میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حدود شرعیہ میں منانے کو جائز قرار دینے والے قائلین کے دلائل

0
50

از : مولانا عبدالقادر بن إسماعيل فیضان باقوی ، جامعہ آبادی ، بھٹکلی . امام و خطیب جامع البر والتقویٰ ، أبوظبی  ، متحدہ عرب امارات

پہلی قسط

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کی شرعی حیثیت

صورة المسئلہ : کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ ماہِ ربیعِ الاول میں میلاد منانا جائز ہے اور کیا اس کے لیے کوئی شرعی حیثیت حاصل ہے ؟

الجواب : از : عبدالقادر فیضان بن اسماعیل باقوی ، شافعی ، جامعہ آبادی ، ( بھٹکل ، کرناٹک ) . ھو الموافق الشرعی إن شاء الله تعالی .

نوٹ : مضمون نگار کے خیالات سے امژو زون ٹیم کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

سرکار دو عالم سردار انبیاء تاجدار مدینہ احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی میلاد محفل کی شکل میں قرآن ، ذکر اور نعتِ مصطفی کی نیت سے منانا جائز ہے بلکہ سنت یا مستحسن یا آخری درجہ میں بدعتِ حسنہ ضرور ہے ، اس کی تائید میں درجنوں شیوخ اور علاماؤں کے اقوال آئے ہیں ۔

جن میں مشہور جلیل القدر تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ، علامہ تاج الدین سبکی ، حافظ ( وہ جید عالم و محدث جس نے ازروئے متن وسند ایک لاکھ احادیث کے ذخیرہ کو حفظ کیا ہو ) سیوطی ، اور حافظ علامہ إبن حجر جیسی محی الدین والسنہ شخصیات شامل ہیں ، حافظ ابن حجر عسقلانی ( بخاری کے شارح ) نے میلاد النبی منانے کے سلسلہ میں سنت میں ثابت اصل سے استنباط کیا ہے ، اور یہ بخاری و مسلم سے روایت کردہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے یہودیوں کو یوم عاشورۃ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو ان سے ( اس کے متعلق ) دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرعون کو غرق آب کیا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات دی تھی اور ہم اس روزہ کو شکر کے طور پر رکھتے ہیں ، تب آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے فرمایا! ” تمہاری بہ نسبت ہم موسیٰ ( علیہ السلام ) ، ( کو نجات دلانے پر شکر ادا کرنے ) کے لیے اولیٰ ہیں “. حافظ ابن حجر عسقلانی کا اس حدیث سےاس طرح استنباط کرنا ہے کہ جب یہود موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات دینے وغیرہ پر شکر ادا کرتے ہیں تو ہم مسلمان لوگ محبین رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اس بات پر شکریہ ادا کرنے کے زیادہ حقدار ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے آخری رسول ارسال فرما کر ہم پر ہی نہیں بلکہ تمام کائنات پر بھی بڑا احسان فرمایا . اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا! ” وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين ” اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام کائنات کے لئے رحمت بنا کر . تو ہم اس مبارک دن کو میلاد النبی کی شکل میں مناتے ہیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ، اور حضور پرنور صلی اللہ علیہ و سلم کے احسانات کو یاد کرتے ہوئے مناتے ہیں . جب ابولہب کی باندی ثُوَبْیَہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش مبارک کی خوشخبری سنانے پر اس کے آقا کا اس کو آزاد کرنے کے سبب سے ہر پیر پر اس کے عذاب میں اس کی انگلیوں کے درمیان سے اس کے لئے پانی نکلنے اور اس کا اس کو پینے کے ذریعہ تخفیف کی جاتی ہے ، جیسا کہ حضرت عباس ( ابولہب کے بھائی ) رضی اللہ عنہ نے اپنے خواب میں ابولہب کو دیکھا ہوا واقعہ بیان فرمایا! تو ہمارا اللہ تبارک وتعالی کا اس بات پر شکر ادا کرتے ہوئے ( شرعی طور پر میلاد منانا جس میں ناچ گانے نہ ہوں ، مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہو ، جاہلانہ طور پر گانے بجانے وغیرہ نہ ہوں ، ورنہ حرام ہوگا ، جیسے موجودہ دور میں جہلاء کرتے ہیں ) میلاد النبی منانا کیسے غیر شرعی ہوگا ؟

اللہ سبحانہ وتعالیٰ مندرجہ ذیل ابیات لکھنے والے پر رحم فرمائے ، جو الحافظ الشام شمس الدين محمد بن ناصر ہیں جہاں انہوں نے یہ اشعار پڑھے .

إذا كان هذا كافرا جاء ذمه   وتبت يداه في الجحيم مخلدا

جب یہ کسی کافر کے ساتھ ہو کہ جس کی برائی آئی ہے ( اشارہ غالباً سورۃ المسد کی طرف ہے ) ، کہ جس کے دونوں ہاتھ جہنم میں ہمیشہ رہنے والے ہوں ،

اتي أنه في يوم الأثنين دائما ، يخفف عنه للسرور باحمدا

آیا ہے کہ یوم اثنين میں ، ہمیشہ احمد کی خوشی میں اس سے ( عذاب میں ) تخفیف کی جائیگی

فما الظن بالعبد الذي كان عمره ، بأحمد مسرورا ومات موحدا

تو اس بندہ کے تعلق سے تمہارا کیا گمان ہے جس کی ( ساری ) عمر ہی احمد کے سرور میں گذر گئی ہو ، اور موحد ( اللہ کو ایک مانتے ہوئے ) ہو کر انتقال کر گیا ہو . ( إعانة الطالبين ، ج/3 ، ص/364 )

چونکہ یہ ربیع الاول کا مبارک مہینہ ہے اِس حیثیت سے کہ اس ماہِ مبارک میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے سب سے آخری نبی سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کو پوری کائنات کا پیغمبر بنا کر بھیجا ۔

اللہ جلَّ ذکرہ کی اس عظیم نعمت کا ہم کسی طرح بھی شکریہ ادا نہیں کر سکتے ، اس مبارک ماہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنے بھی ہم درود شریف وسلام بھیجیں گے ہمارے لیے یہ سعادت وبرکت کی بات ہوگی ، کیونکہ جو امتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جس کثرت کے ساتھ درود بھیجے گا وہ ” روزِ قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا ہی قریب بیٹھے گا “.

لہذا ہم میں سے ہر شخص یہ ارادہ کرے کہ گیارہ ربیع الاول تک ہر روز کم از کم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانچ سو مرتبہ درود وسلام ضرور بھیج کر خود کو سچا امتی اور محبِّ رسول ثابت کرے ، اور بارہ ربیع الاول میں ایک ہزار مرتبہ .

اللہ جل مجدہ رسول اللہ صلی اللہ سے ہماری محبتِ شدیدہ کو تادم قائم ودائم رکھے اور ہماری کاوشوں اور نیتوں کو قبول فرمائے .

دوسری قسط

پچاس سے زیادہ وہ جید علماء عظام اور عارف باللہ علامہ جو ” میلاد النبی ” صلی اللہ علیہ وسلم منانا باعث مسرت ، باعث سعادت اور اپنا نصب العین سمجھتے ہیں :

1 : حضرت حسن بصری قدس اللہ سرہ ، 2 : امام الحجہ حافظ علامہ سیوطی ، 3 : عارف باللہ عارف بن زینی دحلان ، 4 : شیخ علامہ تقی الدین سبکی ، 5 : امام ابو شامہ ،( امام نووی کے شیخ ) ، 6 : علامہ سخاوی ، 7 : علامہ ابن جوزی ، ( یہ وہی علامہ ہیں جو حدیث کے سلسلہ میں اچھی اچھی حدیثوں کو بھی بعض اوقات ضعیف قرار دیتے ہیں ) ، 8 : سبط ابن جوزی ، 9 : حضرت جنید بغدادی ، 10 : حضرت معروف کرخی ، 11 : امام یافعی یمنی ، 12 : حضرت امام سری سقطی ، 13 : شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، ( یہ وہی شیخ ہیں جن کو اہل حدیث حضرات دور حاضر میں اپنا سب سے بڑا عالم مانتے ہیں ) ، 14 : شیخ الاسلام وامام الشراح ، حافظ ابن حجر عسقلانی ،( آپ نے بخاری اور مسلم کی حدیث سے ” میلاد النبی ” کا استدلال کیا ہے ۔ رحمہ اللہ ) ،15 : حافظ محمد بن ابوبکر عبداللہ قیسی دمشقی ، 16 ، امام حافظ عراقی ، 17 : حافظ ملا علی قاری ، 18 : امام شمس الدین بن ناصر دمشقی ، 19 : حافظ شمس الدین بن جزری ، 20 : امام حافظ قسطلانی ،21 : امام حافظ سخاوی ، 22 : امام حافظ وجیہ الدین عبدالرحمن بن علی بن دیبع شیبانی زبیدی ،23 : حافط بن کثیر ، مفسر ، مؤلف ، (جن کی مشہور تفسیر ، ابن کثیر ہے ، اسی طرح ان کی ” میلاد النبی” پر بھی تالیف ہے ) 24 : حافظ ، محدث ، مناوی ، جامع صغیر کے شارح ، اور ” الترغیب والترھیب ” کے مؤلف ، ( انھوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو تالیف کی ہے وہ ” مولد المناوی ” سے مشہور ہے ، جو اَسیّ (80) صفحات پر مشتمل ہے ) 25 : حافظ شریف محمد بن جعفر الکتانی ، ان کی تالیف ” الیمن والاسعاد بمولد خیر العباد ” ہے ، 26 : ابو الوفاء الحسینی ، ان کی تالیف ” البشیر النذیر السراج المنیر ” ہے ، 27 : عطیہ ابراہیم الشیبانی ، تالیف ” مولد المصطفی العدنانی “، 28 : عبدالرحمن بن جوزی ، تالیف ” مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم “، 29 : جعفر البرزنجی ، تالیف ” مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ” 30 : عبدالرحیم البرعی ، الشہیر بالعروس ، تالیف ” مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم “، 31 : عبداللہ الحمصی الدمشقی ، تالیف ” مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم “، 32 : خالد الوالد ، تالیف ” مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم “، 33 : محمد وفاء الصیادی ، تالیف ” مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم “، 34 : محمد محمد العزب الدمیاطی ، تالیف ” مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم “، 35 ، محمد محفوظ الدمشقی ، تالیف ” مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم “، 36 : حافظ بن ناصر الدین الدمشقی ، تالیف ” جامع الآثار فی مولد النبی المختار “، 37 : دمشق وشام کے مفتی ، محمود حمزہ الحسینی ، تالیف ” المولد الجلیل حسن الشکل الجمیل “، 38 : عبدالغنی النابلسی ، تالیف ” العلم الاحمدی فی المولد المحمدی “، 39 : شھاب الدین الحلوان ، تالیف ” فتح اللطیف شرح نظم المولد الشریف “، 40 : مصطفی محمد القضیفی الشافعی ، تالیف ” المقصود علی محبة الودود في فضل أشرف مولود “، 41 : احمد بن احمد الدمیاطی التجاری الشافعی ، تالیف ” الکوکب الازھر علی عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر “، 42 : جعفر البرزنجی ، تالیف ” بغية العوام فی شرح مولد سید الانام “، 43 : ” ترغیب المشتاق لبیان منظومة البرنزجی ” مؤلف : ابن جوزی ، 44 : علی محمود ، تالیف ” القول المنجی علی مولد البرنزجی “، 45 ، محمد احمد علیش المالک ( شیخ المالکی ) تالیف ” بلوغ المرام “، 46 : احمد قاسم الحریر ، حاشية الباجوري علی مولد الدریر ، تالیف ” حصول الفرج وحلول الفرح فی مولد من انزل علیہ الم نشرح “، 47 : نظم الشیخ علی سلیم الطنطاوی ، تالیف ” نور الصفاء فی مولد المصطفی “، 48 : الشیخ محمد المغربی ، تالیف ” التجلیات الحفیة فی مولد خیر البریة . إن کے علاوہ بیشتر علماء وفضلاء نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منائی ہے اور بہت سارے فضلاء نے بہت ساری تالیفات بھی لکھی ہیں ، ( اب تو ناچیز کے ذہن میں بھی بات آرہی ہے ، کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک دل افروز ودل موہ تالیف کی جائے ، جس سے محبین رسول کو فائدہ حاصل ہو ) اس کے علاوہ اردو داں حضرات کے اسماء گرامی جنھوں نے میلاد النبی کو باعث مسرت وفرحت سمجھا ، میں سے بعض جید علماء کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں :

49 : حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، ( متوفی 1317ھ ) ،50 : مفتی رشید احمد لدھیانوی ،51 : مفتی محمد مظہر اللہ دہلوی ، 52 : علامہ عبدالحی لکھنوی ، ان کے علاوہ بہت سارے دیوبندی علماء کرام نے بھی میلاد النبی کے اثبات میں اپنی مہر تصدیق ثبت کی ہے .

علمائے دیوبند کا متفقہ فیصلہ

حرمین شریفین کے علمائے کرام نے علمائے دیوبند سے ( 1325ھ ) میں اختلافی اور اعتقادی نوعیت کے کل چھبیس (26) مختلف قسم کے سوالات پوچھے تو مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپور ( متوفی ، 1269 – 1346 ) نے ان سوالات کا تحریری جواب ( 1325 ) میں دیا ، جوالمھند علی المفند ” نامی کتاب میں شائع ہوا تھا ، ان جوابات کی تصدیق چوبیس (24) نامور دیوبند علمائے کرام نے اپنے قلم سے کی ، جن میں مولانا محمود الحسن دیوبندی ، ( متوفی ،1339ھ ) ، مولانا احمد حسن امروہی ، ( متوفی ،1330 ھ ) دارالعلوم دیوبند کے مفتی ، عزیز الرحمان ، ( متوفی ، 1347 ھ ) مولانا اشرف علی تھانوی ، ( 1362 ھ ) ، اور مولانا عاشق الہی میرٹھی ، قابل ذکر ہیں ، ان چوبیس (24) علماء نے صراحتًا کہا کہ جو کچھ ” المھند علی المفند ” میں لکھا گیا ہے وہی ان کا اور ان کے مشایخ کا عقیدہ ہے ، مذکورہ کتاب میں اکیسواں سوال ، میلاد شریف منانے کے متعلق ہے ، اس کی عبارت ہے ” حاشا! کہ ہم تو کیا ، کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعلین اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سواری کے گدھے کے پیشاب کے تذکرہ کو بھی قبیح ، وبدعت سیئہ یاحرام کہے . ( سبحان اللہ! کیا کہنے جن علمائے کرام کا میرے آقا کے تعلق سے اتنا پختہ بہترین ، اور سچا عقیدہ ہو ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والے گدھے کے پیشاب تک کو قبیح ، یا بدعت سیئہ ، یا حرام نہ کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی اظہار محبت کرتے ہوں تو کیا یہ علمائے کرام خواب میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد شریف کو کبھی قبیح ، بدعت سیئہ ، یا حرام کہنے کی سوچ بھی سکتے ہیں ؟اگر ان علمائے کرام نے شہادت کے بعد کچھ عمل نہ بھی کیا ہو تب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پختہ عقیدہ رکھنا ہی انہیں بہشت میں داخل کرنے کیلئے کافی ہوگا ) . آگے لکھتے ہیں کہ وہ جملہ حالات جنھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ذرا سی بھی نسبت ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اور اعلی درجہ کا مستحب ہے ، خواہ ذکر ” ولادت شریف ” کا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بول وبراز ، نشست برخاست ، اور بیداری وخواب کا ہو ، جیسا کہ ہمارے رسالہ ” براہین قاطعہ ” میں متعدد جگہ بالصراحت مذکور ہے . سھارنپوری ، المھند علی المفند ، ص/60۔( تو جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم  منانا بدعت ہے ، یا حرام ہے تو وہ سو مرتبہ اپنے گریبان میں جھانک لیں کہ وہ کیسے اس میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ان کے اکابر پوری طرح صحیح مان رہے ہیں ، بدعت اور نہ جانے کیا کیا بک رہے ہیں ، فوراً اپنی باتوں سے رجوع کر لیں ، ورنہ یہ کہیں کہ یہ مذکورہ علماء ہمارے مکتب فکر میں سے نہیں ، کوئی بعید بھی نہیں وہ ایسا کہہ سکتے ہیں ، پلٹنا اور پلٹ کر آنا تو ان کی سرشت کا ایک حصہ ہی بن چکا ہے . دیکھیے! علامہ عبدالحی لکہنوی کیا کہتے ہیں جس وقت بھی محفل میلاد کی جائے باعث ثواب ہے ، اور حرمین شریفین شام ، بصرہ ، یمن اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی ربیع الاول کا چاند دیکھ کر میلاد کا اہتمام کرتے ہیں ، خوشی کا اظہار کرتے ہیں ، کار خیر کرتے ہیں ، چراغاں کرتے ہیں ، اور روح پرور محافل کا انعقاد کرتے ہیں ، یہ ان کے معمولات میں شامل ہیں . ( مجموعة الفتاوى ) . حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے والد محترم حضرت شاہ عبدالرحیم فرماتے ہیں کہ ” میں میلاد شریف کے دنوں میں ہر سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد شریف کی خوشی میں کھانا پکوایا کرتا تھا ، لیکن ایک سال مجھے سوائے بھنے ہوئے چنوں کے اور کچھ میسر نہیں ہوا ، چنانچہ میں نے وہی بھنے ہوئے چنے لوگوں میں تقسیم کر دئے ، اسی رات کو خواب میں مجھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں ، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بہت خوش نظر آرہے ہیں “. ( الدرر الثمین )

تیسری قسط

علماء دیوبند اور اہل حدیث کی نظر میں جشن میلاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی حقیقت

شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ ( متوفی ، 1317ھ ) فرماتے ہیں کہ ” اور مشرب (طریقہ) فقیر کا یہ ہے کہ محفل مولد ( میلاد ) میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف ولذت پاتا ہوں “. ( فیصلہ ہفت مسئلہ )

شمائم امدادیہ کے صفحہ نمبر 47 اور 50 پر درج ہے کہ حاجی صاحب نے ایک سوال ” میلاد النبی کے انعقاد کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے ؟ ” کے جواب میں فرمایا! ” مولد شریف تمام اہل حرمین کرتے ہیں ، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے اور حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیسے مذموم ہو سکتا ہے “.

مفتی رشید احمد لدھیانوی ( احسن الفتاوی 347 ، 348 ) میں تحریر کرتے ہیں کہ ” جب ابو لہب جیسے بدبخت کافر کے لیے میلاد النبی کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو کوئی امتی آپ کی ولادت کی خوشی کرے اور حسب وسعت آپ کی محبت میں خرچ کرے تو کیونکر اعلی مراتب حاصل نہ کرے گا “.

مفتی محمد مظہراللہ دہلوی ( فتاویٰ مظہری 435 ، 436 ) میں لکھتے ہیں کہ ” میلاد خوانی بشرطیکہ صحیح روایات کے ساتھ ہو اور بارہویں شریف میں جلوس نکالنا بشرطیکہ اس میں کسی فعل ممنوع کا ارتکاب نہ ہو ، یہ دونوں جائز ہیں ، ان کو ناجائز کہنے کے لیے دلیل شرعی ہونی چاہیے . مانعین کے پاس اسکی ممانعت کی کیا دلیل ہے ؟ یہ کہنا کہ صحابہ کرام نے نہ کبھی اس طور سے میلاد خوانی کی نہ جلوس نکالا ممانعت کی دلیل نہیں بن سکتی کہ کسی جائز امر کو کسی کا نہ کرنا اسکو ناجائز نہیں کر سکتا “.

حضرت علامہ عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں کہ ” جس وقت بھی محفل میلاد کی جائے ، باعثِ ثواب ہے اور حرمین شریفین ، بصرہ ، شام ، یمن اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی ربیع الاوّل کا چاند دیکھ کر میلاد کا اہتمام کرتے ہیں ، چراغاں کرتے ہیں ، خوشی کا اظہار کرتے ہیں ، کارِ خیر کرتے ہیں ، قرآن پڑھتے ہیں ، نعت اور سماعت میلاد کا اہتمام کرتے ہیں اور روح پرور محافل کا انعقاد کرتے ہیں ، یہ ان کے معمولات میں شامل ہیں “. ( مجموعۃ الفتاویٰ )

شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ” عید میلاد النبی کے دن مکہ کے لوگ مقامِ ولادت پر جمع ہوکر صلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں یہ وہی شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ ہیں جن کو اکابر دیوبند اور غیر مقلد اہلحدیث اپنے اسلاف میں شمار کرتے ہیں ، چنانچہ یہ دونوں فرقوں کے مسلمہ بزرگ ہیں ۔ کیا ان کی بات کو بھی نہیں مانو گے ؟

علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ ( 1263۔ 1328ء ) اپنی کتاب ” اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم ” میں لکھتے ہیں کہ ’’ اور اِسی طرح اُن اُمور پر ( ثواب دیا جاتا ہے ) جو بعض لوگ ایجاد کر لیتے ہیں ، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے . اور ﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر ، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور عید اپنایا “. ( ابن تيميه ، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم / 404 ) . اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ ” میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے ، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں “. ( ابن تيميه ، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم )

سرکار اعظم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود میلاد منایا

حدیث : حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و سلم میں عرض کی گئی یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم! آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی . ( بحوالہ صحیح مسلم )

امام حافظ بن حجر رحمۃ اﷲ علیہ ( المتوفی 852ھ ) نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ” میرے لئے اس ( محفل میلاد ) کی تخریج ایک اصل ثابت سے ظاہر ہوئی ، دراصل وہ ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے : ترجمہ ” حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دسویں محرم کا روزہ رکھتے دیکھا . ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے ، جس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی ، ہم اس دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھتے تھے “. ( صحیح البخاری ، کتاب الصوم ، باب صوم یوم عاشوراء ، رقم الحدیث/ 2004 )

حدیث : بیہقی اور طبرانی شریف میں ہے کہ سرکار اعظم صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان نبوت کے بعد ایک موقعہ پر بکرے ذبح کرکے دعوت کی . اس حدیث کے معنی لوگ یہ لینے لگے کہ سرکار اعظم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا عقیقہ فرمایا ، اس کا جواب امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ دیتے ہیں کہ سرکار اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کا عقیقہ آپ کے دادا عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ نے ساتویں دن کر دیا تھا . سرکار اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کا بکرے ذبح کرکے دعوت کرنا حقیقت میں اپنا میلاد منانا تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ میلاد منانا سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے .

جہاں تک مروجہ طریقے سے میلاد منانے کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا رہا ، لوگ ہر چیز احسن سے احسن طریقے سے کرتے رہے ، پہلے مسجدیں بالکل سادہ ہوتی تھیں ، اب اس میں فانوس اور دیگر چراغاں کرکے اس کو مزین کرکے بنایا جاتا ہے . پہلے قرآن مجید سادہ طباعت میں ہوتے تھے ، اب خوبصورت سے خوبصورت طباعت میں آتے ہیں وغیرہ اسی طرح پہلے میلاد سادہ انداز میں ہوتا تھا ، صحابہ کرام اور تابعین اپنے گھروں پر محافلیں منعقد کرتے تھے اور صدقہ و خیرات کرتے تھے .

چوتھی قسط

میلاد کی حمایت اور رسول کی محبت میں غوطہ زن ہو کر لکھی گئی چند اَجَلّْ علمائے عظام کی منتشر موتیاں

اجل تابعی حضرت امام حسن بصری قدس اللہ سرہ کے ملفوظات : فرماتے ہیں! اگر میرے پاس احد ( پہاڑ ) کے برابر بھی سونا ہوتا تو میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مولود پڑھنے ( یعنی قرآن مجید پڑھنے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے ابتداء میں آئی ہوئی احادیث کو روایت کرنے کے سلسلہ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت واقع شدہ نشانیوں میں سے بعض کوپڑھنے وغیرہ میں ) صرف کروں گا

2 : حضرت معروف کرخی کہتے ہیں کہ جس نے مولد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھنے کے واسطے کھانا تیار کیا ، بھائیوں کو جمع کیا ، مجلس کو چراغاں کیا ، نئے کپڑے پہنے ، خود کو معطر کیا ، آراستہ ہوا ، مولود کی تعظیم کیلئے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کو روز قیامت میں انبیاء ( علیہم الصلوۃ والسلام ) کی پہلی جماعت میں اٹھائےگا ، اور وہ اعلی علیین میں ہوگا ۔

3 : حضرت جنید بغدادی کا فرمان ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مولود میں حاضر ہوا ، اور اس کی قدر ومنزلت کو عظیم جانا ، تو وہ شخص ایمان کے تعلق سے کامیاب رہا .

4 : علامہ سری سقطی یوں رقمطراز ہیں کہ جو شخص کسی ایسی جگہ میں گیا جہاں مولود نبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کی جارہی ہو ، تو وہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچے میں گیا ، اس لیے کہ وہ تو وہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے گیا ہے ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ” جو شخص مجھ سے محبت رکھے گا تو وہ بہشت میں میرے ساتھ ہوگا “.

5 : شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( جو اہل حدیث کے پیشوا ہیں ) اپنی کتاب ” اقتضاء الصراط المستقیم ” میں یوں نوک قلم کو حرکت دیتے ہیں اور اسی طرح وہ میلاد جس کو بعض لوگ مناتے ہیں ، یا تو عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی میلاد منانے میں نصاری کے مقابلہ میں یا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہوئے ، اور اللہ سبحانہ تعالیٰ انہیں اس محبت اور اجتہاد میں ثواب عطا فرماتا ہے . ( اس ابن تیمیہ کی تحریر کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے بدعت کا ڈھنڈھورا پیٹنے والے ذرا اپنی بدعات قبیحہ کو تو دیکھیں جو وہ جلسہ سالانہ کے نام پر ، چلے کے نام پر ، اور تین دنوں کے نام پر کرتے آرہے ہیں ، اور یہ زیادہ سے زیادہ دیڑہ سو سال کے اندر کی بدعت ہے ، اور جانتے ہیں ، کیا نام دیتے ہیں ؟ اس قسم کے چلے وغیرہ نفس کو پاک کرتے ہیں ، اسی پر بس نہیں ، بلکہ اس کو نبی کی سنت کا ملمع چڑھانے کی بھی ناکام کوشش کرتے ہیں ، کیا نفس کو پاک کرنے کے لیے ہمیں قرآن وحدیث کافی نہیں ؟ )

6 : امام حافظ قسطلانی ( شارح بخاری ) اپنی کتاب ” المواھب اللدنیہ ” میں یوں جواہر بکھیر رہے ہیں کہ اللہ ( سبحانہ تعالیٰ ) اس شخص پر رحم فرمائے جو ( ربیع اول ) کے ماہ کی راتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک مولود کے لئے عیدیں بناتا ہے ، تاکہ ( میلاد کے تعلق سے ) جس کے دل میں بیماری ہو ، وہ اور سخت ہو جائے ، اور اس کی بیماری اور بڑہ جائے .

7 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اقوال زریں ملاحظہ ہوں : اس چیز سے زیادہ اور کونسی چیز احسن ہوگی کہ لوگ ان پر انعام کی گئی چیز کا شکر ادا کرتے ہوئے جمع ہو کر درود بھیجتے ہیں ، اور ذکر کرتے ہیں ۔

8 : علامہ شمس الدین ابن جزری کے جواہر پاروں پر بھی نظر ڈالئے ، جو انہوں نے ” عرف التعریف بالمولد الشریف ” میں ابولہب کو اس کی باندی کے پیدائشِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دینے پر اس کو آزاد کرنے کے ذکر کرنے کے بعد ( جس کی اسناد صحیح ہے ) رکھے ہیں جب اس ” ابولہب ” کافر کے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشخبری پر اپنی باندی کو آزاد کرنے پر اس کے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہو جس کا جہنم میں جانا قرآن کریم نے طے کیا ہے ، تب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس موحد ، مسلم کی کیا شان ہوگی ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد سے خوش ہوتا ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جو کچھ اسے حاصل ہوتا ہے اپنی قدرت کے بقدر خرچ کرتا ہے؟ میری عمر کی قسم!اللہ کریم کی جانب سے اس کا بدلہ تو یہی ہوگا کہ وہ اس کو اپنے فضل سے جنات نعیم میں داخل کرے .

9 : علامہ حافظ ابن جوزی کے شہ پارے بھی قابل ملاحظہ ہیں : جہاں انہوں نے ” میلاد شریف ” کے تعلق سے کہا کہ وہ اس سال امان میں ہوگا ، اور اس کا مقصد ومطلب جلد ہی حاصل ہونے کے تعلق سے اس کے لیے ایک خوشخبری ہے ، جو اشعار میلاد پڑھتا ہے اور اس کے لیے محفل منعقد کرتا ہے . ( اعانة الطالبین ، ج/3 ، ص/164، 165 )

10 : شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں : عید میلاد النبی کے دن مکہ اور مکہ کے لوگ مقام ولادت پر جمع ہوکر صلوة وسلام بھیجتے ہیں ، یہ وہی علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ہیں جن کو اکابر علمائے دیوبند اور غیر مقلد اہل حدیث حضرات اپنے اسلاف میں شمار کرتے ہیں ، لہذا یہ دونوں ہی جماعتوں کے مسلمہ علامہ ہیں . کیا ان کے قول کو بھی بدعت کے تمغہ سے نوازوگے ؟

11 : اہل حدیث فرقہ کے رہبر ” نواب سید محمد صدیق حسن خان ” کی لکھی گئی کتاب میں انہوں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم والہ وصحبہ وسلم کی ” ذکر میلاد ” کرنے کی تاکید کی ہے .

غیر مقلدین اہل حدیث کے فرقہ کے پیشوا آگے لکھتے ہیں : میلاد کا ذکر سن کر جس کے دل کو فرحت حاصل نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں .

ہم نے آپ کو اتنے علماء کے نام اور ان کے اقوال دیے ہیں تاکہ غور کیا جائے نہ یہ کہ اسی طرح بدعت کا نام دیکر اڑایا جائے ، ” فاعتبروا یا اولی الابصار “.

پانچویں اور آخری قسط

بعض حضرات کے چبھتے سوالات اور ان کے مُدَلَّلْ جوابات

بعض لوگ استہزائیہ اور ہنسی مذاق کے انداز میں ( محبت رسول سےتہی دامن رہتے ہوئے ) پوچھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا دن ہی وفات کا دن ہے ، ایسے میں آپ لوگوں کو رنج و غم منانا چاہیے ، نہ کہ خوشی و مسرت! ان ناسمجھوں کو علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے کیا بہترین جواب دیا ہے ، ملاحظہ ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہمارے لئے تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہمارے لئے سب سے بڑی مصیبت ، لیکن ہم شریعت پر عمل کرتے ہیں اور شریعت نے نعمتوں کا شکر بجا لانے پر ابھارا ہے ، اور مصائب کے وقت صبر اور سکون کو اپنانے پر جہاں ولادت ( بچہ ) کے وقت شریعت نے ہمیں عقیقہ کرنے کے ذریعہ اظہار شکر ، اور بچہ کی پیدائش پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے وہاں موت کے وقت کسی قسم کا کوئی عقیقہ کرنے کا حکم نہیں دیا ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اور چیز کا ، بلکہ شریعت نے تو رونے دھونے ، اور جزع فزع کرنے سے روکا ہے ، تو شریعت کے قواعد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس ماہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے ذریعہ اظہار مسرت کیا جائے ، نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اظہار غم و حزن .

ابن رجب اپنی کتاب ” اللطائف فی ذم الرافضہ ” میں نوک قلم کو حرکت دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ انہوں ( رافضیوں ) نے تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل( شہید ) کیے جانے کی وجہ سے اس دن کو ماتم کا دن بنایا ، حالانکہ نہ تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء ( علیہم الصلوۃ والسلام ) کے مصائب اورانکی موت کو ماتم بنانے کا حکم دیا ہے ، تو جب ان کے تعلق سے ہی نہیں؟ پھر ان سے کم رتبہ والے کے تعلق سے کیسے حکم لگایا جا سکتا ہے ؟

پھر یہ بات تو سبھی کو معلوم ہونی چاہیے کہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوت والسلام کی وفات ان کی اجازت کے ساتھ ہی ہوتی ہے ، اور آپ انبیاء کرام علیہم الصلوت والسلام کو اس بات کی اجازت تھی کہ اگر وہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا میں اور رہنا چاہتے ہوں تو رہ سکتے ہیں ، چنانچہ جب ملک الموت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے آئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا پر آخرت کو اختیار کیا ، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رضامندی سے دنیا کو خیر باد کہا ، ایسے میں اس دن کو لیکر ہمیں بالکل بھی سوالات نہیں کرنا چاہے کہ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کی بھی تاریخ ہے اور اس میں ہمیں بجائے خوشی کے غم منانا چاہیے .

اور بعض عقل سے عاری لوگ یہ ڈھونڈورا پیٹتے ہیں اس بات سے غفلت برتتے ہوئے کہ ان سے کتنی بدعات منکرہ ہو رہی ہیں کہ اگر ” میلاد النبی” صلی اللہ علیہ وسلم منانا دین میں سے ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اپنی امت کو بتاتے یا اپنی زندگی ہی میں اس کو مناتے ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اس کو مناتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس کام کو آپ نے نہیں کیا ہو اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ نے ، اس کام کا ان کے بعد ترک کرنا ( نہ کرنا ) حرام معتبر نہیں ہوگا ، بلکہ کوئی کام اگر شریعت کے خلاف نہ ہو تو اس کو کرنا جائز ہے ، اس کے لیے دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے ” جس نے اسلام میں کسی سنت کو ایجاد کیا ، تو اس کے لئے اس کا اجر ہے ، اور اس شخص کا ( بھی ) جس نے اسکو کیا ہو “. اس حدیث میں ہر اس چیز کے ایجاد کرنے کی ترغیب پر واضح اور بڑی دلیل ہے کہ جس کے لیے شریعت میں کوئی اصل موجود ہو ، اگر چہ کہ بنفسہ اس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے نہیں کیا ہو ( اس ) کو کرنا جائز ہے .

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس کے لیے شریعت کی کوئی سند ہو تو وہ بدعت نہیں ہے ، اگر چہ کہ اس کام کو سلف نے نہیں کیا ہو ، اس لئے کہ ان کا کسی کام کو ترک کرنا بعض اوقات کسی ایسے عذر کی وجہ سے ہوتا تھا ، جوان کے لئے اس وقت قائم ہوا ہو ، ( جیسے جہاد ) یا اس وجہ سے کہ وہ کام ( جو ان کے سامنے رہا ہو ) اس سے افضل ہو یا اس بات کا احتمال ہو کہ شاید وہ کیا ہوا کام تمام صحابہ کرام کو معلوم نہ ہو ۔ اھ ، سو جس نے کسی چیز کی حرمت کا یہ کہتے ہوئے بے بنیاد دعویٰ کیا کہ فلاں چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو اس نے ایسا کھوکلا دعویٰ کیا جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ، اور اس کا یہ دعویٰ مردود اور باطل ہے .

نوٹ : استہزائیہ انداز اور تنزیہ لہجہ ناقابلِ برداشت ہوگا

بات میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حدود میں رہ کر منانے کی ہو رہی ہے ، کسی مسئلہ میں اگر کسی شخص کو شک ہو تو اس کو اس کے تعلق سے سوال کرنے کا حق حاصل ہے لیکن تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر ، کیونکہ کسی مسئلہ میں تمام ہی مکاتب فکر کے حضرات کا متفق ہونا کوئی ضروری نہیں . اگر  اس کے متعلق کسی شخص کو کچھ شک ہو تو اس کے متعلق وہ سوال کر سکتا ہے ، لیکن تہذیب کے دائرہ میں رہ کر .

اللہ سبحانہ وتعالی کی تقدیس وتحمید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا پوری طرح احترام کیا جانا ضروری ہے . ان کے سلسلہ میں کسی قسم کی گستخانہ تحریر کو برداشت نہیں کیا جائے گا ، اور نہ ہی ان کے اقوال یا افعال کے تیں تمسخرانہ اور استہزائیہ انداز کو .

ایک سوال اور اس کا جواب

کیا عیدالفطر عیدالاضحیٰ کے علاوہ دنوں کو عید کہہ سکتے ہیں ؟ اگر ہاں! تو کیا اس کے لیے آپ کے پاس کوئی دلیل ہے؟

ہاں! ان دونوں کے علاوہ بھی ہمارے ” اہل اسلام کے لئے عیدیں ہیں ، جیسے جمعہ،اور عرفہ وغیرہ . عید کے اصل معنے لوٹنے اور خوشی کے آتے ہیں ، تو جس دن میں خوشی منائی جاتی ہے ، اس کو عید کہہ سکتے ہیں ۔ عیدالفطر اور اضحیٰ کے علاوہ عرفہ اور ایام تشریق کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کہا ہے ۔ فرمایا! ” یوم عرفہ ، یوم نحر “. اور ایام تشریق ہماری ( اہل اسلام کی ) عید ہے ، اور یہ کھانے اور پینے کے دن ہیں . اسی طرح جمعہ کو بھی عید کا نام دیا گیا ہے ، امام بخاری نے طارق بن شہاب سے روایت کی ہے کہ ” یہود نے عمر رضی اللہ سےکہا! تم ایک ایسی آیت کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو البتہ اس کو ہم عید بناتے ، ( مراد ” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا “سورۃ المائدۃ /3 ، ہے ) تب عمر رضی اللہ عنہ نے ( جواب میں ) کہا جس طرح وہ نازل ہوئی ہے یقیناً میں اس کو جانتا ہوں ، اور کہاں نازل ہوئی ، اور اس کے نازل ہوتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس جگہ تھے ،( سنو ) وہ یوم جمعہ میں نازل ہوئی ، اور خدا کی قسم! میں عرفہ میں تھا “. { بخاری ، مسلم ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ اس دن یوم جمعہ میں پانچ عیدیں تھیں ، 1 : جمعہ ، 2 : ؛عرفہ ، 3 : یہود کی عید ، 4 : نصاری کی عید ، 5 : اور مجوسی کی عید . مذکورہ تشریح سے بات واضح ہوگئی کہ عیدالاضحیٰ اور عیدالفطر کو ہی عید کہنا مختص نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ دنوں کو بھی عید کہا جاتا ہے . بعض لوگ سوال جواب کے ضمن میں استہزاء کے طور پر سوال کرتے ہیں کہ اگر آپ لوگ ” عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ” مناتے ہو تو کیا نماز بھی پڑھتے ہو؟ استغفر اللہ! کیا عرفہ کو عید نہیں کہا گیا ہے ؟ کیا اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے نماز پڑھی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق کو عید فرمایا ہے ، کیا ان دنوں کی نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے پڑھی ہیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال کا استہزاء کرنا ایک آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کیلئے کافی نہیں ہے ؟ لہذا کسی چیز کو کہتے اور تحریر کرتے وقت ان باتوں کا خیال رکھنا اشدّ ضروری ہے .

اظہارخیال کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here