہی مدت بعد کمیٹی منسوخ کر دی گئی اور تمام کوششیں سعئی لاحاصل رہیں ، لیکن باوجود اس کے بعض مفکر احباب نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اس کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے اپنی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا تو الحمد للہ چراغ سے چراغ جلتا گیا اور ٹوٹی امیدیں پھر سے بندھنے لگیں اور ایک نئی صبح نمودار ہوئی. کیونکہ اللہ تعالیٰ اخلاض کو بیحد پسند کرتا ہے لہذا اس نے ان کی کوششوں ، محنتوں اور نیک نیتوں کی لاج رکھی ، اور سبک روی کے ساتھ تاریک راتیں چھٹتی چلی گئیں ، پھر ان درپیش حالات سے متعلق سنجیدگی سے غور و خوض کیا گیا اور بالاتفاق یہ طے پایا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے جمعیت کی طرف سے ایک فلیٹ کرایہ پر لیا جائے تاکہ اراکین کی اکثریت اسی میں مقیم رہ سکے ، لہذا اس فیضلہ کو عملی جامہ پہنایا گیا اور کچھ ہی مدت بعد جمیعت کے نام کرایہ پر فلیٹ کرایہ پر لے کر میٹنگوں کے انعقاد اور ان میں اراکین کی شمولیت کو سہل بنایا گیا اور رفتہ رفتہ ملی وسماجی خدمات کے سلسلہ کو جاری وساری کیا گیا .
جمعیت کی سماجی خدمات کا ایک سرسری جائزہ
جب اہلیان شیرور ملازمت کی تلاش میں دمام جاتے تو ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ رہائش اور قیام وطعام کا رہتا، الحمد اللہ کمیٹی نے اس کے حل کے لئے ایک بیڈ روم کا انتظام کیا اور بعض وجوہات کی بنا پر کرایہ کی معمولی سی فیس بھی مقرر کی تاکہ اس سے ملازمت تلاش کرنے والوں کی پریشانی کم کی جاسکے اور انھیں ملازمت ملنے تک کرایہ کی ادائیگی میں چھوٹ دی جاسکے اور فلیٹ کے کرایہ کی ادائیگی میں بھی سہولت ہو ، یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتا رہا اور اہلیان شیرور اس سے مستفید ہوتے رہے .
جب بھی مقامی جماعتوں کی تصدیق سے شیرور کی چھ جماعتوں سے منسلک مجبور ، بے سہارا اور پریشان حال افراد کی طرف سے کوئی عرضداشت ارسال کی جاتی تو جمعیت کی جانب سے ان کی حتی المقدور مدد کی جاتی تاکہ مقامی لوگوں کو بھی جمعیت کی طرف سے کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچتا رہے . اسی طرح جب کبھی مقامی مدارس و مساجد یا قبرستان کے مرمتی کاموں کا موقعہ درپیش ہوتا تو جمعیت ان میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی اور حتی المقدور اپنا تعاون پیش کرتی . علاوہ ازیں ضرورت مند احباب کو بھی دو گواہوں کی موجودگی میں مقررہ میعاد پر بطور قرض رقم دی جاتی .
کیسر کوڈی شیرور میں نیشنل ہائیوے پر بس اسٹینڈ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کی عوام کو خصوصاً بارش کے موسم میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا جب اس پریشانی کو جمعیت کے پاس پیش کیا گیا تو اس کی طرف سے ایک بس اسٹیند تعمیر کیا گیا جس کی لاگت ڈھائی لاکھ روپے تھی ، اسی طرح کمیٹی کی طرف سے (K.I.H) کو بھی پچیس ہزار (25000) روپئے دئے گئے تھے .
ہر سال جمعیت کی طرف سے عید ملن پروگرام کا انعقاد کیا جاتا جس میں ناخدائی نظمیں اور سالانہ رپورٹ کے ساتھ ساتھ جملہ کار کردگیاں بھی پیش کی جاتیں جس سے ہر کوئی محظوظ ہوتا، اسی طرح ان حضرات کو بھی انعامات سے نوازا جاتا جو پروگرام کے لئے بطیب خاطر بے لوث خدمت کرتے تاکہ انکی ہمت افزاہی کی جا سکے ، یہ سلسلہ ہر سال جاری رہا جس سے کام کو آگے بڑھانے میں کافی تعاون ملتا رہا .
اس جمعیت کے استحکام کے لئے کئی افراد نے اپنی خدمات پیش کی ہیں جن میں رحمان عرفان صاحب ، رحمان حبیب اللہ صاحب ، کاوا حنیف صاحب ، جناب محمد علی صاحب ، جناب بڑجی ابوبکر صاحب ، جناب الجی شبیر صاحب ، جناب مرحوم اشرف صاحب وغیرھم قابل ذکر ہیں ان حضرات نے تقریبا بیس (20) سالوں تک حتی المقدور اپنی خدمات انجام دیں ، اللہ تعالیٰ انھیں دنیا وآخرت میں اس کا بھر پور صلہ عطا فرمائے .
پھر حالات کا دھارا بدلتا گیا اور کچھ ہی سالوں بعد جمعیت سے وابستہ کئی افراد اپنے وطن لوٹے تو کچھ ناساز گار حالات کی وجہ سے وطن لوٹنے پر مجبور ہو گئے جس کا خمیازہ جمعیت کو بھگتنا پڑا ، کیونکہ ان میں ایک کثیر تعداد متحرک وفعال ممبران کی تھی ، جب افراد کی کمی کے باعث جعیت کے امور کی انجام دہی میں دشواریاں پیش آنے لگیں تو موجودہ اراکین نے اپنے سابقہ اراکین کو موجودہ درپیش حالات سے باخبر کرایا تو اس تعلق سے سبھوں نے کافی غور و خوض کے بعد کمیٹی کو منسوخ کرنے کا فیصلہ لیا اور اس کی بقایا ساری رقم ناخدا شیرور کی چھ جماعتوں اور مساجد و مدارس کے مابین تقسیم کرنے اور کمیٹی کے منسوخی کی اطلاع کی غرض سے ایک اہم پروگرام منعقد کرنا طے کیا ، لہٰذا سب سے پہلے جمعیت کے فلیٹ کا کنٹریکٹ ختم کیا گیا اور جملہ رقم جمعیت کے اکاؤنٹ میں جمع کر دی گئی .
واضح رہے کہ جمعیت کی بنیاد کے کچھ ہی سالوں بعد یہ بات مشورہ میں طے پائی تھی کہ اگر کمیٹی مستقبل میں خدا ناخواستہ کسی وجوہات کی بنا پر منسوخ کر دی جائے تو اس کی بقایا جملہ رقم شیرور کی چھ جماعتوں کے مابین تقسیم کر دی جائے گی .
لہٰذا اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ اہم پروگرام منعقد کیا گیا تھا جس میں صدرِ اضلاحی تنظیم شیرور کے ہاتھوں ہر جماعت کو ایک لاکھ ، ہر مدرسہ کو پچیس ہزار اور اصلاحی تنظیم شیرور کو پچاس ہزار روپئے تقسیم کئے گئے ، اس کار خیر سے سبھی خوش ہوئے اور اراکین کمیٹی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اورانھیں نیک دعاؤں سے نوازا اور ان مرحومین کی مغفرت کے لئے بھی دعائیں کیں جنھوں نے کمیٹی کے لئے اپنی بے لوث خدمات انجام دی تھیں .
اس پروگرام میں جمعیت کے علاوہ دیگر افراد نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اراکین کمیٹی
کی قربانیوں کو سراہا اور ان کی ہمت افزائی فرمائی . کچھ مقامی اہل علم نے اپنے تاثرات میں یہ بھی کہا کہ کاش اس جمعیت کو منسوخ کرنے کے بجائے بحال رکھنے پر ہمت سے کام لیا جاتا . مقررین کی طرف سے ایک خیال یہ بھی سامنے آیا کہ اگر اسے بیرون ملک میں قائم رکھنا مشکل تھا تو عارضی طور پر اسے اپنے ہی وطن شیرور میں قائم رکھا جاتا. اسی طرح علماء کی طرف سے ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ اخراجات کے پیش نظر مساجد سے زیادہ مدارس کو زیادہ رقم دی جاتی تو بہتر ہوتا ، چوں کہ جمعیت کے اراکین کا فیصلہ قبل از وقت طے تھا لہذا اسی پر عمل کرتے ہوئے ساری رقم تقسیم کی گئی .
آخیر میں سبھوں کے تاثرات اور جمعیت کی رقم جماعتوں اور مدارس کے مابین تقسیم ہونے کے بعد موجودہ صدر نے جمیع ذمہ داروں کے روبرو جمعیت کی منسوخی کا اعلان کیا اور رب کائنات کا شکر بجالاتے ہوئے سبھوں کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا ، تو شارکین نے بھی سبھی ممبران کی خدمات کو سراہتے ہوئے دعاؤں کا نزرانہ پیش کیا اور کلمات تشکر کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا .